ڈاکٹر شوکت علی مرزا تاریک وادیوں میں جگنو کی رہنمائی

ڈاکٹر مرزا غلام حسین بیگ
ریٹائرڈ چیف میڈیکل آفیسریونانی
ہر ذی روح کی طرح حضرت انسان کے بھی دوابتدائی لیکن اہم ترین مقاصد حیات ہوتے تو ہیں ہی لیکن انسان نہ صرف ذی روح مخلوق ہے بلکہ اشرف مخلوق کے عظیم ترین منصب پر بھی فائز ہے۔دیکھئے انسان کے ابتدائی اٹھارہ بیس سال تو کھیل کود پڑھنے لکھنے میں ہی گذر جاتے ہیں پھر اس عمر کے آگے پیچھے کے ایام سے عملی زندگی کا آغاز ہوجاتاہے۔فطرت میں شرافت ہو،گھر کا ماحول مفید اصولوں کا تابع ہو اور بیرونی ماحول بھی نامناسب نہ ہو تو پھر تعلیمی اسنادات کچھ ہی سہی لڑکا معاشرہ میں باعزت زندگی گذارنے کے قابل ضرور ہوجاتا ہے۔باعزت سے میری مراد ہر کام شرعی حدود میں رہ کر انجام دیگا،شادی کریگا،صاحب اولاد ہوگا،اولاد کی تعلیم تربیت کھانے کپڑے کا حسب حیثیت بہتر سے بہتر خیال رکھے گا اور انہیں امور کی کدوکاوشوں سے گذرتا ہوا ادھیڑ عمر کو مکمل کرکے ضعیفی کی صعوبتوں کو گلے کا مستقل ہار بنالیگا‘کسی مفکر نے بہت صحیح کہا ہے کہ’’انسان اپنی زندگی کاپہلا نصف حصہ صحت بیچ کر پیسہ کماتا ہے اور دوسرا نصف حصہ کمایا ہوا پیسہ بیچ کر صحت کمانے کی لاحاصل کوشش کرتا ہے۔

بہرکیف یہ انسانی زندگی کا ایک عمومی حیثیت والا خاکہ ہے جو اکثریت پر صادق آتا ہے۔اب آپ یہاں ایک بہت سبق آموز اور دلچسپ واقعہ ملاحظہ فرمایئے کہ یہ واقعہ روز نامہ سیاست کے لاکھوں قارئین سے کم از کم دس بیس قارئین کی فکر میں تو یقینا مثبت تبدیلی کا باعث انشاء اللہ ضرور بنیں گا۔
میں مدڈ اسکول کا طالب علم تھا، صبح نو دس بجے کسی کام سے مسلم جنگ کے پل پر سے گذر رہاتھا، دیکھا کہ کوئی بیس پچیس افراد پل پر سے نیچے ندی کی جانب پورے انہماک سے کچھ دیکھ رہے ہیں ،مجھے بھی تشویش ہوئی اور میں بھی دیکھنے والوں میں شامل ہوگیا۔ایک بڑے سے کھڈ میں گدلے قسم کا پانی جمع ہے، اس پانی میں ایک چوہا زندگی اور موت کی درمیانی منزل میں رہ کر زندہ رہنے کی کوشش کئے جارہا ہے۔(ان دنوں ندی کے قریب رہنے والے غریب لوگ بطخیں پالتے تھے جو ان کے لیے تھوڑا سا ذریعہ معاش بھی ہوتا تھا ‘وہ لوگ صبح بطخوں کو لیجاکر ندی میں چھوڑ دیتے اور سرِ شام جاکر واپس لالیتے) ہاں تو اس گدلے پانی میں ایک چوہا تڑپ رہاتھا‘ جیسے ہی قریب کی بطخوں نے چوہے کو تڑپتا ہوا دیکھا فوری چھ بطخیں اس کے قریب آگئے اور اس چوہے کو اپنی حصار میں لیکر اپنی مخصوص آواز میں چلاتے ہوئے اور اپنے پنکھ تیزی سے پانی پر مارتے ہوئے چوہے کو کنارے کی جانب بہ الفاظ دیگر ڈھکیل رہے تھے۔آٹھ دس منٹ میں بطخوں کی کوشش اور منشا کامیاب ہوگیا، جیسے ہی چوہا خشکی پر پہنچا بطخیں پانی میں واپس ہوگئیں اور چوہا بھی کچھ دیر میں ہوش وحواس سنبھلنے کے بعد ندی کی دیوار کی جانب جاکر کہیں غائب ہوگیا۔دیکھنے میں نہ صرف جانور تھے بلکہ بلحاظ نسل بھی ان کا آپسی کوئی رشتہ ناطہ قطعی نہ تھا صرف ایک ذی روح کا دوسرے ذی روح سے جذبہ ہمدردی تھا جو انسان کے لئے اتنا عظیم درس ہے کہ کوئی عظیم صاحبِ قلم دلچسپی لے تو ایک ضخیم جلد تحریر کرسکتا ہے۔میں یہاں بلا خوف تردید لکھ رہا ہوں کہ ان بطحوں کو آج کے انسانوں کی اکثریت پر فوقیت دیں توشاید غلط نہیں ہوگا۔

میں آپ کو ہمارے ہی شہر کے چند افراد کے کارنامے یاد دلاتا ہوں جن سے آپ ہی نہیں بلکہ کروڑ رہا افراد واقف ہیں،مجھے توقع ہے کہ آپ کی یادیں تازہ ہونے پر آپ ضرور میرے پروگرام سے اتفاق کریں گے۔دیکھئے ڈاکٹر وزارت رسول خاں صاحب مرحوم جنہوں نے حیدرآباد کے لئے میناریٹی میڈیکل کالج کی مرکزی حکومت سے منظوری حاصل کی، سارے فیکلٹیز قائم کئے ،کوچنگ ہاسپٹل قائم کیاپھر ایک موڑ پرکالج سے ہاسپٹل سے اسمبلی سے یکلخت رشتہ منقطع کرکے دوسرے اسکولس،کالجس،پی جی کالجس نہ صرف قائم کئے بلکہ مثالی قائم کئے۔شہر سے دور کہیں معین آباد کے قریب ہندوستان کا پہلا اناث میڈیکل کالج کا قیام یہ صرف اور صرف ڈاکٹر وزارت رسول خاں صاحب تاریخ ساز کارنامہ ہے ۔آج بھی ہزاروں مریض فیض یاب بغیر کسی خرچ کے ہورہے ہیں۔
جناب زاہد علی خان صاحب چیف ایڈیٹر سیاست کتنے اہم ترین امدادی امور کتنی طویل مدتوں سے سنبھالے ہوئے ہیں۔مثلاً غریب ذہین طلباء کے تعلیمی اخراجات، گریجویشن، پوسٹ گریجویشن حتی کہ اور آگے اعلیٰ تعلیم کے لئے مغربی ممالک کو بھیجنے کے انتظامات،غریب لڑکیوں کی شادیاں، دوبدو پروگرام کے ذریعہ تقریباً ہر ہفتہ رشتوں کا آن واحد میں تعین،کینسر کے مریضوں کا علاج ،لاوارث میتوں کی تدفین، میں تو یہاں تک کہوں گاکہ تدفین کے اعداد وشمار یکجا کئے جائیں تو اس حقیقت کو توگنیز بک آف ورلڈ ریکارڈ میں یقینا شامل کیاجاسکتاہے۔پھر محترم افتخار حسین صاحب فیض عام ٹرسٹ کی بابت تفصیلات معلوم کیجئے تو دماغ روشن ہوجائے گا‘ موصوف کی کسی معاملہ میں مدد تو لاکھوں سے کم کی ہوتی نہیں اور پھر خاموش خدمات کہ کہیں کوئی زیادہ تشہیر نہیں۔بہرکیف زاہد علی خاں صاحب اورافتخار حسین صاحب کا امدادی سالانہ ٹرن اوور کروڑہا سے تجاوز کرجاتا ہے۔اب آپ بتلایئے کہ میں بھی زندگی کے باقی حصہ میں اس قسم کی کوئی مصروفیت شروع کروں تو اس میں کونسی قباحت ہوگی۔چونکہ دلیلیں مضبوط تھیں اس لئے ہم سارے بہی خواہوں نے ہم زبان ہوکر کہا ارادہ بہت اچھا ہے، قدم آگے بڑھایئے،اللہ تعالیٰ ضرور کامیابی عطا فرمائے گا۔صرف تین سال کی مدت میں ڈاکٹر شوکت صاحب کی بے مثل کامیابیوں کی طلسمی داستان میں تو یہاں بہت اختصار سے لکھ رہا ہوں لیکن موصوف کے فرزندان یا پھر مستقبل کا مورخ تفصیلات کو تحریری شکل دیگا تو وہ ضخیم تحریریں نئی نسلوں کے لئے نئے نئے روشن راستے خود بخود قدموں تلے آتے جائیں گے اور ہر تاریک وادی میں جگنو ہی جگنو پوری شان وشوکت کے ساتھ رہنمائی میں مصروف نظر آئیں گے۔

ویسے مستقل ڈونر ہونے کے ناطے’’ہیلپنگ ہینڈس‘‘ کے کارنامے میرے علم میں تو آتے رہتے ہیں لیکن یہاں بہ یک وقت اتنے طویل کارناموں کی تفصیل ضبط تحریر میں لادوں ممکن نہیں البتہ جس حد تک یاد داشت ساتھ دے مختصر مختصر تحریر کے ذریعہ قارئین کی خدمت میں پیش کررہا ہوں۔تحریک کی عمر لگ بھگ تین سال ہوگی۔قائم نگر ایک ایسی آبادی جو سلم کی سطح سے بھی بہت نیچے یا پیچھے تھی اب شوکت صاحب کی گذشتہ تین سالہ کاوشوں کے طفیل مہذب کالونی میں تبدیل ہوچکی ہے یہاں ہر یکشنبہ صبح تا شام دینی وجدید تعلیم ،سارے طلباء کو دوپہر کا کھانا،اسکولس کی فیس، کتابیں،یونیفارم بہرکیف ہر قسم کی ضرورت کا تکمیلہ، ذیل کے اعداد شمار سے محترم قاری اندازہ فرماسکتے ہیں کہ ڈاکٹر شوکت علی مرزا صاحب نے کتنی شدید محنت اور کوشش سے قوم کے بچوں کو کہاں سے کہاں پہنچایا ہے،طوالت کے خیال سے۲۰۱۳ء تا۲۰۱۵ء کے جملہ اعداد مجموعہ کی شکل میں پیش کررہا ہوں۔اسکولس میں زیر تعلیم جملہ طلباء(702)‘انٹرمیڈیٹ(103)ڈگری کے (49)طلباء کو امداد‘پیشہ ورانہ تعلیم کے (31)طلباء کو امداد۔یہاں تک تو بہت مختصر انداز میں تعلیم وتعلم کی تفصیل تھی اب دوسرے چند امدادی مدات ملاحظہ کیجئے۔پچھلے سال قائم نگر میں دومکان بنائے گئے اور اس سال دومکانات کا کام شروع ہوچکا ہے جو محترم سید مظفرحسین صاحب سابق چیف سٹی پلانر کی سرپرستی میں انجام پارہا ہے۔نادارمفلوک الحال مریضوں کے علاج کا ذمہ محترم ڈاکٹر سید سجاد حسین صاحب زیدی نے اپنے کاندھوں پر سہارا ہے۔ہر رمضان المبارک میں25،25کیلو چاول ہر مستحق تک پہنچائے جاتے ہیں حتی کہ عید الضحیٰ کے موقع پر(110)کیلو گوشت کے پیکٹس بناکر تقسیم کئے جاتے ہیں، ابھی چند ماہ قبل کوہ مولا علی کے دامن میں ایک کرایہ کا مکان حاصل کرکے پانچ یاسات سیونگ مشین رکھے گئے ہیں جن کواستعمال کرکے ضرورت مند خواتین کچھ روزی فراہم کرلیتی ہیں جس کی نگہداشت وغیرہ کے لئے ایک مقامی فرد کو ملازمت بھی دی گئی ہے۔اس کارِ خیر کا افتتاح محترم زاہد علی خاں صاحب کے ہاتھوں انجام پایا ہے اس لئے توقع قوی ہے کہ پراجکٹ انشا ء اللہ کامیاب ہی رہیگا۔

ابھی آٹھ دس یوم قبل عابد علی خاں آئی ہاسپٹل کی دوسری یا تیسری منزل پر’’ کپڑا بینک‘‘ قائم کیا گیا ہے جس میں افتخار حسین صاحب ،زاہد علی خاں صاحب ،شوکت علی مرزا صاحب ،یعنی تینوں کا اشتراک ہے۔اس سلسلہ میں کپڑوں کی وصولی اور تقسیم کی بابت طریقہ کاراخبار کے ذریعہ عام کیا جائے تو زیادہ مناسب ہوگا۔
چنانچہ اس شعر کے مصداق شوکت صاحب کی موجودہ مصروفیات کی ندرت یہ ہے کہ تین سال میں لاکھوں روپیہ کے ٹرن اوور کے باوجود موصوف نے ابھی تک کسی بھی قسم کے تعاون کے لئے نہ ہی اپنی نوک زبان اور نہ ہی اپنے نوک قلم کا استعمال کیاہے بس آپ کی صلاحیت ،نیک نامی اور جستجو بے سہارا ڈوبتی ہوئی مخلوق کو خشکی تک پہنچانے کی کوشش کررہی ہے۔موصوف کی موجودہ رفتار سے توقع کی جاسکتی ہے کہ آج کا قائم نگر کل کا ’’قائم نگریونیورسٹی ‘‘میں تبدیل ہوجائے گا۔