چندرائن گٹہ حملہ کیس ‘ 29 جون کو فیصلہ سنایا جائیگا

وکلائے دفاع کی بحث مکمل ۔ استغاثہ کی جانب سے گواہوںکو غیر اہم قرار دینے کی مخالفت
حیدرآباد۔/22 جون، ( سیاست نیوز) چندرائن گٹہ حملہ کیس کی سماعت مکمل ہونے پر عدالت نے اس کیس کے فیصلہ کی تاریخ 29 جون مقرر کی ہے۔ گزشتہ تین دن سے جاری وکلائے دفاع کی بحث مکمل ہونے کے بعد اسپیشل پبلک پراسیکیوٹر مسٹر اوما مہیشور راؤ نے بتایا کہ دفاع کی جانب سے اس کیس کے تمام گواہوں کو غیر اہم قرار دینا کہاں کا انصاف ہے۔ انہوں نے بتایا کہ پوسٹ مارٹم رپورٹ اور گواہوں کے بیانات سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ ابراہیم بن یونس یافعی کو صرف ایک گولی لگنے سے موت واقع ہوئی تھی اور یہ گولی گن مین جانی میاں نے چلائی تھی۔ سرکاری وکیل نے عدالت کو بتایا کہ 30 اپریل سال 2011کو پیش آیا واقعہ دو گروپس کے درمیان تصادم نہیں ہے بلکہ اکبر الدین اویسی پر یکطرفہ حملہ کیا گیا۔ پبلک پراسیکیوٹر نے اس کیس کے تحقیقاتی عہدیدار کے حق میں یہ بتایا کہ اس عہدیدار کو بدنام قرار دینا ٹھیک نہیں ہے اور اس کا تعلق غیر ضروری گینگسٹر نعیم سے جوڑنا غلط ہے۔ تحقیقاتی عہدیدار نے کیس تیار کرکے گواہوں کو عدالت میں پیش کرنے کا کام کیا ہے اور اس کا تعلق نعیم سے نہیں ہے۔ اسوقت کے انسپکٹر چندرائن گٹہ مسٹر وینکٹ گیری کی کارکردگی کی ستائش کرتے ہوئے کہا کہ اس عہدیدار نے اپنے فرائض بخوبی انجام دیئے ہیں۔ اسی دوران سرکاری وکیل اور وکلائے دفاع کے درمیان گرما گرم مباحث ہوئے۔ وکیل دفاع ایڈوکیٹ جی گرو مورتی نے دوبارہ عدالت میں اپنا استدلال پیش کرتے ہوئے کہا کہ سرکاری وکیل نے ابراہیم یافعی کی موت کو عدالت میں جس طرح پیش کرنا تھا اس طرح پیش نہیں کیا اور تمام گواہوں کے بیانات کو حق بجانب قراردیا اور یکطرفہ کیس کی بحث کی۔ ساتویں ایڈیشنل میٹرو پولیٹن سیشن جج مسٹر ٹی سرینواس راؤ نے وکلائے دفاع اور سرکاری وکیل کے درمیان بحث مکمل ہونے کے بعد اس مقدمہ کا فیصلہ 29 جون کو سنانے کا اعلان کیا۔ واضح رہے کہ 30 اپریل سال 2011 کو پیش آئے اکبر الدین اویسی حملہ کیس کے ضمن میں پولیس چندرائن گٹہ نے ایک مقدمہ تعزیرات ہند کی دفعہ 147 ، 148 ، 324 ، 307 ، 120(B) اور انڈین آرمس ایکٹ کے تحت محمد بن عمر یافعی المعروف محمد پہلوان اور ان کے دیگر رشتہ دار حسن بن عمر یافعی، یونس بن عمر یافعی، محمد بن سالم وہلان، عیسیٰ بن یونس یافعی، یحییٰ بن یونس یافعی، عبداللہ بن یونس یافعی، عود بن یونس یافعی، عافف یافعی، سیف، فیصل بن احمد، فضل بن احمد اور بہادر علی خان المعروف منور اقبال کے خلاف درج کیا تھا۔ جبکہ اس کیس کے ملزم نمبر 4 ابراہیم بن یونس یافعی کی گن مین جانی میاں کی فائرنگ میں موت واقع ہوگئی تھی۔ اس کیس کی تحقیقات سی سی ایس کے حوالے کی گئی تھی جس نے تمام ملزمین کے خلاف چارج شیٹ داخل کی تھی اور اس کیس کیلئے حکومت نے اسپیشل پبلک پراسیکیوٹر ایڈوکیٹ اوما مہیشور راؤ کا تقرر کیا تھا۔ اس کیس میں 83 گواہان ہیں جس میں اکبر الدین اویسی اور رکن اسمبلی احمد بلعلہ اور دیگر کارپوریٹرس اور مجلسی کارکن بھی شامل ہیں۔ سپریم کورٹ کی جانب سے ٹرائیل کورٹ کو اندرون چھ ماہ کیس کی سماعت مکمل کرنے کی ہدایت پر جج نے روزانہ کی اساس پر کیس کی سماعت جاری رکھی اور ملزمین کو روزانہ چرلہ پلی جیل سے عدالت میں پیش کیا جاتا تھا۔