ڈاکٹر توفیق انصاری احمد(امریکہ) کی مذہبی شاعری۔۔۔ایک مطالعہ

از: شاہ نواز شاہ

دُنیا جانتی ہے کہ حیدرآباد دکن کی سرزمین ابتداء سے علم وادب کا گہوارہ رہی ہے اور اس کے سپوت آج بھی دیارِ غیر میں شعر وادب کے حوالے سے باوقار مقام پر متمکن ہیں ان ہی میں عالیجناب ڈاکٹر توفیق انصاری احمد کا شمار ہوتا ہے۔حیدرآباد میں پلے بڑھے،تعلیم حاصل کی اور شاعری کی ابتداء بھی یہیں سے کی لیکن اللہ تعالیٰ نے چونکہ ان کاآب ودانہ امریکہ میں رکھا تھااس لئے انہوں نے وہیں بود وباش اختیار کی اور آج شکاگو کے افقِ ادب پر اک ستارے کے مانند جگمگارہے ہیں۔ان کے دومجموعے کلام’’دشت تمنا‘‘ اور’’دردِ مشترک‘‘ منصہ شہود پر آکر اُردو ادب میں مقبولیت کی سند پاچکے ہیں۔

تازہ شعری مجموعہ ’’اورادارادت‘‘(جو حمد ، مناجات،نعت ، درود وسلام، منقبت ،رباعیات وقطعات اور متفرقات پر مشتمل ہے)پڑھنے سے ڈاکٹر صاحب کی شخصیت کا صحیح اندازہ ہوتا ہے۔ا ن کی یہ کاوش جذبات کی فراوانی اور عرق ریزی کی مثال ہی نہیں بلکہ ان کے عقیدہ کی پختگی اور حضور اکرمؐ سے عشق ومحبت کی ترجمان ہے اور یہ سعادت ہر کسی کو نصیب نہیں ہوتی۔شاعری کی چودہ سو سالہ تاریخ میں صحابہ کرامؓ،اولیائے عظام،علمائے ذی احتشام اور شعرائے عربی،فارسی اور اُردو میں کون ایسا ہے جس نے اپنے کلام میں حضورؐ کا ذکر نہ کیا ہو۔ یہ ذکر نعت، مناجات،نعتیہ قصائد وغیرہ میں نور کی مانند ضوفشاں نظر آتا ہے۔ہندوستان میں خواجہ میر درد،مولانا حالی ،امیر مینائی،محسن کاکوروی،علامہ اقبال،مولاناظفر علی خاں،حفیظ جالندھری،ماہر القادری،امام رضا بریلوی ،عبدالعزیز خالد‘مظفر وارثی کے مسلسل حوالے ہم تک پہنچے ہیں۔خود حیدرآباد میں ایسے شعراء کی تعداد سینکڑوں میں ہے جنہوں نے نبی کریمؐ سے محبت کواپنی شاعری کا وسیلہ ٔ اظہار بناکر اوجِ کمال حاصل کیا۔دور کیوں جایئے جناب ڈاکٹر توفیق انصاری احمد کے اساتذہ حضرت علامہ قدر عریضی اور حضرت علامہ معزالدین قادری ملتانی کی مثال ہمارے سامنے ہے۔حضرت اوج یعقوبیؒ سے پہلے حضرت وطنؒؔ اورحضرت کامل شطاریؒ اور پھر حضرت خواجہ شوقؒ کی نعتیہ شاعری سے ہر کوئی متاثر ہوئے بغیر نہ رہ سکا۔

ڈاکٹر توفیق انصاری احمد خوش نصیب ہیں کہ حضرت قدرعریضی اور حضرت معزالدین قادری ملتانی سے انہیں شاگردی کا شرف حاصل ہوا‘ جو باکمال شاعر ہی نہیں علمی تبحر اورصوفیانہ شان کے مظہر بھی تھے یہ انہی کا فیضِ تربیت ہے کہ نہ صرف اُن کی شخصیت میں نمایاں تبدیلی ہوئی بلکہ افکار وخیالات‘بندش الفاظ‘سلاست وروانی کے لئے راہیں متعین ہوئیں۔ان کی شخصیت کا یہی روشن پہلو’’اورادارادت‘‘ میں اپنے جلوے دکھاتا ہے۔توفیق انصاری صاحب اس لحاظ سے بھی خوش نصیب ہیں کہ آپ کا سلسلۂ نسب مدینے کے انصار صحابہ کرام ؓسے جاملتا ہے جو حضور اکرمؐ اور بزرگان دین سے غیر معمولی عقیدت کا سبب بنا اور اُن کی یہی وابستگی،شیفتگی اور والہانہ محبت وعقیدت توشۂ آخرت کی صورت میں ہمارے روبروہے۔

’’اورادارادت‘‘ کی ابتداء حمدیہ ومناجاتی کلام سے ہوتی ہے ایسا محسوس ہوتا ہے کہ ایک بندۂ خدا اپنی ساری توانائی سے بندگی کے حقوق ادا کرنے میں لگا ہوا ہے اور خدا کو ہی اپنا مطلوب ومقصود بنائے ہوئے ہے اورایمان کی بلندی کے ساتھ مددکا طالب ہے۔بسم اللہ سے اس کی شروعات ہوتی ہے ؎
ہوئی بہ نام خدا‘ ابتدائے بسم اللہ
نہیں ہے کچھ بھی زباں پرسوائے بسم اللہ
بڑے ادب سے ملتی ہیں ؎
بہاروں میں تُو ہے، نظاروں میں تُو ہے
زمیں، آسماں، چاند تاروں میں تُو ہے
بشر کے لئے گنجِ تحقیق ہے تو
شراروں میں تو، آبشاروں میں تُو ہے
بغیر عشق نہیں قدرِ معرفت کچھ بھی
مٹا کے خود کو خودی نے سکون پایا ہے
مناجات میں اُن کے جذبوں کی سچائی رچی بسی ہے جس میں محاورے کا برملا استعمال بھی موجود ہے۔

کرے گا کیا بھلا کوئی ترے دینے کا اندازہ
اگر دینے پہ تو آئے تو چھپّر پھاڑ کر دیدے
اُنؐ ہی کا واسطہ دیتے ہیں یارب
کہ ہے خلقت میں اونچی جن کی ہستی
اس مختصر مضمون میں ان تمام اشعارکو جو حمد ومناجات کے سلسلہ میں اورادارادت میں شامل کئے گئے ہیں درج کرنا ممکن نہیں۔ چونکہ اورادارادت کی ضخامت تین سو صفحات سے زائد ہے اس لئے صرف مندرجہ بالا اشعار پر اکتفا کرنا ضروری ہوگیا ہے۔
دلکش اسلوب،روحانی لفظیات،ادبیت،فکر انگیزی اور اثر آفرینی کے سبب اُن کی نعتیں ذہن کو معطر وشاداب کردیتی ہیں اور روح کو تازگی عطا کرتی ہیں۔جب تک اپنے مال‘اولاد اور جان سے زیادہ حضورؐ سے محبت نہ ہو ایمان مکمل ہی نہیں ہوتا۔یہی جذبہ صحابہ کرامؓ میں بدرجہ اتم موجودتھا جس کی وجہ مسلمان بہت جلد ایک تہائی دُنیا کے حکمران بن گئے یہی جذبہ طرز سخن اور شعری پیرہن اختیار کیا تو صحابہ محبوبِ کبریا کی خوشنودی حاصل کرنے میں کامیاب ہوگئے۔حضرت حسان بن ثابتؓ شاعر ِرسولؐ کے منصب پر فائز نظر آئے جو حضورؐ کے محبوب بنے وہ اللہ کے بھی محبوب بن گئے۔توفیق انصاری احمد صاحب کی نعتیہ شاعری پڑھنے سے تعلق رکھتی ہے‘سرسبزی ،شادابی،رعنائی اور زیبائی ہے کہ ذہن وذوق حیات بخش فضاؤں میں سرمست ہوجاتے ہیں پہلے مدینے کے حوالے سے چند شعر ملاحظہ فرمائیں ؎

نظر آگیا جب مدینے کا منظر
ہوئے جان و دِل سب نثارِ مدینہ
مدینہ کو جاؤ تو جاؤ سنبھل کر
مدینے میں ہے، تاجدارِ مدینہ
سر کے بل چلتے ہوئے خاک پہ سر مل جاتے
کاش اس طرح مدینے کو کسی پل جاتے
راستے کی مشکلوں پر‘ اُف نہ کرنا‘ تو کبھی
ائے مدینہ جانے والے ائے مسافر‘ احتیاط
بہ ظاہر دوریاں ہیں پھر بھی کچھ توفیقؔ قربت ہے
گنہگارِ ازل ہوکر بھی ہم خوش ہیں مدینے میں
نعت شریف کا لکھنا یا کہنا جوئے شیر لانے سے کہیں زیادہ مشکل ہے،اس پل صراط پر قدم وہی رکھتا ہے جسے قلم کے بہکنے کا ڈر نہ ہو ۔
’وسیلہ‘ آپؐ کا دُعاؤں میں ضروری ہے‘کہا گیا ہے کہ اگر دُعا سے پہلے اور آخر میں درود شریف کو شامل کرلیا جائے تو دُعا اللہ تعالیٰ کی رحمت سے خود قبولیت کا سامان بن جائیگی۔انصاری صاحب کہتے ہیں ؎

ہمیں کافی ہے بس اُن کا وسیلہ
وہی جن کی محبت معتبرہے
حضور اکرم ؐشبِ اسریٰ نعلین کے ساتھ عرش اعلیٰ پر تشریف لئے گئے اس سلسلے میں شعراء نے بہت سے مضامین باندھے ہیں لیکن توفیق صاحب کی یہ تمنا کہ ؎
گئے جو عرش پر نعلینِ حضرتؐ
ان ہی نعلین پاکو دیکھنا ہے
بڑھ گیا نعلین کا بھی مرتبہ
اُٹھ گیا جب عرش کی جانب قدم
حضور کے جمال‘آپ کے مرتبہ ومقام دیدار کی خواہش کے تعلق سے یہ متفرق اشعار شاعر کی فکر اور بصیرت کے غماز ہیں
نظر سے دل میں اُتر آیئے ذرا سرکارؐ
تڑپ بہت ہے ارادہ بہت سلام کا ہے
سرجھکا کر ادب سے کھڑے رہ گئے
جب خیال آگیا ناگہاں آپؐ کا
کسی قابل نہ تھی اپنی گذارش
بنی ہے بات بس ان کے کرم سے
رات دن رہتا ہے لب پر آپؐ ہی کا خاص نام
آپ پر بے حد درود اور آپؐ پر بے حد سلام
زندۂ جاوید وہ ہے مرمٹا جوآپ پر
ٹوٹ کر جس نے محبت کی‘ملا اس کو دوام
پسینہ وہ کہ جس پر مشک وعنبر عطر و گل قرباں
کشیدہ ہے دوعالم کی مہک ان کے پسینے میں
ہوگئی خدمت میں جب توفیق اپنی حاضری
ساتھ جو کچھ بھی تھا سب آقاؐ کے در پر رکھ دیا

غرض نام ہونٹوں پہ تڑپ دل میں اور نظر میں آنسو لئے اس بات کے لئے کوشاں ہیں کہ آقاؐ کی اک چشمِ کرم ہوجائے۔نعتوں کے بعد سلام ہیں پھر منقبتوں کا سلسلہ ہے جس میں حضرت سیدنا ابوبکرؓ،حضرت عمر فاروقؓ،حضرت سیدنا عثمان بن عفانؓ،حضرت سیدنا علیؓ،حضرت امام حسنؓ،حضرت امام حسینؓ،حضرت غوث اعظم دستگیرؒ،حضرت خواجہ معین الدین چشتیؒان کے علاوہ چھ بزرگان ِ دین کے غائبانہ عرس کے موقع پر کہی گئیں مناقب وابستگی،ارادت اور عقیدت کے پھول مہکاتی ہیں۔ان میں سیرت صحابہؓ اور تاریخ اسلام کے گوشے بھی منور ہیں۔آخر میں قطعات اورمنظوم تفصیلات عرس بھی مجموعے کی زینت بڑھاتی ہیں۔ان کے اس مجموعے کو توشۂ آخرت ہی سمجھ لیا جائے تو بے جا نہ ہوگا۔ان کی یہ جذبات سے مملو منفرد انداز شعر گوئی عبادت الٰہی سے کم نہیں۔انہوں نے محبت وشیفتگی کے اظہار کے ذریعہ جو حمدیہ،نعتیہ اور منقبتی کلام کو صفحہ قرطاس کی زینت بنایا ہے وہ اوروں کے لئے بھی قابل تقلید ہے۔نہایت آسان زبان اور عام فہم انداز میں اشعار کہے ہیں۔دیارِ غیر میں جہاں روزگار کے حصول کے لئے نفسا نفسی کا ماحول ہے وہاں ایسی پاکیزہ اور مطہر شاعری نے خود ڈاکٹرتوفیق صاحب کی توقیر میں اضافہ کردیا ہے۔اللہ تعالیٰ کو اپنی حمد وثنا جتنی مرغوب ہے وہیں اپنے محبوب کی صفات عالیہ تعریف وتوصیف سے اتنی ہی خوشی ہوتی ہے اور اس کو مشغلہ حیات بنانے والے کے مقام کاکیا ٹھکانہ ۔شاعر محترم کی شاعری کو نکھارنے اور سنوارنے کا کام تو اساتذہ نے کیا مگر اس کی تحریک اور ترغیب اور ماحول بنانے میں عزیز واقارب اور ان کے مداحوںکا بڑا حصہ ہے۔اللہ تعالیٰ عالیجناب ڈاکٹر توفیق انصاری احمد کے جذبہ شوق میں اور اضافہ فرمائے اور ان کے مداحوں کو اجر سے نوازے۔میں توان کے الفاظ میں بس اتنا ہی کہوں گا ؎
توفیق ؔ دل کی بات زباں پر تو آگئی
لیکن کمالِ عرضِ ہنر، ہو تو بات ہے
ژ