غضنفر علی خاں
دلی کے چیف منسٹر اروند کجریوال کی عام آدمی پارٹی کے 20 منتخب ارکان اسمبلی کو بہ یک جنبش قلم الیکشن کمیشن نے نااہل قرار دیا۔ اتنی بڑی تعداد میں کسی برسر اقتدار پارٹی کے ارکان اسمبلی کو نااہل قرار دینا ایک غیرمعمولی واقعہ ہے۔ الیکشن کمیشن نے اپنی ساکھ داؤ پر لگاکر یہ فیصلہ کیا۔ ان ارکان اسمبلی کے خلاف کہا جارہا ہے کہ وہ منافع بخش عہدوں پر فائز تھے۔ وہ سب کے سب عام آدمی پارٹی کے پارلیمانی سکریٹریز تھے۔ اپنے خلاف اس الزام کی تردید کرتے ہوئے ان ارکان اسمبلی نے درخواست دی تھی کہ وہ پارلیمانی سکریٹریز کے طور پر کام کرتے رہے لیکن انھیں نہ سرکاری کار ملی تھی اور نہ انھیں کبھی کوئی تنخواہ سرکاری خزانے سے ملی تھی جبکہ منافع بخش عہدے اُن عہدوں کو کہا جاتا ہے جہاں پر فائز لوگوں کو خصوصی مراعات حاصل ہوتی ہیں۔ انھیں بڑی بڑی تنخواہیں، کاریں، بڑے رہائشی بنگلے دیئے جاتے ہیں لیکن الیکشن کمیشن نے ان کی درخواست کی کوئی سماعت نہیں کی۔ ہندوستانی قانون میں کوئی شخص اس وقت تک مجرم نہیں ہوتا جب تک جرم ثابت نہیں ہوتا۔ تب تک وہ ملزم ہی رہتا ہے۔ ملزم کی درخواست پر غور کرنا اس کی سماعت کرنا اور اس کے بعد سزا دینا ہی قانون نافذ کرنے والے کسی بھی ادارے کی بنیادی ذمہ داری ہوتی ہے۔ 20 ارکان اسمبلی کو سماعت کا موقع نہیں دیا گیا اور الیکشن کمیشن نے صدرجمہوریہ ہند کو سفارش کردی کہ ان تمام عام آدمی پارٹی کے ارکان کو نااہل قرار دیا جائے اور بڑی فیاضی سے صدرجمہوریہ نے بھی انھیں نااہل قرار دیا۔ عام آدمی پارٹی اور اس کے لیڈر وزیر اعلیٰ دہلی اروند کجریوال نے جوابی وار کرتے ہوئے کہاکہ الیکشن کمیشن اب مرکز کی مودی حکومت کے اشارہ پر کام کررہا ہے۔ عام آدمی پارٹی کے لیڈر اشوتوش نے تو یہ تک کہہ دیا کہ ’’الیکشن کمیشن مودی حکومت کا لیٹر باکس‘‘ نہیں بن سکتا لیکن دراصل ایسا ہی ہوا ہے۔ عام آدمی پارٹی سے مرکز کی بی جے پی حکومت کو ایک خاص قسم کی مخاصمت اور دشمنی ہے۔ اس دشمنی کی بھی ایک خاص وجہ ہے کہ دہلی کے اسمبلی چناؤ میں عام آدمی پارٹی نے اروند کجریوال کی قیادت میں 70 سیٹوں میں سے 67 سیٹوں پر کامیابی حاصل کی تھی۔ اپنی تمام تر توانائی اور دھاندلیوں کے باوجود بی جے پی صرف 3 سیٹوں پر ہی کامیاب ہوسکی تھی۔ اس انتہائی ذلت آمیز شکست کے بعد سے جو بی جے پی کے خواب و خیال میں بھی نہ تھی، حکمراں پارٹی اور خود وزیراعظم نریندر مودی کی ساکھ کم از کم دہلی کی حد تک خاک میں مل گئی۔ اس شکست کے بعد پہلے ہی دن سے دہلی کے کجریوال حکومت کے خلاف مرکزی حکومت نے عداوت شروع کردی تھی۔
کوئی موقع مودی حکومت نے نہیں کھویا کہ عام آدمی پارٹی کی راہ میں رکاوٹ پیدا کرے۔ دہلی پولیس کو عام آدمی پارٹی کی حکومت کے تحت کرنے کی بات ہو یا کسی بڑے عہدہ پر کسی تقرر کی بات ہو مودی حکومت نے کجریوال حکومت پر وار کرنے سے گریز نہیں کیا۔ چیف منسٹر دہلی کے دفتر پر سی بی آئی دھاوا کیا گیا لیکن گھنٹوں کی چھان بین کے بعد تحقیقاتی ادارہ کو بقول وزیر اعلیٰ کجریوال ’’ان کے چار مفلر‘‘ کے علاوہ کچھ ہاتھ نہیں لگا۔ غرض قدم قدم پر مودی حکومت دہلی کی منتخب کجریوال حکومت پر وار کرتی رہی۔ اب جبکہ راجیہ سبھا کے چناؤ ہونے جارہے ہیں اور عام آدمی پارٹی کے کم از کم 3 امیدوار کا انتخاب یقینی ہے کیوں کہ اس کے 67 ارکان اسمبلی میں جو خاصی بڑی تعداد ہے راجیہ سبھا کے انتخابات میں عام آدمی پارٹی کے ارکان کی تعداد گھٹانے اور اس کے امیدواروں کو ہرانے کے لئے ہی پارٹی کے 20 ارکان اسمبلی کو قربانی کا بکرا بنایا گیا۔ اس کے لئے الیکشن کمیشن کے کاندھے پر بندوق رکھی گئی۔ اب ان ارکان نے دہلی ہائیکورٹ میں عرضی دی ہے۔ یہ سارا کھیل مودی حکومت کی پشت پناہی کے بغیر نہیں ہوسکتا جو دراصل اپنی انتخابی ہزیمت کے بعد ہی سے عام آدمی پارٹی کی مخالفت پر کمر کسی ہوئی ہے۔ اب اگر ان 20 ارکان کو ہائیکورٹ نے بھی نااہل قرار دیا تو عام آدمی کو کوئی نقصان نہیں ہوگا کیوں کہ اب بھی دہلی اسمبلی میں کسی پارٹی کی حکومت بننے یا قائم رہنے کے لئے 36 ارکان کی اکثریت درکار ہے۔ اس کڑی آزمائش کے بعد بھی اسمبلی میں پارٹی کے 44 ارکان رہیں گے۔ اس لحاظ سے بی جے پی اور مودی حکومت کا یہ خیال کہ کجریوال حکومت ٹوٹ جائے گی بالکل غلط ثابت ہوگا۔ یہ بھی سوچنے کی بات ہے کہ اگر اسمبلی کی 20 خالی نشستوں پر ضمنی چناؤ ہوں گے تو بھی کوئی فرق نہیں پڑے گا کیوں کہ ان تمام حلقوں میں بی جے پی ہی کامیاب ہوگی یہ بھی صریحاً غلط تصور ہے۔ ظاہر ہے کہ عام آدمی پارٹی 20 میں سے کم از کم آدھی تعداد میں تو کامیاب ہوسکتی ہے۔ اعداد و شمار کے کھیل میں بھی مودی سرکار کا کامیاب ہوتی دکھائی نہیں دیتی۔ سوال یہ ہے کہ آخر مودی جی اور ان کی حکومت کو اروند کجریوال یا عام آدمی پارٹی سے ایسا کیا خطرہ لاحق ہوگیا ہے کہ وہ پارٹی کی حکومت کو تہس نہس کرنے پر تلی ہوئی ہے اور ایسا کرنے کے لئے وہ دستوری ادارہ بشمول الیکشن کمیشن کی غیر جانبداری کو بھی ملیا میٹ کررہی ہے۔ اول تو یہ کہ عام آدمی پارٹی ابھی کسی بھی اعتبار سے قومی سطح کی پارٹی نہیں بنی ہے۔ البتہ وہ کوشش ضرور کررہی ہے۔ سارے ہندوستان میں اس کا وجود بھی نہیں ہے۔ بی جے پی کو یہ بھی سوچنا چاہئے کہ عام آدمی پارٹی اس کے لئے قومی سطح پر کوئی چیلنج نہیں ہے۔ اصل حریف تو کانگریس پارٹی ہے پھر کیوں مودی جی اور ان کی حکومت دہلی کی کجریوال حکومت کو اپنا حریف اور مدمقابل سمجھ رہی ہے۔ صرف اس دشمنی کی وجہ سے کہ عام آدمی پارٹی نے بی جے پی کو دہلی اسمبلی انتخابات میں اس وقت دھول چٹا دی تھی جبکہ وہ (بی جے پی) اور ذاتی طور پر مودی اپنے سیاسی عروج پر تھے۔ بی جے پی حکومت عام آدمی پارٹی کو غیر دستوری و غیر قانونی طریقہ سے ہٹانا چاہتی ہے۔ وزیراعظم مودی کے دور حکومت میں ہمارے ملک میں انتہائی سنگین مسائل کا ایک نیا جنگل پیدا ہوگیا ہے۔ لاء اینڈ آرڈر کی صورتحال ان تمام ریاستوں میں ابتر ہے جہاں بی جے پی کی حکومت ہے۔ مختلف ریاستوں میں محض اس لئے ہنگامہ آرائی ہورہی ہے کہ فلم پدماوت کی نمائش پر پابندی لگائی جائے۔ گجرات جو مودی کی آبائی ریاست ہے اس مسئلہ پر کھلے بندوں تشدد ہورہا ہے۔ ممبئی، راجستھان، مدھیہ پردیش میں تھیٹروں کو نقصان پہنچایا جارہا ہے۔ شاہراہوں پر آمد و رفت روک دی جارہی ہے۔ یہ سب کچھ سپریم کورٹ کے فیصلے کے بعد ہورہا ہے جس میں سپریم کورٹ نے مذکورہ فلم کی نمائش کی اجازت دی ہے۔ کھلے طور پر آج کئی ریاستوں میں سپریم کورٹ کے فیصلے کی مخالفت ہورہی ہے۔ خود سپریم کورٹ کی کارکردگی کے بارے میں شکوک و شبہات ظاہر کئے جارہے ہیں۔ مارکسسٹ کمیونسٹ پارٹی نے تو چیف جسٹس مشرا کے مواخذہ کی بات بھی کہی ہے۔ ملک بھر میں لاقانونیت اور نراج کی کیفیت پیدا ہورہی ہے۔ 26 جنوری کو ممبئی میں اپوزیشن کی ریالی نکالی گئی ہے۔ جس میں اور پارٹیوں کے علاوہ ترنمول کانگریس اور نیشنلسٹ کانگریس بھی تھے کیاکہ مسئلہ پر سپریم کورٹ کے فیصلہ کے بعد جیسا کہ فلم پدماوت کی نمائش کے تعلق سے کورٹ نے دیا ہے احتجاج اس بات کا دبا ہوا اشارہ نہیں ہے کہ ملک میں بعض عناصر آج ایسے بھی پیدا ہوگئے ہیں جو سپریم کورٹ کا احترام نہیں کرتے اور کیا آج راجپوت طبقہ اپنی عزت نفس کے دعویٰ سے ہنگامہ کررہا ہے۔ اس قسم کا ہنگامہ کوئی دوسرا طبقہ کسی اور مسئلہ پر مستقبل میں نہیں کرے گا۔ ایسے ان گنت مسائل کو چھوڑ کر صرف عام آدمی پارٹی سے دشمنی ثابت کرنے کو ترجیح دینا مودی حکومت کی نادانی ہے۔