ڈاکٹر سید معظم علی

سید عثمان علی

حضرت ڈاکٹر حافظ سید معظم علی صاحب کے نانا ہمارے ضلع کی ایک عظیم شخصیت حضرت مولانا سید شاہ بہلول گزرے ہیں جنہوں نے ضلع میں دینی اور ملی خدمات کے انمٹ نقوش چھوڑے ہیں ۔ اس کا تذکرہ طویل ہے جو انشاء اللہ کسی موقع پر کیا جائے گا ۔ آپ کے دادا حضرت الحاج سید پیر محمد صاحب (مدرس سرکار اعلی) والد حضرت الحاج مولوی سید یوسف علی صاحب (صدر مدرس) ایم اے بی ایڈ کے گھرانے میں آپ 26 جنوری 1942 ء کو تولد ہوئے ۔ آپ خاندان سید سے تعلق رکھنے کے علاوہ اہل سلسلہ بھی تھے ۔ آپ نے ایک مرتبہ (انتقال سے ایک ہفتہ قبل) نماز عشاء کی ادائیگی کے بعد تنہائی کی ملاقات میں مجھے بتایا کہ ہمارا خاندان ، خاندان نبوتؐ سے ہے اور سلسلہ نسب حضرت فاطمہؓ کے خاندان سے ملتا ہے ۔ ہمارے خاندان کو اللہ رب العزت نے دینی و دنیاوی سربلندی عطا کی ہے اور ملک و قوم کی خدمت ہمارا شیوہ ہے ۔ آپ کی تعلیم اودگیر عثمان آباد ، کے علاوہ حضرت جی رحمتہ اللہ کے مدرسہ (مرکز حضرت نظام الدین میں ہوئی) قاعدہ ، ناظرہ حفظ قرآن مجید کے بعد جلالین شریف تک عالمیت کی تعلیم آپ نے حاصل کی اللہ والوں کا قرب دینی خدمات 5 ماہ تک حضرت جی کے ہمراہ پیدل تبلیغی سفر نے آپ کے دینی مزاج میں مزید پختگی عطا کی ۔ دوران تعلیم دہلی میں آپ نے مسلم ملی رہنماؤں مجاہدین آزادی کی صحبت میں وقت گذارے اہل اللہ سے نسبت حاصل تھی آپ کے مزاج میں انسانی قومی و ملی خدمات کا جذبہ ہمیشہ موجزن رہتا تھا ۔ پیشہ طب و حکمت کے کورس کی تکمیل دینی تعلیم سے فراغت کے بعد آپ نے درس و تدریس ، طب اور حکمت کو اختیار کیا تاکہ ان شعبہ جات کے تحت خدمات جاری رکھ سکیں۔ 1970 ء میں گورنمنٹ ہائی اسکول کی سرکاری ملازمت کی دس سالہ سرویس کو خیرباد کہہ کر آپ نے فبروری 1971 کو ہفت روزہ اخبار ’’فکر جمہور‘‘ جاری فرمایا ۔ اخبار کے ذریعہ آپ ہمیشہ ملی مسائل کو پیش کرتے تھے ۔

1971 میں R.M.P کا کورس مکمل کرکے سند حاصل کی اور اس کے بعد قیام دہلی میں آپ نے پیشہ حکمت کی تربیت حاصل کی ۔ مختلف امراض بالخصوص پیچیدہ اور امراض کہنہ کا علاج بذریعہ جڑی بوٹیاں اور دیسی ادویات سے کرتے تھے آپ نے 1975 ملے پلی مسجد کے پاس ایک ملگی میں دواخانہ کا قیام عمل میں لایا جہاں غریبوں کا فری علاج کیا جاتا تھا ۔ خدمات کی توسیع کیلئے مزید ایک ڈاکٹر جو اس وقت یونانی دواخانہ میں خدمات انجام دیتے تھے انہیں ماہانہ مشاہرہ پر مامور کیا ۔ بحیثیت جید حافظ قرآن آپ نے شہر کی مختلف مساجد میں ماہ صیام میں (زائد 45 سال) قرآن کریم حفظ سنانے کی سعادت حاصل کی ۔ علاوہ ازیں مسجد رحمانیہ ، مسجد دہاروگلی کے امام و خطیب کی حیثیت سے بھی ایک عرصہ تک خدمات انجام دیں ، محلہ دہاروگلی میں دینی صباحی مکتب کا قیام عمل میں لاتے ہوئے سینکڑوں نونہالوں کو دینی قرآنی تعلیم دی ۔ الحمد للہ آپ کے شاگردوں میں ڈاکٹرس ، انجینئرس ، وکلا ، صحافی ، علماء ، حفاظ کے علاوہ مختلف پیشوں سے وابستہ احباب کی کثیر تعداد شامل ہے جو ملک و بیرون ملک میں خدمات انجام دے رہے ہیں ۔

1970 تا 1980 مکمل دہے تک آپ حضرت سید سعد اللہ حسینی (بڑا پہاڑ) کے آستانہ پر سالانہ عرس شریف کے موقع پر جنوبی ہند کے عقیدتمندوں کے سامنے سیرت النبیؐ اور فیضان اولیا کرام کے عنوان سے معلومات آفریں دینی خطاب فرماتے تھے اور زائرین کو دینی اسلامی تعلیمات سے روشناس کرواتے تھے ۔ بفضل تعالی آپ کی خوبی تھی کہ آپ کسی بھی پلیٹ فارم سے حق و صداقت کی صدا کو بلند کرنے میں کبھی بھی مصلحت پرستی اور دنیاوی منفعت کو پیش نظر نہیں رکھتے بلکہ ایک مرد مجاہد کی طرح بلند ہمتی ، عزم و استقلال کے پیکر کی طرح اللہ تعالی کی ذات پر بھروسہ رکھتے تھے ۔
سادگی ، منکسر المزاجی ، اعلی کردار سے آپ مختلف مذاہب کے ماننے والوں اور مختلف محکمہ جات کے اعلی سرکاری عہدیداران ، اراکین اسمبلی ، اراکین پارلیمان ، قائدین ، ادیبوں ، شعراء صحافیوں میں نہایت قدر کی نگاہ سے دیکھے جاتے تھے ۔ اسلامی اور دنیاوی تعلیمات کا آپ کا مطالعہ نہایت وسیع تھا ۔ ملک کی مختلف زبانوں پر عبور سے آپ کو ہندو ، مسلم ، سکھ ، عیسائی طبقوں میں مکمل مقبولیت حاصل تھی ۔ 1990 کے دہے میں آپ نے گوتم نگر ، چندر شیکھر کالونی نظام آباد جیسے پسماندہ اور سلم علاقہ میں ایک تعلیمی ادارہ ہدی پرائمری اسکول کا قیام عمل میں لاتے ہوئے اس علاقہ کے نئی نسل کے تعلیمی مسائل کے حل کیلئے خدمات انجام دیں وہاں پر بھی غریب بچوں کو مفت تعلیم کا انتظام کیا گیا تھا ۔ ضلع کے دینی اداروں کی خدمات میں آپ ہمیشہ پیش پیش رہتے تھے ۔ ضلع کے ممتاز علماء ، حفاظ کرام ہمیشہ آپ سے مختلف مواقع پر رائے مشوروںکومقدم سمجھتے تھے ۔

صحافتی میدان میں آپ کی خدمات نہایت وسیع ہیں دہلی کے بلند پایہ اردو صحافیوں ، حیدرآباد کے اردو صحافیوں سے آپ کے نہایت قریبی تعلقات تھے ، حیدرآباد کی مختلف نیوز ایجنسیوں کے ذمہ داران ، صحافتی تنظیموں کے ذمہ داران ، پی آئی بی کے ذمہ داران سے مسلم مسائل پر تحریروں پر زور دیتے ہوئے یقینی بناتے تھے ۔ اردو زبان کے فروغ کیلئے آپ مختلف ادبی انجمنوں کے عہدیداروں کو وقتاً فوقتاً قیمتی مشوروں سے نوازتے تھے ۔ قوم و ملت کی بھلائی ، ترقی ، استحکام ، اتحاد کو آپ ہمیشہ پیش نظر رکھتے تھے ۔

19 ستمبر 1990 کو شام چھ بجے ایف ایم ریڈیو اسٹیشن کا نظام آباد میں افتتاح کرنے والے اس وقت کے مرکزی وزیر اطلاعات و نشریات مسٹر پی اوپیندرا سے آپ نے زبردست احتجاج کرتے ہوئے اردو زبان کے نشریات کے آغاز کا مطالبہ کیا ۔ اس وقت سارے پروگرام میں حیرت و استعجاب کی لہر دوڑگئی اور مرکزی وزیر نے کہا کہ اردو زبان کی نشریات کے تعلق سے غور کیا جائے گا لیکن تادم تحریر ایسا نہیں ہوا ۔

جامعہ ملیہ اسلامیہ ، جامعہ اردو علی گڑھ ، ادارہ ادبیات اردو حیدرآباد کے علاوہ مختلف جامعات کے امتحانی اور تعلیمی مراکز کے آپ نے 1965-80 ء تک ذمہ دار کی حیثیت سے گرانقدر خدمات انجام دیں ۔ ایک موقع پر1990 میں آپ نے بالکنڈہ میں اردو تنظیم کے جلسہ میں بحیثیت مہمان خصوصی خطاب کرتے ہوئے کہا تھا کہ الحمد للہ میں نے اپنے ہاتھوں سے 1500 امیدواروں کو مذکورہ بالا مشہور جامعات کے امتحانات دلا کر صداقت نامے دلوائے جس میں سے بعض ایسے بھی امیدوار تھے جو انتہائی مفلوک الحالی کی زندگی گذار رہے تھے ۔بفضل تعالی انکی بھی مکمل سرپرستی کی گئی ۔ آپ یوتھ ویلفیر سوسائٹی نظام آباد کے سرپرست اعلی اور شیخ مجاہد علی زاہد مرحوم نوجوجان صحافی و قلمکار جنرل سکریٹری تھے ۔ دونوں نے طلبہ و طالبات اور نوجوانوں میں بیجا رسومات بالخصوص مخالف جہیز مہم موثر طور پر چلائی ونیز اس عنوان کے تحت شہر کے مختلف تعلیمی اداروں میں شعور بیداری کے علاوہ تقریری مقابلوں کا انعقاد عمل میں لایا ۔ مخالف جہیز مضامین پر مبنی ایک کتاب کی اشاعت عمل میں لاتے ہوئے پورے ضلع میں تقسیم عمل میں لائی گئی ۔ جانشین قطب دکن حضرت مولانا شاہ محمد عبدالغفور قریشی بانی مدرسہ اسلامیہ قاسم العلوم اودگیر کے شاگرد خاص ہونے کے ناطے آپ حضرت اعلی سے 1984 میں التماس کیا کہ ضلع نظام آباد میں اکابرین اسلام کی خانقاہی اور روحانی تعلیمات کو عام کریں ۔ اس گذارش کو شرف قبولیت عطا فرماتے ہوئے حضرت اعلی نے نظام آباد کا سفر فرمایا اور الحاج علی بن عبود کی رہائش گاہ بودھن روڈ نظام آباد پر حضرت اعلی کی زیر سرپرستی سلسلہ چشتیہ قادریہ نقشبندیہ سہروردیہ کی تعلیمات اور ذاکرین کے حلقوں کا آغاز فرمایا گیا ۔

غریب اور مفلوک الحال مسلم خاندانوں سے وابستہ لڑکیوں کی شادیوں میں آپ اپنے احباب خاص کے ہمراہ خدمات انجام دینے میں پیش پیش رہتے ۔ غریب مسلم طبقہ کے کمسن طلبہ کو دینی تعلیم سے آراستہ کروانے کیلئے مختلف دینی مدارس میں راست پہنچ کر داخلہ دلواتے ۔ الحمد للہ سینکڑوں کی تعداد میں آپ کے شاگرد علم دین سے آراستہ ہو کر مختلف مقامات پر امامت و خطابت کے فرائض انجام دے رہے ہیں ۔ تعلیم بالغان کیلئے آپ نے یہ اسکیم بنائی تھی کہ مزدور پیشہ اور مختلف کاروبار سے وابستہ مسلم احباب کو کسی طرح ان کے وقت کے حساب سے بنیادی دینی و دنیاوی تعلیم پہنچائی جائے ۔ لیکن خاطر خواہ انتظامات نہ ہونے سے اس پر عمل آوری نہ ہوسکی ، آپ کی شخصیت میں کئی محاسن ، کئی خوبیاں پوشیدہ تھیں ۔ آپ ہر ایک میں بالخصوص علماء میں انقلابی کیفیات کے تئیں فکرمند رہتے تھے ، آپ کی پوری زندگی یاد الہی ، خدمت خلق ، شرافت ، بردباری ، دیانتداری ، خوف الہی کی اعلی صفات کا نمونہ تھی ۔

29 نومبر 2005 مسجد ابوبکر صدیق میں نماز مغرب اور عشاء کی تکمیل کے بعد گھر لوٹنے کے چند گھنٹوں بعد طبیعت کچھ ناساز ہوگئی اور شب 2 بجکر 20 منٹ پر آپ نے آخری سانس لی اور داعی اجل کو لبیک کہا ۔
ہزاروں سال نرگس اپنی بے نوری پہ روتی ہے
بڑی مشکل سے ہوتا ہے چمن میں دیدہ ور پیدا