ڈاڑھی کی مقدار اور فاسق کی امامت

حضرت مولانا مفتی محمد عظیم الدین ، صدر مفتی جامعہ نظامیہ

سوال : ۱۔ کیا فرماتے ہیں علمائے دین اس مسئلہ میں کہ پیش امام کی داڑھی کتنی ہونی چاہئے ۔ اگر اس مقدار سے کم ہو تو اس کی اقتداء جائزہے یا کیا جبکہ وہ امام حافظ و قاری ہے ۔ اگر ایسا امام مقدار مقررہ داڑھی رکھنے کا وعدہ کرلے تو اس مقدار کے پورے ہونے تک کیا اس کی اقتداء درست ہوگی ؟
۲۔ اگر امام کسی موقعہ پر جھوٹ بولے اور آئندہ جھوٹ نہ بولنے کا وعدہ کرے تو اس کی اقتداء سے متعلق شرعاً کیا حکم ہے ؟
جواب : ہرمسلمان کوخواہ وہ امام ہو یا مقتدی داڑھی رکھنا چاہئے اور اس کی مسنون مقدار ایک مٹھی ہے اس سے زائد حصے کو تراشنا جائز ہے ۔ الدرالمختار برحاشیہ رد المحتار جلد پنجم کتاب الحظر والاباحۃ میں ہے ولا بأس بنتف الشیب وأخذ اطراف اللحیۃ والسنۃ فیھا القبضۃ ۔ اور رد المحتار میں ہے (قولہ والسنۃ فیھاالقبضۃ ) وھو أن یقبض الرجل لحیتہ فما زاد منھا علی قبضتہ قطعہ کذا ذکر محمد فی کتاب الآثار عن الامام قال وبہ نأخذ ۔ محیط السرخسی ۔ داڑھی مونڈھنا اصلاً جائز نہیں ہے اور داڑھی کی مسنون مقدار سے کم رہنے کی صورت میں کترانا مخنثوں کا فعل ہے شرعاً یہ بھی جائز نہیں ہے ۔ درمختار برحاشیہ رد المحتار جلد دوم ص ۱۲۳ میں ہے وأما الأخذ منھا وھی دون ذلک کما یفعلہ بعض المغاربۃ و مخنثۃ الرجال فلم یبحہ أحد وأخذ کلھا فعل یہود الہند و مجوس الأعاجم ۔ فتح
شرعاً امامت کا وہی شخص زیادہ مستحق ہے جو مسائل نماز سے زیادہ واقف ہو اور فواحش سے پرہیز کرتاہو ، اس کے بعد قرآن اچھا پڑھنے والا اگر اس صفت میں سب لوگ برابر ہوں تو پھر متقی شخص کو امام بنانا چاہئے ۔ الدرالمختار جلد اول ص ۳۹۱ میں ہے ۔ ( والأحق بالامامۃ ) تقدیما بل نصبا أی للامام الراتب ( الأعلم بأحکام الصلوۃ ) فقط صحۃ وفسادًا بشرط اجتنابہ للفواحش الظاہرۃ وحفظہ قدر فرض ( ثم الأحسن تلاوۃ ) وتجویدًا (للقرائۃ ثم الأورع ) أی الأکثر اتقاء للشبہات والتقوی اتقاء المحرمات ۔
پس صورت مسئول عنہا میں امام کوچاہئے کہ وہ مسنون مقدار داڑھی رکھے ۔ اگر امام مذکور مسائل نماز سے واقف ہے اور قاری بھی ہے اور شرعی داڑھی رکھنے کاوعدہ کررھا ہے تو اس کی اقتداء جائزہے ۔
۲۔اگر امام جھوٹ سے توبہ کرلے اور آئندہ جھوٹ نہ بولنے کا وعدہ کرلے تو اس کی اقتداء درست ہے ۔ فقط واﷲ أعلم

حکمِ جمعہ در مقام ِغیرآباد
سوال : کیافرماتے ہیں علمائے دین اس مسئلہ میں کہ ایک مقام پر مسجد و درگاہ شریف ہے اس مسجد میں بزمانہء آبادی نماز ہوا کرتی تھی اب وہاں کوئی آبادی نہیں ہے اور دس پندرہ سال سے اس مسجد کو چھوڑکر آبادی میں ایک سنگ بستہ مسجد بنالی گئی جہاں پنجوقتہ نماز کے علاوہ جمعہ بھی ہوتاہے ۔ گاؤں کے باہر (تقریبا چار فرلانگ دور)جو مسجد تھی وہ چھوڑدی گئی ۔ لیکن اب چنداختلافات کی وجہ صرف جمعہ کی نماز اداکرنے کے لئے غیرآباد مسجد کو جارہے ہیں۔ ایسی صورت میں کیا آبادی کی مسجد (جہاں پنجوقتہ نماز ہوتی ہے) کو چھوڑ کر صرف جمعہ کی نماز کے لئے آبادی سے باہر کی مسجد کوجانا درست ہے ۔ ؟ بینوا تؤجروا
جواب : شرعا صحت جمعہ کے شرائط میں سے ‘‘مصر‘‘ بھی ہے اور مصر ایسی آبادی کا نام ہے کہ وہاں مسلمان جن پر نمازجمعہ فرض ہے اس قدر ہوں کہ اس مقام کی بڑی مسجد میں ا ن کے ایکدم جمع ہونے کی گنجائش نہ ہو ۔ولوجوبھا شرائط فی المصلی… وشرائط فی غیرہ المصر والجماعۃ الخ فتح القدیرجلد ۲ ص ۲۲ باب صلاۃ الجمعۃ اور الدرالمختار کے باب الجمعہ میں ہے المصر وھو مالا یسع اکبر مساجدہ أھلہ المکلفین بھاوعلیہ فتوی اکثرالفقھاء مجتبی لظھور التوانی فی الأحکام۔بریں بناء آبادی سے باہر جمعہ صحیح نہیں رواہ ابن شیبۃ موقوفا علی علی رضی اﷲعنہ لاجمعۃ ولاتشریق ولا فطر ولا أضحی الا فی مصر جامع او فی مدینۃ عظیمۃ صححہ ابن حزم ۔ فتح القدیر جلد ۲ ص ۲۲ فقط واللہ تعالی أعلم بالصواب