ہم تو ڈو بینگے صنم، تم کو بھی لے ڈوبینگے
عبدالقدیر عزم
آئندہ سال جنوری کے اواخر سے ڈونالڈ ٹرمپ امریکی انتظامیہ کے سربراہ ہوں گے۔ امریکی کانگریس میں رپبلیکن پارٹی کا فیصلہ ہے۔ چنانچہ ٹرمپ کو اس کی متحدہ تائید سے وہ بڑے پیمانے پر دور رس تبدیلیوں کے موقف میں ہوں گے۔ غالباً ڈونالڈ ٹرمپ کے دور صدارت میں اولین خطرہ امریکہ کی مخدوش نسلی اور مذہبی اقلیتوں اور امریکہ کے حلیف ناٹو کو لاحق ہوگا جو پہلے ہی اعصابی تنائو کا شکار ہے۔ ناٹو کے مشرقی یورپ کے حلیف ممالک ڈونالڈ ٹرمپ کے دور صدارت کو اپنے لئے ایک زبردست خطرہ محسوس کررہے ہیں لیکن ڈونالڈ ٹرمپ کی امریکی صدارت کے معاشی نتائج زبردست ہوسکتے ہیں اور امریکہ کے حلیف ممالک کو مہنگے بھی پڑ سکتے ہیں۔ علاوہ ازیں ٹرمپ کی پالیسی اوسط طبقہ کے امریکیوں کے لئے بھی مشکل ثابت ہوسکتی ہے۔ حالانکہ انہوں نے خاص طور پر اپنے معاشی منصوبوں کا تفصیلی تذکرہ کبھی نہیں کیا لیکن چند باتیں بالکل واضح ہیں۔ پہلی تو یہ کہ ٹرمپ ڈرامائی انداز میں ٹیکسوں میں تخفیف کریں گے۔ ان کے اس اقدام سے زیادہ تر امیروں کو فائدہ پہنچے گا۔ اس سے بے شک طلب میں کچھ اضافہ ہوگا لیکن اس سے حکومت کے خسارہ میں زبردست اضافہ سے معیشت کو جو زبردست جھٹکا لگے گا، اس کے انسداد میں کوئی مدد نہیں ملے گی۔ غیر قانونی تارکین وطن اور ان کے ارکان خاندان زیادہ مخدوش حالت میں ہوں گے۔ بارک اوباما کے دور صدارت میں بڑی حد تک وہ محفوظ تھے لیکن ٹرمپ کے دور صدارت میں ان کی حالت مزید مخدوش ہوجائے گی۔ ان کی نقل و حرکت، ملازمتیں تبدیل کرنے، وسیع پیمانہ پر سرمایہ کاری اور آجرین سے زیادہ تنخواہوں یا بہتر سلوک کے مطالبہ کی صلاحیت محدود کردی جائے گی۔ اگر ڈونالڈ ٹرمپ فوری طور پر امریکہ کو معاشی بحران سے بچانے میں کامیابی حاصل بھی کریں تو ان کی صدارت کے طویل مدتی اثرات انتہائی زبردست ثابت ہوں گے۔ بعض صنعتیں جیسے نامیاتی ایندھن کی کمپنیاں، جنہیں اوباما کے دور صدارت میں محسوس کررہی تھیں کہ انہیں کم از کم سست رفتار پیش رفت کی ضرورت ہے، ڈونالڈ ٹرمپ کے دور صدارت میں خود کو زیادہ آزاد محسوس کریں گی۔ ڈونالڈ ٹرمپ دنیا کی انتہائی طاقتور فوج کو کنٹرول کریں گے۔ یہ اندازہ لگانا بہت مشکل ہے کہ وہ اس کو کیسے استعمال کریں گے۔ وہ امریکہ کی سفارتی مشنری کو کیسے استعمال کرتے ہیں۔ اس کی بھی پیش قیاسی بہت مشکل ہے۔ مشرق وسطی یا ایشیاء میں تنازعہ کو ہوا دینے کے کسی بھی اقدام کے سنگین معاشی نتائج برآمد ہوسکتے ہیں۔ خام تیل کی قیمتوں میں اضافہ سے بازار میں دہشت پھیل سکتی ہے۔ عالمی تجارت میں خلل اندازی کا بھی یہی نتیجہ برآمد ہوسکتا ہے۔ جنگ کے معیشت اور بنی نوع انسان کو کیا قیمت چکانی ہوگی اس کی پیش قیاسی ناممکن ہے۔ لیکن اس کا تصور بھی خوفزدہ کردیتا ہے۔ اس کے باوجود کہ ڈونالڈ ٹرمپ امریکہ اور پوری دنیا کو کسی نئے سنگین تنازعہ کا یا ذہنی دبائو کا شکار نہ بھی بنائیں تب بھی ان کے دور صدارت کے اثرات عالمی فروغ اور ترقی پر ٹھوس اثرات مرتب ہوں گے۔ یہ اثرات ہولناک بھی ہوسکتے ہیں۔ ڈالر کا 2017ء میں عظیم بحران اور اس کے بعد بینکنگ کا بحران اور معیشت کا عظیم انحطاط ڈونالڈ ٹرمپ کے دور صدارت کے عظیم تحفے ہوں گے۔ الغرض ڈونالڈ ٹرمپ معیشت کے لئے تباہ کن ہتھیاروں سے بھی لیس ہوں گے۔ دنیا کی واحد محفوظ کرنسی ڈالر، دنیا کی سب سے وسیع معیشت (امریکہ عالمی جی ڈی پی کیا تقریباً ایک تہائی ہے) اور اس کے وسیع ترین بلاکس قرض کے بوجھ تلے دب سکتے ہیں۔ ڈونالڈ ٹرمپ کی کامیابی کے نتیجہ میں ڈالر امکان ہے کہ ایک پتھر کی طرح زمین بوس ہوجائے گا۔ ہر شخص غریب تر ہوگا کیوں کہ دنیا کا ہر شخص معاشی اعتبار سے امریکی ڈالر سے راست یا بالواسطہ طور پر وابستہ ہے۔ الغرض علامتیں خوش آئند نہیں ہیں۔ غیر ملکیوں کی رائے میں ٹرمپ کی انتخابی کامیابی کے اثرات عالمگیر ہوں گے۔ ڈالر کی قدر میں انحطاط سے ہر شخص متاثر ہوگا۔ یہاں تک کہ امریکہ کے پنشن فنڈ میں سرمایہ کاری کرنے والے بھی متاثر ہوں گے۔ معاشی دنیا میں امریکہ کے موقف سے ہر ایک واقف ہے۔ یہ حقیقت کہ کئی سرمایہ کاروں نے ہلاری کلنٹن کی تائید کی تھی اور ان پر رقم لگائی تھی۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ ٹرمپ کی انتخابی کامیابی نہ صرف امریکی بلکہ پوری دنیا کی معیشت کے لئے تباہ کن ثابت ہوسکتی ہے۔ موڈیز کے تجزیہ نگاروں کے سربراہ مارک زنیڈی نے کہا کہ بطور صدر امریکہ ٹرمپ کا انتخاب یورپی یونین سے برطانیہ کے ترک تعلق کے مماثل ہے۔
ٹرمپ نے تیقن دیا ہے کہ منتخب ہونے پر وہ ٹیکسوں میں تخفیف کریں گے۔ ان کے اس تیقن نے رائے دہندوں کو مسحور کردیا۔ امکان ہے کہ اس تیقن پر عمل آوری صارفین کے شعبہ کو مختصروقت کے لئے ہی سہی دہلاکر رکھ دے گی۔ تاہم ان کا یہی انتخابی وعدہ تھا جو ان کی کامیابی کی وجہ بنا کیوں کہ امریکی ٹیکس دہندوں پر اس تیقن کا جادو چل گیا تھا۔
امریکہ کا انتخاب ۔ عالمی بحران
ہندوستان کے لئے امریکی انتخابی نتائج کے اثرات نمایاں طور پر مرتب ہوں گے۔ ہندوستان کو امریکی بازاروں میں ہندوستانی پارجہ جات کی مقبولیت اور ان بازاروں تک ان کی رسائی متاثر ہوئی ۔ یہ ’’میک ان انڈیا‘‘ پروگرام کے لئے ایک اور درد سر ثابت ہوگا۔ اس کا مطلب یہ ہوگا کہ ’’قابل تجدید‘‘ اور ’’صاف ستھری‘‘ توانائی کے شعبوں کے لئے سرمایہ کی آمد کم ہوجائے گی۔ دیگر شعبوں میں امریکی سرمایہ کاری پہلے ہی سے بہت زیادہ مہنگی ہے۔ اگر ٹرمپ کے مختلف انتخابی وعدوں کا سختی سے تجزیہ کیا جائے اور ان پر گہری نظر ڈالی جائے تو ممکن ہے ان کی ستائش میں نمایاں انحطاط پیدا ہوگا۔ ہندوستان کی تجارت کے فروغ کے لئے عالمی استحکام ضروری ہے۔ یہ انتخابات ہمیں استحکام سے ہی محروم کررہے ہیں۔
ٹرمپ کے بیانات اتنے متضاد ہیں کہ وہ امریکہ کو کم از کم 1980 ء کی دہائی کے موقف میں پہنچادیں گے۔ 1928 ء میں قبل ازیں امریکہ نے سینیٹ کے لئے ریپبلکن پارٹی کے ارکان کو ایوان کے لئے ریپبلیکن پارٹی کے ارکان کو اور صدر کے عہدہ کے لئے اسی پارٹی کے رکن کو منتخب کیا تھا۔ یہ انتخاب کسی کے لئے بھی بشمول عالمی معیشت کے لئے اچھا ثابت نہیں ہوا۔ یہ فرض کرنا حماقت ہوگی کہ موجودہ انتخابات کے اثرات آئندہ کئی سال تک محسوس نہیں کئے جائیں گے۔ ڈونالڈ ٹرمپ کا بحیثیت صدر امریکہ انتخاب امریکہ سے تجارت کرنے والے شراکت دار ممالک جیسے چین کے ساتھ تجارت کو متاثر کرے گا۔ چین۔ امریکہ آزادانہ تجارت معاہدہ طے نہیں ہوسکے گا۔ اسی طرح دیگر شراکت دار ممالک سے بھی امریکہ کے آزادانہ تجارت معاہدے متاثر ہوں گے اور یہ امریکی معیشت کے لئے تباہ کن ہوگا۔ اندرون ملک یہ سمجھا جارہا ہے کہ صدر منتخب ہونے کے بعد ڈونالڈ ٹرمپ ذمہ دارانہ اور محتاط رویہ اختیار کریں گے جیسا کہ انتخابی نتائج کے اعلان کے بعد ان کی اولین تقریر سے ظاہر ہوتا ہے لیکن انہوں نے گزشتہ دیڑھ سال سے جو زہریلے بیج بوئے ہیں۔ ان کی فصل کیسی ہوگی یہ دیکھنا ابھی باقی ہے۔ خارجہ تعلقات میں سب سے اہم بات یہ ہے کہ چین کے ساتھ امریکہ کے تعلقات کیسے رہتے ہیں۔ سیاسی طور پر دونوں ممالک حریف ہیں اور غالباً رہیں گے لیکن تجارت کے شعبہ میں دونوں ممالک حلیف ہیں لیکن ٹرمپ کے دور صدارت میں اسکا تسلسل غیر یقینی نظر آتا ہے۔
ٹرمپ نے اپنی انتخابی مہم کی لفاظی کا ہندوستان کو نشانہ نہیں بنایا۔ حکومت ہند بھی دونوں صدارتی امیدواروں کے بارے میں کوئی تبصرہ کرنے سے گریزاں رہی۔ یہ ایک اچھا اقدام تھا۔ اس سے وزیراعظم ہند کے ٹرمپ کے ساتھ خوشگوار شخصی تعلقات کی راہ کھل گئی ہے۔ اسی سے دونوں ممالک کے تعلقات مزید مستحکم بنانے میں مدد ملے گی۔