محمد مبشر الدین خرم
ہندستان میں سرکاری خزانوں کولوٹنے کی عام اجازت حاصل ہے اور برسراقتدار طبقہ کی جانب سے عوام کی دولت کے بے دریغ استعمال کے علاوہ اقرباء پروری کی کئی ایک مثالیں ملتی ہیں اور ملک کے خزانوں کو نقصان پہنچانے والوں میں وہی ’’چور‘‘ ملوث ہوتے ہیں جن کے ہاتھوں میں عوام نے خزانوں کی چابی دے رکھی ہے۔ چوکیدار کی چوری کے کئی واقعات سننے کو ملتے ہیں اور چوکیدار کبھی کبھی ڈکیت بھی بن جاتا ہے اور بسا اوقات تو چوکیدار پکڑے جانے کے خوف سے مالکین کو موت کے گھاٹ اتار کر بھی خود کو بچانے کی کوشش کرتا ہے ۔ملک کے موجودہ حالات میں بلکہ جاریہ عام انتخابات کے دوران ’’چوکیدار چور ہے‘‘ کے نعرے کو خوب شہرت حاصل ہوئی اور ہر کس و ناکس کی زبان پر یہ نعرہ پہنچ گیا لیکن چوکیدار کی چوری تک ہی عوامی نظریات کو محدود رکھا گیا جبکہ چوکیدار چور نہیں ڈکیت ثابت ہوا ہے اور اب جبکہ چوکیدار کی ڈکیتی سامنے آنے والی ہے تو چوکیدار ملک میں بد امنی کے ذریعہ ماحول کو کشیدہ اور خوفزدہ کرتے ہوئے یہ تاثر دینے لگا ہے کہ چوکیدار صرف چوری ‘ ڈکیتی نہیں کرتا بلکہ ضرورت پرنے پر چوکیدار قاتل بھی ہوسکتا ہے یا پھر قاتلوں کو میدان میں لاتے ہوئے چوری و ڈکیتی کو معمولی قرار دینے کی کوشش کرتے ہوئے قتل پر مباحث کروا سکتا ہے۔ڈکیتی کے دوران ہونے والی قتل علحدہ ہوتے ہیں اور چوری کرتے ہوئے کی جانے والی واردات کے قتل مختلف لیکن ڈکیتی اور چوری سے توجہ ہٹانے کیلئے کروائے جانے والے قتل کا بھی ریکارڈ موجود ہے اور اب تو ایسے قتل کو Lynching کہا جانے لگا ہے ۔ملک میں ماحول کو بگاڑتے ہوئے عوام کو ان امور پر گفتگو کا موقع ہی نہیں دیا جا رہاہے جو کہ راست ان کی جیب سے کی جانے والی چوری اور ان کے گھروں میں کی جانے والی ڈکیتی سے جڑے ہیں اور عوام بھی ان توجہ ہٹانے کیلئے کئے جانے والے قتل کو یہ تصور کر رہی ہے کہ ملک کو سب سے بڑا مسئلہ سیکیوریٹی کا ہے ۔
ملک میں رافیل اسکام سے بڑا بھی کوئی اسکام ہوا ہے یہ بات کوئی نہیں جانتا لیکن اس خبر کے منطر عام پر آنے کے باوجود بھی اس خبر کا کوئی چرچہ نہیں ہوا جس سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ چوکیدار چور نہیں بلکہ ڈکیت ہے۔ملک میں بھارتیہ جنتا پارٹی کو اقتدار حاصل ہونے کے بعد جو اسکام ہوئے ہیں ان میں ایک ایسا اسکام بھی ہے جو کہ منظر عام پر نہیں آیا بلکہ اس اسکام کو ہندستانی عوام اسکام کے طور پر نہیں بلکہ کسان کی مدد کے طور پر دیکھ رہے ہیں۔ نریندر مودی کے اقتدار سنبھالنے کے بعد مرکزی حکومت نے کسانوں کے لئے ’’ پردھان منتری فصل بیمہ یوجنا‘‘ اسکیم متعارف کروائی اور یہ تاثر دیا گیا کہ ملک کے کسانوں کو ان کی فصل کی تباہی پر معاوضہ دیا جائے گا اور اس معاوضہ کی ادائیگی سے کسان کو درپیش مسائل حل ہوتے چلے جائیں گے لیکن کیا واقعی یہ اسکیم ہے یا اسکام ! اس کے متعلق شائد کسی نے غور و فکر ہی نہیں کیا ہوگا کیونکہ چوکیدار کے جملوں کا ابتداء سے ہی سب شکار رہے اور جملوں میں 5برس نکالنے کا بھر پور موقع دیا گیا اور جب رافیل معاملہ منظر عام پر آیا تو چوکیدار کی چوری پر توجہ مرکوز کی جانے لگی اوراس کی دھاندلیوں اور بدعنوانیوں کا تذکرہ عام ہوا لیکن اس سے قبل چوکیدرا محض فقیر تھا جو کہ جھولا لئے چل پڑنے کی بات کیا کرتا تھا۔ملک میں حکومت کی نظر میں ہر شہری مساوی ہونا چاہئے لیکن کیا واقعی ہندستان میں ایسا ممکن ہے تو اس کا جواب نہ میں ہوگا کیونکہ ہندستان میں کسان اور غریب عوام دونوں کا تذکرہ صرف انتخابات کے دوران ہی کیا جاتا ہے اور 5برسوں تک ان دونوں کے نام پر فائدہ اٹھایا جاتا رہتا ہے۔
ہندستان میں حکمراں طبقہ کی بدعنوانیاں کوئی نئی بات نہیں ہے لیکن حالیہ عرصہ میں بد عنوانیوں اور ڈکیتی کو ملک کی خوشحالی اور عوام کی ترقی کا جو نام دیا گیا ہے اس میں عوام کی بڑی تعداد دھوکہ دہی کا شکار ہونے لگی ہے اور اس کے بعد اب چوکیدار صرف چور‘ ڈکیت نہیں رہا بلکہ یہاں دھوکہ باز بھی ثابت ہوگیا۔2016میں حکومت کی جانب سے شروع کی گئی ’پردھان منتری فصل بیمہ یوجنا‘میں حکومت ہند نے 66ہزار کروڑ روپئے جمع کروائے ہیں لیکن کس کمپنی کے ذریعہ یہ انشورنس کروایا گیا یہ بات انتہائی اہم ہے کیونکہ حکومت کی جانب سے کوئی بھی بیمہ کررویا جاتا ہے تو ہندستانی کی عوامی اشتراک سے چلائی جانے والی کئی نیم سرکاری کمپنیاں ہیں جن میں لائف انشورنس کارپوریشن اور یونائٹیڈ انشورنس کمپنی جیسی کمپنیاں شامل ہیں لیکن مرکزی حکومت نے چوکیدار کے دوستوں کی کمپنیوں کے ذریعہ کسانوں کو فصل بیمہ کی رقم جاری کرتے ہوئے انہیں مدد فراہم کرنے کا فیصلہ کیا اور اس کے اسکیم کے ذریعہ اپنے دوستوں کی کمپنیو ںکی جو مدد کی گئی اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ یہ کمپنیاں جو کہ دیوالیہ کے دہانے پر تھی ان کے حصص کی قیمت دوبارہ مستحکم ہوگئی لیکن ملک کے کسانو ںکی حالت میں کوئی خاص تبدیلی نہیں آئی۔خانگی کارپوریٹ ادارو ںنے کسانوں کو بیمہ کی رقم کی فراہمی کے لئے حکومت سے جو پریمیم کی رقم حاصل کی ہے وہ حکومت نے کسی اور سے نہیں ہندستان کے 130کروڑ عوام سے وصول کی ہے۔
انتخابی جملوں کے ماہرین عوام کو گمراہ کرنے کے لئے کس حد تک جا سکتے ہیں اس کا اندازہ اس بات سے کیا جاسکتا ہے کہ وہ دہشت گردی کے الزامات کا سامنا کرنے والوں کو انتخابی میدان میں اتار سکتے ہیں اور ان امیدواروں کو کامیاب بنانے کیلئے کوششوں کو بھی یقینی بناتے ہیں جبکہ ان پر نہ صرف دہشت گردی اور منافرت پھیلانے کا الزام ہے بلکہ وہ تو ملک میں بد امنی پھیلاتے ہوئے ملک کے خلاف سازش کے مرتکب ہوئے ہیںاور اتنا ہی نہیںکیا بلکہ ملک کے لئے جان دینے والوں کو کوسنے والوں میں شامل اس سادھوی کا دفاع کرنے والی چوکیداروں کی فوج کو اس بات کا بھی احساس نہیں رہا کہ وہ جس ملک کی چوکیداری کا دعوی کر رہے ہیں اس ملک کے چوکیدار کی ذمہ داری ہے کہ وہ ملک کے سیکولر کردار کی حفاظت کرے لیکن چوکیدار نے ہی ملک کے آئین پر حملہ کیا اور ملک کے خزانہ کو نقصان پہنچانے میں کلیدی کردار ادا کیا ۔ چوکیدار سوتا رہا اور ہماروں کروڑ روپئے کی ہندستانی دولت لوٹنے والے ملک سے فرار ہونے میں کامیاب ہوگئے اور انہیں واپس لانے کے لئے کئے جانے کے اقدامات کے نام پر عوام کو دھوکہ دیا جاتا رہا اور عوام یہ سمجھتے رہے کہ چوکیدار انہیں پکڑنے میں ناکام رہا لیکن انہیں واپس لانے میں ضرور کامیاب ہوجائے گا لیکن وقت کے گذرتے ہوئے اس بات کا احساس ہونے لگا کہ چوکیدار چور نہیں ڈکیت ہے اسی لئے وہ ان لٹیروں کو واپس لانے میں بھی ناکام ہوتا جا رہاہے جنہیں منظم انداز میں ملک سے فرار کروایا گیا تھا۔ملک کے کسانو ںکے 25000 روپئے معاف کرتے ہوئے احسان جتانے والی حکومت کسانو ںکے نام پر کروڑہا روپئے کارپوریٹ انشورنس اداروں کو فراہم کرتے ہوئے یہ تاثر دے رہی ہے کہ ملک کے کسانو ںکی فلاح و بہبود کیلئے حکومت نے اسکیم کا آغاز کیا ہے جبکہ عوام کی جیبوں سے نکالی گئی دولت انشورنس پریمیم کے نام پر خانگی انشورنس کمپنیو ںکے کھاتوں میں منتقل کی گئی جس سے ان کمپنیو ںکو ہزاروں کروڑ روپئے حاصل ہوگئے ۔ کسان کی فصل تو تباہ ہوتی رہی لیکن ان خانگی کمپنیوں کی فصل لہلہانے لگی ہے۔
ہندستانی کارپوریٹ اداروں کو گذشتہ 5برسوں میں جو فائدہ حاصل ہوا ہے اس کا اندازہ اس بات سے لگایاجاسکتا ہے کہ ان کارپوریٹ اداروں نے بیرون ملک سرمایہ کاری شروع کردی ہے اور ان کارپوریٹ اداروں کی جانب سے ہندستان کو لوٹنے کی تیاریاں مکمل کرلی گئی ہیں لیکن اس ملک کی قسمت اور اس کی تہذیب اس ملک کو تباہی سے بچانے میں اہم کردار ادا کر رہی ہیں اور اس ملک میں موجود سیکولر و سنجیدہ طبقہ کی جانب سے ملک میں بدامنی اور تعصب پھیلانے والوں پر کنٹرول باقی ہے ۔ملک میں چوکیدار کی کئی چوریاں ثابت ہوچکی ہیں اسی لئے یہاں یہ کہنا درست ہے کہ چوکیدار اب چور نہیں رہا کیونکہ چور منفی ڈگری میں انتہائی کم قابلیت رکھنے والے کو کہا جاتا ہے جبکہ چوکیدار تو نہ صرف چور ہے بلکہ ڈکیت اور قاتل بھی ہے قاتل اس لئے کہ قتل کی پشت پناہی بھی قتل کے مترادف ہے ۔ہندستان میں اسکامس کی تاریخ کا جائزہ لیا جائے تو یہ بات سامنے آئے گی کہ ہندستان میں اسکام کوئی نئی بات نہیں ہے لیکن اس طرح کسی اور کے کندھوں پر رکھتے ہوئے خود کو فقیر قرار دیتے ہوئے ‘ جھولا لیکرچل پڑنے کا اعلان کرتے ہوئے اور جب ڈکیتی سامنے آجاتی ہے تو ایسی صورت میں ملک کے محافظین کی زندگیوں کو اجاڑ کر فائدہ حاصل کرنے کی کوشش کرنے والوں کو اس ملک نے نہیں دیکھا تھا بلکہ اگر گذشتہ 5برسوں کے دوران حکومت کی حرکتوں کا محاسبہ کیا جائے تو اس ملک کے نوجوانوں کی خوش قسمتی ہے کہ انہو ںنے ملک میں ایسے حکمراں بھی دیکھے ہیں جو کہ چھوٹ بولنے میں لاثانی ہیں اور ان کے جھوٹ کے آگے سچ کی کوئی قیمت نہیں رہ جاتی تھی ۔
ہندستان 2019 عام انتخابات کے آخری مرحلوں میں ہے اور ہندستان میں اس بات کی کوشش ہو رہی ہے کہ بائیں بازو جماعت میں نئی جان ڈالنے والے کنہیا کو شکست دی جائے کیونکہ ان کی کامیابی نہ صرف فرقہ پرستوں کے لئے نقصان کا سبب ثابت ہوگی بلکہ ملک کے کارپوریٹ اداروں میں یونین کلچر کو نئی زندگی ملے گی ۔ اسی طرح فرقہ پرست سادھوی اور دہشت گردی کو یکجا کرتے ہوئے آلودہ ذہن ووٹوں کو متحد کرنے کی کوشش کر رہے ہیں تو بعض گوشوں کی جانب سے دلت اور مسلم ووٹوں کی تقسیم کو یقینی بنانے کیلئے کام کیا جا رہاہے تاکہ وہ چوکیدار کو اقتدار کے حصول میں کوئی دشواری نہ ہو۔ کسی جماعت کو سی۔بی ۔آئی کا خوف ہے تو کوئی ای۔ڈی کے چھاپوں سے خائف ہے اسی طرح کسی سیاسی جماعت کو اس بات کا خدشہ ہے کہ اگر کو اپنی شناخت بچانے میں کامیاب نہیں رہے تو انہیں ختم کردیا جائے گا۔ گجرات کے لوگوں میں کاروبار کا ہنر ہوتا ہے اور وہ کاروبار میں ترقی کے لئے کسی بھی حد سے گذرنے تیار ہوتے ہیںلیکن جن لوگوں کا کاروبار ہی سیاست ہو تو وہ بھی ایسا ہی کریں گے کیونکہ تجارتی میدان میں ترقی ان کا مقصد ہوتا ہے اور وہ اپنے مقصد کے لئے کوشاں ہیں۔