محمد ناظم علی
دکن میں اردو زبان و ادب کے گیسو سنوارنے میں دکنی ادیبوں و شاعروں نے بہت محنت کی اور زبان و ادب کو فروغ دینے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی ، ان ادیبوں میں ڈاکٹر محی الدین قادری زورؔ کی خدمات بے پایاں ہیں ۔ انکی حیثیت زبان و ادب میں جامع کمالات و ہمہ جہت تھی ۔ انھوں نے زبان و ادب میں نئے موضوعات و مضامین کو پہلی مرتبہ متعارف کرایا ۔ لسانیات کا علم یوروپ میں تھا لیکن اردو ادب میں ابھی متعارف نہیں ہوا تھا ۔ اردو تنقید ابھی رینگ رہی تھی ۔ ڈاکٹر زورؔ نے اصول تنقید متعارف کرایا اسلئے وہ لسانیات اور تنقید کے اولین علمبرداروں میں شمار کئے جاتے ہیں۔
ڈاکٹر محی الدین قادری زورؔ نامور محقق کہلاتے ہیں ۔ انھوں نے کئی مثنویوں کی تدوین کی ۔ اردو میں تحقیق کو اپنی کاوشوں کی بنیاد بنایا اور اردو والوں کیلئے تحقیقی سنٹر مرکز ادارہ ادبیات اردو ایوان اردو قائم کیا ۔ خود دکنی ادب کے محقق کہلائے اور کئی ایک کتابیں مرتب و مدون کی ہیں ۔ ماہر دکنیات بھی ہیں ۔ انھوں نے دکنی تہذیب و تمدن سے مالا مال تصانیف کو شائع کیا اور خود دکنی ادب کے ماہرین میں سے تھے ۔ دکنی ادب کے دلدادہ و عاشق تھے اس لئے ان کی تصانیف میں گولکنڈہ و حیدرآباد کی تہذیب و تمدن کے نقوش ملتے ہیں ۔ انھوں نے گولکنڈہ حیدرآباد کی قدریں و ثقافت کے تمام نقوش و عناصر کو جزئیات کے ساتھ پیش کیا ۔ اس لئے ان کے کارنامے تاریخ ادب اردو کا اٹوٹ حصہ بن گئے ۔ ادب کا مورخ تاریخ ادب اردو لکھے گا تو ڈاکٹر زورؔ کا نام فراموش نہیں کرے گا ۔
ڈاکٹر زورؔ نے کلیات سلطان محمد قلی قطب شاہ مرتب کرکے شائع کیا لیکن اس میں جو کمزریاں تھیں اس کو دور کرکے ڈاکٹر زور کی شاگردہ پروفیسر سیدہ جعفر نے پوری کردی ۔ انھوں نے کلیات محمد قلی قطب شاہ مدون کیا اور یہ نسخہ مستند مانا جاتا ہے ۔ ڈاکٹر سیدہ جعفر نے کلیات محمد قلی قطب شاہ کے مقدمہ میں محمد قلی قطب شاہ کے متعلق اہم باتوں کا انکشاف بھی کیا ۔
ڈاکٹر زورؔ نے گولکنڈہ کے ہیرے ، سیر گولکنڈہ لکھ کر گولکنڈہ کی تہذیب ، معاشرت ، سیاست ، تمدن ، شاہی ماحول اور مکمل تصویر پیش کی ہے ۔ یہ تصانیف افسانے کے ذیل میں آتے ہیں لیکن تاثراتی مضامین بھی لکھے ہیں ، لیکن ان تصانیف میں سے ایک تصنیف جو بھاگ متی سے متعلق ہے وہ تصحیح طلب ہے ۔ ڈاکٹر زور نے قوت تخیل سے ایک کہانی لکھ دی ورنہ حقیقت کی دنیا سے بھاگ متی کا کوئی تعلق نہیں اس پر بہت بحث ہوچکی ہے ۔ مستند و معتبر مورخین ان روایات کو یکسر رد کرتے ہیں ۔ جہاں جہاں یہ قصے پڑھائے جارہے ہیں ان کو حذف کرکے دیگر تخلیقات زور رکھیں تو طلبہ کے حق میں بہتر ہوگا ۔
سرگزشت حاتم ، ہندوستانی لسانیات و صوتیات پہلی مرتبہ متعارف ہوئی ۔ بعد میں اردو کے نقادوں نے اس موضوع پر توجہ دینی شروع کی ۔ روح تنقید بھی تنقید کے اصولوں اور مزاج تنقید پر اچھی اور پہلی تصنیف ہے ۔ ڈاکٹر زور کے زمانے تک تنقید اتنی بالیدہ نہیں ہوئی تھی ۔ شمالی ہند میں پروفیسر آل احمد سرور نے تنقید کی کتاب لکھ کر تنقید کے گیسو سنوارے تھے ۔ حیدرآباد دکن سے ڈاکٹر زور نے تنقید کو متعارف کرنے کی کامیاب کوشش کی اور نقاد کہلائے ۔ ان کے اور بھی دیگر تصانیف ہیں جو اردو زبان و ادب میں وقعت کی حامل ہیں ۔
ڈاکٹر زور کا ایک اور کارنامہ جو طبعی مظاہرہ کا نمونہ ہے یعنی ادارہ ادبیات اردو (ایوان اردو) کا قیام اس کے کئی شعبے ہیں ۔ 12 شعبے کام کرتے ہیں ۔ تصنیفی ، تالیفی ، تحقیقی ، نشر و اشاعت ، امتحانات ، خطاطی وغیرہ ۔ یہ ادارہ دکنی محققین و اسکالرز کی محدود امداد کرتا ہے یعنی دکن سے تعلق رکھنے والے باشندے اس سے استفادہ کرتے ہیں ۔ اس میں ایک میوزیم بھی ہے جس میں نوادرات رکھے ہوئے ہیں ۔ بہرحال محققین کے لئے یہ ادارہ کسی نعمت سے کم نہیں ۔ ایک کتب خانہ منسلک ہے اس میں رسائل ، ادبی کتب ہیں ۔ اس ادارہ کیلئے میری ایک تجویز یہ ہے کہ اس کو NCPUL کے طرز پر چلائیں اور مزید حرکیاتی بنائیں ۔ اس کا ترجمان رسالہ ’’سب رس‘‘ تو ہر لحاظ سے ترقی کرگیا ۔ اچھے اور خوبصورت انداز سے پروفیسر بیگ احساس کی ادارت میں شائع ہورہا ہے ۔ ایسے محقق و نقاد یعنی ڈاکٹر زورؔ کی یاد منانے کیلئے عثمانیہ یونیورسٹی یا تلنگانہ یونیورسٹی میں ڈاکٹر زورؔ چیر یا تحقیقی مرکز کا آغاز کریں تاکہ ان کے کارناموں کا اعتراف کیا جاسکے ۔