ڈاکٹر ذاکر نائیک، نائیک یا کھل نائیک

محمد عثمان شہید ایڈوکیٹ
ہرانسان کی کشتی حیات وقت کے سمندر کے سینے پر رواں دواں ہے۔ نہ جانے کب اس کا سفر ختم ہوجائے ۔ کسی کو نہیں معلوم لیکن سفر حیات کے دوراں بسا اوقات اس کی کشتی مسائل کے گرداب میں پھنس جاتی ہے یا مصیبتوں کے طوفان میں گھر جاتی ہے ۔ عزم صمیم رکھنے والے ایسے طوفان کا مردانہ وار مقابلہ کرتے ہوئے اپنی زندگی کا سفر جاری رکھتے ہیں اور ساحل کامرانی تک پہنچ جاتے ہیں ۔ کسی کے بازو اپنی کشتی کھیتے ہوئے شل ہوجاتے ہیں ۔ ہمت پست ہوجاتی ہے اور ان کی کشتی وہاں ڈوب جاتی ہے جہاں پانی کم ہوتا ہے۔ کبھی ایسا بھی ہوتا ہے کہ طوفان باہمت بلند حوصلہ مسافروں کے عزم کا امتحان لینے کیلئے ان کی کشتی حیات کا طواف کرتا ہے اور لوگ غلط سمجھ لیتے ہیں اسی لئے شاعر نے کہا  ؎
طوفان کر رہا ہے مرے عزم کا طواف
دنیا سمجھ رہی ہے کشتی بھنور میں ہے
ایسے ہی ایک بار سر سید احمد خان کے عزائم کا امتحان لیا گیا ۔ انہوں نے انتہائی دور اندیشی فہم و فراست سے کام لیتے ہوئے مسلمانوں کو انگریزی زبان سیکھنے پر آمادہ کیا ۔ انگریزی زبان کے ذریعہ تعلیم حاصل کرنے کیلئے مہم چلائی ۔ سائنس کی تعلیم کیلئے جدوجہد کی ۔ ان کی یہ مہم بعض نام نہاد علماء اور رہنمایان ملت کیلئے ناقابل قبول تھی ۔ یہاں تک کہ اکبر الہ آبادی بھی اس کارواں میں شامل ہوگئے ۔ سر سیدؒ کی مخالفت میں ان کے مخالفین اس حد تک چلے گئے کہ انہیں ’’کافر‘‘ کا فتویٰ دیدیا۔

کیا واقعی سرسید کا فریق؟ کیا علماء کا ’’فتویٰ ‘‘ ازروئے شرع محمدیؐ صحیح تھا ؟ کیا سرسید کے مخالفین نے ان کے خلاف صحیح قدم اٹھایا تھا؟ سر سیدؒ نے اپنے مخالفین کا جواب دینے کے بجائے اپنے خلاف اٹھائے گئے اس طوفان کا مردانہ وار مقابلہ کیا ۔ اگر وہ اپنے عزائم کا علم سرنگوں کردیتے تو آج مسلمان انگریزی تعلیم سے بے بہرہ رہتے اور ترقی کے زینے کبھی طئے نہیں کرتے۔ نام نہاد علماء و فضلاء غلط تھے جبکہ سر سید صحیح تھے۔
اسی طرح گلستان اسلام کے بلبل ’حکیم الامت‘‘ شاعر ملت سر محمد اقبالؒ کے خلاف ان کے ’’شکوہ‘‘ لکھنے پر عالم عاقل بالغ ، علماء نے ایسا طوفان کھڑا کردیا کہ بالآخر انہیں بھی ’’کافر‘‘ قرار دیدیا گیا۔ وہ اقبال جن کی شاعری ذہن و روح کو جھنجھوڑ کر رکھ دیتی ہے۔ عزائم کو بیدار کرتی ہے۔ حوصلوں کو جلا بخشتی ہے ۔ ارادوں کو منزل کا پتہ دیتی ہے۔ ایمان ابراہیمی کو تازہ کرنے کا پیام دیتی ہے ۔ ازروئے قرآن زندگی گزارنے کا سبق دیتی ہے ۔ ’’خودی‘‘ کوبلند کرتی ہے ۔ ایسے بلند مر تبے کا شاعر پھر آج تک مادر مہربان اردو پیدا نہ کرسکی۔ جس کی شاعری ہمارا سرمایہ حیات ہو اس اقبال کو بھی کافر کہا گیا۔ پھر کفر کا یہ فتویٰ اقبالؔ کے جواب شکوہ سپرد قلم کرنے کے بعد واپس لے لیا گیا ۔ وقت نے پھر ثابت کردیا اکہ صحیح کون تھے؟ اقبال نے اپنے کارواں شاعری  کوایسے قزاقوں کے ہاتھوں لٹنے نہیں دیا ۔ حوصلوں کے چراغ جلائے رکھے جو آج تک فروزاں ہیں۔ اور ملت کی رہنمائی کر رہے ہیں۔
ان واقعات سے کئی سال قبل امام احمد حنبلؒ کی حیات کے دوران خلق قرآن کا فتنہ کھڑا کیا ۔ امام محترم نے اس فتنے کے تدارک کیلئے اپنی جان کی بازی لگادی۔ حق گوئی اور بے باکی کا ایسا شاندار مظاہرہ کیا کہ رہتی دنیا تک انہیں یاد کیا جائے گا۔ خلیفۂ وقت مامون اور اس کے پاپوش بردار علماء نے بھی امام احمد کی سختی سے مخالفت کی ۔انہیں سزائیں دی گئی۔ زد و کوب کیا گیا ۔ درے لگائے گئے ۔ جیل میں محروس کردیا گیا ۔ بھوکا پیاسا رکھا گیا ۔ مختلف انداز سے جسمانی اذیتیں دی گئیں لیکن امام کے پائے استقامت میں لغزش نہیں آئی ۔ انہوں نے قرآن کو مخلوق ماننے سے انکار کردیا ۔ آخرکار پولیس کا یہ چراغ بھی بجھ گیا۔ امامؒ کامیاب ہوئے۔
کیا آج کوئی مسلمان یہ کہہ سکتا ہے کہ امام محترمؒ غلط راہ پر تھے اور اس وقت کے علماء سو صحیح تھے ۔ جنہوں نے حق کے اس مجاہد کے خلاف زبان و قلم کے ذریعہ ایسا طوفان کھرا کردیا تھا کہ عام آدمی اس کا مقابلہ نہیں کرسکتا تھا یا پھر امام احمد حنبل صحیح تھے جنہوں نے ایسی مخالفتوں کے طوفان کا پامردی کے ساتھ مقابلہ کیا اور سرخرو ہوئے۔

ایک عرصہ بعد راہ حق کے ایک مسافر کی راہ میں کانٹے بچھائے جارہے ہیں ۔ ڈاکٹر ذاکر نائیک کی غلطی یہ ہے کہ انہوں نے اسلام کی صحیح تصویر دنیا کے سامنے رکھی ۔ عیسائیت ، یہودیت ، ہندومت، بدھ مت، جین مت ، سکھ مت کا عمیق مطالعہ کیا ۔ اسلامی تعلیمات سے ان کا تقابل کیا ۔ انجیل ، تویت کا مطالعہ کیا۔ ان کا قرآن سے تقابل کیا ۔ اسلامی تعلیمات پر لگے ہوئے زنگ کو دھوکر ان تعلیمات کو صیقل کیا اور عوام کے سامنے پورے شدو مد کے ساتھ پیش کیا ۔ دشمنان اسلام ، رقیبان ملت کے زبانی و تحریری حملوں کا جواب دیا ۔ ایسا جواب دیا کہ پھر کوئی زبان کھول نہ سکا۔ ویسے دشنام طرازی کو کون روک سکتا ہے جو ظالم و جاہل فرد کا پہلا اور آخری ہتھیار ہے۔
ڈاکٹر ذاکر نائیک بتاریخ 18 اکتوبر 1965 ء بمقام بمبئی پیدا ہوئے۔ ٹوپی والا نیشنل میڈیکل کالج سے ایم بی بی ایس کی ڈگری 1991 ء میں حاصل کی ۔ ڈاکٹر کی حیثیت سے عملی زندگی گزارنے کے بجائے محترم احمد دیدات کی شخصیت علمیت اور اسلام کیلئے رکھی کاوشوں سے متاثر ہوکر خود بھی داعی اسلام بن کر عوام کے سامنے آئے۔ ایک غیر منفعت بخش ادارہ اسلامک ریسرچ فاؤنڈیشن (IRF) کے نام سے قائم کیا ۔ پیس ٹی وی چینل کے ذریعے الیکٹرانک میڈیا کے میدان میں قدم رکھا ۔ ان کے صاحبزادے اور رفیق حیات ان کے قدم بہ قدم اسی راہ پر گامزن ہیں اور تبلیغ اسلام کا فرض انجام دے رہے ہیں۔

ڈاکٹر صاحب نے اپنی تعداد تقاریر تصانیف مناظروں سوال وجواب سیشن کے ذریعہ ثابت کردیا کہ اسلام ہی صحیح و سچا مذہب ہے۔ انہوں نے ہندوستان سے باہر بھی کئی ایک ملکوں میں اپنی جرأت مندانہ لیکچر کے ذریعہ اسلام کے ناقدین کو اسلامی کی حقانیت و سچائی ماننے پر مجبور کردیا۔ انہوں نے مخالفین اسلام مخالفین احادیث مخالفین قرآن ، مخالفین پیغمبر اسلامؐ کے اعتراضات کا منہ توڑ جواب دیا ۔ انہیں پیار سے ، دلیلوں کے ذریعہ احادیث کے ذریعہ کلام الٰہی کے ذریعے ان کے اپنے مذہب کی کتابوں کے حوالوں سے قائل کردیا کہ ان کی معلومات اسلام، اسلام کے پیغمبرؐ اور قرآن کے بارے میں بہت کمزور ہیں۔ پھر نتیجہ یہ نکلا کہ سینکڑوں  غیرمسلم اصحاب نے دامن اسلام میں پناہ لی۔ ان لوگوں کو قائل کیا کہ اسلامی تعلیمات کے ذریعہ ہی نجات پاسکتا ہے۔ اللہ ہی عبادت کے لائق ہے، دوسرا کوئی الٰہ نہیں ہے ۔ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے سچے اور آخری پیغمبر ہیں۔ قرآن اللہ کی آخری کتاب ہے جس پر عمل پیرا رہ کر ہی انسان ہدایت پاسکتا ہے۔

ان کا یہی بے باکانہ انداز اور ان کی تقاریر سے متاثر ہوکر غیر مسلموں کا اسلام قبول کرنا آر ایس ایس اور بی جے پی کیلئے کھل گیا ۔انہوں نے سوچا کہ اگر ڈاکٹر صاحب کی مہم یونہی جاری رہی تو ہندوؤں کی تعداد کم ہوجائے گی اور مسلمان اکثریت میں آجائیں گے اور اس ملک کو ہندو راشٹر بنانے کا ان کا خواب کبھی شرمندہ تعبیر نہ ہوگا۔ ڈاکٹر صاحب نے جہاں کروڑوں عاشقوں کو پیدا کیا وہاں مخالفین کو بھی جنم دیا، جو ان کے آج جانی دشمن بنے ہوئے ہیں۔
گلاب گلستاں کی زینت بنتا ہے کانٹوں کے سائے میں
ڈاکٹر صاحب ہندوستان کیلئے باعث فحر بنے دشمنوں کے جلو میں
ڈاکٹر نائیک صاحب پر الزامات عائد کئے جارہے ہیں کہ انہوں نے علحدگی پسندی کو مذہب کی بنیاد پر تفرقے کو اور اپنے تقاریر کے ذریعہ دہشت گردی کو ہوا دی ہے۔ ان کے خیالات سے متاثر ہوکر ایک نوجوان نے بنگلہ دیش کے صدر مقام ڈھاکہ کی ایک ہوٹل میں دہشت پھیلائی اور 200 آدمیوں کی جان لی۔
ڈاکٹر صاحب کی تقریر سے ایک تراشیدہ جملہ زی ٹی وی اور ٹائمس ناؤ ٹی وی چینلس پر بار بار پیش کیا جارہا ہے جس میں ڈاکٹر صاحب یہ کہتے ہوئے سنائی دیتے ہیں کہ Every Muslim Should be a Terrorist ایسا بتاکر ہندوستانیوں کو باور کروایا جارہا ہے کہ  ذاکر صاحب نے مسلمانوں کو دہشت گرد بننے کہا ہے ۔

یہ جملہ نامکمل ہے ہم نے مکمل تقریر دیکھی اور سنی ہے۔ ڈاکٹر صاحب نے مسلمانوں کو بدی کی طاقتوں کے خاتمہ کیلئے مسلمانوں کو Terror بننے کیلئے کہا ہے ۔ اسی طرح ڈاکٹر صاحب نے اپنی تقاریر کے ذ ریعہ مسلمانوں کو بدی کی طاقت کا مقابلہ کرنے کو کہا ہے نہ کہ کسی فرد یا قوم کے خلاف مسلمانوں کو اکسایا ہے۔ اس طرح ان کی تقاریر کو دانستہ کانٹ چھانٹ کر الے ک ٹرانک میڈیا عوام کے سامنے پیش کر رہا ہے تاکہ ان کے خلاف نفرت پیدا کی جاسکے لیکن وہ اپنی اس مذموم کوشش میں کامیاب نہیں ہوسکتے۔
گزشتہ 25 سال سے یہ عزم محکم کا پیکر ا سلام کی تبلیغ کر رہا ہے۔ لاکھوں افراد کو مشرف بہ اسلام کرچکا ہے۔ اسلام پر ہر اعتراض پر بہتان کا جواب ذاکر صاحب جس انداز میں کتابوںکے حوالے سے قرآنی آیتوں کے حوالے سے، ویدوں کے اشلوکوں کے حوالے سے ، قانون کے حوالے سے ، فقہ و قیاس کے حوالوں سے ، سائنس کی تحقیقات کے حوالوں سے دیتے ہیں اور یہ حوالے ان کی یادداشت کے خزانے سے جس تیزی سے باہر آتے ہیں وہ قابل رشک اور مخالفین کیلئے باعث حسد ہیں۔
ڈاکٹر صاحب کے خلاف طوفان بدتمیزی کا مقصد یہ ہے کہ ان کے تبلیغی مشن کو ناکام بنادیاجائے ۔ ذہنی انقلاب برپا کرنے والے اس ’’حق کے سپاہی‘‘ کی زبان ہمیشہ کیلئے بند کردی جائے تاکہ پھر کوئی شحص اسلام قبول کرنے نہ پائے۔ آج جبکہ یکساں سیول کوڈ کے نفاذ کے خلاف ہم کو متحد ہونے کی شدید ضرورت ہے۔ ہم آپس میں دست و گریباں ہیں۔ اب ہمارا اللہ ہی حافظ ہے۔
مسلمانان عزیز …
ہزاروں سال نرگس اپنی بے نوری پہ روتی ہے
بڑی مشکل سے ہوتا ہے چمن میں دیدہ ور پیدا