ڈاکٹر سدھیشور راج سکسینہ 

میرا کالم مجتبیٰ حسین
کراچی کی حیدرآباد کالونی کے گلبرگہ اسٹور کے مالک جناب عبدالرزاق نے پرتیبھا کرن کی معرکتہ الارا کتاب ’حیدرآبادی پکوان‘ کے بارے میں ہمارے کالم کو پڑھنے کے بعد راجہ وجئے کرن (سابق ڈائرکٹر جنرل سی بی آئی حکومت ہند) کے نام ہماری معرفت ایک خط روانہ کیا تھا جسے پہنچانے کیلئے ہم پچھلے ہفتہ راجہ وجئے کرن کے گھر گئے تھے۔ اُس دن ہماری مصروفیات چونکہ کچھ زیادہ تھیں اس لئے ہم نے سوچا تھا کہ اس خط کو راجہ وجئے کرن کے سنتری کے حوالے کر کے باہر سے ہی چلے جائیں گے۔ ہم نے سنتری کو یہ خط دیا تو سنتری نے کہا ’’آپ دو منٹ انتظار کریں تو میں یہ خط ابھی صاحب کو دے کر آتا ہوں ‘‘۔ ابھی ایک منٹ بھی نہیں گزرا تھا کہ راجہ وجئے کرن خود بڑی تیزی سے باہر نکل آئے۔ بولے ’’جناب ! یہ بھی خوب رہی۔ میں صبح سے آپ کے گھر فون کرتا چلا جارہا ہوں اور آپ باہر سے یہ لفافہ دے کر بھاگے چلے جارہے ہیں۔ اصل میں آپ کیلئے میرے پاس ایک سرپرائز ہے کیونکہ آپ کے ایک پرانے دوست آپ سے ملنے کیلئے بے چین ہیں اور اس وقت میرے ڈرائینگ روم میں بیٹھے ہوئے ہیں‘‘۔ ہم اندر گئے تو دیکھا کہ ہمدم دیرینہ ڈاکٹر سدھیشور راج سکسینہ گلے میں مالائیں پہنے بیٹھے ہوئے ہیں۔ دیکھتے ہی ذوق کا یہ شعر سنایا  ؎
اے ذوق کسی ہمدمِ دیرینہ کا ملنا
بہتر ہے ملاقاتِ مسیحا و خضر سے
پھر ہم سے بغلگیر ہوگئے ۔ بولے ’’ میں کل رات ہی حیدرآباد سے آیا ہوں اور آج رات لندن واپس جارہا ہوں۔ صبح سے تمہاری تلاش میں ہوں۔ پتہ چلا صبح ہی گھر سے نکلے ہوئے ہو۔ میری بات مانو اس وقت میری کشش ہی تمہیں یہاں کھینچ لائی ہے‘‘۔ ڈاکٹر سدھیشور راج سکسینہ ہمارے چالیس برس پرانے دوست ہیں ۔ جب ہم عثمانیہ یونیورسٹی میں پڑھا کرتے تھے تو یہ غالباً نظام کالج میں زیر تعلیم تھے مگر اردو فیسٹول اور اردو کی ادبی محفلوں میں (جو ان دنوں بہت زیادہ ہوا کرتی تھیں) ان سے اکثر ملاقات ہوجاتی تھی ۔ بعد میں انہوں نے عثمانیہ میڈیکل کالج سے ایم بی بی ایس کا امتحان کامیاب کیا اور نیلوفر اسپتال میں امراض اطفال کے ماہر کی حیثیت سے خدمات انجام دینے لگے۔ ہمارے بڑے بھائی محبوب حسین جگر مرحوم انہیں بہت عزیز رکھتے تھے اور طبی اور ادبی موضوعات پر ان کے اکثر مضامین ’سیاست‘ میں پابندی سے شائع ہوا کرتے تھے ۔ 1969 ء میں یہ اچانک انگلستان چلے گئے اور وہاں جاکر انگریزوں کا علاج تو کرنے لگے لیکن اس کے ساتھ ہی ساتھ انہیں ایک ایسی بیماری میں بھی مبتلا کرنے لگے جس کا نام اردو شاعری ہے۔ ہمارے لندن کے ایک اور دوست نقی تنویر کا کہنا ہے کہ سدھیشور راج سکسینہ کے علاج سے ان کے مریض تو شفایاب ہوجاتے ہیں لیکن بعد میں ہم جیسوں سے اقبالؔ ، غالبؔ، مومنؔ، خواجہؔ میر درداور داغؔ دہلوی کے شعروں کا مطلب پوچھنے چلے آتے ہیں۔ نقی کا بیان ہے کہ ڈاکٹر سکسینہ کا ایک انگریز  مریض نقی کے پاس یہ جاننے کیلئے چلا آیا کہ علامہ اقبال نے اپنی شاعری میں جس خودی کو بلند کرنے کی تلقین کی ہے ، اسے کس طرح بلند کیا جاسکتا ہے ۔ اگرچہ نقی خود اردو ماحول کا پروردہ ہے ، بلکہ اردو کا ادیب بھی ہے، لیکن اسے بھی نہیں معلوم کہ خودی کو کس طرح بلند کیا جاسکتا ہے۔ چنانچہ اس سوال کے جواب کو ٹالنے کیلئے نقی اس انگریز کو ایک میکدے میں لے گیا اور اسے جیسے ہی اسکاچ وہسکی کے تین چار پیگ پلادیئے ، اس کی خودی اپنے آپ ہی بلند ہوگئی اور وہ ڈاکٹر سکسینہ کے علاج کی تعریف اور علامہ اقبال کی شاعری کے گن گانے لگا۔ نقی کو بھی پہلی بار پتہ چلا کہ خودی کیسی ہوتی ہے اور کیسے بلند ہوتی ہے۔ ڈاکٹر سدھیشور راج کی کمزوری یہ ہے کہ وہ اردو شاعری کے حوالے کے بغیر کوئی بھی کام چاہے وہ اچھا ہو یا بُرا انجام نہیں دے سکتے ۔ حد تو یہ ہے کہ طب جیسے دقیق موضوع پر بھی جب وہ انگریزی میں مضامین لکھتے ہیں تو اس میں جابجا اردو شعروں کے حوالے دیتے رہتے ہیں ۔ انہیں اردو شاعروں کے ہزاروں شعر یاد ہیں جنہیں وہ عام گفتگو میں بھی بے دریغ استعمال کرتے رہتے ہیں۔  پانی بھی مانگنا ہو تو میر تقی میرؔ کے کسی شعر کا حوالہ دیں گے۔ کھانا کھانا ہو تو داغؔ دہلوی کو زحمت دیں گے ۔ سوجانا ہو تو سونے سے پہلے علامہ اقبال کے کسی اچھے سے شعر کی چادر اپنے اوپر تان لیں گے ۔ سدھیشور راج سکسینہ کو اردو کے جتنے شعر یاد ہیں ، اور لندن میں تیس برس گزارنے کے باوجود یاد ہیں، یہ ایک حیرتناک بات ہے ۔ اردو ماحول اور اردو تہذیب میں اتنے ڈوبے ہوئے ہیں کہ انگریز اور انگریزی تہذیب دونوں مل کر بھی ان کا کچھ بگاڑ نہیں سکے۔ 1984 ء میں ہمیں ڈیڑھ دو مہینہ تک لندن میں قیام کرنے کا موقع ملا تھا ۔
ہر محفل میں وہ اپنی دلآویز اردو اور اساتدہ کے ہزاروں اشعار کے ساتھ موجود رہتے تھے۔ تقریر کرتے تو ایسی فارسی آمیز اردو بولتے کہ لندن کے اردو داں حضرات ایک دوسرے کی بغلیں جھانکنے لگ جاتے تھے ۔ سدھیشور راج سکسینہ اچھے کام کے معاملہ میں شدت پسندی کے قائل ہیں۔ نیکی کریں گے تو کرتے ہی چلے جائیں گے ۔ شرافت کا مظاہرہ کریں گے تو رکنے کا نام نہ لیں گے۔ لغت میں نیکی اور شرافت کے جو بھی معنی ہوں گے وہ ان سے بھی آگے نکل جائیں گے ۔ اب یہی دیکھئے کہ سدھیشور راج نہ صرف یہ کہ ہمارے پرانے دوست ہیں بلکہ ہمارے مدّاح بھی ہیں ۔ اگر خدانخواستہ ہماری تعریف میں کبھی رطب اللسان ہوجائیں تو اتنی تعریف کریں گے کہ تعریف تو آگے کو نکل جائے گی اور ہم بہت پیچھے کہیں کھڑے رہ جائیں گے۔ یہی وجہ ہے کہ وہ جب بھی ملتے ہیں تو ہماری ساری کوشش یہ ہوتی ہے کہ انہیں کسی طرح ہماری تعریف کی پٹڑی پر چلنے نہ دیں۔ حد ہوگئی کہ اُس دن بھی باتوں باتوں میں راجہ وجئے کرن سے کہنے لگے ’’وجئے کرن ! کیا کریں آج اردو زبان و ادب کا اتنا چرچہ نہیں رہا ۔ اگر میرا یہ یار انگریزی زبان کا ادیب ہوتا تو آج سارے عالم میں اس کا ڈنکا بج رہا ہوتا ۔ اب تو بیچارے کو خود ہی اپنا ڈنکا آپ بجانا پڑتا ہے‘‘۔ اتنا سنتے ہی ہم نے بیچ میں پڑ کر انہیں ہماری تعریف کی پٹڑی پر چلنے سے زبردستی روکا ۔ اس لئے کہ وہ ہمارے ہر مضمون کو ’معرکتہ الارا‘ قرار دیتے ہیں اور اردو محاورے کی رعایت سے یہ بھی فرماتے ہیں کہ ہم ہر مضمون لکھ کر قلم توڑ دیتے ہیں۔ یوں بھی اردو کا ادیب قلم کو لکھنے کیلئے کم اور اسے توڑنے کے لئے زیادہ استعمال کرتا ہے ۔ ہمیں یاد ہے کہ لندن میں انہوں نے ایک ایسے شخص کے سامنے ہمارے قلم توڑنے کی بات کہی تھی جو اردو ادب سے کما حقہ واقف نہ تھا ۔ اس پر اُس بیچارے نے ہمیں نہایت ہمدردانہ اور مخلصانہ مشورہ دیا تھا کہ ’’میاں ! آپ لکھتے وقت بال پین کا استعمال کیوں نہیں کرتے ۔ زیادہ پائیدار ہوتا ہے‘‘۔ غرض ایسی ہی باتوں کی وجہ سے ہم اپنے یارِ طرحدار سدھیشور راج کو ہماری تعریف کرنے کا موقع عطا نہیں کرتے ۔ بہرحال سدھیشور راج بہت محبت سے ملے ۔ حیدرآبادی تہذیب کا شیرازہ جس طرح بکھر رہا ہے ، اس کا رونا تادیر روتے رہے ۔ بعد میں انہوں نے ازراہ عنایت ہمیں دو کتابیں تحفتاً پیش کیں۔ ایک کتاب تو خود سدھیشور کی تصنیف ہے جسے انہوں نے انگریزی میں لکھا ہے جس کا نام A Sound Mind in a Sound Body ہے۔ اس کتاب میں انہوں نے طب، فلسفہ ، یوگا اور روحانیت کو یکجاکر کے دور جدید کے انسان کی ذہنی ناآسودگیوں اور پیچیدگیوں کو دور کرنے کا نسخہ تجویز کیا ہے ۔ اس کتاب کو ڈاکٹر سکسینہ کی زندگی کا نچوڑ کہا جاسکتا ہے ۔ سچ مچ یہ ایک معرکتہ الارا کتاب ہے ۔ برطانیہ کے کئی نامی گرامی ڈاکٹروں کے علاوہ پرنس مفخم جاہ اور ہما رے دوست نقی تنویر نے اس کتاب کے لئے تعارفی مضامین لکھے ہیں۔ آپ یقین کریں کہ طب جیسے خصوصی موضوع پر لکھی گئی اس کتاب میں بھی ہمیں غالبؔ اور اقبالؔ کے دو شعر مل گئے جن کا بڑا بر محل استعمال ڈاکٹر سکسینہ نے کیا ہے۔
دوسری کتاب کا عنوان ہے ’پیاری کا پکوان‘ جسے پربھا سکسینہ نے جو ڈاکٹر سدھیشور راج سکسینہ کی شریک حیات بھی ہیں ، لکھا ہے ۔ اس میں ایک سو سے زیادہ حیدرآبادی کھانوںکو تیار کرنے کے نسخے درج کئے گئے ہیں ۔ پربھا سکسینہ اپنے گھر میں چونکہ ’پیاری‘ کے نام سے پکاری جاتی ہیں اس لئے اس کتاب کا نام ’پیاری کا پکوان ‘ رکھا گیا ہے ۔ یہ اور بات ہے کہ کتاب انگریزی میں لکھی گئی ہے ۔ یہ بھی ایک اتفاق ہے کہ ان دنوں ہمارے پاس حیدرآبادی پکوان سے متعلق کتابیں زیادہ آنے لگی ہیں اور اس سلسلہ میں ہم پہلے بھی عرض کرچکے ہیں کہ پکوان کی کتابوں پر تبصرہ کرنے کیلئے اگر ہمارے پاس کتابوں کی بجائے کسی حیدرآبادی پکوان کے دو پکے پکائے نمونے روانہ کئے جائیں تو زیادہ مناسب ہوگا ۔ شعر و ادب سے پرانے تعلق کی وجہ سے ہم شعری مجموعوں اور افسانوں کی کتابوں کے صرف سرورق دیکھ کر تبصرہ کردیتے ہیں لیکن پکوان کا معاملہ دوسرا ہے ۔ جب تک کھانے کو خود چکھ کر نہ دیکھیں گے تب تک ذائقہ کا پتہ نہیں چلتا ۔ سدھیشور راج نے اپنی شریک حیات کے بارے میں کیا خوب کہا ہے کہ ’’وہ پیٹ کے راستہ سے ان کے دل میں داخل ہوئی ہیں‘‘۔ انہوں نے یہ انکشاف بھی کیا ہے کہ خود پربھا سکسینہ بھی کھانا بنانے اور بعد میں اسے مہمانوں کی خدمت میں پیش کرنے کے دوران میں اردو کے بے شمار چٹپٹے اور مزیدار شعر سناتی رہتی ہیں۔ (ڈاکٹر سکسینہ جیسے شوہر کی صحبت میں رہنے کا یہی انجام ہوسکتا ہے) چنانچہ اسی مناسبت سے ہر حیدرآبادی کھانے کے نیچے اردو کے کسی شاعر کا شعر رومن رسم الخط میں لکھا گیا ہے اور اس کا انگریزی ترجمہ بھی دیا گیا ہے ۔ اگرچہ ان شعروں کا اس کھا نے سے براہ  راست کوئی تعلق نہیں ہے لیکن ان کا خیال ہے کہ اچھا اردو شعر بھوک کو (ہر قسم کی) اور بھی بڑھا دیتا ہے ۔ چنانچہ سو کھانوں کے پکانے کی ترکیبوں کے نیچے سو اردو شعر بھی لکھے ہوئے ہیں۔ ہم ان شعروں کو یہاں نقل تو نہیں کریں گے البتہ جن شاعروں کے حصہ میں جو حیدرآبادی کھانے آئے ہیں ان کی دو چار مثالیں پیش کرنا چاہیں گے۔ (دہی وڑا۔ علامہ اقبالؔ)۔ (شامی کباب ۔ مومنؔ)۔ (دہی اور گوشت کا سالن ۔ مرزا غالبؔ) ۔ چکن مصالحہ ۔ خواجہ میر دردؔ) ۔ (قبولی۔ میر تقی میرؔ) ۔ ہری مرچ کے سالن کی ترکیب کے نیچے حسرتؔ موہانی کا حسب ذیل شعر لکھا گیا ہے   ؎
مرمٹے ہم تو ، کبھی یاد بھی تم نے نہ کیا
اب محبت کا نہ کرنا کبھی وعدہ دیکھو
ویسے تو ہمیں مشورہ دینے کا کوئی حق نہیں پہنچتا لیکن ہری مرچ کے سالن کی خاصیت اور شعر کی معنویت میں مطابقت پیدا کرنے کیلئے یہاں اردو کا صرف یہ مصرعہ لکھ دیا جاتا تو کافی تھا۔
دونوں طرف ہے آگ برابر لگی ہوئی
ہم یہ تو نہیں کہیں گے کہ پربھا سکسینہ نے اس معرکتہ الارا کتاب کو لکھتے وقت قلم توڑ کر رکھ دیا ہے کیونکہ یہاں قلم توڑنے کی گنجائش بھی نہیں ہے ۔ البتہ پکوان سے متعلق اس کتاب کی تیاری کے سلسلہ میں پربھا سکسینہ نے کئی برتن تو ضرور توڑے ہوں گے۔ ہمیں یقین ہے کہ اس برتن توڑ کتاب کی خاصی پذیرائی ہوگی ۔ ہمارے اس قلم توڑ تبصرے کے باوجود کوئی صاحب مندرجہ بالا کتاب کے بارے میں مزید معلومات حاصل کرنا چاہتے ہوں تو مندرجہ ذیل پتہ پر ربط پیدا کرسکتے ہیں۔
Dr. Sidheshwar raj Saxena “Prasidh” 12-C Alleyn road west, Dulwich – SE 21-8 A1- LONDON
دو گھنٹوں کی ملاقات کے بعد جب ہم جانے لگے تو ڈاکٹر سکسینہ ہم سے بغلگیر ہوتے ہوئے محبوب حسین جگر مرحوم کو یاد کر کے اچانک آبدیدہ ہوگئے ۔ بولے’’حیدرآباد کو جن لوگوں نے حیدرآباد بنایا تھا ، اب وہ اس شہر میں نہیں رہے تو یہ شہر خالی خالی سا ہوگیا ہے ‘‘۔ ہماری دعا ہے کہ سدھیشور راج سکسینہ لندن میں خوش و خرم رہیں تاکہ ہمیں یہ شہر بھرا بھرا نظر آتا رہے۔
(7 فروری 1999 ئ)
(پس نوشت: افسوس کہ چار برس پہلے سدھیشور راج سکسینہ بھی لندن میں سورگباش ہوگئے  ؎  ’’کیا تیرا بگڑتا جو نہ مرتا کوئی دن اور‘‘  (مجتبیٰ حسین)