محمد ریاض احمد
مشہور و معروف اسلامی اسکالر و مبلغ اور پیس ٹی وی کے بانی ڈاکٹر ذاکر نائیک کے آج کل کافی چرچے ہیں۔ ہندوستانی میڈیا انہیں نہ صرف دہشت گردوں کا ہمدرد بلکہ دہشت گردوں کو ایک نیا عزم و حوصلہ اور انہیں دہشت گردانہ کارروائیوں کی ترغیب دینے والا ثابت کرنے میں ایک دوسرے پر سبقت لے جارہا ہے۔ اب سوال یہ پیدا ہورہا ہیکہ میڈیا اور سنگھ پریوار کے قائدین ڈاکٹر ذاکر نائیک کو ہی نشانہ کیوں بنارہے ہیں؟ اس سوال کا جواب تلاش کرنے کی کوشش کی جائے تو سب سے پہلے یہ بات سامنے آئی ہیکہ ڈاکٹر ذاکر نائیک مخلتف مذاہب کے تقابلی جائزہ میںکافی مہارت رکھتے ہیں۔ وہ دلائل کے ساتھ لوگوں پر اسلام کی حقانیت واضح کرنے میں کوئی کسر باقی نہیں رکھتے نتیجہ میں دیگر مذاہب کے ماننے والے تعلیمیافتہ مرد و خواتین ان سے کافی متاثر ہوتے ہیں۔ ان کے دلوں میں دین اسلام کی سچائی اور اس کی حقیقت کی شمع روشن ہوجاتی ہے۔ ڈاکٹر ذاکر نائیک کے دلائل سے متاثر ہونے والوں میں عیسائیوں، ہندوؤں، بدھسٹوں کی اکثریت ہوتی ہے۔ وہ اسلام اور دوسرے مذاہب کا اس ماہرانہ انداز میں تقابل کرتے ہیں کہ حق کے متلاشیوں کو ان کی منزل دکھائی دینے لگتی ہے اور دیکھتے ہی دیکھتے وہ دامن اسلام میں پناہ لے لیتے ہیں۔ ڈاکٹر ذاکر نائیک کے لیکچرس اور ان کے جلسوں میں دین اسلام قبول کرنے والوں میں صدفیصد مرد و خواتین انتہائی تعلیمیافتہ ہوتے ہیں۔ جہاں بھی وہ کسی جلسہ، سمینار یا کانفرنس میں شریک ہوتے ہیں وہاں لوگ آغوش اسلام میں پناہ لیتے ہیں۔ ایسا صرف ممبئی یا ہندوستان کے ہی کسی دوسرے شہروں میں نہیں ہوتا بلکہ دوبئی وغیرہ میں بھی ہوتا ہے۔
لوگ اسلامک ریسرچ سنٹر کے سربراہ کی دلیلوں سے پُر خطابات سن کر دین اسلام کی جانب کھینچے چلے آتے ہیں۔ ایسے میں ہندوتوا اور دیگر اسلام دشمن طاقتیں ڈاکٹر ذاکر نائیک کو گھیرنے کی تلاش میں تھیں اور انہیں یہ موقع بنگلہ دیش کی تحقیقاتی ایجنسیوں نے فراہم کردیا۔ بنگلہ دیشی تحقیقاتی ایجنسیوں نے بنگلہ دیش کی ایک مشہور و معروف کیفے میں پیش آئے فائرنگ واقعہ کے ضمن میں گرفتار مبینہ دہشت گردوں کے حوالے سے یہ انکشاف کیا کہ یہ ملزمین ڈاکٹر ذاکر نائیک کے خطابات سنا کرتے تھے اور ان سے کافی متاثر تھے۔ ان خطابات کے باعث ہی انہیں دہشت گردانہ کارروائی انجام دینے کی ترغیب ملی۔ بنگلہ دیش میں پیش آئے اس دہشت گردانہ واقعہ میں 22 سے زائد لوگ ہلاک اور درجنوں زخمی ہوئے تھے جو بیرونی ملکوں سے تعلق رکھتے تھے ماہ رمضان المبارک کے دوران اس طرح کے افسوسناک واقعہ نے بنگلہ دیش کے علاوہ پڑوسی ملکوں میں خوف و دہشت کی لہر دوڑا دی ۔ دہشت اس وجہ سے پیدا ہوئی کیونکہ آئی ایس آئی ایس یا داعش نے اس حملہ کی ذمہ داری قبول کی تھی جس کا مطلب یہ نکالا گیا کہ داعش ہندوستان کے بالکل قریب پہنچ چکی ہے جبکہ داعش کا پاکستان تک پہنچنا اس لئے ضروری نہیں ہے کیونکہ وہاں ایسی بے شمار تنظیمیں گروہ اور طاقتیں ہیں جو مسجدوں، امام باڑوں، سڑکوں، گلیوں اور بستیوں میں اپنے ہی بھائیوں کو دھماکوں سے اڑا کر ان کے جسموں کو گولیوں سے چھلنی کرتے ہوئے اور ان کے گلوں پر چھریاں چلا کر داعش کے دہشت گردوں کو بھی شرمندہ کردیتے ہیں۔ بہرحال جب اعلیٰ تعلیمیافتہ مرد و خواتین اپنے مذاہب ترک کرتے ہوئے آغوش اسلام میں پناہ لیتے ہیں تو یہ لازم ہیکہ ان کے مذہبی ٹھیکیداروں میں بے چینی پیدا ہو۔ اب ایسی ہی بے چینی میڈیا اور فرقہ پرستوں میں پیدا ہوئی لیکن افسوس کی بات یہ ہیکہ مسلک کے نام پر ڈاکٹر ذاکر نائیک کی مخالفت کرنے والے بھی اسلام دشمن میڈیا اور فرقہ پرستوں کی ہاں میں ہاں ملارہے ہیں۔ وہ ڈاکٹر نائیک کو دہشت گردوں کا سب سے بڑا ہمدرد ثابت کرنے میں کوئی کسر باقی نہیں رکھ رہے ہیں حالانکہ اس نازک دور میں ہمیں فروعی اختلافات کو فراموش کرتے ہوئے کلمہ کی بنیاد پر متحد ہونے کی ضرورت ہے ورنہ وہ اسلام دشمن طاقتیں جو دہشت گردوں کی ہمدردی کا الزام عائد کرتے ہوئے ڈاکٹر ذاکر نائیک، اسلامک ریسرچ سنٹر اور پیس ٹی وی کو نشانہ بنارہی ہیں کل وہی طاقتیں ہمیں بھی نشانہ بنائیں گی وہ نہیں دیکھیں گی کہ ہم اہلسنت الجماعت ہیں، تبلیغی جماعت سے تعلق رکھتے ہیں، جماعت اسلامی سے وابستہ رہ کر دعوت دین کا کام کررہے ہیں یا پھر اہلحدیث سے ہماراتعلق ہے بلکہ اسلام دشمن طاقتیں صرف یہ دیکھتی ہیں کہ ہم مسلمان ہیں یا نہیں۔
یہ وقت اختلافات کو منظرعام پر لا کر کسی کی گرفتاری کے مطالبہ یا کسی کی تباہی و بربادی کے خواہاں ہونے کا نہیں بلکہ امت مسلمہ کو ایک سیسہ پلائی ہوئی دیوار کی طرح دشمنان اسلام کے سامنے ڈٹ جانے کا وقت ہے۔ ہم سب کو یہ بات ذہن نشین رکھنی چاہئے کہ 50 سالہ ڈاکٹر ذاکر نائیک کو میڈیا اور فرقہ پرست صرف اور صرف ان کی دعوت دین کے باعث نشانہ بنارہے ہیں۔ میڈیا اور فرقہ پرستوں کا کہنا ہیکہ ڈاکٹر نائیک دہشت گردوں کیلئے ترغیب دینے کا باعث بنے ہوئے ہیں۔ ان کے خطابات سن کر نوجوان دہشت گردی کی طرف مائل ہورہے ہیں۔ اس سلسلہ میں ہندوستان میں بڑھتے جنسی جرائم کی مثال لی جاسکتی ہے۔ ہمارے ملک میں ہر گھنٹہ کئی خواتین اور لڑکیوں کی عصمتیں تار تارکی جاتی ہیں، کئی خواتین کو گھریلو تشدد کا نشانہ بنایا جاتا ہے، انہیں جہیز کیلئے زندہ جلا دیا جاتا ہے۔ ایسے میں اگر اس طرح کے بھیانک جرائم انجام دینے والے یہ دعویٰ کریں کہ وہ فلاں سیاسی قائد، فلاں فلمسٹار سے متاثر ہوکر ان جرائم کا ارتکاب کر رہے تو کیا اس سیاسی قائد اور فلمسٹار کو گرفتار کیا جائے گا؟ اس کی حرکات و سکنات پر نظر رکھی جائے گی؟ اس کے تقاریر کا بغور جائزہ لیا جائے گا؟ نہیں!! تو پھر میڈیا اور فرقہ پرست طاقتیں ڈاکٹر ذاکر نائیک کے پیچھے کیوں پڑے ہیں؟ اس کا ایک ہی جواب ہیکہ وہ ڈاکٹر ذاکر نائیک کی تبلیغ دین سے کافی پریشان ہیں۔ انہیں اپنی قوم کے تعلیمیافتہ نوجوانوں کے دین اسلام قبول کرنے پر تشویش ہے۔ بنگلہ دیش میں پیش آئے دہشت گردانہ واقعہ کے بعد تو ہندوستانی میڈیا میڈیا نے ایسی چیخ و پکار شروع کی کہ ہندوستانی تحقیقاتی ایجنسیاں ڈاکٹر ذاکر نائیک کے خطابات کی سی ڈیز کا جائزہ لینے لگی ہیں۔ ہمیں یقین ہیکہ اگر تحقیقاتی عہدیدار غیرجانبدارانہ اور غیرمنصفانہ انداز میں ڈاکٹر ذاکر نائیک کی سی ڈیز کا جائزہ لیں تو وہ بھی ان ہزاروں نوجوان لڑکے لڑکیوں کی طرح متاثر ہوں گے جنہوں نے اسلام کی حقانیت جان کر دامن اسلام میں پناہ لیتے ہوئے خود کو نارجہنم سے بچانے کا سامان کرلیا ہو۔ ایسے ہی نہیں ہوتا بلکہ اللہ عزوجل جسے ہدایت دیتے ہیں اس کا دل ایمان کی روشنی سے منور ہوتا ہے۔ جہاں تک مرکز میں بی جے پی کی زیراقتدار این ڈی اے حکومت کا سوال ہے اس کے اکثر وزراء جن کا تعلق سنگھ پریوار کی ذیلی تنظیموں سے ہے اس طرح کے واقعات کا استحصال کرتے ہوئے اسے اپنے مفادات کی تکمیل کیلئے استعمال کرتے ہیں۔ اس معاملہ میں کسی قسم کی تاخیر نہیں کرتے اور نہ ہی غفلت برتتے ہیں۔ چنانچہ مرکزی وزیرداخلہ راجناتھ نے متعصب اور جانبدار میڈیا کی ہاں میں ہاں ملاتے ہوئے اعلان کیا کہ ہم کسی بھی قیمت پر دہشت گردی پر کوئی سمجھوتہ نہیں کریں گے۔ راجناتھ سنگھ کو یہ جان لینا چاہئے کہ آپ یا آپ کی حکومت تو دور ہے ہندوستان کا ہرمحب وطن شہری چاہے وہ ہندو ہو یا مسلمان دہشت گردی کے ساتھ ساتھ فرقہ پرستی پر کوئی بھی سمجھوتہ نہیں کرتا کیونکہ فرقہ پرستی بھی دہشت گردی کی ایک شاخ ہے جس پر ملک کے غدار فرقہ پرست اپنا ڈیرہ جمائے ہوئے رہتے ہیں لیکن انہیں اندازہ نہیں کہ جس شاخ پر وہ بڑے آرام سے براجمان ہیں وہ کبھی بھی اور کسی بھی وقت زمین پر آ سکتی ہے۔ دوسری جانب مرکز کی بی جے پی حکومت کی جانب سے ڈاکٹر نائیک کے خطابات کی تحقیقات کے اعلان پر مہاراشٹرا حکومت بھی حرکت میں آ گئی۔ اس نے مرکز سے دو قدم آگے بڑھتے ہوئے اپنے طور پر ڈاکٹر ذاکر نائیک کی تقاریر اور خطابات کا جائزہ لینے کا اعلان کردیا۔ ریاست کی فرنویس حکومت نے صرف اسی پر اکتفاء نہیں کیا بلکہ یہ بھی کہا کہ اسلامک ریسرچ سنٹر کی سرگرمیوں کی بھی تحقیقات کی جائے گی۔
میڈیا نے ڈاکٹر نائیک کو جو فی الوقت سعودی عرب میں ہیں، اس بنیاد پر نشانہ بنانا شروع کیا کہ ڈھاکہ ریسٹورنٹ میں ایک ہفتہ قبل اندھادھند فائرنگ کرنے والے سات نوجوانوں نے خود کو ڈاکٹر ذاکر نائیک کے خطابات کا دلدادہ بتایا لیکن ڈاکٹر ذاکر نائیک نے مکہ مکرمہ سے واٹس اپ ویڈیوز روانہ کرتے ہوئے پرزور انداز میں کہا ہیکہ وہ دنیا کے دیگر ملکوں کی طرح بنگلہ دیش میں کافی مقبول ہیں۔ 90 فیصد بنگلہ دیش انہیں جانتے ہیں جن میں سے نصف سے زائد ان کے چاہنے والے ہیں۔ اس کے باوجود انہیں ان حملوں کیلئے ذمہ دار قرار نہیں دیا جانا چاہئے کیونکہ انہوں نے ہمیشہ انسانوں کی ہلاکت کی مخالفت اور مذمت کی ہے۔ اہم بات یہ ہیکہ برطانیہ اور کینیڈا جیسے ملکوں میں بھی ڈاکٹر ذاکر نائیک کے دورہ پر پابندیاں عائد کی گئی ہیں۔ بی جے پی اپنے سیاسی مقاصد کی تکمیل کیلئے ڈاکٹر نائیک پر عائد الزامات کا سہارا لے رہی ہے۔ چیف منسٹر مہاراشٹرا نے تو ممبئی میں ڈاکٹر ذاکر نائیک کی جانب سے چلائے جارہے فاونڈیشن کو حاصل ہونے والے مالیہ کے ذرائع کی تحقیقات کا حکم تک ڈے ڈالا۔ مرکزی وزیر اطلاعات و نشریات مسٹر وینکیا نائیڈو نے بھی اپنی پہچان مضبوط بنانے کی خاطر ڈاکٹر ذاکر نائک کی تقاریر کو قابل اعتراض قرار دیا ہے۔ اب تو وہ اور ان کی حکومت مناسب کارروائی کیلئے ان تقاریر کا جائزہ بھی لے رہی ہے۔ گجرات، مظفرنگر اور ملک کے دیگر مقامات پر مسلمانوں کے قتل عام کو ایکشن کا ری ایکشن قرار دینے والی بی جے پی نے تو ڈاکٹر ذاکر نائیک کو قومی سلامتی کیلئے خطرہ قرار دیا ہے۔ اس کی نظر میں اسلامک ریسرچ سنٹر کے بانی کی تقاریر لوگوں کو تشدد پر اکسانے والی ہوتی ہیں۔ بی جے پی والوں نے بالکل صحیح کہا ہیکہ ڈاکٹر نائیک کے لکچرس یا خطابات لوگوں کو اکساتے ہیں لیکن باطل کو خیرباد کہہ کر حق کے دامن میں پناہ لینے کی ترغیب دیتے ہیں۔ نتیجہ میں لوگ اپنے باپ دادا کے مذاہب کو خیرباد کہہ کر دین اسلام میں پناہ لیتے ہیں۔ اب تو قومی تحقیقاتی ٹیم این آئی اے بھی اس معاملہ پر ڈاکٹر ذاکر نائیک سے پوچھ گچھ کا منصوبہ بنارہی ہے۔ میڈیا کے بعض گوشوں میں باوثوق ذرائع کے حوالے سے بتایا گیا ہیکہ این آئی اے اس بات کا جائزہ لے گی کہ آیا انہوں نے اپنی کسی تقریر میں دہشت گردی کو حق بجانب کہا ہے؟
جہاد کے ذریعہ خلافت کے احیاء کی وکالت کی ہے؟ کیا آئی ایس آئی ایس جیسی ممنوعہ تنظیم کی تائید و حمایت کی ہے؟ آپ کو بتادیں کہ ڈاکٹر ذاکر نائیک متحدہ عرب امارات سعودی عرب اور ملائشیا میں کافی مقبول ہیں۔ حکومت سعودی عرب نے انہیں عالم اسلام کے باوقار شاہ فیصل ایوارڈ سے نوازا ہے۔ ملائشیا کی حکومت نے 2013ء کو ماء الھجرہ ایوارڈ عطا کیا۔ یہ ایوارڈ عالم اسلام کی ممتاز شخصیت کو عطا کیا جاتا ہے۔ ڈاکٹر نائیک نے نیوز 18 سے بات کرتے ہوئے واضح کیا کہ انہوں نے ہمیشہ یہی کہا ہیکہ دوسرے فرد پر تشدد کرنے والا جہنم رسید ہوگا۔ انہوں نے کسی بھی مرحلہ پر اسامہ بن لادن کی تائید و حمایت کرنے کی تردید کی۔ اس ضمن میں ان کا کہنا ہیکہ انہیں بدنام کرنے کیلئے ویڈیو میں الٹ پھیر کی گئی۔ اس تنازعہ کے درمیان انہوں نے یہ بھی واضح کردیا کہ آئی ایس آئی ایس یا داعش ایک غیراسلامی گروپ ہے جس نے مسلمانوں اور بے قصور بیرونی شہریوں کو قتل کیا ہے اور آئی ایس آئی ایس کی نام رکھائی بھی دشمنان اسلام نے کی ہے۔ واضح رہیکہ ڈاکٹر ذاکر نائیک نے جو افریقہ کے مبلغ اسلام احمد دیدات سے کافی متاثر تھے انہوں نے دعوت دین کیلئے ان کا ہی انگریزی طرز تخاطب اپنایا اور بندگان خدا تک رسائی کیلئے ٹیکنالوجی کا بھرپور استعمال کیا۔ 1991ء میں ڈاکٹر ذاکر نائیک نے آئی آر ایف قائم کی تھی۔ مذاہب کے تقابلی جائزہ کے معاملہ میں اتھاریٹی سمجھے جانے والے ذاکر نائیک سے خشونت سنگھ جیسے غیر مسلم دانشور بھی کافی متاثر تھے اور ہیں۔ اپنی زبان و بیان اور لباس کے باعث ڈاکٹر نائیک غیرمسلموں کی توجہ کا مرکز بنے رہے ہیں۔ ایم بی بی ایس کی تکمیل کے بعد 1991ء میں انہوں نے دعوت کا کام شروع کیا۔ 1987ء میں احمد دیدات سے ملاقات نے ان کی زندگی ہی بدل کر رکھ دی۔ بڑے ہی دلچسپ انداز میں تبلیغ دین کا کام کرنے والے ڈاکٹر ذاکر نائیک کو اب ہمارا میڈیا کھل نائیک قرار دینے کی پوری پوری کوشش کررہا ہے۔ ویسے کبھی فرقہ پرستوں کی نظروں کو جو نہیں بھاتا اسے کھل نائیک کے طور پر ہی پیش کیا جاتا ہے۔ چاہے وہ ڈاکٹر ذاکر نائیک ہی کیوں نہ ہو۔
mriyaz2002@yahoo.com