چیف منسٹر کے سی آر کے اعلانات

بعد مدّت کے ہی سہی لیکن
یاد ان کو ہماری آئی تو
چیف منسٹر کے سی آر کے اعلانات
تلنگانہ کی اس وقت سب سے بڑی خدمت یہ ہوگی کہ انتخابی وعدوں کو صدق دل سے پورا کیا جائے۔ چیف منسٹر کے چندرشیکھر راؤ نے قلعہ گولکنڈہ پر دوسری مرتبہ قومی پرچم لہرا کر اپنی حکومت کی ترجیحات کا اعلان کیا۔ تاہم گذشتہ سال کے وعدوں اور اعلانات کی تکمیل کا خاص ذکر نہیں کیا۔ اس وقت ریاست تلنگانہ کو ناکافی بارش سے پیدا ہونے والی صورتحال سے نمٹنے کی تیاری کرنی ہے۔ ریاست میں کسانوں کی خودکشی کے واقعات کے باعث یہ ریاست ملک کی دیگر ریاستوں سے آگے سمجھی جاتی ہے۔ چیف منسٹر نے شہر حیدرآباد کی ترقی کیلئے اب تک کئی وعدے کئے ہیں۔ اب ان کا نیا اعلان یہ ہیکہ پانی کی قلت کے باعث شہریوں کو جو پریشانیاں لاحق ہیں ان کی یکسوئی کیلئے دو نئے ذخیرہ آب تعمیر کئے جائیں گے۔ ان ذخائر آب کو 30 ٹی ایم سی کی گنجائش کے قابل بنایا جائے گا تاکہ شہریوں کو پینے کے پانی کی قلت سے چھٹکارا مل سکے۔ کرشنا آبی پراجکٹ کی تکمیل کو مؤثر بنایا جانے کی کوشش جب سیاسی کھیل تماشا کا حصہ بن جائے تو سربراہی آب کے دیگر اعلانات پر عوام کو یقین ہونا مشکل ہے۔ شہر حیدرآباد کے موجودہ ذخائر آب عثمان ساگر اور حمایت ساگر ، حضور نظام نے تعمیر کروائے تھے ان کی موجودہ گنجائش صرف 10 لاکھ نفوس پر مشتمل آبادیوں کے لئے ہے اب شہر کی آبادی تیزی سے 1.4 کروڑ کی جانب بڑھ رہی ہے تو مزید ذخائر آب کی تعمیر وقت کا تقاضہ سمجھی جارہی ہے۔ اس سلسلہ میں چیف منسٹر کا اعلان خوش آئند ہے۔ ریاست تلنگانہ کی ترقی اور عوامی بہبودی اسکیمات کے لئے چندرشیکھر راؤ نے جن ترقیاتی منصوبوں کو قطعیت دی ہے اس سے ریاست میں خوشحالی یقینی ہے۔ حکومت نے اس سال بہبودی اسکیمات کیلئے 28000 کروڑ روپئے مختص کئے ہیں۔ چیف منسٹر کا دعویٰ ہیکہ بہبودی اقدامات پر عمل آوری میں ریاست تلنگانہ ملک کی اول درجہ کی ریاست بن گئی ہے اگر ان کی بات میں صداقت کا عنصر ہے تو پھر عوام کیلئے یہ بڑی خوشی کی بات ہے کہ انہیں اپنی ریاست میں خوشحالی مستقبل کی امیدیں پیدا ہورہی ہیں۔ تلنگانہ کے مواضعات پسماندگی کا شکار ہیں۔ اضلاع میں اور بڑے ٹاؤنس میں بنیادی سہولتیں نہیں ہیں اس کے باوجود چیف منسٹر کی تقریر سے یہ معلوم ہورہا ہیکہ ریاست تلنگانہ بہبودی اقدامات میں ملک کی اول درجہ کی ریاست بن گئی ہے تو عوام کو اس کا ضرور احساس ہورہا ہوگا۔ کسی بھی ریاست کی حکومت قطعی طور پر دعویٰ نہیں کرسکتی کہ اس نے عوام کے لئے اول درجہ کے کام انجام دیئے ہیں یا مہاتما گاندھی کی مرضی کے مطابق مواضعات کو ترقی دی جاسکے۔ آزادی کے کئی دہوں بعد بھی مواضعات کو مہاتما گاندھی کے نظریہ کے مطابق ترقی نہیں دی جاسکی تو پھر ہر سال یوم آزادی کے موقع پر حکمرانوں کے اعلانات صرف وقتی خوشی کا باعث بن جائیں تو بہبودی اور ترقی کی توقعات فضول ہوتے ہیں۔ تلنگانہ کے قیام سے قبل ریاست کو جن مسائل کا سامنا تھا ان کی عاجلانہ یکسوئی تو ممکن نہیں ہے تاہم چیف منسٹر کے سی آر نے ریاست کو درپیش برقی مسائل کی یکسوئی کی جانب بہتر قدم اٹھاتے ہیں جس کے نتیجہ میں برقی سربراہی کو یقینی بنایا گیا۔ اب چیف منسٹر نے آئندہ سال مارچ سے کسانوں کو روزانہ 9 گھنٹے برقی سربراہی کا اعلان کیا ہے۔ برقی پیداوار کے معاملہ میں ریاست کو خودمکتفی بنانے کی کوشش قابل ستائش ہے۔ اس سلسلہ میں چیف منسٹر نے 91,500 کروڑ روپئے کے فنڈس کو متحرک کرنے میں کامیابی حاصل کی ہے۔ چیف منسٹر کو ان کے بعض غیرمتوقع اعلانات کے باعث تنقیدوں کا سامنا ہے خاص کر شہر حیدرآباد کی تاریخی عمارتوں کو منہدم کرنے خاص کر عثمانیہ دواخانہ کی انہدامی کے خلاف شہریوں نے شدید غم و غصہ کا اظہار کیا۔ اگر چیف منسٹر شہریوں کے جذبات کا احترام کرنے کی کوشش کرتے ہوئے دواخانہ کی مرمت اور تزئین پر توجہ دیتے ہیں اور دواخانہ کے انفراسٹرکچر کو بہتر بناتے ہیں تو مریضوں کے لئے یہی بہت بڑی خدمت ہوگی۔ دواخانہ عثمانیہ کی جگہ نیا ملٹی اسپیشالٹی والا دواخانہ بنانے کی تجویز کو شہر کی کسی اور کھلی اراضی پر روبہ عمل لایا جاسکتا ہے۔ شہر اور اضلاع کے عوام کیلئے ایک ملٹی اسپیشالٹی اور کارپوریٹ طرز کا سرکاری دواخانہ ضرور ہے تو اس کے لئے موجودہ سرکاری دواخانہ کی خدمات کو بہتر بناتے ہوئے چیف منسٹر اپنے منصوبہ کو روبہ عمل لانے نیا ہمہ منزلہ دواخانہ تعمیر کرکے غریب مریضوں کے حق میں حضور نظام جیسے اقدام کرکے تاریخ کاکامیاب باب بن سکتے ہیں۔