’’زمیں کھا گئی آسماں کیسے کیسے‘‘
عبدالقیوم خاں باقی ؔ
اجمالی تعارف :
نام : عبدالقیوم خاں، تخلص : باقی، پیدائش : 30 ستمبر 1907 ء ، وفات : 1954 ء ، تعلیم : فارسی ادب سے ایم اے کی ڈگری عثمانیہ یونیورسٹی سے حاصل کی۔ 1942 ء میں عثمانیہ یونیورسٹی میں اردو لکچرر مقرر ہوئے۔ دارالعلوم ، چادر گھاٹ اور نظام کالج میں بھی اردو لکچرر مقرر ہوئے۔
عبدالقیوم خاں باقیؔ حیدرآباد کے خوش حال علمی گھرانے میں پیدا ہوئے ۔ ان کے والد احمد نواز جنگ بھی شاعر تھے جن کا تخلص فانیؔ تھا ۔ عبدالقیوم خاں باقی کو شعر و ادب کے علاوہ دوسرے فنون لطیفہ جیسے موسیقی اور نقاشی سے بھی فطری لگاؤ تھا ۔ ان کے کلام میں تخیل کی بلندی اور مضمون آفرینی کا حسن ہے ۔ باقیؔ نے نہ صرف غزل میں طبع آزمائی کی ہے بلکہ وہ ایک اچھے نظم گو شاعر بھی تھے۔ 1954 ء میں اچانک حرکت قلب بند ہونے سے 47 سال کی عمر میں دار فانی سے کوچ کر گئے۔
منتخب اشعار :
بڑھاکے حوصلۂ نازِ دلبراں میں نے
بنادیا ہے محبت کو نوجواں میں نے
ہجوم اشک میں کچھ بھی نظر نہیں آتا
ڈبودیا ہے ستاروں میں آسماں میں نے
مری نگاہ نے پردے اٹھادیئے شاید
مکاں میں دیکھ لیا رازِ لا مکاں میں نے
ہر شاخِ گل کو ڈھونڈا دیکھا کلی کلی میں
لیکن تری ادائیں پائی نہیں کسی میں
وقتِ اخیر میرا ، تونے بھی ساتھ چھوڑا
کوئی نہیں کسی کا اے جان بے کسی میں
مہلت تو دے ذرا سی اے کاروانِ ہستی
بھولیں نہ زاد راہ ہم ایسی روا روی میں
ہردم چمک رہی ہے ، برق نگاہ ان کی
ہشیار چل رہا ہوں صحرائے بے خودی میں
ہر روز سن رہا ہوں حور و جناں کے قصے
لطف آرہا ہے باقیؔ واعظ کی دوستی میں
نظم (مقام شعر)
میں کبھی عشق کے دامن میں نظر آتا ہوں
میں کبھی حسن کے گلشن میں نظر آتا ہوں
صبح دم راگ سناتا ہوں فلک والوں کو
رات کو اپنے نشیمن میں نظر آتا ہوں
اوڑھتا ہوں میں کبھی گوہر شبنم کی ردا
جلوہ گر نور کی چلمن میں نظر آتا ہوں
حسن دوشیزہ کی معصوم ادائیں بن کر
چودھویں سال کے جو بن میں نظر آتا ہوں
میں کبھی مدفن پروانہ کا بنتا ہوں دھواں
اور کبھی شعلہ روشن میں نظر آتا ہوں
جگمگاتا ہوں گریباں میں ستارے کی طرح
ایک دوشیزہ کی گردن میں نظر آتا ہوں
اور جب حسن کی تلوار سے کٹتا ہے گلا
کشتۂ عشق کے مدفن میں نظر آتا ہوں