ڈاکٹر مجید خان
ہفتے میں جن مریضوں اور انکے رشتہ داروں سے میری ملاقاتیں ہوتی ہیں ان میں سے اس ہفتے کیلئے کوئی نہ کوئی ایسی نفسیاتی کیفیت رونما ہوتی ہے جو مجھ کو سب سے زیادہ متاثر کرتی ہے اور باعث تحریر ہوجاتی ہے۔ اس مرتبہ جس موضوع نے مجھے لکھنے پر مجبور کیا ہے اس کا تعلق ذاتی ، اندرونی ڈر و خوف سے جڑا ہوا ہے ۔ یہاں پر میرا مطلب اجتماعی ڈر و خوف سے نہیں بلکہ وہ کیفیت جو کوئی بھی شخص اپنے اندر ہی اندر محسوس کرتے ہوئے مسلسل ذہنی تناؤ کے عارضے کا شکار ہوجاتا ہے ۔ باہر کے واقعات کا جو اثر کسی شخص پر ہوتا ہے اس کی سیدھی سادی مثال میں نے گذشتہ ہفتے ایک گاؤں کے رہنے والے چرواہے میں دیکھی ہے ۔ ایک ایسا شخص جو بہت ہی محتاط گاؤں کی زندگی میں مست تھا ، خاموش طبع تھا اور کسی کے معاملات اور جھگڑوں میں دخل نہیں دیتا تھا اسکے پاس چالیس بکریاں ہیں ، دن بھر ان کو چراتا ہے اور یہی اس کی زندگی کا مشغلہ ہے۔ اسکو خاطر خواہ آمدنی ہوجاتی ہے ۔ ذاتی مکان ہے اور اپنی حد تک خوشحالی ہے ۔ ایک دن تھوڑی دیر کیلئے سردیوں میں کھیت میں کمبل اوڑھ کر سوگیا اور جب اٹھا تو دیکھا کہ بکریوں کا مندا تتر بتر ہوگیا ۔ نہ معلوم کیا ہوا ۔ جنگلی کتے پریشان کئے نہیں معلوم ۔ بہرحال اس شخص کو مندے کو یکجا کرنے میں کافی مشکل ہوئی ۔ اس کو اپنی غلطی کا احساس ہوا اور وہ اپنے آپ کو ملامت کرنے لگا ۔ دیکھنے میں تو یہ ہم کو بہت ہی غیر اہم واقعہ نظر آتا ہے مگر سنا ہے کہ چرواہے کی اس تھوڑی سی غفلت سے اس کا مندا پڑوس کے قیمتی لہلہاتے ترکاری کے کھیت میں داخل ہوگیا اور اس کاشت کار کی ساری محنت برباد ہوگئی اور اس کو مالی نقصان بھی ہوا ۔
چرواہا بڑی مشکل سے اپنے مندے کو قابو میں لاسکا ۔ اسکا مندا بھی صرف اسی کی آواز پر عمل کرتا تھا اور اس کو سمجھتا تھا ۔ سراسیمگی میں جب ہر طرف سے مختلف لوگوں کی آوازیں آنے لگیں تو بکریوں نے سارے کھیت کو تباہ کردیا ۔ اس کھیت کے مالک نوجوان لڑکے تھے جو اس بوڑھے کو برا بھلا کہنے لگے اور ہرجانے کے طور پر بڑی رقم کا مطالبہ کیا ۔ بہرحال گاؤں کے بزرگ لوگوں کی ایک پنچایت بیٹھی اور بحث و تکرار شروع ہوئی۔
آجکل کے نوجوانوں کو نہ تو بزرگوں کی عزت کا لحاظ ہے نہ اپنی بدترین زبان پر قابو۔ اس بیچارے چرواہے کی محتاط زندگی میں یہ پہلی مڈبھیڑ گاؤں کے برانگیختہ نوجوانوں سے ہوئی ۔ اگر جھگڑا کرنے کی عادت ہوتی تو خود بھی گالی گلوج شروع کرسکتا تھا اور اس کے بعد معاملہ ہاتھا پائی تک بھی آجاتا مگر یہ غریب اس واقعے سے ایسا متاثر ہوا کہ اس کی زبان بند ہوگئی ۔ وہ جانتا تھا کہ غلطی اس کی تھی اور اس کی ذرا سی لاپروائی سے کسی اور ساتھی کسان کی محنت برباد ہوگئی اور ان بیچاروں کی قیمتی کاشت جو پابندی سے کسی پانچ ستارہ ہوٹل کو جایا کرتی تھی وہ اس کی بکریوں کی نذر ہوگئی ۔ مالی نقصان کافی ہوا اور اس کی پابجائی کسی بھی طرح سے ممکن نظر نہیں آرہی تھی ۔ ترکاری والا اپنے راتب کے تعلق سے پریشان ہورہا تھا ۔ گالی گلوج جتنی بھی کرنی تھی وہ تو ہوگئی مگر اب مسئلہ حل کرنا باقی تھا ۔گاؤں میں اس قسم کے جھگڑے کافی ہوا کرتے ہیں اور گاؤں کے سمجھ دار لوگ بیچ بچاؤ کرتے ہیں اور معاملات کی یکسوئی ہوجاتی ہے ، بوڑھے چرواہے کی طرفداری میں بھی چند لوگ آگئے ۔ گرما گرم بحث ہوئی ، چرواہا تو دم بخود تھا اور خاموش ہی رہا ۔ ہزاروں کے جرمانے کا مطالبہ ہورہا تھا اور بوڑھا سر جھکائے بیٹھا تھا ۔ اب معاملہ طے کریں تو کس طرح ۔ نوجوان جھنجھلا رہے تھے اور چاہ رہے تھے کہ چرواہا ہرجانے کی رقم پر راضی ہوجائے اور پنچوں کے سامنے اپنی زبان دے دے ۔ اس دوران بوڑھے چرواہے کا بیٹا اور بہو بھی پہنچ گئے ۔ جیسا باپ ویسا بیٹا ۔ باپ کم سخن تھا تو بیٹا مہا کم سخن نکلا ۔ ان دونوں میں بھی جھگڑالو صفت کا فقدان تھا ۔ مگر ماشاء اللہ جب بہو پہنچی تو اپنی ساڑھی کا پلو کھینچ کر ان نوجوانوں کے دنگل میں کود پڑی ۔ وہ نہ صرف بڑی تیز طراز تھی بلکہ فصیح زبان تھی ، سننے والوں کو خود بخود خاموشی اختیار کرلینا پڑتا تھا ۔ سخت کلامی کا جواب مدھر اور موثر انداز میں دینا شروع کیا ۔ اس نے کہا کہ غریب کی خاموشی کو کیا آپ کمزوری سمجھتے ہیں ۔ اگر آپ سمجھتے ہیں تو یہ صحیح ہے ۔ یہ شخص جھگڑالو نہیں ہے ۔ ہم اپنی کوئی مدافعت نہیں کرسکتے کیونکہ غفلت ہوئی ہے اور آپ لوگوں کا جو بھی فیصلہ ہوگا وہ ہمیں قابل قبول ہوگا مگر میری درخواست ہیکہ آپ ہماری استطاعت پر رحم کیجئے ۔ ہم نہیں چاہتے کہ آپ نقصان برداشت کریں ۔ جو بھی بڑے لوگوں کا فیصلہ ہوگا وہ ہمیں منظور ہوگا ۔ یکمشت اگر ہم ادا نہ کرسکے تو میں وعدہ کرتی ہوں کہ آپ کے کھیت میں محنت مزدوری کرتے ہوئے آپ کا قرض میں پورا کروں گی ۔ مگر میرے مغموم سسر کو اور برا بھلا مت کہئے ۔ دیکھئے وہ خاموش ہوگیا ہے ۔ اب مجھے اسکی فکر ہوگئی ۔ وہ اس صدمے کو برداشت نہیں کرپائے گا ۔ وہ سراپا شرمندہ نظر آرہا ہے ۔ اس کو گھر جانے دیجئے ۔ میں آپ لوگوں سے اس معاملہ پر بات کرنے کے لئے تیار ہوں ۔ پھر اس نے اپنے شوہر سے کہا کہ آپ سسر کو گھر لے جایئے اور وہ شخص چلا گیا ۔ سارے پنچ خاموش ہوگئے ۔ کوئی بھی ہرجانے کی رقم معین نہیں کرسکا ۔ بہو کی آنکھوں سے آنسوؤں کی بارش ہورہی تھی اپنے شوہر اور سسر کا ہاتھ پکڑ کر اپنے گھر واپس ہوگئی ۔ شوہر سے کہا کہ وہ بکریوں کو گھر لے جائے ۔ شوہر شاذ و نادر ہی بکریوں کی دیکھ بھال کرتا تھا اس لئے وہ نہ تو انکی تعداد سے واقف تھا نہ انکے چال چلن سے ۔ بکریوں کے مندے کیلئے بھی یہ ایک اجنبی شخص تھا اور وہ اس کی آواز کو سمجھ نہیں رہے تھے ۔ مندا پھر بھٹکنے لگا مگر سب کو دیکھ کر یہ تعجب ہورہا تھا کہ بوڑھا چرواہا یکلخت خاموش اور مفلوج ہوگیا تھا ۔ ایسا محسوس ہورہا تھا کہ ان بکریوں کو وہ جو محنت و محبت سے پال رہا تھا اس میں اس کو اب کوئی دلچسپی باقی نہیں رہی تھی ۔ بہو سمجھدار تھی دیکھتے ہی دیکھتے مخالفین کو نہ صرف ہموار کرلیا بلکہ انکی ہمدردی بھی حاصل کرنے میں کامیاب ہوگئی ۔ آنسوؤں کا سلسلہ تھمنے کو نہیں آرہا تھا ۔ کئی اور عورتیں بھی اس کے سوگ میں شامل ہوگئیں ۔ مگر سوگ تھا تو کس بات کا ۔ سوگ نقصان کا کم بلکہ سسر کے ردعمل کا زیادہ تھا ۔ گاؤں میں تو یہ ایک عام حادثہ ہے اور روزانہ پنچایت کے لوگ ایسے جھگڑوں کو طے کرتے ہیں مگر ایسی نوبت کبھی نہیں آئی تھی ۔ پنچ فیصلے کرنے کے بعد بخوشی اپنے اپنے گھر واپس ہوجاتے ہیں مگر آج سب دکھی نظر آرہے تھے غالباً ان کو یہ احساس ہورہا تھا کہ بلاشبہ انصاف تو ہوا مگر جذبات کی ایسی ٹھیس وہ لوگ کبھی نہیں دیکھے تھے ۔ کوئی بھی نفسیاتی گہرائیوں کو سمجھنے سے قاصر تھا ۔ کاش بوڑھا چرواہا خفا ہو کر کچھ گالی گلوج کرتا مگر اس کی خاموشی بڑی پراسرار معلوم ہوتی تھی ۔ بہرحال سب لوگوں نے انصاف تو کیا مگر دل کی کدورت کے ساتھ گھر واپس ہوئے ۔ حسن اتفاق دیکھئے کہ میں اپنے فارم پر بیٹھے ہوئے یہ مضمون لکھ رہا ہوں ۔ فارم کے باہر سے جھگڑے کی آوازیں آنے لگیں ۔ بات کو ہمارے ملازمین وہیں پر ختم کرنا چاہتے تھے وہ نہیں چاہتے تھے کہ مجھ کو اس جھگڑے میں ملوث کیا جائے ۔ مگر جب آوازیں تیز ہونے لگیں تو میں نے دخل دینا مناسب سمجھا ۔ ماہر نفسیات ہونے کے ناطے مسائل کو میں بہتر انداز میں طے کرسکتا ہوں ۔ یہ سمجھ کر میں نے جھگڑے کی وجہ دریافت کی ۔
پتہ چلا کہ ہمارے چرواہے نے اپنے جانوروں کی دیکھ بھال میں کچھ غفلت کی اور ایک مشتعل بیل سڑک پر بھاگنے لگا ۔ آجکل ہر طرف انجینئرنگ کالجوں کی بھرمار ہے ۔ ایک نوآموز موٹر سائیکل سوار لڑکا ڈرگیا ۔ اس بیل سے ڈر کر اپنی موٹر سائیکل کو سنبھال نہ سکا اور گرپڑا ۔ اس کے سارے ساتھی اکٹھا ہوگئے اور ہرجانہ ادا کرنا ضروری تھا اس لئے معاملہ رفع دفع ہوگیا ۔ آئے دن پڑوسی کاشتکار یہ شکایتیں لیکر آتے ہیں کہ صاحب آپ کے جانور ہمارے کھیت میں گھس گئے ، چونکہ میں ڈاکٹر ہوں اس لئے وہ لوگ صرف شکایت اسلئے کرتے ہیں کہ میں ان کو پہچان لوں اگروہ کسی ضرورت کے تحت دواخانہ آئیں تو میں انکی مدد کروں ۔ گو کہ برسبیل تذکرہ میں نے اپنے فارم کا قصہ لکھا مگر اس بوڑھے چرواہے کے دلبرداشتہ ہونے کو میں بخوبی سمجھ سکتا ہوں ۔ سارا گاؤں اس کو برسرعام خطاوار قرار دے کر اس کو سزا دیا ۔ یہ تو ہوتا ہی ہے مگر اس سے پہلے بوڑھا چرواہا اپنے آپ کو سنگین غفلت و لاپرواہی کا خطاوار مان چکا تھا ۔ اس کے لئے نہ صرف ایک ناقابل فراموش فروگزاشت تھی بلکہ اس کی حد تک ناقابل معافی بھی ۔ مگر اس نے اپنی رنجیدہ کیفیت کا کسی سے ذکر نہیں کیا ۔ مگر جتنا اسکا ذہن متاثر ہوا تھا اتنا ہی اس کا جسم بھی ۔ بیچاری بہو پنچایت سے نمٹنے کے بعد یہ دیکھ کر کہ بکریاں قابو میں نہیں آرہی ہیں ، اپنے سسر کی طرف دیکھا اور اسکے چہرے سے اسکی مجبوری کا اظہار ہورہا تھا اور ایک خاموش درخواست ان نم آنکھوں میں جھلک رہی تھی کہ سسر کی مدد کرنی چاہئے ۔ مگر سسر بیچارہ ایک بے زبان مجسمہ نظر آرہا تھا ۔ بہرحال کسی نہ کسی طرح مندے کو گھر لے گئی اور جلدی سے کھانا تیار کیا اور سسر کو بلایا ۔ وہ خاموش پڑا ہوا تھا ۔ بیوی اور بیٹا تو ہمیشہ اس سے دور ہی رہا کرتے تھے ۔ بوڑھا نہ تو پوری طرح سورہا تھا نہ مکمل جاگ رہا تھا ۔ کھانے کی طرف راغب نہیں تھا ۔ منت سماجت کرنے پر بھی ٹس سے مس نہیں ہوا اور لیٹا ہوا چھت کو گھور رہا تھا ۔ بہرحال بہو بھی ہمت ہار گئی اور سارا خاندان خالی پیٹ ہی سوگیا مگر نیند کسی کو نہیں آرہی تھی ۔
گاؤں کا علاج شروع ہوا ۔ جتنے منہ اتنے فالتو مشورے ۔ بیچاروں کا گھر آناً فاناً اجڑ گیا ۔ گاؤں والے دیکھتے تھے کہ صبح صبح چرواہا اپنے جانوروں کو لے کر مستعدی کے ساتھ نکلا کرتا تھا ۔ اب ویرانی نظر آرہی تھی ۔ نہ چرواہا نہ جانور ، جانور بھی بہت حساس ہوتے ہیں اور وہ سب چرواہے سے اتنے مانوس ہوگئے تھے کہ جب ان کے مالک نے انہیں نہیں پکارا تو وہ بھی چیخنے چلانے لگے ۔ بیٹا تو بے بس تھا ۔ بہو اپنے بھائی کو دوسرے گاؤں سے بلائی اور اب اہم مسئلہ بوڑھے کی زندگی کا تھا ۔ گاؤں کے لوگ یہ سمجھ بیٹھے کہ وہ مہلک مرض میں مبتلا ہوگیا ہے ۔ سب کو ہمدردی تھی ۔ وہ شخص جس کے کھیت کو نقصان ہوا ، وہ بھی افسوس کررہا تھا مگر ممکن ہو ان کے مطالبہ کو پورا کرنے میں غفلت ہوگی ۔ گاؤں کے قصاب چاقوؤںکوتیز کرنا شروع کردئے تھے کیونکہ ان کو معلوم تھا کہ بکریاں قصاب کے پاس ہی آئینگی ۔ سمجھدار بہو حالات کو اچھی طرح سمجھ گئی اور کسی مخلص کے مشورے پرعلاج کیلئے سسر کو لیکر دواخانہ آگئی اور میرے مشورے پر شریک دواخانہ کردیا ۔
یہ ایک نفسیاتی ایمرجنسی بن جاتی ہے ۔ سب سے پہلے دانے پانی کاانتظام شروع کیا گیا ۔ انتہائی صدمے کا اثر دل و دماغ اور پورے جسم پر ہوتا ہے ۔ اس بیچارے کا سارا اعصابی نظام عارضی طور پر مفلوج ہوگیا تھا اور اس کو حرکت میں لانا ضروری تھا ۔ نیند وغیرہ ٹھیک ہونے کے بعد میں نے اس سے کہا کہ تم تو اچھے ہورہے ہو مگر تمہارے جانور تمہارے لئے بے چین ہورہے ہیں اس بات کو وہ سمجھ گیا اور اپنے گھر واپس ہونے کی خواہش کی اور اسکو یہ دیکھ کر سکون ہوا کہ اس کے جسم و دماغ کی مشنری پھر حرکت میں آگئی اور عارضی کیفیت بہتر ہوتی گئی ۔ گو کہ یہ بہت ہی معمولی واقعہ نظر آتا ہے مگر میرے اور اس خاندان کے لئے یہ ایک سانحۂ عظیم ہی رہا ۔ روزمرہ کے گھریلو معاملات میں یہ دیکھتا ہوں کہ حساس لوگ معمولی تنقید کو بھی برداشت نہیں کرسکتے ۔ اس لئے اپنی زبانوں پر لگام لگانا ضروری ہے ۔