ڈاکٹر رام پرشاد

میرا کالم مجتبیٰ حسین
ادھر چند دنوں سے ہم اپنے برسوں پرانے کاغذوہ ، تصویروں ، مسودوں اور اپنے نام آئے ہوئے دوستوں کے خطوط وغیرہ کو سمیٹنے ، ان میں سے بعض کو تلف کرنے اور بعض کو محفوظ رکھنے میں جٹے ہوئے ہیں ۔ ایسی بے ہنگم اور غیر منظم زندگی گزاری ہے کہ اب کچھ یاد نہیں آتا کہ ہم نے کب کیا حرکت کی تھی اور کیوں کی تھی ؟، ان پرانے کاغذات میں ہمیں اردو کے صاحب طرز طنز نگار آنجہانی کنہیا لال کپور کا ایک خط بھی ملا جسے انہوں نے 28 اگست 1968 ء کو ہماری ہمت افزائی وغیرہ کے سلسلے میں لکھا تھا ۔ یہ اور بات ہے کہ اس خط کے حاشیے میں دھوبی کا ہمارا حساب بھی لکھا ہوا ہے کہ ہم نے اتنے پاجامے ، اتنی پتلونیں اور اتنے کرتے وغیرہ دھوبی کو دھونے کیلئے دیئے ہیں ۔ پھر اس کی پشت پر ہمارے گھر کے مہینے بھر کے سامان جیسے چاول ، دال ، ہلدی ، مرچ، نمک وغیرہ کی فہرست بھی لکھی ہوئی ہے ۔ ہمیں اب یاد نہیں کہ ہم نے کنہیا لال کپور کو اس خط کا جواب بھی دیا تھا یا نہیں ؟ دھوبی نے کپڑے دھوکر دیئے تھے یا نہیں؟ گھر کا سامان آیا تھا یا نہیں ؟ ،بہرحال یہ خط ہمیں اپنی اس بے ہنگم زندگی کی یاد دلاتا ہے ، جب ہم طنز نگاری میں دھوبی کے حساب کو ملا دیتے تھے اور مہینے بھر کے سامان کی فہرست میں مزاح کی ملاوٹ کردیتے تھے ۔ ان ہی کاغذات میں ہمیں ایک چھوٹا سا پرزہ بھی ملا ہے جو آج ہماری توجہ کا مرکز ہے ۔ یہ وہ مختصر سا خط ہے جسے آنجہانی رائے جانکی پرشاد نے ہمیں 1958 ء میں اس وقت لکھا تھا جب ہم ’سیاست‘ میں کام کرنے کے علاوہ ’’انتخاب پریس‘‘ کے مینجر بھی ہوا کرتے تھے ۔ اس خط کا متن ہے : ’’مجتبیٰ میاں ! انڈین کونسل فار سوشیل ویلفیر کی کانفرنس سرپر آرہی ہے اور اس کی رپورٹ کی طباعت میں تاخیر ہوتی جارہی ہے ۔ آپ کو میں عزیز رکھتا ہوں، اس لئے آپ کو نصیحت کرنے کا بھی حق رکھتا ہوں۔ آپ نوجوان ہیں اور آپ کو ایک ذمہ دار شہری بننا ہے۔ لہذا آپ جو بھی وعدہ کریں ، اس پر قائم رہیں تو مجھے خوشی ہوگی ۔ رپورٹ کی طباعت میں اب آپ مزید تاخیر نہ ہونے دیں تو بہتر ہوگا ‘‘۔ رائے جانکی پرشاد بڑے وضع دار بزرگ تھے ۔ پولیس ایکشن کے بعد حیدرآباد میں کتنوں کی شیروانیاں اُتر گئیں اور ٹوپیاں سروں سے غائب ہوگئیں، لیکن رائے جانکی پرشاد نے آخری وقت تک اپنی شیروانی اور ٹوپی کو اپنے سے الگ نہ ہونے دیا۔ وہ حیدرآبادی تہذیب کا بہترین نمونہ تھے۔ ہماری جب اُن سے ملاقات ہوئی تو محکمۂ اطلاعات سے ریٹائرمنٹ کے بعد وہ نواب  مہدی نواز جنگ کی سرپرستی میں انڈین کونسل فار سوشیل ویلفیر کے کاموں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا کرتے تھے (وہ غالباً کونسل کے نائب صدر تھے) ۔ محترمہ روڈا مستری کا تعلق بھی اسی تنظیم سے تھا (وہ غالباً کونسل کی سکریٹری تھیں) اُس قت تک وہ نہ تو ریاستی وزیر بنی تھیں اور نہ ہی پارلیمنٹ کی رکن ۔ سماجی اور فلاحی کاموں میں جو کارنامے انہوں نے اس وقت کے حیدرآباد میں انجام دیئے، وہ ہمیشہ یاد رکھے جائیں گے۔ روڈا مستری بھی ہمیں بہت عزیز رکھتی تھیں۔ بات دراصل یہ تھی کہ رائے جانکی پرشاد رپورٹ کا جو مسودہ طباعت کیلئے روانہ کرتے تھے اور اسے جس طرح چھپوانا چاہتے تھے، اس میں روڈا مستری بسا اوقات اپنی سوچ کے مطابق نئے نکتے اور نئے کام نکال دیتی تھیں جس کی وجہ سے طباعت کے کام میں تاخیر ہوجایا کرتی تھی۔ اب ہم یہ بات نہ تو رائے جانکی پرشاد کو بتاسکتے تھے اورنہ ہی روڈا مستری کی کسی بات کو ٹالنے کی ہم میں ہمت تھی۔ اس لئے کہ دونوں ہی ہستیاں ہمارے لئے بے حد محترم تھیں۔ گویا چکی کے دو پاٹوں کے بیچ چپ چاپ پسے چلے جاتے تھے۔ ’’ایماں مجھے روکے ہے تو کھینچے ہے مجھے کفر‘‘ والا معاملہ تھا۔
ہمیں یاد ہے کہ رائے جانکی پرشاد کی مندرجہ بالا تنبیہہ کے بعد ایک رات دو بجے تک ہم نے پریس کے عملے کو رکواکر رپورٹ کی کمپوزنگ مکمل کروائی اور صبح کی ابتدائی ساعتوں میں گھر پہنچ کر دو گھنٹے بھی آرام نہیں کیا تھا کہ علی الصباح روڈا مستری خود اپنی جیپ چلاتی ہوئی پرانے شہرمیں ہمارے غریب خانے پر یہ کہتی ہوئی آگئیں کہ ابھی میرے ساتھ چل کر رپورٹ کی کمپوزنگ مجھے دکھا دیجئے اور ہمیں ان کے حکم کی تعمیل میں نہار پیٹ ہی ان کے ساتھ چلے جانا پڑا۔ چاہے کچھ بھی ہو ، اتنے لمبے عرصہ بعد رائے جانکی پرشاد کا یہ پرانا خط ہمیں ملا تو احساس ہوا کہ آج یہ جو ہم ایک ذمہ دار شہری بلکہ بزرگ شہری بنے ہوئے ہیں تو یہ رائے جانکی پرشاد کی تنبیہہ کا ہی نتیجہ ہے۔ ملے پلی میں جس گھر میں وہ رہتے تھے ، اب وہاں سے گزرنے والی سڑک کا نام رائے جانکی پرشاد روڈ رکھ دیا گیا ہے ۔ لہذا اس سڑک سے ہم جب بھی گزرتے ہیں تو ان کے احترام میں نہایت مہذب اور شائستہ انسان بن کر حیدرآبادی تہذیب کو اپنے اوپر اوڑھ لیتے ہیں۔ جب وہ حیات تھے تو ہم اکثر  ان کے گھر جایا کرتے تھے اور ان کی مداراتوں کے علاوہ شفقتیں بھی سمیٹ کر لے آتے تھے۔ ایک زمانے میں حیدرآباد کے سینکڑوں گھروں میں ہمارا آنا جانا تھا لیکن اب بیشتر گھروں کے دروازے ہم پر بند ہوچکے ہیں کیونکہ ان کے مکین اب وہاں نہیں رہے لیکن دو چار گھر ایسے ضرور رہ گئے ہیں جہاں ہمارا اب بھی آنا جانا ہے اور ان میں ایک گھر رائے جانکی پرشاد کا بھی ہے ۔ اس لئے کہ اس گھر میں اب رائے جانکی پرشاد کے لائق فرزند اور ہمارے دوست ڈاکٹر رام پرشاد  رہتے ہیں۔ یہ اور بات ہے کہ پہلے اس گھر میں ہم مودبانہ انداز میں جایا کرتے تھے اور اب بے تکلفانہ اور دوستانہ انداز میں جاتے ہیں۔
عثمانیہ یونیورسٹی میںڈاکٹر رام پرشاد ہمارے ہم عصر تھے ۔ اگرچہ وہ سائنس کے طالب علم تھے لیکن اردو اور اردو کلچر کے رشتے سے ہمیں بہت اچھے لگتے تھے ۔ اب ان کا شمارحیدرآباد کے بیحد نامی گرامی اور سرکردہ ڈاکٹروں میں ہوتا ہے اور یہ ان دو چار ڈاکٹروں میں سے ہیں جو آج بھی اردو کے ذریعہ اپنے مریضوں کا علاج کرتے ہیں۔ ان کی سب سے بڑی خوبی جو ہمیں پسند ہے، وہ یہ کہ بڑے خوش مذاق انسان ہیں (زندہ دلان حیدرآبادکی محفلوں میں لطیفے بھی سناتے ہیں ) ۔ مریض کا حال کچھ ایسی خوش دلی کے ساتھ پوچھتے ہیں کہ مریض اپنے مرض کی کیفیات اور تکالیف  کو یکسر بھول جاتا ہے بلکہ یہ کہا جائے تو بے جا نہ ہوگا کہ ان کی دلفریب باتوں سے ہی شفایاب ہوجاتا ہے اور یوں اسے دوا کی حاجت نہیں رہ جاتی۔ مگر مشکل یہ ہے کہ موصوف عام فہم اردو نہیں بولتے۔ یہ ہمارے سامنے کی بات ہے کہ ایک دن انہوں نے ایک مریضہ سے پوچھا ’’کیا آپ کو اعضا شکنی بھی ہوتی ہے ؟ ‘‘۔ اس پر مریضہ کا منہ حیرت سے کھل گیا ۔ کچھ دیر سوچتی رہی ، پھر کیا ’’ڈاکٹر صاحب دل شکنی کی بات تو میں نے سنی تھی ، اس لئے کہ کئی لوگوں نے میرا دل چکنا چور کردیا ہے ۔ یوں بھی دل شکنی کوئی مرض نہیں ہے بلکہ یہ تو ہماری سماجی زندگی کا معمول ہے ۔ مجھے لگتا ہے اعضا شکنی ضرور کوئی خطرناک بیماری ہے‘‘۔ اس پرڈاکٹر صاحب نے اسے دلاسہ دیتے ہوئے کہا ’’بی بی ! پریشان ہونے کی کوئی بات نہیں ، اعضا شکنی کوئی خطرناک بیماری نہیں ہے ۔ میں تو صرف یہ جاننا چاہتا ہوں کہ کہیں آپ کے بدن میں درد تو نہیں ہوتا ‘‘۔ مریضہ نے اطمینان کا لمبا سانس لے کر کہا ’’ڈاکٹر صاحب ! تو پھر آپ نے سیدھے سیدھے یہ بات کیوں نہیں پوچھی ؟ ۔ اعضا شکنی کہہ کے مجھے کیوں ڈرا دیا ؟ ‘‘۔ جب مریضہ چلی گئی تو ہم نے ڈاکٹر رام پرشاد سے کہا ’’ڈاکٹر صاحب ! آپ اپنے مریضوں سے آسان اردو میں بات کیوں نہیں کرتے؟ ۔ بعض او قات آپ کی اردو سے مریض پریشان بھی ہوجاتے ہیں۔ اگر خدانخواستہ انہیں کچھ ہوگیا تو ؟ ‘‘ ہنس کر بولے ’’میں نہ صرف اپنے مریضوں کو زندہ رکھنا چاہتا ہوں بلکہ اردو زبان کو بھی زندہ رکھنا چاہتا ہوں‘‘۔
اطلاعاً عرض ہے کہ پچھلے دنوں حیدرآباد کی ایک تقریب میں جب ہم نے ڈاکٹر رام پرشاد کا تعارف ممتاز پاکستانی شاعر احمد فرازؔ سے کراتے ہوئے اردو کے ذریعے مریضوں کا علاج کرنے سے متعلق ان کے کچھ لطیفے احمد فراز کو سنائے تو احمد فرازؔ نے ڈاکٹر رام پرشاد سے کہا ’’ڈاکٹر صاحب ! آپ تو سچ مچ معالجِ اردو کہلائے جانے کے مستحق ہیں‘‘۔ احمد فراز نے ڈاکٹر رام پرشاد کو یہ جو لقب عطا کیا ہے ، وہ ہمیں نہایت موزوں لگتا ہے ۔ یہ بھی ہمارے سامنے کی بات ہے کہ ایک دن انہوں نے ایک مریضہ سے پوچھا ’’کیا آپ کے پیٹ میں گرانی محسوس ہوتی ہے ؟ ‘‘ ۔ اس پر مریضہ اپنا دکھڑا سنانے بیٹھ گئی ۔ ’’ڈاکٹر صاحب ! سارا ٹنٹا تو پیٹ اور گرانی کا ہی ہے ۔ پیٹ بڑا بدکار ہے ۔ اس کی خاطر آدمی کو کیا کچھ نہیں کرنا پڑتا۔ دوسری طرف گرانی کا یہ حال ہے کہ پیاز بارہ روپئے کیلو بک رہی ہے ۔ اناج اور دالوں کے دام بڑھ رہے ہیں۔ ڈاکٹروں نے فیس بڑھادی ہے ۔ کوئی سبزی سستی نہیں ہے ۔ ایک طرف پیٹ کی آگ بجھنے کا نام نہیں لیتی اور دسری طرف گرانی کی وجہ سے چولہے کی آگ جلنے کا نام نہیں لیتی۔ ‘‘ مریضہ کے مرض کی اس کیفیت کو سن کر ہم ہنسنے لگے تو ڈاکٹر صاحب خفیف سے ہوگئے ۔ بولے ’’بی بی ! میں ملک کی معاشی صورتحال پر آپ کا تبصرہ نہیں سننا چاہتا بلکہ یہ جاننا چاہتا ہوں کہ کبھی آپ کا پیٹ بھاری تو نہیں لگتا ؟ ‘‘۔معصومیت سے بولی ’’جب جب میرے پانو بھاری ہوجاتے ہیں تو پیٹ بھی بھاری ہوجاتا ہے ‘‘۔ مریضہ کے اس معصوم جواب کو سن کر ہم اپنی ہنسی پر قابو نہ رکھ سکے اور تھوڑی دیر کیلئے ان کے کمرے سے باہر آگئے۔
ڈاکٹر رام پرشاد جب بھی اردو داں مریضوں کیلئے نسخے لکھتے ہیں تو ضروری ہدایات اردو میں ہی لکھتے ہیں ۔ ایک دن ایک مریض ان کا نسخہ لے کر یہ پوچھنے کیلئے آیا ’’ڈاکٹر صاحب ! آپ نے اپنے نسخے میں ایک دوا ، نصف النہار، بھی لکھی ہے جو کسی دکان پر دستیاب نہیں ہے ۔ اس کی جگہ آپ کوئی دوسری دوا لکھ دیں ‘‘۔ ہم نے یوں ہی نسخے میں جھانک کر دیکھا تو ڈاکٹر صاحب کی ہدایت پر نظر پڑی۔ ’’یہ گولی نصف النہار سے پہلے کھائی جا ئے ‘‘۔ بھلا بتایئے کیا اردو کو زندہ رکھنے کیلئے نصف النہار کو بھی زندہ رکھنا ضروری ہے۔
ڈاکٹر رام پرشاد کے علاج معالجے کے بارے میں ہمیں کئی لطیفے یاد ہیں، لیکن ہم یہ کالم اصل میں ان سے ایک حالیہ ملاقات کا ذکر کرنے کی غرض سے لکھ رہے ہیں۔ ہم جب بھی حیدرآباد جاتے ہیں تو بر بنائے دیرینہ تعلقات اور اپنی خرابی صحت کے باعث ان سے ضرور ملاقات کرتے ہیں اور عموماً ان کے ہاں ایک وقت کا کھانا بھی ضرور کھاتے ہیں جس میں وہ ہمیں ایسے کھانے بھی بالالتزام کھلاتے ہیں جن سے پرہیز کرنے کی وہ اپنے نسخوں میں ہمیں تلقین فرماتے رہتے ہیں ۔ ایک اعتبار سے انہوں نے ہم پر یہ پابندی بھی عائد کر رکھی ہے کہ جب بھی ہم ملے پلی میں کسی گھر میں کھانا کھائیں تو اس گھر میں اور ان کے گھر کے درمیان دو کیلومیٹر کا فاصلہ ضرور برقرار رکھیں۔ جس طرح پہلوانوں اور ڈان حضرات کے علاقے ہوتے ہیں، اسی طرح انہوں نے ہمارے کھانے کابھی علاقہ مقرر کر رکھا ہے ۔ البتہ ایک بار ضرور اس اصول کی خلاف ورزی ہوئی تھی جب شکاگو کے عکاسِ اردو حامد علی نے ملے پلی میں اپنے گھر ہمیں کھانے پر بلایا تھا جس میں خود ڈاکٹر رام پرشاد بھی مدعو تھے اور حامد علی کے گھر کی خوبی یا خرابی یہ ہے کہ یہ ڈاکٹر رام پرشاد کے گھر سے نہ صرف ملحق ہے بلکہ ان کے گھر کے صحن کا دروازہ خود ڈاکٹر رام پرشاد کے گھرمیں بھی کھلتا ہے۔ گویا قانونی اعتبار سے حامد علی کے گھر کو بھی ڈاکٹر رام پرشاد کا گھر ہی سمجھا جاسکتا ہے ۔اگرچہ حامد علی نے ہماری دعوت کا اہتمام بڑے جتن کے ساتھ اپنے گھر کے صحن میں ہی کیا تھا ، مگر اس شام ایسی زبردست آندھی چلی کہ سارا انتظام درہم برہم ہوگیا  اور حامد علی کے گھر میں پکے ہوئے کھانوں کو بالآخر رام پرشاد کے گھر میں لے جاکر کھانا پڑا۔
بہرحال ڈیڑھ مہینہ پہلے ایک دن جب ہم نے ڈاکٹر رام پرشاد سے کہا کہ ہم ان سے طبی مشورہ کرنے کی غرض سے ان کے مطب پر آرہے ہیں تو انہوں نے حسب معمول ہمیں دوپہر کے کھانے پر مدعو کرلیا ۔ اب جو ہم مقررہ وقت پر ان کے مطب پر پہنچے تو ان کی ریسپشنسٹ نے بتایا کہ آج ڈاکٹر صاحب نے اپنے مطب سے جلدی چھٹی کرلی ہے اور اپنے مریضوں کو بھی واپس کردیا ہے ۔ ہم نے پوچھا ’’کہیں خدانخواستہ ڈاکٹر صاحب کی طبیعت تو خراب نہیں ہوگئی ؟ اس لئے کہ ابھی دو گھنٹے پہلے تو انہوں نے خود فون پر ہمیں یہاں آنے کیلئے کہا تھا ‘‘۔ ریسپشنسٹ نے کہا ’’ڈاکٹر صاحب بالکل خیریت سے ہیں اور اس وقت اپنے گھر پر کچھ پکوان وغیرہ کا انتظام کرنے گئے ہیں‘‘۔ ہم نے پو چھا ’’کیا ڈاکٹر صاحب نے ان دنوں پریکٹس چھوڑ کر پکوان کا کاروبار بھی شروع کردیا ہے‘‘ ؟ ، ہنس کر بولی ’’آج ڈاکٹر صاحب نے بے خیالی میں اپنے گھر پر دہلی سے آئے ہوئے اپنے کسی بن بلائے دوست کو کھانے پر بُلا لیا ہے ۔ انہیں یہ یاد نہیں رہا کہ آج ’یوم خواتین ‘ ہے اور بیگم رام پرشاد ’یوم خوا تین‘ سے متعلق کسی تقریب میں شرکت کیلئے گھر سے باہر گئی ہوئی ہیں ۔ اس لئے خود ڈاکٹر صاحب کو دعوت کا اہتمام کرنے کی خاطر جانا پڑا‘‘ ۔ ہم نے اُن کے کمپاؤنڈر کے بارے میں پوچھا تو بولی ۔ ’’وہ بھی غالباً کسی ہوٹل سے کچھ کھانا و غیرہ لانے کے لئے گئے ہیں‘‘۔
بعد میں ہم ڈاکٹر رام پرشاد کے گھر گئے تو دیکھا کہ وہ دعوت کے انتظام میں سرگرم عمل ہیں اور کچن سے ڈائننگ روم اور ڈائننگ روم سے کچن کی طرف آ جا رہے ہیں۔ کہنے لگے ’’حضرت ! آپ کی وجہ سے ہمیشہ کوئی نہ کوئی مزاحیہ صورتحال ضرور پیدا ہوجاتی ہے ‘‘۔ ہم نے جب انہیں بتایا کہ ان کی ریسپشنسٹ کے ذریعہ ہمیں ساری صورتحال کا پتہ چل گیا ہے تو خوب ہنسے ۔ بیگم رام پرشاد اُس دن سہ پہر میں عین اُس وقت گھر واپس ہوئیں ، جب ان کی غیر موجودگی سے فائدہ اُٹھاکرہم پرتکلف کھانا کھانے میں مصروف تھے ۔ وہ بھی اس صورتحال سے خاصی لطف اندوز ہوئیں اور انہیں یہ بھی پتہ چل گیا کہ ’یوم خواتین‘ اگر ہر روز منایا جائے تو اس کے کتنے فائدے ہوسکتے ہیں۔ اس دن ڈاکٹر رام پرشاد نے ہماری سہولت کی خاطر اپنے فرزند ڈاکٹر روی کمار کو بھی بلا لیا تھا جو خود بھی حیدرآبادکے نہایت سرکردہ ڈاکٹر ہیں ۔ رام جانکی پرشاد نے اپنی اولاد کو جو تربیت دی ہے ، اس کا اثر ڈاکٹر روی کمار پر بھی صاف دکھائی دیتا ہے۔ بہرحال معالج اردو ڈاکٹر رام پرشاد کی محبت ہمارے لئے ایک قیمتی اثاثہ ہے ۔ یہ بات بھی قابل  غور ہے کہ ڈاکٹر رام پرشاد اردو ادیبوں کا مفت علاج کرتے ہیں بلکہ ادیب اگر اچھا ہو تو اسے کھانا بھی کھلاتے ہیں۔ یہی نہیں ادیب اگر مزاح نگار ہو تو اس کا بڑی توجہ اور انہماک کے ساتھ علاج کرتے ہیں۔ کہتے ہیں کہ جو فنکار لوگوں میں ہنسی کی دولت بانٹتا ہے ، اس کا رتبہ بھی ڈاکٹر کے برابر ہوتا ہے کیونکہ ایک اچھے سماج کی صحت کا انحصار اس کی حس مزاح پر ہوتا ہے ۔ ہماری دعا ہے کہ ڈاکٹر رام پرشاد حسب دستور صحت منداور توانا رہیں اور ان کی حس مزاح بھی پروان چڑھتی رہے۔
(9 ستمبر 2004 ء)
(پس نوشت افسوس کہ ڈاکٹر رام پرشاد 7 مارچ 2016 ء کو اس دنیا سے چل بسے)