نفیسہ خان
ہمارا وجود اُس دور کی نشانیوں میں سے ایک ہے جب لوگ کشادہ گھروں میں رہا کرتے تھے ، کبوتروں کے ڈربوں جیسے فلیٹ میں محبوس زندگی گزارنے کا چلن نہ تھا ، محدود ذرائع آمدنی میں بھی ضروریات کی تکمیل ہوجایا کرتی تھی ۔ سکون دل حاصل تھا ، ہمارے گھر کے کھلے آنگن کی سوندھی مٹی ہمارے تلوے چاٹا کرتی تو سر پر وسیع و عریض آسمان کی وسعتیں و نیلاپٹ اپنی جانب مائل کرتیں۔ کبھی امنڈتے بادل مسحور کر جاتے ، کبھی چاند ، چاندنی ، تارے، سب ہی آنگن و دالان کی چاندنی میں نہلادتے اور سورج اپنی دھوپ پھیلا دیتا اور اب تو گھروں میں دھوپ آتی ہے نہ قدرتی مناظر سے لطف اندوز ہونے کا کوئی موقع نصیب ہوتا ہے نہ گھروں میں ماں جائے سے پٹ کر کوئی بزرگ نہ دوسرے رشتے داریوں کا اٹوٹ پیار و ساتھ نصیب ہے، جن کی عقابی آنکھیں بچوں کی نگہبانی کرتیں۔ ہر ضرورت پریشانی دکھ سکھ میں وہ ہمارے شانہ بہ شانہ کھڑے ہوکر ہر معاملے میں اپنی موجودگی کا احساس دلاتیں ڈھارس بندھاتیں۔ پھر تغیر زمانہ کے ساتھ اور فطرت کے عین مطابق شفیق بزرگ چہرے نہ صرف مشترک خاندانوں سے چلے گئے بلکہ عدم کی راہ لینے لگے تو ہمیں احساس ہوا کہ جس سسرال و شوہر کے گھر کو بسانے ہم آئے تھے اب وہاں کی گھر گرہستی کی ساری ذمہ داریاں ہمیں سونپ کر وہ یوں جہانِ فانی سے رخصت ہوگئے ہیں کہ اب ہماری شمولیت بزرگوں کی فہرست میں ہوگئی ہے اور شفقت کی سوغاتیں بانٹنے کا کام اب ہمارا ہوکر رہ گیا ہے۔ جن جن حالات و مسائل سے وہ گزرے تھے اس سے کہیں زیادہ دشوارکن ماحول و حالات ہمارے منتظر تھے۔ ہم سے پہلے مشترک خاندان کا ہر فرد کچھ نہ کچھ ذمہ داری کا بوجھ اپنے کاندھوں پر لے لیا کرتا تھا ۔ ہم نے بھی بہ مشکل پانچ جمعگیاں سسرال میں گزاریں ، گھر کے لڑکے بیرون ملک میں نہ تھے لیکن بیرون شہر مختلف اضلاع میں سرکاری محکموں میں برسر روزگار تھے اس لئے گھر کی بہوئیں اپنے اپنے شریک حیات و ہمسفر کے ساتھ زادِ راہ یا توشہ دان کی طرح ساتھ کردی گئیں۔ اس طرح سب ا پنے اپنے گھر سنسار کی ہوتیں لیکن عید برات ا چھے برے موقعوں پر ملاقاتوں کے سلسلے محبت و خلوص کے ساتھ دائم و قائم رہے پھر یوں ہوا چلی کہ پھر خاندان کا شیرازہ بکھرنے لگا ، پہلے صرف لندن میں تعلیم حاصل کرنے کا سلسلہ شروع ہوا پھر امریکہ میں پڑھائی اور کمائی کا رجحان زیادہ ہوگیا تو نوجوان نسل گھر سے بے گھر اور وطن سے بے وطن ہوگئی ۔ یہ سب تعلیم یافتہ طبقے تک محدود تھا پھر خلیجی ممالک کے رہگزاروں میں سونا اگلنے لگا اور وہاں کا چسکہ ایسا لگا کہ امیر غریب تعلیم یافتہ ان پڑھ جاہل کاریگر مزدور عورت مرد ہر کوئی بناء کسی تشخیص کے دوڑ پڑا ۔ خاندان کے ایک پنچی نے اڑان بھری تو اس کی تقلید میں پرندوں کی ایک ڈار آسماں کی بیکراں وسعتیں پار کرنے لگیں۔ سبھی گھونسلے ویران ہونے لگے چوں چوں کرتے چونچیں کھولے ماں کے دانے کا انتظار رہا ، نہ چہچاہٹ نہ چہکار ہی باقی رہی ، گھونسلے اجڑگئے ، ڈالیاں ویران ہونے لگیں ۔ خس وخا شاک کے سوا کچھ نہ بچا۔ خرمنِ خلوص و محبت میں دوریوں و فاصلوں نے آگ لگادی۔ گھروں میں اب رہ گئے ضعیف کمزور ، لاغر، بیمار افراد جو خبیث روحوں کی طرح دیواروں سے سر ٹکراتے رہ گئے ۔ اب ان کے پاس لے دے کر رہ گئی ہیں تو رفاقتوں کی خوشگوار یادیں۔ کرم و التفات کا کوئی روح پرور لمحہ اپنے بن کے کسی گم آشتہ زمانے کے تصور کے سایہ میں اپنی پناہ لینی پڑتی ہے کیونکہ بڑھتی عمر کی تکلیف دہ ذہنی و جسمانی تمازت میں یہ سایہ دینے کا کام کرتی ہیں۔ ہر بندہ کو ایک ہمدرد ، غمگسار ، رازدار دوست کی خواہش و ضرورت ہوتی ہے تاکہ اپنے سینے میں سلگتے مسائل و پریشانیوں کو اس ہمدم کے سامنے بیان کر کے دل کی بھڑاس نکال سکیں کیونکہ اپنوں سے تو نہ اعتراف ترک تعلقات ہوسکتا ہے نہ رشتہ داریوں سے انحراف کرنے کی ہمت جٹا پاتے ہیں لیکن آج کل ایسا مخلص دوست بھی کہاں مل رہا ہے کہ
ملنے کو خمار اس دنیا میں ملتے ہیں ہزاروں دوست مگر
اک مخلص تنہا غم کے سوا ہر دوست جدا ہوجاتا ہے
کبھی وحشت دل کہتی ہے کہ گھر کی دیواروں اور سماج کی حد بندیوں کو توڑ کر صحرا و بیاباں کی راہ لیں کیونکہ اغیار کی بے التفاتیوں کا ذکر ہی فضول ہے ، یہاں اپنوں کے دیئے گئے گھاؤ ہی رستے رہتے ہیں، اکثر تو اپنی دل گرفتگی کو عیاں ہونے سے روکنا بہت مشکل ہوجاتا ہے ۔ اپنے غم کو بیاں کرنے کیلئے الفاظ کم پڑ نے لگتے ہیں۔ آنسو ہمارے رنج و غم کی ترجمانی تو کرسکتے ہیں لیکن وہ بھی خشک ہوجاتے ہیں ۔ اپنوں سے بچھڑے معمر افراد اپنے چہروں پر زیر لب تبسم کو سجائے اندر ہی اندر کچی لکڑی کی طرح جلتے رہتے ہیں۔ ہر فرد نے ایک عمر گزار دینے کے بعد بھی اس کے دل کے کئی ایک سنسان ویران گوشوں کو کن کن یادوں سے آباد کر رکھے ہیں یہ کوئی نہیں جان سکتا کیونکہ نہ صرف تنہائیوں میں بلکہ محفلوں میں بھی یہاں کسی کا گزر نہیں ہوسکتا کیونکہ دل کی وہ سنسان گلیاں ہیں جہاں کے سارے راستے مسدود ہیں۔ خاندان کے کئی افراد اور دل و جان کے قریب رہنے والے دوست احباب پڑوسی ہم سے بچھڑگئے ہیں۔ وہ ہماری دسترس سے دور ہیں، پر ان کی چاہ ہمیں ہر لمحہ تڑپاتی ہے ۔ تنہائی کی شدت ہر احساس کو کچل کر رکھ دیتی ہے ۔ ایسے میں بے جان ، فون ، سیل فون ، اسمارٹ فون ، آئی فون ، ٹیبلیٹ وغیرہ و غیرہ ہی زندگی کا سہارا بن گئے ہیں۔ ہم ضعیف افراد پرالزام ہے کہ ہم قدامت پرست ہیں ۔ اگر یہ بات سچ ہوتی تو ہم نئی ایجادات سے بے خبر ہوتے ، انہیں اپنے استعمال میں لانے کیلئے سیکھنے کے لئے یوں سر نہ پٹکتے ، چند انچ کا یہ فون خلوت و جلوت کا ساتھی بنا، ہماری نظروں کے سا منے رہتا ہے بلکہ کلیجے سے لگا رہتا ہے تاکہ کچھ تو کلیجے کو ٹھنڈک پڑے ، ضعف سے تھک کر لیٹ جائیں تب بھی کسی معشوق یا محبوب کے خط کی طرح تکیے کے نیچے یا قریب رگ جاں ہی رہے گا ، گویا اب ہم کسی لمحے بھی اس کی جدائی برداشت کرنے قطعی آمادہ نہیں ہیں۔ رات بھر بستر پر بھی آپ کے سرہانے ہوتا ہے ۔ صبح آنکھ کھلتے ہی ہمارا دست جنوں اسی کی طرف بڑھتا ہے ، اس تجسس کے ساتھ کہ پتہ نہیں رات بھر میں کتنے Comments ، کتنے تبصرے ، کتنی تصاویر ، کتنی خبریں ہماری منتظر ہیں۔ اللہ عزیزی Mark Zuckerberg کو سلامت رکھے کہ جہاں رشتوں میں دراڑیں پڑگئی ہیں ، خون سفید ہوگیا ، لوگ نظر کرم سے بھی کترانے لگے ہیں، غیر تو غیر اپنے بھی ہر جذبہ سے عاری ہوتے جارہے ہیں ۔ نہ محبت نہ لگاؤ نہ عداوت نہ رغبت نہ الفت نہ بے رخی گویا ہر جذبہ کی صداقت سے منکر ہوکر زندگی گزارنے کے عادی ہوگئے ہیں۔ دوریاں خطہ ارض ہی کی نہیں دلوں میں بھی پیدا ہوگئی ہیں ، ایسے میں فیس بک پر ایک کلک پر آپ کو کتنے دوست دستیاب ہوجاتے ہیں، نہ مذہب کی قید نہ جنس کا بھید بھاؤ ، نہ عمر کا تفاوت ، نہ رنگ و نسل کی تفریق ، نہ ملک وطن کی حدبندیاں اب یہ چھوٹا سا فون آپ کا ہمدم آپ کا ساتھی آپ کے دوستوں کا دوست بن گیا ہے ۔ اب بچھڑنے والوں کی یادوں کا سحر ٹوٹنے لگا ہے ، اب وہ بے نام سی خلش کچوکے تو لگاتی ہے لیکن بے چین و بے قرار نہیں کرتی کیونکہ ہم ان سے ہمکلام ہو پا رہے ہیں ، چلتے پھرتے بات کرتے دیکھ پارہے ہیں، ایک زمانہ وہ بھی تھا کہ تیرگی گہری ہوتی جایا کرتی تھی ساری رات سحر کے انتظار کا عذاب جھیلنا پڑتا تھا، اب سمندر پار آباد خاندان کے بچوں کے پٹکتے ننھے منے ہاتھ فرشتوں جیسی مسکراہٹ کے ویڈیو دل کو نہال کردیتے ہیں۔ ہاں کبھی تڑپا بھی دیتے ہیں کہ ان بچوں کو ہم اپنی بانہوں میں کیوں کھینچ نہیں پارہے ہیں۔ یہ فاصلے بس فاصلے بن کر ہی کیوں رہ جاتے ہیں۔ آج کل ہر عمر کے افراد کے ہاتھوں میں یہی فون ہیں، خصوصاً نوجوان نسل اسیر فعل و عمل ہے جہاں معلومات افروز خبریں تصاویر اور ویڈیو ہیں وہاں حد درجہ بیہودہ اخلاق سوز مال مسالہ بھی ہے ۔ پہلے بھی کتابیں تھیں، ریڈیو تھا ، پڑھنا سننا ، مشغلہ رہا تھا لیکن سچ پوچھئے تو پڑھنے سننے میں وہ کیفیت کہاں جو بند کمروں میں بیٹھ کر دیکھنے میں ہوتی ہے ۔ بیشتر تصاویر دعوت نظارہ دیتی ہیں گویا ؎
آنچ آتی ہے تیرے جسم کی عریانی سے
پیرہن ہے کہ سلگتی ہوئی شب ہے کوئی
ان ہی آتش شوق کو بھڑکانے والی چیزیں شب و روز کی ساتھی ہیں، ہر مسئلہ کا حل اس ایک فون میں موجود ہے ، جو آپ جاننا چاہیں وہ بھی ہیں اور جو نہ جاننا چاہیں وہ بھی کھلی کتاب بن کر آپ کے سامنے آجاتا ہے کیونکہ
ہر طرف دیکھتے چہروں کی خریداری ہے
حسن آوارہ ہے اور عشق بھی بازاری ہے
اب یہ آپ پر ہے کہ کونسے چہرے کی کتاب کو آپ کھولنا پسند کریں گے ، اب اتنے دوست احباب مل گئے ہیں جو اپنی میٹھی میٹھی پیاری پیاری باتوں سے آپ کا دل بہلاتے ہیں۔ بہترین مشورے دیتے ہیں ۔ سبق آموز جملے ذہن نشین کرنے کی کوشش کرتے ہیں ۔ اب وہ آپ کے لئے قطعی اجنبی نہیں ہیں کیونکہ ہر ایک کا چہرہ ایک کتاب بن گیا ہے جسے ہر کوئی پڑ ھنے کا آرزومند ہے ۔ آپ کے تبصرے ، آپ کی باتیں آپ کے خیالات کی تہہ تک جاکر آپ کی شخصیت کی قلعی کھول سکتا ہے ۔ ہر ایرہ غیرہ نتھو خیرہ آپ کا دوست بنا اپنی تصویریں بھیجتا رہتا ہے اور مصر ہوتا ہے کہ آپ اس کی اداؤں و تحریر پر اپنا نقطہ نظر یا تبصرہ ضرور لکھیںکیونکہ سوجان سے وہ اس کا منتظر رہتا ہے ۔ اب ہم سب پر فیس بک کا نشہ چڑھ چکا ہے ۔ ہم اس addiction کو معیوب بھی نہیں سمجھ رہے ہیں اس لئے خجالت کس بات کی جب غلطی یا گناہ جان بوجھ کر کیا جارہا ہے تو معافی کس بات کی مانگیں، توبہ استغفار کا مسئلہ کہاں سے درمیان میں آجاتا ہے ، اب آپ لاکھ فتوے دے ڈالیں اب کہاں ان چہروں کی کتابوں کو پڑھنے کی عادت چھوٹ سکتی ہے ۔ عورت ہوکہ مرد جوان ہو کہ بوڑھا ، باریش ملا ہوں کہ مولوی ، صوم و صلوٰۃ کے پابند ہوںکہ مشرک اپنے اپنے مذہب خیالات مزاج کے مطابق وہ خود کو ظاہر کرتے ہیں جو اپنے آپ کو پاکباز ، پکا سچا مومن مسلمان ظاہر کرنے کے درپے ہیں۔ ایسے لوگوں کے ہاتھ میں تسبیح ہوا کرتی تھی اور اس کے دانوں پر ان کی شہادت کی انگلی اور انگوٹھا حرکت کیا کرتے تھے۔ اب اس کی جگہ اسمارٹ فون نے لے لی ہے جس پر ان کی انگلیاں تھرکتی رہتی ہیں ؎
ایماں نواز چہرہ ایماں شکن ادائیں
انداز مومنوں کے اعمال کافرانہ
سچ پوچھئے تو آج کل ثواب ، عذاب ، نماز ، روزوں و زید کی باتیں نہ معمر لوگوں کو راغب کر رہی ہیں نہ جوانوں کو اپنی طرف مائل کر پارہی ہیں جبکہ فیس بک پر بہت کچھ موجود ہے ۔ ہر ایک کی انفرادیت ، دل آویز تحریریں، بہترین اشعار وصول ہوتے رہتے ہیں جو ذہن کی آسودگی کا باعث بنتی ہیں ۔ ہمارا اس حقیقت حال سے انحراف بھی ممکن نہیں کہ نہ کسی سے تکلم نہ ترنم اس کے باوجود کسی کے چند جملے باد صبا کے خنک جھونکوں کی طرح دل و دماغ کو تازگی بخشتے ہیں ، چند باتیں تہذیب و تمدن کا سنگ میل لگتی ہیں۔ اخلاق و شرافت کا درس دیتی ہیں ، پاکیزہ تخیلات کی پرورش کرتی ہیں۔ زندگی کے دور کے ہر شعبے میں رہبران ہماری صلاحیتوں کو ا جاگر کرتے رہتے ہیں۔ اخلاقی لغزشوں سے کنارہ کشی کا درس دیتے ہیں۔ ہر ایک کی اپنی روش ، اپنا طرز تحریر ، ماضی الضمیر کو پیش کرنے کا انداز ہوتا ہے جو ان کی ذات ، انفرادیت ، شخصی کردار کا عکاس ہوتا ہے ۔ ایسے میں ہم اور آپ معترض ہونے والے کون ہوتے ہیں لیکن چونکہ ہم نے ہزاروں روپئے خرچ کر کے لوگوں کے چہروں کی کتاب کو پڑھنے کا سر درد مول لیا ہے جس پر طرہ یہ کہ comment کی صورت میں آ بیل مجھے مار کا چیلنج بھی ہے ، ادھر آپ نے تبصرہ کیا تو دوسری جانب سے حریفں و حلیفوں کے حملے شروع ہوجاتے ہیں۔ بیکار لوگوں کیلئے یہ وقت گزاری کا بہترین ذریعہ ہے ۔ بھلا اس سے کوئی کیسے کنارہ کشی اختیار کرسکتا ہے ۔ بعض افراد بیہودہ لطیفے ، نازیبا الفاظ و جملے بھیجتے ہیں جو ان کی عامیانہ شخصیت کے عکاس ہوتے ہیں اور باشعور افراد کے سرحد فہم و گماں و ادراک سے بعید ہوتے ہیں، وہ اپنی شخصیت فطرت و ذہنیت کی ہر پرت ادھیڑنے خود ہی مصر نظر آتے ہیں۔ چند ایک کا پیرایہ اظہار سب سے جداگانہ اور ان کے وسیع مطالعے اور بہترین تربیت و تہذیب کا علمبردار ہوتا ہے اس لئے ہر جملہ پر لفظ نپا تلا واضح مفہوم و مقصد لئے ہوتا ہے جبکہ چند ایک کے جملے اوچھے رنگ کے حامل ہوتے ہیں ۔ اچھی بات پر داد دی جاسکتی ہے لیکن پھوپڑ مذاق لطیفوں پر جہاں ان کی ذہنیت آشکار ہوتی ہے وہاں ہمارا ذہن کوفت کا شکار ہوجاتا ہے ۔ فیس بک کے دوستوں سے ہمارا محبت ، خلوص ، پیار و شفقت کا کوئی ایسا رشتہ بھی نہیں جو ذہنی طور پر ان سے وابستگی پیدا ہوسکے ۔ اکثر ایسا کچھ پڑھنے کو ملتا ہے جس کے ہر لفظ میں مفہوم پنہاں ہوتے ہیں جو خود ستانی کا مظہر ہوتے ہیں لیکن جب تقریباً ہر روز فیس بک پر نظر آنے والے یہی چہرے جن کو دیکھ دیکھ کر کبھی الجھن (الرجی) ہوجاتی ہے ، اگر چند دن نظروں سے اوجھل ہوجا ئیں تب بھی ہمیں تشویش ہونے لگتی ہے کہ ہائے اللہ یہ اس طرح کیوں غائب ہوگئے کہ نام ہے نہ نشان باقی ہے ، حال یہ ہوجاتا ہے کہ ؎
کتاب کھول کے بیٹھوں تو آنکھ روتی ہے
ورق ورق تیرا چہرہ دکھائی دیتا ہے
آخر اس تشویش اس دل گرفتگی کی وجہ کیا ہوسکتی ہے ، شاید اسی کو ضعیفی و بڑھاپے کی بے تکی سوچ یا سٹھیا جانا کہتے ہیں۔ ہمارا ان اسمارٹ فون جیسے کھلونوں سے اپنی نارسائیوں کو سکون پہونچانے کی کوشش کرنا حماقت نہیں تو اور کیا ہے لیکن ہمیں یہ کھلونا اس لئے چاہئے کہ ہم اپنی نظروں سے اوجھل ہوجانے والوں کو ان کے روز مرہ کے ماحول میں دیکھ سکیں اور کبھی زندگی کی یکسانیت ماحول کو بوجھل بنادیتی ہے ایسے میں نئے موضوعات تصاویر ، اچھنبے میں ڈالنے والی تقاریر ، تذکرے خود کو ہلکا پھلکا محسوس کرنے میں معاون ثابت ہوتے ہیں ۔ قلمی دوستوں کی طرح آواز کی دنیا کے دوستوں میں بھی احترام و اعتماد کا ہونا بہت ضروری ہوتا ہے ۔ آج کل کے ماحول میں جبکہ کفر و ایماں ہم آغوش ہوگئے ہیں، ہمارے اندر کی روحانیت و پاکیزگی کی صفت ناپید ہوتی جارہی ہے ۔ ہمیں اپنے اخلاقی حدود معلوم ہونے چاہئیں۔ اس لئے ؎
جی میں آتا ہے کہ اس تہذ یب نو کو دیکھ کر
ہم دعا دل سے برائے نوع انسانی کریں