ڈاکٹر قطب سرشار کی شخصیت اور تنقیدی سروکار

احمد رشید (علیگ)
اردو زبان و ادب کے افق پر روشن ستارہ کی چمکنے والے قطب نے ادبی دنیا کو سرشار اور مخمور کردیا ہے ۔ قطب سرشار کثیر الجہت آفتابی شخصیت کے حامل ہیں ، جس کی روشنی جنوبی ہند سے وسیع و عریض ہندوستان اور اب بیرون ہند پھیل گئی ہے ، پھر روشنی کو کون قید کرسکتا ہے ؟
آپ متعدد موضوعات پر کتابیں تصنیف کیہیں ۔ ادبی زندگی کا آغاز شاعری سے کیا۔ جس کے وسیلے سے معتبر شعراء کی فہرست میں شامل ہو کر اپنا اہم اور مستحکم مقام بنایا۔ 2014ء میں نیا مجموعہ شاعری ’’اصباح‘‘ کے ساتھ باب کائنات ادب میں وارد ہو کر مرتبہ قطب کو پالیا ۔ جس میں شان بے نیازی ہے ۔ کیفیت جذب ، سرور اور تصوف کے مراحل بھی ہیں۔

کسی بھی شخصیت میں ترجمہ نگاری ، تخلیقی اور تنقیدی جواہر کا ایک ساتھ جمع ہوجانا ودیعت خداوندی ہے ۔ قطب سرشار کو اردو کے ساتھ تلگو زبان پر بھی عبور حاصل ہے ۔ تلگو سے اردو زبان میں ترجمہ کرنے کی بھرپور صلاحیت اور مہارت رکھتے ہیں ۔ تخلیق سے تخلیق کا ایک زبان سے دوسری زبان میں ترجمہ کرنا غیر معمولی کارنامہ ہے ، جس کو آپ نے بڑی ذمہ داری اور لگن سے انجام دیا ہے ۔وہ بھی ترجمے کے تمام لوازم (متن ، زبان و بیان ، اسلوب وآہنگ ، الفاظ کا سیاق و سباق ، مختلف زبانوں کے شاعری کے اوزان ، رجحانات ومیلانات ، تاریخی اور سماجی پس منظر وغیرہ) کا دھیان رکھتے ہوئے ۔ یہ کوئی آسان کام نہیں کہ اکثر و بیشتر دونوں زبانوں کے تخلیقی process سے گزرنا ہوتا ہے اسی لئے ترجمہ نگاری کا فن ، تخلیقی عمل سے زیادہ بھاری اور مشکل کام ہے ۔
ڈاکٹر قطب سرشار نے تلگو زبان کے مشہور شاعر ڈاکٹر سی نارائن ریڈی گیان پیٹھ ایوارڈ یافتہ پدمابھوشن کا شعری مجموعہ کا ترجمہ ’’بہتا ہوا نغمہ‘‘ کے نام سے کیا ۔ وی آر ودیارتھی کی تلگو شاعری کا اردو ترجمہ ’’آسمان کا لمس‘‘ کے نام سے کیا ۔ اور سری لتا کے شعری مجموعہ کا ’’انحراف‘‘ کے نام سے ترجمہ کیا۔

تحقیق وتنقید کے تعلق سے ’’تلگو ادب میں نئے رجحانات‘‘ لکھ کر اپنی تنقیدی بصیرت اور تحقیقی مشقت کا ثبوت دیا ۔ڈاکٹر سید قطب جو اپنی شریفانہ آہستگی ، انکساری اور نرم گوئی کے بحر میں سرشار ہیں اور موصوف نے مجھے بھی اپنی اخلاقی اقدار سے سرتاپا مخمور کردیاہے ۔ میری بالمشافہ کبھی ملاقات نہیں ہوئی لیکن موبائل پر گفتگو کرنے پر مجھے ہمیشہ روبرو ہونے کا احساس ہوتا ہے ۔ ادب کے مختلف موضوعات پر تبادلہ خیالات ہوتا ہے ، گھریلو زندگی کے معاملات پر بات چیت ہوتی ہے ۔ ایک دوسرے کے دکھ سکھ بانٹتے ہیں کہ درد کی ٹیس کم ، خوشی میں اضافہ ہوتا ہے ۔ یہ سب انسانی رشتوں اور رابطوں کی بنیادیں ہوتی ہیں ، یہ سب جذباتی کیفیتیں ادب کے اخلاقیات کی اساس ہوتی ہیں ۔ مجھے کبھی اس کا احساس نہیں ہوتا کہ ڈاکٹر قطب سرشار میرے سامنے نہیں ہیں ۔ غالب بہ زبان تحریر اپنے خطوط کے ذریعہ مکالمہ کرتے تھے میں بذریعہ موبائل گفتگو کرتا ہوں ۔

تنقید کے تعلق سے ڈاکٹر قطب سرشار کی تصنیف ’’امعان‘‘ ان کی صالح فکر ، انسان دوستی ، دیانت داری اور تنقیدی بصیرت کی شاہد ہے ۔ آپ متوازن سوچ ، مثبت انداز فکر ، تخلیق کے تجزیاتی مطالعہ کے حامی ہیں۔
باب استبصار میں ادب عالیہ کے حوالے سے غالب کے اشعار کے لفظوں کے معنوی ابعاد کو رونما کرنے کی سعی کی ہے ۔غالب کا ادب میں سب سے بڑا کارنامہ یہ ہے کہ جذب و وجدان سے گزرتی ہوئی اردو غزل کو ادراک و شعور کی کائنات میں داخل کیا۔ غزل کو جذباتی کیفیتوں ، باطنی کوائف کے اظہار کے علاوہ انسان کی نفسیات ، استدلال ،ذہنی بلندی سے آشنا کیا ۔ انسان کی نفسیات کا کوئی پہلو نہیں بچا ہے ، جس کو غالب نے موضوع شعر نہ بنایا ہو ۔ غالب کی بلندی اور عظمت کا دائرہ اتنا عریض ہے کہ وہ زماں و مکاں کی قید سے نکل کر آفاقیت کے درجہ کو پہنچ چکی ہے ۔ غالب کے بارے میں ڈاکٹر قطب سرشار کی رائے ہے ’’غالب کا کمال فکر و فن یہ ہے کہ انہوں نے آفاقیت ، حکمت و فلسفہ تخلیقی توانائی اور وقار انسانیت کے متنوع ابعاد کو اپنے شعری اظہار اس درجہ جامعیت کے ساتھ جذب کررکھا ہے کہ کم و بیش دو سو برس بعد بھی کلام غالب میں عصری معنویت کی تازگی محسوس کی جاسکتی ہے‘‘ ۔

اقبال کو فکر و فلسفہ کا شاعر تسلیم کئے جانے سے وہ ایک فلسفی اور مفکر تو بن گئے لیکن ان کی شاعرانہ حیثیت پس پشت چلی گئی جبکہ بحیثیت شاعر ان کی عظمت مسلم ہے ۔ ان کا شعری اظہار ، الفاظ کے معنوی ابعاد ، تشبیہات و استعارات ، علامات ، محاکمات ، مناظر قدرت کا حسن ، خصوصی طور سے ان کی غزل گوئی میں جو تخلیقی حسن ملتا ہے وہ مکرر غور وفکر اور تجدید کاری کا تقاضہ کرتی ہے ۔عصری پس منظر میں ان کی غزل گوئی کی قدر و قیمت کا تعین ، غزلیہ شاعری کے سیاق و سباق میں اس کا کیا مرتبہ ہے یہ پہلو بھی رونمائی کا متقاضی ہے ۔
اقبال کے اشعار کے تجزیاتی مطالعہ میں فکر اقبال کے بنیادی مآخذ پر روشنی ڈالتے ہوئے ڈاکٹر قطب سرشار فرماتے ہیں ’’ہم نے اقبال کے اشعار کو کتاب و سیرت اور علم تصوف کے تناظر میں سمجھنے کی کوشش کی ہے‘‘ ۔ اقبال فہمی کے باب میں صوفیانہ تناظر میں سمجھنے کی سعی ایک نئے زاویہ نظر کا اضافہ ہے ورنہ اقبال شناسوں نے افکار اسلامی ، قرآن و حدیث ، حکایات اصحاب ، قصص الانبیا اکرام اور سنت نبوی کی روشنی میں اقبال کے فکر و فلسفہ کو سمجھنے اور سمجھانے کی کوشش کی ہے ۔
ادب عالیہ کے حوالے سے ایک مقالہ ’’مولانا آزاد کی ادبی نثر کے تخلیقی و فکری ابعاد‘‘ ہے ۔ ڈاکٹر قطب سرشار نے مولانا آزاد کی نثر کا تجزیہ ان کے اسلوبی اور متنی نقطہ نظر سے کیا ہے ۔ مذکورہ مقالہ بھی متنی ، تجزیاتی ، اسلوبیاتی ، تنقیدی زاویہ نگاہ کی وضاحت کرتا ہے ۔ ڈاکٹر قطب سرشار کہتے ہیں :

’’نثر آزاد کی دو اساسی جہتیں ہیں ۔ ایک تخلیقی اور دوسری فکری ، فکری جہت کو سمجھنے کے لئے ہم تین عنوانات مقرر کرتے ہیں (۱) ادبی و فلسفیانہ نظریات (۲) مذہبی نظریات (۳) سیاسی و سماجی نظریات ۔ ادبی نظریات کا اظہار تخلیقی ہے اور فلسفیانہ نظریات کا اظہار بڑی شرح و بسط کے ساتھ ، گفتگو کا آغاز ادبی فلسفیانہ نظریات سے کرتے ہیں‘‘ ۔
مضمون ’’حافظ شیرازی اور جذب عالم پوری‘‘ شامل ہے ۔ برہمن نژاد اردو پنڈت راگھویندر راؤ جذب عالم پوری نے فارسی کے دو عظیم شعراء عمر خیام اور حافظ شیرازی کی رباعیات کے منظوم ترجمے کئے ہیں ۔ مذکورہ مضمون میں ڈاکٹر قطب سرشار نے رباعیات حافظ شیرازی کے ترجمہ کا احاطہ کیا ہے ۔ انکا خیال ہے جذب عالم پوری نے ترجمہ نہایت فنی کمال اور خلوص دل سے کیا ہے ۔ باب انتقاد میں بالترتیب عنوانات ’’مجروح سلطانپوری غزل کا مسیحا‘‘ شور جہاں ، پروفیسر بیگ احساس کے تنقیدی مضامین کے مجموعہ کا تجزیہ ہے ۔ ’’ادبی گفتگو‘‘ اسلم عمادی جو ساتویں دہے میں نئی آواز اور اچھوتے لہجوں کے حوالے سے ادبی افق پر نمودار ہوئے ، نئی شاعری کے تعلق سے ادبی گفتگو پر مبنی ہے ۔ ’’نغمہ ہائے نورانی‘‘ حضرت مولانا شاہ ممد کمال الرحمن قاسمی ندوی کے شعری مجموعہ پر تبصرہ ہے ۔

باب استحضار میں ’’پروین شاکر سے مصاحبہ‘‘ ممتام راشد سے ایک ملاقات ، ڈاکٹر خلیق انجم نقاد محقق ماہر غالبیات کے عنوانات سے مصاحبے شامل ہیں ۔ اسی باب میں ’’ہندوستانی ادب میں نئے رجحانات‘‘ کے عنوان سے بنگلور میں منعقدہ دو روزہ کل ہند سمینار کی رپورتاژ ہے ۔ مصاحبوں سے ادب کی گرہیں کھولنے کی کوشش کی گئی ہے ۔ باب انتخاب کے بالترتیب عنوانات کے تحت جمیل شیدائی ایک منفرد تمثیل نگار اور مترجم ۔ میر فاروق علی سنجیدہ و منفرد مزاح نگار ، بے لوث صحافی اور امتیاز علی تاج الیکٹرانک میڈیا کے ادبی نقیب جن میں شخصی کوائف اور ان کے کارناموں کا ذکر کیا گیا ہے ۔
کسی فن پارے میں معنی کی دریافت کے لئے ڈاکٹر قطب سرشار تخلیق میں کلیدی الفاظ اور معنی کے درمیان رشتہ قائم کرتے ہیں اور اس کے نظام فکر سے تعلق جوڑ کر فن پارے میں مفاہیم تلاش کرنے کی سعی کرتے ہیں ۔ موصوف تنقیدی جائزہ لیتے ہوئے یہ معلوم کرتے ہیں کہ وہ دوسرے ادیبوں سے کس حد تک مختلف ہے ۔ اس کے فن کی امتیازی پہچان کیا ہے ؟ تخلیق کار کے تئیں ان کا رویہ مخلصانہ ، دیانت دارانہ ہوتا ہے ، وہ تخلیق کے مثبت پہلوؤں کو اجاگر کرتے ہیں ۔ عام طور پر ان کا تنقیدی تاثراتی ہوتا ہے ۔