چھوٹی سوچ اور پاوں کی موچ انسان کو آگے بڑھنے سے روک دیتی ہے

محمد مصطفی علی سروری
شکور ایک فارمیسی اگزیکیٹیو ہے اور شہر حیدرآباد میں کام کرنے والے ہزاروں اگزیکیٹیو کی طرح وہ بھی روزانہ آفس جانے کیلئے صرف اچھے کپڑے نہیں پہنتا ہے بلکہ ٹائی بھی پابندی سے لگاتا ہے اور ساتھ ہی گھر سے نکلتے وقت اپنے جوتوں کو بھی پالش کرنا نہیں بھولتا۔ پہلے کمپنی کو جانا وہاں سے دن کے مختلف (Assignments) لینا پھر دواخانوں کو جاکر ڈاکٹرس سے ملنا ، بڑی بڑی میڈیکل ادویات کی ایجنسیوں کو جانا اور شام میں دوبارہ ڈاکٹرس سے appointment لیکر ان کو اپنی کمپنی کے Sample دینا اور ان سے وہ دوائیاں لکھنے کی درخواست کرنا اس ساری مصروفیات کے دوران شکور کے کپڑے اور جوتے اپنی اصلی حالت میں باقی نہیں رہتے، دھول گرد میں الٹے حالت میں وہ گھر کو واپس ہوتا۔ شکور کے لئے پریشانی اس وقت بڑھ جاتی جب اچانک کسی دن شام کے وقت دوبارہ آفس میں میٹنگ کیلئے بلا لیا جاتا کیونکہ بڑے باس کے ساتھ اگر میٹنگ ہو تو اس کے کپڑوں اور جوتوں اور ٹائی پر پھر سے توجہ دینی پڑتی۔ ایک دن شام کے چار بجے آفس سے فون آگیا کہ تھوڑی دیر بعد آفس میں میٹنگ ہے تو بس شکور کو سب سے زیادہ فکر تو اپنے جوتوں کی تھی جو کہ دھول گرد اور سڑک کے گندے پانی سے خراب ہوگئے تھے ۔ خیر شکور نے تھوڑی دیر ڈھونڈنے کے بعد ایک موچی کی دکان دیکھ لی اور وہاں پر رک گیا تاکہ جوتوں کو پالش کرواسکے ۔ابھی موچی نے جوتوں کو پالش شروع بھی نہیں کی کہ اس کا فون بجنے لگا ۔ موچی نے فون اٹھایا اور بات کر کے کہا کہ ٹھیک ہے ابھی آرہا ہوں۔ شکور کا ایک جوتا بھی پالش نہیں ہوا تھا اور موچی جوتوں کو چھوڑ کر اپنی دکان میں ٹنگے اچھے کپڑے پہننے لگا۔ شکور بولا کہ ارے کیا ہوا بھائی پالش تو کردو تو موچی نے جواب دیا صاحب ذرا ارجنٹ کام ہے ، ابھی دس منٹ میں آروں۔ بچی کا فون آیا ہے اس کو کالج سے لینے جانا ہے ۔ شکور اپنے دونوں جوتے اتارے ساکس پر تھا اور پالش کرنے کیلئے موچی نے جوتے کی ڈوریاں بھی نکال دی تھی۔ شکور کو اب موچی کا انتظار کئے بغیر چارہ نہیں تھا ۔ شکور حیران تھا کہ موچی بچی کو کالج سے لانے جارہا ہے یا کہیں اور کیڑے ایسے جیسے کہیں دعوت میں جارہا ہو اور پھر موچی دکان سے چلا گیا تو شکور نے ادھر ادھر نظریں دوڑائیں ، دکان میں لگے طغرے اور کیلنڈر کو دیکھ کر پتہ چلا کہ موچی بھی مسلمان ہے ۔ دس منٹ گزرنے کے بعد جب موچی واپس دکان میں آیا تو شکور نے پوچھ ہی لیا کہ ارے کیا ہے ، ایسا بٹھاکر چلے گئے تو موچی نے معذرت چاہتے ہوئے بتلایا کہ کیا بولنا صاحب میری بچی یہ جو قریب میں گرلز کالج ہے اس میں پڑھتی ہے ، ڈگری کر رہی ہے ۔ اس کا فون آیا تھا کالج چھوڑ دیئے تو اس کو لینے گیا تھا ۔ شکور نے فوری پوچھا کالج تو یہاں بالکل قریب ہے پھر اتنی دیر تو موچی نے بتلایا کہ میری بچی نہیں چاہتی کہ اس کی کسی سہیلی کو معلوم ہوجائے کہ اس کے ابا موچی ہے ، اس لئے وہ دس بار یاد دلاتی ہے کہ مجھے کالج چھوڑنے اور لانے آنا ہے تو صاف ستھرے ٹپ ٹاپ کپڑے پہن کر آنا اور دکان سے سیدھے کالج پر نہیں آنا ورنہ کوئی دیکھ لیتا وہ جو مین روڈ کا راستہ ہے وہاں سے آنا اور کیا کروں صاحب بچیاں ہے پرھانا ضروری ہے ، اسکالرشپ بھی مل رہی ہے بول کر پڑھا رہا ہوں مگر آج کل تو کام کرنے کو ، محنت کرنے کو عیب بناکر رکھ دیئے ۔ ذرا سوچو اگر موچی کام نہیں کروں گا تو بڑے بڑے لوگاں بھی ننگے پیر ہوجاتے۔ یہ آج کل کا ماحول ہی بڑا خراب ہوگیا ۔ لوگوں کے جیب میں اتنے پیسے نہیں ہوتے کہ جوتے خرید سکیں، آپ کو بتاؤں مارکٹ میں 50 ہزار کے بھی جوتے ہیں جن کو لوگ صرف شوکیس میں دیکھ سکتے ہیں کیونکہ اتنے مہنگے جوتے خریدنا سب کے بس کی بات نہیں۔ شکور کو اس وقت تو موچی کی بات چیت خراب لگی کہ عین میٹنگ میں جانے سے پہلے دیر کر رہا ہے۔ یہ آدمی اور پھر اتنا لمبا لکچر لیکن اتوار کو آفس کی چھٹی کے دن شکور نے اپنے سب دوستوں کو موچی کا یہ قصہ بڑی تفصیل سے سنایا اور کہنے لگا کہ واقعی یارو مسلمانوں کا بڑا ڈبل اسٹانڈرڈ ہوگیا ہے ۔ اگر کوئی محنت کر رہا ہے تو اس کی کوئی عزت نہیں ہے ۔ ہاں حلال ہو حرام لیکن کسی کے ہاں کے ہاں بس پیسوں کی ریل پیل ہو تو وہ ہماری ہر دعوت کا مہمان بن جاتا ہے ۔ اس کے ساتھ کھڑے ہوکر تصویر کھنچوانا فخر سمجھا جاتا ہے اور ہر کوئی اس پیسے والے سے اپنی قربت بتلانے اور ثابت کرنے کیلئے بے چین رہتا ہے ۔ کیا یہ سچ ہے کہ آج مسلمانوں میں ساری کی ساری خرابیاں گھس گئی ہیں اور مثبت بات کوئی باقی نہیں بچی ہے ۔ نہیں دراصل مسئلہ یہ ہے کہ ہم صرف آدھا کلاس خالی ہے دیکھنے اور سننے کے عادی ہوگئے ۔ مسلمانوں میں جہاں بہت ساری خرابیاں ایسی ہیں جن کی اصلاح ضروری ہے ، وہیں بہت ساری اچھی باتیں بھی موجود ہیں جن کی ستائش اور تقلید بھی کی جانی چاہئے ۔
محمد منیرالدین کی عمر اکہتر برس (71) ہے اور عمر کے اس حصے میں بھی منیر صاحب روزانہ کام کرتے ہیں۔ منیر صاحب کے تین بڑے لڑکے اور لڑکی بھی ہے جس کی شادی ہوگئی ۔ لڑ کے بھی شادی شدہ ہیں اور اپنے گھروں میں خوش ہیں اور قارئین آپ سوچ رہے ہوں گے کہ منیر صاحب کے بچے شادی کے بعد اپنے والدین کو بھول گئے تو یہ بھی سچ نہیں ہے۔ جی ہاں صرف منیرالدین ہی نہیں ، ان کی بیوی بھی ان کے ساتھ رہتی ہے۔ کولکتہ کے انگریزی اخبار ٹیلی گراف نے 23 جون 2018 ء کو ID gift for father cool salon کی سرخی کے تحت منیر الدین صاحب کے متعلق خبر شائع کی ۔ خبر کی تفصیلات میں بتلایا گیا کہ منیرالدین کے بچے ماشاء اللہ سے اچھا کماتے ہیں، اب بھی آپ کو ان کے بچوں کی پوزیشن کا اندازہ نہیں ہورہا ہے تو یہ جان لیجئے کہ منیرالدین کا ایک لڑکا مغربی بنگال میں سیول سرونٹ ہے اور بطور ڈپٹی مجسٹریٹ کام کر رہا ہے اور صرف ایک لڑکا نہیں بلکہ دوسرے لڑکوں میں ایک حکیم ہے اور ایک بزنسمین ہے اور یہ تینوں لڑکے اپنے والد کے فرمانبردار ہیں اور چاہتے ہیں کہ عمر کے اس حصے میں منیرالدین کام کرنا بند کردیں اور آرام سے زندگی گزاریں لیکن منیرالدین 71 سال کی عمر میں بھی آرام نہیں کرنا چاہتے ہیں اور ایک حجام کے طور پر اپنی ایک چھوٹی سی دکان چلاتے ہیں۔ جی ہاں منیرالدین ایک نائی کے طور پر کام کرتے ہیں اور اپنی حجامت کی دکان کے ذریعہ ہی انہوں نے اپنے چار بچوں کی پرورش کی ، لڑکی کی شادی کی اور اپنے بچوں کے منع کرنے کے باوجود اپنی حجامت کی دکان میں لوگوں کے بال بنانے کا بدستور کام کرتے ہیں۔ منیرالدین کا لڑکا محمد علیم الدین ڈپٹی مجسٹریٹ ہے، اس نے سال 2012 ء میں مغربی بنگال سرویس کا امتحان پاس کیا ۔ محمد علیم الدین کو اس بات پر کوئی شرمندگی نہیں ہے کہ ان کے والد لوگوں کی حجامت بنانے کا کام کرتے ہیں ، وہ تو اپنے والد کو آرام دینے کی خاطر انہیں کام بند کردینے کا مشورہ دے رہے ہیں لیکن منیرالدین نے اخبار ٹیلی گراف کو بتلایا کہ میں اپنی حجامت کی دکان کیسے بند کرسکتا ہوں ، یہ تو میری زندگی ہے ، میں نے لوگوں کی حجامت بناکر اپنے بچوں کی پرورش کی ہے ، ان کی تعلیم کا انتظام کیا ۔ یہ میرے لئے ایک خوش قسمتی کی علامت ہے اور جب تک میرا بس چلے گا میں حجامت کی دکان چلاتا رہوں گا۔
خیرالدین کی بیوی کا نام انورا ہے ، انہوں نے اخباری نمائندے کو بتلائے کہ میرے شوہر محنت کے عادی ہیں اور ان کو اپنے کام سے اتنی محبت ہے کہ وہ اپنا کام چھوڑنے والے نہیں ہیں۔ ان کی اسی فطرت کو دیکھ کر میرے بچوں نے فیصلہ کیا کہ ان کی معمولی حجامت کی دکان کو عالیشان بنادیا جائے اور اس مرتبہ رمضان المبارک کی عید کے موقع پر منیرالدین کے بیٹے محمد علیم الدین نے اپنے والد کی پرانی حجامت کی دکان کو اے سی (ایرکنڈیشنڈ) سے بدل کر انہیں ایک تحفہ دیا۔
قارئین کرام نہ تو موچی کا کام چھوٹا ہوتا ہے اور نہ حجامت کا کام چھوٹا ہوتا ہے ۔ دراصل ہماری سوچ چھوٹی ہوگئی اوراس کا نتیجہ کیا نکلا وہ بھی ہمارے سامنے ہے ۔ بریانی کیلئے دنیا بھر میں مشہور شہر حیدرآباد میں بریانی کھانے والے تو سینکڑوں لوگ ملیں گے لیکن کوئی یہ نہیں بتلائے گا کہ وہ بریانی بنانے کا کام کرتا ہے کیونکہ ہمارے سماج میں بریانی کھانا فخر کی بات ہے لیکن بریانی بنانا معیوب سمجھا جاتا ہے۔ بچے کیا کمانے لگتے ہیں ، باپ آٹو چلانا چھوڑ دیتا ہے۔ ادھر ہمارے بچے باہر گئے ، ادھر ہم کام کرنا چھوڑ کر ان کے اکاؤنٹنٹ بن کر خوش ہو لیتے ہیں۔ ادھر کوئی مصیبت آگئی تو اور حالات خراب ہوگئے ، ہر ایک سے مدد و ہمدردی کیلئے درخواستیں کریں گے لیکن محنت کرنے کیلئے کوئی راستہ سمجھائی نہیں دے گا ۔
انجنیئرنگ کی ڈگری مکمل کرلینے کے بعد ہمارے بچے اب دوسرا کوئی کام کرنے کے لئے تیار ہی نہیں ہوتے۔ برسوں بیروزگار رہنا پسند کریں گے لیکن دوسرا کوئی کام کر کے اپنی اور ا پنے گھر والوں کی مدد کرنے کیلئے ہرگز تیار نہیں ہوں گے ۔ مصیبتیں اور پریشانیاں ہر مسلمانوں کو ہی نہیں آتی۔ ہمارے دیگر برادران وطن بھی پریشانیاں جھیلتے ہیں لیکن محنت کا راستہ اختیار کرتے ہیں۔
بھوپال کی رہنے والی یوگیتا رگھونشی کی عمر (47) برس ہے ۔ سال 2003 ء میں یوگیتا کے شوہر کا ایک سڑک حادثہ میں دیہانت ہوگیا ۔ دو بچوں کی ماں یوگیتا نے اگرچہ خود ایل ایل بی کا کورس کیا تھا لیکن ایڈوکیٹ شوہر کے زندہ رہتے ہوئے کبھی خود پریکٹس نہیں کی تھی ۔ شوہر کے چلے جانے کے بعد اپنے دو چھوٹے بچوں کی پرورش کرنے یوگیتا نے بطور وکیل کام شروع کیا لیکن سمجھ میں نہیں آیا تو ایک بیوٹی پارلر کے لئے کام کیا لیکن اس سے بھی کام نہیں بنا تو یوگیتا نے اپنے ایڈوکیٹ شوہر کے پارٹ ٹائم بزنس کو سنبھالنے کا فیصلہ کیا ۔ یوگیتا کا شوہر ایڈوکیٹ ہونے کے ساتھ پارٹ ٹائم میں ٹرانسپورٹ کا کاروبار کیا کرتا تھا ۔ یوگیتا نے بھی ٹرانسپورٹ کے کاروبار کو سنبھالنے کا فیصلہ کیا لیکن گاڑیوں کے ڈرائیوروں نے یوگیتا کو ستانا شروع کیا تو یوگیتا نے وکالت کی ڈگری رکھنے کے باوجود اپنی لاریاں خود چلانے کا فیصلہ کیا اور آج یوگیتا 10 پہیوں کی لاری بھی آسانی سے چلالیتی ہے ۔ یوگیتا نے اپنی لڑکی کو انجنیئرنگ کی تعلیم دلوائی اور اس کا لڑکا کالج میں ڈگری کر رہا ہے (بحوالہ ٹیلیگراف 21 جون 2018 ئ) یوگیتا آج آندھراپردیش، تلنگانہ ، کرناٹک ، ٹاملناڈو اور مہاراشٹرا کے چپے چپے سے واقف ہے۔ پچھلے پندرہ برسوں میں اس نے خود گاڑی چلائی اور اپنے کاروبار کو ترقی دی۔ یوگیتا نے لاء کی ڈگری رکھتے ہوئے بھی لاری چلاتے ہوئے اور اپنے بچوں کی تعلیم و تربیت کا سامان کیا ۔ اپنے بیوہ ہونے کا رونا نہیں رویا اور نہ کسی کے آگے ہاتھ پھیلایا اور میں آج بھی جبکہ رمضان کو گزرے ایک مہینہ بھی نہیں ہوا ، ایسی مسلم عورتوں کو مسجدوں کے باہر اپیلیں کرتے دیکھ رہا ہوں جو بیوہ ہیں تو سوچتا ہوں ہم کیسے مسلمان بن گئے کہ محنت کرنا معیوب ہوگیا اور ہاتھ پھیلانا آسان ہوگیا یا الٰہی تو ہمیں نیک توفیق عطا فرما۔ آمین
خدا نے آج تک اس قوم کی حالت نہیں بدلی
نہ ہو جس کو خیال آپ اپنی حالت کے بدلنے کا
sarwari829@yahoo.com