سید امتیازالدین
( ڈاکٹر سید عبدالمنان صاحب کی وفات کے بعد اگر کسی ماہر معالج کے گزر جانے پر لوگوں نے شدید رنج کا اظہار کیا ہے تو وہ ڈاکٹر مجید خاں کا سانحہ ارتحال ہے۔ ڈاکٹر مجید خاں کی ایک کتاب جس میں’سیاست‘ میں شائع شدہ مضامین بھی شامل تھے چند سال پہلے منظر عام پر آئی تھی۔اس کتاب کی رسم اجراء کے موقع پر میں نے حسب ذیل مضمون پڑھا تھا جو ابھی تک غیر مطبوعہ ہے۔ آج میں اُسی مضمون کو قارئین کی نذر کرتا ہوں۔ میں نے مضمون کو من و عن رکھا ہے کیونکہ ڈاکٹر مجید خاں کا دکھ ابھی اتنا تازہ ہے کہ مضمون کے صیغۂ حال کو صیغۂ ماضی میں تبدیل کرنا میرے بس کی بات نہیں۔)
’’ ڈاکٹر ایس رادھا کرشنن نے ایک دواخانہ کا افتتاح کرتے ہوئے کہا تھا کہ ا چھا ڈاکٹر وہ ہے جو کسی مرض یا بیماری کا علاج نہیں کرتا بلکہ مریض کا علاج کرتا ہے۔ ڈاکٹر مجید خاں کی کتاب ’’ جدید نفسیات ‘‘ کے مطالعہ سے محسوس ہوتا ہے کہ ڈاکٹر صاحب اپنے ہر مریض کا صرف علاج ہی نہیں کرتے بلکہ اُس کی اُلجھنوں کی اصل وجہ معلوم کرتے ہیں اور ذہنی گتھیوں کو سلجھانے کی کامیاب کوشش کرتے ہیں۔ جب ڈاکٹر مجید خاں نے 1959ء میں ایم بی بی ایس کا امتحان کامیاب کیا تو اسپیشالیٹی کے لئے اُن کے سامنے طب کی کئی شاخیں کھلی تھیں۔ وہ دل کے امراض کے ماہر بن سکتے تھے، پیٹ اور معدے کے امراض، ہڈیوں، آنکھوں ، غرض انسانی جسم کے کسی بھی حصے کے معالج بن سکتے تھے لیکن انہوں نے ماہر نفسیات بننا پسند کیا۔ یہ اُن کی مشکل پسندی کی مثال بھی ہے اور انسان دوستی کی بھی کیونکہ پاگلوں یا ذہنی طور پر مریض اشخاص کے ساتھ وقت گزارنا کوئی بھی پسند نہیں کرتا۔ ڈاکٹر مجید خاں یا اُن جیسے ماہرین نفسیات کے اس میدان میں آنے سے پہلے دماغی امراض سے متاثرہ اشخاص کی زندگی اجیرن کردی جاتی تھی۔ کئی برس پہلے ایک دفعہ میں چارمینار سے کوٹلہ عالیجاہ کی طرف جارہا تھا۔ میں نے ایک ملگی پر بورڈ لگا ہوا دیکھا جس پر لکھا ہوا تھا ’’ کسی کو پاگل نہیں رہنے دو ں گا‘‘ ظاہر ہے کہ ایسا عالمگیر نعرہ لگانے والے یا تو جھاڑ پھونک سے علاج کرتے ہیں یا پھر مار پیٹ سے۔
ڈاکٹر مجید خاں کے مضامین پڑھنے سے معلوم ہوتا ہے کہ اُن کی شخصی ہمدردی مریض کے دکھی دل پر مرہم کا کام کرتی ہے۔ وہ اُن کو راز داں بنانا چاہتا ہے جس سے اس کی تکلیف دور ہوتی ہے۔ ڈاکٹر صاحب نے انگلستان میں اعلیٰ تعلیم حاصل کی ہے لیکن انہوں نے کسی بیرونی ملک میں قیام کرنے اور دولت کمانے کی بجائے ہندوستان واپس آنے اور اہل وطن کی خدمت کرنے کو ترجیح دی۔ اس کتاب میں بہتر مضامین ہیں اور اکثر شعراء کے بہترین اشعار چنے جاتے ہیں جنہیںبہتر نشتر کہا جاتا ہے۔ یہ مضامین بھی مجید خاں صاحب کے بہتر نشتر ہیں جن کے مطالعے سے ہمیں انسانی نفسیات کو سمجھنے میں مدد ملتی ہے۔
ڈاکٹر صاحب۔ پرسنالٹی ڈیولپمنٹ کو بہت اہمیت دیتے ہیں، اُن کا مشورہ ہے کہ ہمیں بات کہنے سے پہلے سوچنا چاہیئے۔ یہ ایک زرین اصول ہے جس پر بہت کم لوگ عمل کرتے ہیں۔ ڈاکٹر صاحب نے ایک مضمون میں اشارہ کیا ہے کہ ہندوستانی والدین اپنے بچوں میں خود اعتمادی کی تربیت نہیں کرتے۔ وہ ہر معاملے میں تو اتنی زیادہ رہنمائی اور سرپرستی کرتے ہیں کہ اُن کے تربیت یافتہ بچے جب تعلیم یا روزگار کے لئے باہر کے ملکوں میں جاتے ہیں تو ان کو قدم قدم پر رہنمائی کیلئے والدین کی مدد کی ضرورت پڑتی ہے۔ وہ خود یہ فیصلہ نہیں کرپاتے اور خوفزدہ ہوجاتے ہیں۔ یہی حال محبت کی شادی کا ہے۔
ڈاکٹر صاحب کہتے ہیں کہ ہر رومانس کا انجام چٹ منگنی پٹ بیاہ نہیں ہونا چاہیئے۔ لڑکے اور لڑکی کو خود ایک دوسرے کے بارے میں غور کرنا چاہیئے اور صحیح قدم اُٹھانا چاہیئے۔ میاں بیوی میں اکثر ہم آہنگی نہیں پائی جاتی جو دراصل مزاجوں کے فرق کی وجہ سے ہوتی ہے۔ ڈاکٹر صاحب نے مختلف ازدواجی مسائل کو بھی چھیڑا ہے اور صحت مند مشورے دیئے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ کسی صاحب نے یہ تجویز بھی رکھی ہے کہ یہ کتاب شادی کے موقع پر نئے جوڑے کو دینی چاہیئے۔ نوجوانوں میں دہشت پسندی کے رجحان پر بھی ڈاکٹر صاحب نے قلم اُٹھایا ہے اور بچوں کی ابتدائی تربیت کی اہمیت کو گاؤں کے ایک لڑکے کی مثال سے واضح کیا ہے۔
مایوسی، وسوسے اور انجانا خوف انسان کو وقت سے پہلے بوڑھا بنادیتا ہے بلکہ اسے موت کے دہانے پر پہنچادیتا ہے۔ ڈاکٹر صاحب نے اپنے بعض مریضوں کی کیس ہسٹری لکھی ہے جو ایسے ہی وسوسوں کا شکار تھے۔
آج کل ہم جنسی یعنی Homosexuality کے بارے میں بہت کچھ کہا اور سُنا جارہا ہے۔ بعض عدالتی فیصلے اس کے حق میں بھی آگئے ہیں۔ ڈاکٹر صاحب نے بڑی عمدگی سے اس موضوع کو بھی اپنی کتاب میں چھیڑا ہے۔ بعض مضمون نگار واقعات کو بیان کرتے ہوئے اصلی نام لکھنے سے گریز کرتے ہیں لیکن ڈاکٹر صاحب نے جہاں ضرورت پڑی اصلی نام لکھ دیئے ہیں مثلاً بین مذہبی شادیوں کے موضوع پر کلکتہ کے رضوان الرحمن کی مثال ہمیں ملتی ہے۔ اسی طرح ذہنی اُلجھن کا شکار پروین بابی بھی اُن کے مضامین کا ایک کردار ہے۔
ڈاکٹر صاحب نے بعض دلچسپ مثالیں دی ہیں۔ مثلاً پولیس جو ایف آئی درج کرتی ہے اس کی ہر مقدمے میں اہمیت ہوتی ہے۔ لیکن خودایف آئی آر میں کیسی فاش غلطیاں ہوتی ہیں اُن کا ذکر مضحکہ خیز ہے۔ ٹاملناڈو کے پولیس اسٹیشن میں ایک بوئنگ 747 ہوائی جہاز کے کھوجانے کی رپورٹ درج کرائی گئی تھی جس کی قیمت 1600 روپئے درج کی گئی۔ ایک موٹر سیکل کی گمشدگی کی رپورٹ پر اس کی قیمت 90 لاکھ ا ور ایک سائیکل 92ہزار کی لکھی گئی تھی۔
بسا اوقات مذہبی معاملات میں سختی نوجوانوں پر منفی اثرات پیدا کرتی ہے۔ اس لئے والدین کو سلیقہ سے اور افہام و تفہیم سے کام لینا چاہیئے۔ڈاکٹر صاحب نے ایک واقعہ لکھا ہے کہ ایک صاحب بہت نمازی تھے لیکن اُن کا نوجوان لڑکا نماز کا پابند نہیں تھا۔ والد نے ایک دن سختی سے کہا کہ اگر ہم اللہ کی عبادت نہیں کرتے تو ہمیں جینے کا حق نہیں ہے۔ لڑکا اس بات پر گھر سے روٹھ کر چلا گیا۔ دوسرے دن اُس کی نعش ملی۔ اس کے ہاتھ میں ایک پرزہ تھا جس پر لکھا تھا ’’ ہمیں جینے کا حق نہیں ہے‘‘۔
ڈاکٹر صاحب نے خود اپنا ایک دلچسپ واقعہ لکھا ہے اور میں اسے آپ کو سنانا چاہتا ہوں۔ 1962 ء میں ڈاکٹر صاحب بذریعہ بحری جہاز لندن گئے۔ جہاز میں رات میں ڈِنر ہوتا تھا جس میں تمام مسافرین سوٹ پہن کر شریک ہوتے تھے۔ ٹیبل پر ایک آدمی جس کی مادری زبان شاید فرنچ تھی ‘ ڈاکٹر صاحب کے بازو بیٹھا تھا۔اُس نے ڈاکٹر صاحب کو مخاطب کرکے کہا ” Bon Appetite” ڈاکٹر صاحب اس کے معنی نہیں سمجھ سکے اور اپنے طور پر خیال کیا کہ شاید وہ نام پوچھ رہا ہے۔چنانچہ انہوں نے کہا کہ’’ مجید خاں ‘‘ ۔Bon Appetite ایک خیرسگالی کا جملہ ہے۔ جس کے معنی ہیں’’ اُمید کرتا ہوں کہ آپ کو اچھی بھوک لگے گی۔‘‘ جیسے bon Vayoge بمعنی Happy Jaurneyکہا جاتا ہے۔ دوسری رات پھر اس غیر ملکی آدمی نے Bon Appetite کہا۔ ڈاکٹر صاحب کو حیرت ہوئی کہ چوبیس گھنٹے کے اندر یہ شخص پھر اُن کانام بھول گیا۔ خیر انہوں نے پھر دہرایا۔ ’’ مجید خاں ‘‘ ۔ تیسرے دن ڈاکٹر صاحب نے جہاز میں کسی سے bon appetiteکے معنے پوچھے۔ تب ڈاکٹر صاحب کو معلوم ہوا کہ اس کے معنی ہیں کہ آپ کو اچھی بھوک لگے۔
اُس رات ڈاکٹر صاحب نے پہل کی اور خود اُس غیر ملکی سے Bon Appetite کہا ۔ جواب میں وہ غیر ملکی بولا ’’ مجید خاں ‘‘ ۔ جس طرح ڈاکٹر صاحب کو معنی سمجھنے میں غلط فہمی ہوئی تھی اُسی طرح وہ غیر ملکی بھی سمجھ بیٹھا تھا کہ ہندوستانی میں ’ مجید خاں ‘ کے معنی اچھی بھوک لگنے کی امید ظاہر کرنے کے ہیں۔
یہ تمام مضامین حقیقی واقعات پر مبنی ہیں اور ہر مضمون ایک نہ ایک نفسیاتی مسئلے کو سمجھاتا ہے۔ ڈاکٹر صاحب صاف اور رواں زبان لکھتے ہیں جس سے کہیں کہیں ان کی حیدرآبادیت بھی ظاہر ہوتی ہے۔ ڈاکٹر صاحب موقع موقع سے برمحل اشعار کا استعمال بھی کرتے ہیں جس سے اُن کے نکھرے ستھرے ادبی ذوق کا انداز ہ ہوتا ہے۔ کلیم عاجز کے علاوہ شاذ تمکنت اور دیگر شعراء کے اشعار بھی ڈاکٹر صاحب نے جابجا استعمال کئے ہیں۔ روز نامہ ’سیاست‘ میںڈاکٹر صاحب کے مضامین پابندی سے شائع ہوتے ہیں۔ ایک مرتبہ سیاست میں کچھ دن ان کے مضامین شائع نہیں ہوئے تو قارئین نے توجہ دلائی۔ بہر حال میں سمجھتا ہوں کہ’ سیاست‘ کے پڑھنے والے مجتبی حسین کے کالم کے دیوانے ہیں تو وہیں ڈاکٹر مجید خاں کے کالم سے وہ ہوش مندی کی طرف مائل ہوتے ہیں۔
مجھے ڈاکٹر صاحب سے ایک بات اور کہنی ہے، میرا خیال ہے کہ دنیا کی ترقی کیلئے دیوانوں کی بھی ضرورت ہوتی ہے۔ بعض اہل خرد اتنے محتاط ہوتے ہیں کہ زندگی کے راستے میں پھونک پھونک کر قدم رکھتے ہیں بلکہ بسااوقات صرف پھونک کر رہ جاتے ہیں قدم تک نہیں اُٹھاتے۔ کسی کا شعر ہے:
زمانہ اہلِ خرد سے تو ہوچکا مایوس
عجب نہیں کوئی دیوانہ کام کرجائے
مشہور سائنسداں لوئی پاسچر اپنے تجربات میں اتنا منہمک رہتا تھا کہ اس کو اپنی شادی کی تاریخ یاد نہیں رہی تھی۔ سرسید احمد خاں کو علیگڑھ کی ایسی لگن تھی کہ اپنا سب کچھ یونیورسٹی کے لئے لگادیا یہاں تک کہ جب دنیا سے رخصت ہوئے تو کہا جاتا ہے کہ کفن دفن کے لئے بھی انہوں نے کچھ نہیں چھوڑا تھا۔ جواہر لعل نہرو ایک محفل میں شریک تھے جس میں کوئی گلوکار غالب کی غزل گارہا تھا۔جب وہ مقطع پر پہنچا کہ:
عشق نے غالب نکما کردیا
ورنہ ہم بھی آدمی تھے کام کے
اس شعر پر رو پڑے کہ وطن کی محبت نے انہیں کہیں کا نہ رکھا ورنہ ہوسکتاکہ وہ زندگی میں کچھ اور بھی کرتے۔
بہر حال ڈاکٹر مجید خاں کی یہ کتاب منفرد بھی ہے اور مفید بھی۔ اس میں ادب بھی ہے، اخلاقی مسائل ہیں اور نفسیاتی مسائل بھی اور ان کا حل بھی۔ کتاب کی جتنی تعریف کی جائے کم ہے۔ اتنا کچھ لکھنے کے بعد خیال ہوتا ہے کہ ڈاکٹر مجید خاں صاحب نے اگر غور سے میرا یہ تبصرہ سنا ہے تو نہ جانے میری دماغی حالت کے بارے میں کیا اندازہ لگارہے ہوں۔ ایسا نہ ہو کہ میں اپنا مضمون پڑھ کر پسینہ پونچھتا ہوا اپنی نشست سنبھالوں اور ڈاکٹر صاحب چپکے سے مجھ سے کہیں ’’ کل میرے مطب پر آجایئے ، مجھے آپ کا معائنہ کرنا ہے‘‘۔
انوری خان ۔ جدہ
آہ … ڈاکٹر مجید خان
ایک مہربان، سچے اور مخلص ڈاکٹر کوہم نے کھودیا۔ میری ان سے تین مرتبہ ملاقات ہوئی تھی، میری والدہ سے متعلق ان سے مشورہ کرنا تھا۔ شروع میں تو مجھے ایسا لگا کہ انہوں نے کچھ دلچسپی نہیں لی اور نسخہ لکھ کر دے دیا۔ لیکن چند روز بعد جب والدہ کی طبیعت میں بہتری نظر آنے لگی تو احساس ہوا کہ وہ اتنے بڑے ڈاکٹر ہیں کہ ذرا سی کیفیت کہنے سے وہ سارا کیس سمجھ گئے اور مجھے ان پر پورا اعتقاد ہوگیا۔ ان کے علاج سے نہ صرف حیدرآباد بلکہ اضلاع اور ہندوستان سے باہر لوگ بھی شفاء یاب ہوتے تھے۔
ان کے مضامین معلوماتی اور تعلیمی ہوتے تھے اور ان میں دینی پہلو بھی ہوتا تھا۔ یہ لوگوں کی ذہنی طور پر رہنمائی کرتے اور زندگی کو صحیح رُخ کی جانب موڑتے تھے۔ نوجوانوں کی اصلاح پر خاص توجہ دیتے تھے۔ میں اور میرے شوہر جدہ میں پابندی سے ان کے مضامین پڑھتے تھے۔ اتنے اچھے انسان کی موت پر جتنا غم کریں کم ہے۔ میں مسلسل ان کی مغفرت کیلئے دعا گو ہوں۔ اللہ تعالیٰ ان کے متعلقین کو صبر جمیل عطاء فرمائے اور ان کے زیر علاج مریضوں کیلئے ان کا نعم البدل عطاء فرمائے۔ ان کے لئے ایک شعر یاد آگیا:
ہزاروں سال نرگس اپنی بے نوری پہ روتی ہے
بڑی مشکل سے ہوتا ہے چمن میں دیدہ ور پیدا