ڈیجیٹل انڈیا

صاف کچھ بھی نظر نہیں آتا
یک بیک روشنی میں آئے ہیں
ڈیجیٹل انڈیا
وزیراعظم نریندر مودی کے دورہ امریکہ خاص کر کیلیفورنیا میں سلیکان ویالی کی بڑی عالمی کمپنیوں جیسے فیس بک، گوگل، مائیکرو سافٹ اور دیگر کمپنیوں کے سربراہوں سے ملاقات ان کے درمیان اپنی حکومت کے منصوبوں کو پیش کرنے سے یہ بات تو واضح ہوتی ہیکہ ہندوستان کو انفارمیشن ٹیکنالوجی کے میدان میں ترقی دینے کی کوشش کی جارہی ہے۔ ہندوستان کے 6 لاکھ مواضعات کو انٹرنیٹ اور وائی فائی سے مربوط کرنے کا منصوبہ ایک اچھا خیال ہے مگر جس ملک کے دیہی عوام کو بنیادی سہولتیں میسر نہیں ہیں ان کا انٹرنیٹ اور فیس بک سے دل بہلایا جائے تو حکمرانی کا بنیادی فریضہ پورا نہیں ہوتا۔ مودی نے امریکہ میں ان بڑی کمپنیوں کے سربراہوں کے سامنے جس طرح لفظوں سے کھیلا ہے یہ شیوہ انہیں ہندوستان میں ایک خاص گروپ کو ہی اپنا گرویدہ بنانے میں مدد کررہا ۔ عام طور پر مودی کی لچھے دار تقاریر کا عوام الناس کی عملی زندگی پر کوئی اثر نہیں ہوتا۔ منہ سے نکلنے والے الفاظ ہوا میں تیرتے ہوئے لمحہ کے اندر غائب ہوجاتے ہیں۔ انہیں کوئی یاد بھی نہیں کرتا۔ کسی لیڈر یا ملک کے سربراہ کی لفاظی کام نہیں آتی بلکہ اس کے کام کرنے کی صلاحیتیں اور اچھی کوششیں ہی یاد رکھی جاتی ہیں۔ عوم الناس اپنے لیڈروں کو ان کی لفاظی سے نہیں پرکھتے بلکہ ان کا کاموں سے ان کا امتحان لیتے ہیں اور مودی نے اب تک اپنی حکمرانی کے امتحان میں عوام کا دل جیتنے میں کامیابی حاصل نہیں کی۔ آج مودی جس ڈیجیٹل انڈیا کی بات کررہے ہیں وہ ایک ایسے ملک کے شایان شان ہوتا ہے جہاں عوام کو بنیادی سہولتوں کے لئے ان کی صحت کی ضمانت دی جاتی ہے۔ صاف ستھرا ماحول اور ترقی و خوشحالی کے وسیع تر مواقع ملتے ہوں۔ ڈیجیٹل انڈیا کا خواب ہندوستان کے 70 فیصد غریب عوام کے لئے محض ایک خواب ہی ہوگا۔ جس ملک میں لوگ پینے کے پانی اور صاف ستھری آب ہوا کو ترستے ہوں، یکم جنوری سے 31 اگست کے درمیان ہی سوائن فلو سے 2276 اموات ہوئی ہوں خاص کر مہاراشٹرا، گجرات، راجستھان اور مدھیہ پردیش میں جہاں بی جے پی کی حکمرانی ہے ڈینگو اور سوائن فلو سے ہونے والی اموات اس بات کا ثبوت ہیں کہ مودی حکومت میں انسانی جانوں کی حفاظت سے زیادہ صرف لفاظی کی حکمرانی کو ترجیح دی جائے۔ مودی کو ان کے حامیوں نے ہندوستان کا بہتر وزیراعظم قرار دیا ہے تو اس بہتری کے ثبوت کا کیا پیمانہ ہونا چاہئے یہ غیرواضح ہے۔ اس ملک کے چڑھتے سورج نے ہر روز مشاہدہ کیا ہیکہ یہاں کے حکمراں عوام کے دلوں کے بجائے گردنوں پر سوار ہوکر کام کیا ہے۔ مرکز کی نریندر مودی حکومت میں ایک طرف آر ایس ایس نظریات کا جذبہ بے اختیار ہے تو دوسری طرف پولیس بے لگام ہے۔ اس میں شک نہیں کہ مودی وہ پہلے ہندوستانی لیڈر ہیں جنہوں نے امریکہ کی آئی ٹی کمپنیوں کے اہم مرکز سلیکان ویالی کا دورہ کیا۔ ان کے اس دورہ سے ہندوستان میں سرمایہ کاری کے مواقع پیدا ہوتے ہیں تو یہ اچھی کوشش ہوگی۔ ہندوستان کو بزنس لانا ایک اچھے ایگزیکیٹیو کی علامت ہوتی ہے۔ اگر مودی نے اچھے ایگزیکیٹیو ہونے کا ثبوت دینے کی کوشش کی ہے تو توقع کی جانی چاہئے کہ ہندوستان میں بہت جلد سب کچھ بہتری کی جانب راوں ہوگا۔ غور طلب امر یہ ہیکہ وزیراعظم نریندر مودی کے دورہ سلیکان ویالی سے ایک ہفتہ قبل ہی چین کے صدر ژی ژپنگ نے بھی دورہ کیا تھا مگر انہوں نے امریکی آئی ٹی کمپنیوں کے سربراہوں کے سامنے اس طرح کا انداز اختیار نہیں کیا جس طرح مودی نے اپنے طرز تخاطب سے ہندوستان کی کمزوریوں کو ظاہر کیا تھا۔ یہ حیرت کی بات ہیکہ مودی کے حامی ہندوستانی میڈیا نے اس دورہ کو بڑھا چڑھا کر پیش کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی جبکہ حقیقت تو یہ ہیکہ مودی کا استقبال کرنے کیلئے امریکہ کے سربراہوں نے کوئی اہمیت نہیں دی جبکہ ملک کے پہلے وزیراعظم پنڈت جواہر لال نہرو نے امریکہ کا دورہ کیا تھا تو جان ایف کینڈی خود ایرپورٹ پہنچ کر بلکہ پنڈت نہرو کے جہاز میں سوار ہوکر ان کا استقبال کرتے ہوئے میزبانی کی تھی۔ ہندوستان کے ان دو قائدین کے دورہ میں فرق محسوس کرنے والوں نے یہ بھی حیرت ظاہر کی کہ امریکہ کے اخبارات اور ٹی وی چیانلوں سے مودی کے دورہ کی خبر کو یکسر نظرانداز کردیا ۔ کیلیفورنیا میں گجراتیوں اور سکھ برادری کے لوگوں نے مودی کے خلاف احتجاج بھی کیا۔ اس حقیقت کے باوجود مودی نواز ہندوستانی میڈیا نے مودی کے دورہ امریکہ کو ’’راک اسٹار‘‘ جیسی مقبولیت سے تعبیر کیا۔ ہندوستانی قائد کے بیرونی دورہ کا اصل مقصد صرف نام نمود کی نمائش ہو تو پھر ہندوستان کے عوام کے حق میں کوئی خاص بہتری کی امید نہیں کی جاسکتی۔ ہندوستانی لیڈر کے بیرونی دوروں پر بہت حساس اور پیچیدہ سوالات پیدا ہورہے ہیں جن کا حتمی جواب بوجوہ نہیں دیا جاسکتا تاہم بہت جلد حقائق کی نشاندہی ہوجائے گی۔