چیف منسٹر کے سی آر کی ستائش

نئی ریاست تلنگانہ کی مختصر عرصہ میں زیادہ سے زیادہ ترقی کرنے کی ستائش کرتے ہوئے وزیراعظم نریندر مودی نے اول تو ریاست کے چیف منسٹر چندر شیکھر رائو کی کارکردگی کو خوش فہمی کے جھولے میں جھلادیا، دوم نئی ریاست کے کئی تقاضوں کو پورا کرنے کے لئے مرکز سے ملنے والی ضروری امداد کو نظرانداز کردیا۔ گزشتہ دنوں جب ریاستی چیف منسٹر نے دہلی میں وزیراعظم سے ملاقات کی تھی تو امید کی جارہی تھی کہ تلنگانہ کے حق میں مرکز سے زیادہ سے زیادہ رقمی امداد کے اعلانات کئے جائیں گے مگر ایسا کچھ نہیں ہوا۔ ریاست میں خشک سالی کا مسئلہ زیر بحث آنے کے باوجود غیر توجہی کا شکار رہا۔ وزیراعظم نے تلنگانہ حکومت کی مختصر وقفہ میں بہترین حکمرانی کی داد دی ہے۔ وزیراعظم نے اپنے کابینی رفقاء اور مختلف ریاستوں کے گورنروں سے ملاقات کے دوران تلنگانہ کی ترقی کا واضح ذکر کرتے ہوئے کہا تھا کہ دیگر ریاستوں کے مقابل تلنگانہ نے اچھی دکھائی دینے والی ترقی کی ہے۔

قیام تلنگانہ اور اقتدار کے دو سال میں ہی تلنگانہ کا تقابل دیگر ریاستوں سے آگے کیا جارہا ہے تو پھر یہ چیف منسٹر کے سی آر کی حکمرانی کے لئے زبردست شاباشی ہے کیوں کہ تلنگانہ کی ترقی کے لئے کے سی آر کے دور کو دیگر ریاستوں میں ایک بہترین تقلیدی مثال کے طورپر دیکھا جارہا ہے۔ وزیراعظم نے تلنگانہ کی ترقی کے بارے میں جو معلومات حاصل کی ہیں یہ معلومات انہیں مختلف مرکزی اور ریاستی انٹلیجنس ایجنسیوں نے دی ہوں گی۔ مرکز۔ ریاست تعلقات سے جو فائدہ حاصل ہوئے ہیں یہ فوائد فی الحال تلنگانہ کے حق میں حاصل ہوتے دکھائی نہیں دیتے۔ کیوں کہ وزیراعظم نے غیر معمولی طور پر چیف منسٹر کے سی آر کی ستائش کی ہے تو اب انہیں مالی امداد دینے پر غور کرنے کی ضرورت ہی نہیں ہوگی جبکہ یہ نئی ریاست اپنی ضرورتوں کی تکمیل کے لئے مرکز کے تعاون کی مستحق ہے۔ ریاست کی ضروریات کو مرکز کے سامنے رکھنے میں ناکام چیف منسٹر وزیراعظم کی ستائش یا شاباشی حاصل کرکے خالی ہاتھ واپس ہوئے۔ بلاشبہ تلنگانہ کو ہر سطح ہر شعبہ میں ترقی دینے کے لئے چیف منسٹر نے مختلف اور منفرد اسکیمات، پروگرام شروع کئے ہیں مگر ان کے لئے مالی اعانت بھی ضروری ہوتی ہے اس کے بغیر پراجیکٹس تکمیل تک پہونچنے میں مشکلات سے دوچار ہوں گے۔ وزیراعظم نے تلنگانہ میں برقی بحران پر قابو پانے پر کامیابی سے بہت متاثر دکھائی دیئے اور توقع ظاہر کی کہ ریاست میں خشک سالی سے نمٹنے میں بھی یہ حکومت کامیاب ہوگی۔ انہوں نے اپنے طور پر کچھ زائد امداد کا اعلان کرنے سے گریز کیا۔

وزیراعظم کی ستائش حاصل کرنا ہی کسی ریاست کے چیف منسٹر اور ان کی ٹیم کے لئے ایک بہترین تمغہ امتیاز سمجھا جائے تو مسائل کی یکسوئی کی اصل بنیاد نظرانداز کردی جائے گی۔ تلنگانہ عوام کے لئے چیف منسٹر کے سی آر کو ابھی بہت کچھ کرنا باقی ہے۔ سڑکیں درست کرنی ہیں، بارش کے پانی کی نکاسی کے لئے ڈرنیج نظام بہتر بنانا ہے، بارش کے پانی کا ذخیرہ کرنے والے مقامات میں اضافہ کرنا ہے، شجرکاری، صاف صفائی، سوچھ تلنگانہ کے مقاصد کو پایہ تکمیل تک پہنچانا ہے۔ حیدرآباد کو روزانہ پینے کے پانی کی سربراہی کا دیرینہ مسئلہ فوری حل کرناہے۔ حیدرآباد میٹرو ریل کو وقت مقررہ پر تکمیل کرنے کی کوشش کرنی ہے۔ پارکنگ کے لئے جگہ مختصر کئے بغیر ہی دوکانات، بڑے شاپنگ مالس کی اجازت دینے سے گریز کرنا ہے۔ شہریوں کو زندہ رہنے کے لئے کسی لائسنس کی ضرورت نہیں ہوتی لیکن اس آسودہ ماحول میں شہریوں کے لئے زندہ و صحت مند رہنا ایک مشکل ترین مرحلہ بنتا جارہا ہے۔ حکومت نے تو اقتدار حاصل کرنے کے بعد اپنی میعاد کی منزلیں طے کرنا شروع کیا ہے مگر ہر منزل کے گزرنے کے بعد عوام کا اچھی زندگی گزارنے کا خواب ادھورا ہی رہے تو پھر شہر اور ریاستوں میں رہنے والوں کی زندگی بہتر بنانے کی امید معلق رہے گی۔ چیف منسٹر کے سی آر کو یوم تاسیس تلنگانہ کے جشن کے ساتھ ترقیاتی وعدوں کو پورا کرنے کی سنجیدہ مساعی پر عمل کرنا پڑے گا۔