ڈاکٹر مجید خان
ڈاکٹر ابوالحسن صدیقی صاحب کے نام کے ساتھ مرحوم لکھنے میں مجھے تامل ہورہا ہے ۔ مگر حقیقت سے کون انکار کرسکتا ہے ۔ ڈاکٹر ابوالحسن صدیقی گزشتہ ہفتہ داعی اجل کو لبیک کہہ بیٹھے ۔ 12 جولائی 14 ء کو منی سوٹا میں اُن کا انتقال ہوا ۔ ڈاکٹر ابوالحسن میرے استاد محترم رہ چکے ہیں ، میںنے اُن سے بہت سیکھا ہے ۔ سیاست میں طبی موضوعات پر مضامین لکھنے کی تربیت بھی انھوں نے دی تھی ۔ وہ خود بھی بڑے شوق سے لکھا کرتے تھے ۔ اُن کو انگریزی اصطلاحات کا خاص ترجمہ اردو میں کرنے میں بڑا لطف آتا تھا ۔ مجھ سے اکثر دریافت کیا کرتے تھے کہ مجید بولو! یہ ترجمہ کیسا تھا۔ میں مذاقاً کہتا تھا کہ ڈاکٹر صاحب آپ یونانی اصطلاحات استعمال کررہے ہیں ۔ عابد علی خان صاحب اور جگر صاحب سے تو بڑے قریبی مراسم اُن کے رہا کرتے تھے ۔
مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ میں 1955 ء میں عثمانیہ میڈیکل کالج کے تیسرے سال کا طالب علم تھااور صبح صبح 8 بجے پہلی کلاس شروع ہوا کرتی تھی ۔ زیادہ تر طلبا سیکلوں پر جایا کرتے تھے اور آٹھ بجے سے پہلے پہنچنا ضروری تھا ورنہ دروازہ بند کردیا جاتا تھا ۔ اُس دن کی کلاس بڑی خاص تھی ۔ سُنا تھاکہ کوئی نئے ڈاکٹر جو ابھی ابھی انگلستان سے بہترین اعلیٰ ڈگری حاصل کرنے کے بعد لوٹے ہیں ، کلاس لیں گے ۔ سب مشتاق تھے ان کو دیکھنے کے لئے ٹھیک آٹھ بجے ایک پستہ قد بہترین سوٹ میں ملبوس انتہائی سنجیدہ نظر آنے والی شخصیت مسکراتے ہوئے داخل ہوتی ہے اور تھوڑے سے انگلستان کے لہجے میں سب کو Good Morning کہتے ہوئے اپنی سنہری Rolex گھڑی کو دیکھ کر یہ کہتی ہے کہ 8 بج چکے ہیں اور اب کلاسس شروع ہوتی ہے ۔
یہ تھے ڈاکٹر ابوالحسن صدیقی صاحب ، اُس زمانے میںوہ ڈاکٹر بنکٹ چندر کے ماتحت تھے اور اُن کے ساتھیوں میں ڈاکٹر حیدر خاں ، ڈاکٹر سید عمر ، ڈاکٹر وی این واگھرے ، ڈاکٹرمرزا معین بیگ اور ڈاکٹر سلام صاحب تھے ۔ ڈاکٹر ابوالحسن نہ صرف اچھے معالج تھے بلکہ ایک مشفق استاد بھی، انتہائی نفاست پسند ، خوش پوشاکی کے دلدادہ ، خوش مزاج اور بہت ہی ناپ تول کر کوئی مزاحیہ بات کرتے تھے ۔ اُن کے مزاح میں بھی بہت وزن تھا اور اس کی معنویت اور اہمیت پر زور دینے کیلئے اکثر اُس کو دہراتے تھے ۔ یہ اُن کے لطیف مزاح کی خصوصیت تھی ۔
اکثر طلباء کی یہ خواہش ہوا کرتی تھی کہ اعلیٰ تعلیم کیلئے انگلستان جائیں کیونکہ دنیا کے کسی اور خطّے کی اعلیٰ تعلیم کی اتنی قدر نہیں تھی بشمول امریکہ کے ۔ اُس زمانے میں طلبا اعلیٰ تعلیم کیلئے مغربی ممالک جایا کرتے تھے نہ کہ تلاش معاش میں اور پھر واپس وطن آجایا کرتے تھے جس طرح سے ڈاکٹر ابوالحسن صاحب نے کیا اور اُن کے نقش قدم پر میں نے بھی کیا ۔ مگر افسوس کی بات تو یہ ے کہ ڈاکٹر صاحب حالات زمانہ سے مایوس و مجبور ہوکر نقل مقام کربیٹھے ۔ ڈاکٹر صاحب انتہائی راست باز اور سیدھے سادے انسان تھے ۔
میں انگلستان سے 1966 ء میں واپس ہوا اور میرا تقرر عثمانیہ دواخانے پر ہوا اور ایک بار پھر ڈاکٹر ابوالحسن صاحب سے قریبی دوستانہ مراسم کاسلسلہ شروع ہوا اور مضبوط سے مضبوط تر ہوتا گیا۔
ابوالحسن حیدرآبادی وضع کے ایک خاص شخص تھے ۔ اُصول پسندی کوٹ کوٹ کر اُن کی شخصیت میں رچی بسی تھی ۔ وہ مجھ سے ہمیشہ کہا کرتے تھے کہ یہ سب اُن کے ماموں کی تربیت کااثر تھا ۔ اس کے ساتھ ساتھ فنون لطیفہ سے اُن کو خاص دلچسپی تھی ۔ موسیقی میں عزیز احمد خاں وارثی کی محفلیں پُرتکلف عشائیوں کے ساتھ اُن کے گھر پر ہوا کرتی تھیں۔ ڈاکٹر صاحب میں ایک اور خاص وصف تھا وہ بڑے قدر شناس تھے ۔ اگر کوئی چیز اُن کو پسند آجائے تو اُس کی موزوں و مناسب تعریف کئے بغیر نہ رہتے تھے ۔ اچھے الفاظ اور جذبات میں اس کااظہار کیا کرتے تھے کہ تحفہ دینے والے بھی بہت خوش ہوجایا کرتے تھے۔
آم کے نہ صرف شوقین تھے بلکہ پرکھتے تھے ۔ پشادری کے پاس سے اکثر میرے لئے بذات خود آم کے تحفے لایا کرتے تھے اور اُن کی تفصیلات اور توضیحات سمجھایا کرتے تھے ۔ میری قدرشناسی جو میں نے اُن ہی سے سیکھی تھی کو وہ پسند کرتے تھے ۔ میرے اور اُن کے روابط گہرے ہوتے گئے اور میں نے کبھی یہ سوچا بھی نہیں تھا کہ وہ حیدرآباد کو خیرباد کہیں گے ۔ ملازمت اچھی تھی پرائیویٹ پریکٹس میں بڑے کامیاب اور مقبول تھے مگر خیالات اگر مواقف نہ ہوں تو بہت جلد دلبرداشتہ ہوجایا کرتے تھے ۔ انکم ٹیکس کی جھڑتی ہر مشہور ڈاکٹر کی ہوتی ہے ، نہ تو کوئی متاثر ہوتا نہ پریشان ۔ کسی نے شرارتاً شکایت کی اور ڈاکٹر صاحب بد دل ہوگئے اور سعودی عرب چلے گئے ۔ مکہ شریف میں رہا کرتے تھے ، اچھی ملازمت تھی۔ ابوالحسن صاحب کی خاص خوبی یہ تھی کہ وہ فطرتاً مذہبی مسلمان تھے ، حیدرآباد میں بڑی پابندی سے نماز جمعہ کیلئے مکہ مسجد جایا کرتے تھے ۔ حضرت محمد عبدالقدیر صدیقی قبلہ کے بڑے معتقد تھے ، ایک مخصوص قسم کا روحانی پہلو ابوالحسن صاحب کے کردار میں ہمیشہ نظر آتا رہا ہے ۔
یہی پہلو اُن کی زندگی کا مشعل راہ رہا ہے۔ سعودی عرب سے وہ غالباً 1974 ء میں Minne Sota امریکہ منتقل ہوگئے اور وہاں سے بہت کم کہیں جایا کرتے تھے ۔
میرے مضامین بڑی پابندی سے پڑھا کرتے تھے اور ہمیشہ ہمت افزائی کرتے رہے اور سیاست اخبار بذریعہ ڈاک اُن کے پاس جایا کرتا تھا ۔ وہ الکٹرانک اخبار کو زیادہ ترجیح نہیں دیتے تھے ۔ ڈاکٹر صاحب کی صلاحیتوں اور خوبیوں کا بھرپور فائدہ ملک کو حاصل کرنا چاہئے تھا مگر اُن کی صحیح قدر یہاں پر نہیں ہوئی ۔ آندھرائی حکمرانوں کے تعصب کا بھی غالباً وہ شکار رہے اور اُن کا تبادلہ آندھرا بھی کردیا گیا تھا۔ کاش کہ تلنگانہ اُس وقت قائم ہوتا اور حیدرآبادیوں کو اپنا جائز مقام ملتا ۔ ابوالحسن صاحب کے سیاست کے مضامین کا مجموعہ کتابی شکل میں شائع ہوچکا ہے ۔ وہ ہمیشہ یہ چاہتے تھے کہ عصری طبی معلومات اردو زبان میں سمجھائیں اور پابندی سے اخبارات کے تراشے بھی میرے پاس بھجوایا کرتے تھے ۔ غالبا لوگ اس حقیقت سے واقف نہیں کہ ڈاکٹر ابوالحسن صدیقی صاحب پہلے فزیشین تھے جنھوں نے نلگنڈے میں Flurosis پر نہ صرف جامع ریسرچ کی تھی بلکہ اُن کا مقالہ شہرہ آفاق طبی میگزین British Medical Journal میں شائع ہوا تھا۔ اگر اُس زمانے میں اُن کی ہمت افزائی ہوتی تو اس موضوع پر جس کے تعلق آج تک بھی حکومت پریشان ہے خاطر خواہ ریسرچ ہوتی ۔ بدقسمتی سے اُن کی یہ اختراعی قوت بھی دفتریت اور ساتھیوں کی رقابت کا شکار ہوگئی ۔ غالباً یہی وجوہات تھیں جن کے باعث ڈاکٹر ابوالحسن صدیقی صاحب پھر کبھی حیدرآباد نہیں آئے ۔ ہم لوگ سب بہت اصرار کیا کرتے تھے مگر جیسا کہ لوگ کہتے ہیں کہ دل کھٹا ہوگیا
اُسی طرح وہ بھی حیدرآباد کے چند تلخ تجربات کو بھلا نہ سکے ۔ گوکہ ڈاکٹر صاحب موجودہ الکٹرانک اور ڈیجیٹل ذرائع مواصلات سے نہ جانے امریکہ میں رہتے ہوئے بھی کیوں آشنا نہ ہوئے مگر دور سے بھی اپنے تمام پرانے ساتھیوں سے مسلسل ربط میں رہا کرتے تھے ۔ کیا بینائی اس کی وجہ تھی یا پھر عدم رغبت نہیں معلوم ۔ اگر وہ سوشیل میڈیا کا ستعمال کرتے ہوئے مثلاً Facebook وغیرہ تو بہت محظوظ ہوتے ۔ اکثر ٹیلیفون پر طویل گفتگو ہوا کرتی تھی اور نہ صرف فرداً فرداً سب کی تفصیلات معلوم کرتے تھے بلکہ کافی صحیح مذاق پرانی یادوں کو تازہ کرتے ہوئے ہوا کرتا تھا ۔ کاش ابوالحسن صاحب ترک وطن نہ کرتے ۔و ہ ڈاکٹری اخلاق کے علمبردار تھے اور ایسے رہنما سے حیدرآباد محروم رہا ۔ گوکہ وہ امریکہ میں بس گئے تھے مگر اُن کا دل حیدرآباد میں تھا ۔ بظاہر اُن کی مذہبیت میں گہرائی نظر نہیں آتی تھی مگر میں نے فطری مسلمان کی اصطلاح استعمال کی ہے ۔ اُن کی طبیعت اور فطرت میں اسلامی کردار جھلکتا تھا ۔ ڈاکٹر ابوالحسن صدیقی صاحب مرحوم کو میں خراج عقیدت پیش کرتا ہوں اور اُن کی مغفرت کیلئے دعاگو ہوں۔