ڈاکٹر معید جاوید… بحیثیت شاعر

واحد نظام آبادی
ڈاکٹر معید جاوید اس تاریخ ساز ، عظیم الشان و فقیدالمثال جامعہ عثمانیہ کے شعبہ اردو سے وابستہ ہیں جس سے کبھی ماضی میں پروفیسر وحیدالدین سلیم ، پروفیسر سید سجاد ، بابائے اردو مولوی عبدالحق ، ڈاکٹر محی الدین قادری زور، پروفیسر مسعود حسین خان ، رفیعہ سلطانہ ، عبدالقادر سروری ، غلام عمر خان ، زینت ساجدہ ، سیدہ جعفر ، پروفیسر یوسف ، مغنی تبسم اور اشرف رفیع جیسی مایہ ناز ہستیوں کا تعلق رہا ہے ۔ ڈاکٹر معید جاوید جہاں ایک معلم و مدرس ، محقق و مدقق اور مفکر و دانشور ہیں، وہیں وہ ایک خوش فکر اور نغز گو شاعر بھی ہیں جنہوں نے حیدرآباد دکن کے نامور شاعر و معروف استاذ سخن حضرت علی احمد جلیلی سے برسوں استفادہ کیا ہے اور اپنے کلام پر ان سے اصلاح لی ہے ، جس کی وجہ سے ان کے کلام کے جوہر نمایاں نظر آتے ہیں۔
یوں تو ڈاکٹر معید جاوید کی ادبی زندگی کا آغاز افسانہ نگاری سے ہوا مگر ایم اے (اردو) کے مراحل سے پہلے ہی ’’موزونیت‘‘ کی دولت ان کے ہاتھ آئی جس کی وجہ سے وہ شاہ راہِ سخن پر نہ صرف گامزن ہوئے بلکہ شدہ شدہ یہ سلسلہ آگے بڑھا اور ہنوز صورت حال یہ ہے کہ ان کے کلام سے اعتباری شان اور جلالتِ سخن مترشیح ہوتی ہے۔ ڈاکٹر معید جاوید نے تمام اصناف سخن میں طبع آزمائی تو نہیں کی البتہ ان کے پہلے شعری مجموعہ ’’ دل کہہ رہا ہے ‘‘ کے مطالعہ سے پتہ چلتا ہے کہ غزل ان کی پسندیدہ صنف سخن ہے جس میں وہ اپنے کمال فن کا مظاہرہ کرتے رہتے ہیں ۔ غزل گوئی کے باب میں ان کا ایک وصف خاص یہ ہیکہ وہ ہمیشہ خوب سے خوب تر کہنے کی جستجو میں رہتے ہیں۔ جب کوئی غزل ہوتی ہے تو وہ مستقبل اس کے اشعار پر غور و فکر کرتے رہتے ہیں اور پھر خود ہی مصاریح میں تبدیلی کرتے ہیں، اس طرح صیقل گری کے ذریعہ وہ ا پنے سخن کو جلا بخشتے ہیں۔ یہی وہ خوبی ہے جو ایک فنکار کے فن کو معیار و وقار بخشتی ہے ۔  غزل کے علاوہ ڈاکٹر معید جاوید نے حمدیں ، نعتیں ، نظمیں ، مرائی قطعات ، سہرے نیز افسانے اور افسانچے تحریر کئے ہیں۔ عصرِ حاضر میں شعراء کی کثرت ’’عیاں راچہ بیاں‘‘ کے مصداق مگر خال خال ہی ایسے شعراء ہیں جن کے کلام میں جدید لب و لہجہ پایا جاتا ہے یا جن کی فکر میں گہرائی و گیرائی کے ساتھ ساتھ قدرت و جدت اور ایک خاص بات ہوتی ہے ، ڈاکٹر معید جاوید ایسے ہی شاعر ہیں جن کا لب و لہجہ متاثر کن لگتا ہے ۔ تجربات کی وسعت ، کہنہ مشق نیز اساتذہ کے فیضان صحبت کے نتیجہ میں انہوں نے حیدرآباد دکن کے اہم شعراء میں اپنی شاعرانہ شناخت کو استحکام بخشا ہے ۔ ان کے چند اشعار ملاحظہ ہوں جو ان کے معیاری فکر و فن کی غمازی کرتے ہیں۔
تجھے یہ تاج محل شہہ جہاں مبارک ہو
مرا یہ سامنے کچا مکان رہنے دے
کم نہیں ہیں عذاب دنیا کے
آخرت کا حساب رہنے دے
دنیا ترے حصول کی خاطر خدا گواہ
میں نے کبھی ضمیر کا سودا نہیں کیا
ڈاکٹر معید جاوید کا رنگ تغزل ملاحظہ ہو  ؎
جھک گئی ہے نظر سے مل کے نظر
دل سے دل کا کلام باقی ہے
سادگی میں اس کی دلکشی
ہر نگاہ دنگ ہوگئی
بے چین تو اگر ہے مجھے کب قرار ہے
شائد اسی کا نام محبت ہے پیار ہے
ڈاکٹر معید جاوید نے زندگی کو بہت قریب سے دیکھا ہے، اپنے ماحول پر وہ گہری نظر رکھتے ہیں ۔ یہ الفاظ اوروں کے حق میں رسماء سہی مگر معید جاوید کے حق میں بجا طور پر درست ہیں، وہ جب کسی واقعہ سے کوئی نتیجہ اخذ کرتے ہیں تو وہ ان کی عاقبت شناس نظروں اور فکر رساء کی چغلی کھاتا ہے ، چند اشعار دیکھئے جن سے ان کی دیدہ وری اور کامل باخبری کا اظہار ہوتا ہے  ؎
کیا کیا تو نے زندگی پاکر
زندگی نے سوال کر ڈالا
زندگی کی سیاہ راہوں میں
شمع جلتی رہی مرادوں کی
پھنس نہ جائے کہیں پرندے تو
وہ شکاری کی جال رکھتا ہے
ایسے نہ حقارت کی نظر نور نظر کر
چھوٹا سا سہی گھر یہ مگر ہے کہ نہیں ہے
بلا شبہ ڈاکٹر معید جاوید ایک کہنہ مشق اور خوش فکر شاعر ہیں جنہوں نے حیدرآباد دکن کے اہم شعراء میں اپنا ایک ممتاز مقام بنایا ہے ۔ ان کا کلام آئے دن مختلف اخبارات و رسائل کی زینت بنتا رہتا ہے ، اس طرح ریڈیو اور ٹی وی وغیرہ سے بھی ان کا کلام متعدد مرتبہ نشر ہوچکا ہے ۔ ان کا پہلا شعری مجموعہ ’’دل کہہ رہا ہے‘‘ (مطبوعہ 2014 ء ) اچھی اور معیاری شاعری کا نمونہ پیش کرتا ہے ، امسال ڈاکٹر معید جاوید اور راقم الحروف کے اشتراک سے ایک اہم کتاب و مصائب سخن و ہدایت نامہ شاعری‘‘ کی اشاعت بھی عمل میں آچکی ہے ۔ غرض ڈاکٹر معید جاوید نے اپنے لکھنے پڑھنے کے عمل کو جاری رکھا ہے جو خوش آئند بات ہے۔