رشیدالدین
جموں و کشمیر میں پاکستانی سرحد پر فائرنگ اور سیویلینس کی ہلاکتوں سے پیدا شدہ کشیدگی کا اثر ابھی کم نہیں ہوا تھا کہ واگھا سرحد پر پاکستانی علاقہ میں خودکش حملہ ہوا، جس نے پھر ایک بار سرحد پر تناؤ کا ماحول پیدا کردیا ہے۔ خودکش حملہ کی ذمہ داری قبول کرنے والی تنظیموں نے ہندوستان کو نشانہ بنانے کی دھمکی دی اور گجرات و کشمیر کے حوالہ سے وزیراعظم نریندر مودی کو تنقید کا نشانہ بنایا۔ وزیراعظم کی ذمہ داری سنبھالنے کے بعد کسی دہشت گرد تنظیم کی جانب سے پہلی مرتبہ نریندر مودی کو دھمکی دی گئی۔ تحریک طالبان پاکستان کی ان دھمکیوں نے ملک بھر میں سیکوریٹی ایجنسیوں کو الرٹ کردیا ہے۔ ملک کے کئی علاقوں میں حملے کے اندیشوں کے تحت چوکسی اختیار کرلی گئی۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ یہ تمام کارروائیوں کا جموں و کشمیر کے مجوزہ اسمبلی انتخابات سے کوئی تعلق تو نہیں یا پھر محض اتفاق ہے۔ یوں تو سابق میں بھی سرحدوں پر کشیدگی رہی لیکن کشمیر کے انتخابات کے تناظر میں جس تسلسل اور تواتر کے ساتھ یہ واقعات رونما ہوئے ہیں، سیاسی مبصرین کے ذہنوں میں شبہات کو جنم دے رہے ہیں۔ جموں و کشمیر کے انتخابات کو سبوتاج کرنے کی کوشش ہے یا پھر سرحد پار سے بی جے پی کی انتخابی مہم میں مدد کی جارہی ہے؟ یہ سوالات ہیں جو کشمیر کے حالات پر گہری نظر رکھنے والے مبصرین کی جانب سے اٹھائے جارہے ہیں۔ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ بی جے پی دیگر ریاستوں کی طرح کشمیر میں بھی مذہبی خطوط پر ووٹ تقسیم کرنا چاہتی ہے۔ ہندوستان پر حملہ اور نریندر مودی کو دھمکی کی آڑ میں مسلمانوں کے تعلق سے اکثریتی طبقہ میں نفرت کے جذبات بھڑکانا اور ووٹ بینک مضبوط کرنا پس پردہ چال ہوسکتی ہے۔ انتخابات کے اعلان سے قبل نریندر مودی نے پہلے تو ترقیاتی کاموں کے بہانے جموں و کشمیر کا دورہ کیا۔ سیلاب سے ہوئی تباہی پر سیاسی فائدہ اٹھانے کی کوشش کی گئی۔ راحت اور بازآبادکاری کے کاموں کو مرکز نے راست اپنی نگرانی میں رکھا ہے۔
دیپاولی منانے کے بہانے سیاچن کی فوجی چوکی کا مودی نے دورہ کیا اور پاکستانی فوج کی اشتعال انگیزی کا منہ توڑ جواب دینے کا عہد کیا ۔ کشمیر میں الیکشن کے مسئلہ پر مختلف گروپس میں اتفاق رائے کی کمی ہے۔ حریت کے دونوں گروپس انتخابات کے خلاف ہیں۔ ان میں بعض بیرونی عناصر سے ملی بھگت کے ذریعہ انتخابات کو درہم برہم کرنے کے در پہ ہیں۔ حریت کے اعتدال پسند اور شدت پسند گروپس نے الیکشن کا ہمیشہ ہی بائیکاٹ کیا ہے ۔ شدت پسند گروپ کی شناخت موافق پاکستان کی حیثیت سے ابھری ہے۔ ان حالات کا بی جے پی بھرپور فائدہ اٹھانے کی تیاری میں ہے۔ 25 نومبر تا 20 ڈسمبر پانچ مراحل میں کشمیر میں چناؤ ہوں گے۔ سیلاب کی تباہ کاریوں سے عوام ابھرنے نہ پائے تھے کہ الیکشن کمیشن نے انتخابی تاریخوں کا اعلان کردیا۔ مبصرین کا خیال ہے کہ بی جے پی لوک سبھا چناؤ کی کامیابی کی لہر پر سواری کرتے ہوئے کشمیر میں پہلی مرتبہ اپنی سرکار کے قیام کا خواب دیکھ رہی ہے۔ اسی گیم پلان کے تحت مرکز نے امدادی کاموں کو راست اپنی نگرانی میں رکھا ہے۔ بی جے پی 44 + کے ٹارگٹ کے ساتھ آگے بڑھ رہی ہے۔
یہ تو انتخابی نتائج ہی بتائیں گے کہ سرحدوں پر کشیدگی اور طالبانی تنظیموں کی دھمکیوں میں کس حد تک سچائی تھی یا پھر وہ انتخابی فائدے کے حربے تھے۔ الیکشن کے اعلان سے قبل پاکستانی فائرنگ کے سبب کشیدگی تھی جبکہ انتخابات کے اعلان کے بعد دھماکہ اور دھمکیوں نے بی جے پی کو سیاسی فائدہ کا موقع فراہم کردیا ہے۔ کشمیر میں بی جے پی کے خطرہ سے نمٹنے کیلئے کشمیری جماعتوں کو چاہئے تھا کہ وہ متحدہ طور پر مقابلہ کرتے لیکن کانگریس کے علاوہ نیشنل کانفرنس اور پی ڈی پی تنہا مقابلہ کر رہی ہے۔ انتشار کی اس صورتحال کا فائدہ یقینی طور پر بی جے پی کو پہنچ سکتا ہے۔ کشمیری جماعتوں میں بی جے پی کو روکنے کا کوئی جذبہ نہیں ہے اور اگر بی جے پی کو اکثریت کیلئے تائید کی ضرورت پڑے تو پی ڈی پی کی جانب سے تائید ممکن ہے۔ یوں بھی نیشنل کانفرنس سابق میں این ڈی اے کا حصہ رہ چکی ہیں۔ بی جے پی پر آر ایس ایس کا ایجنڈہ اس قدر حاوی ہے کہ ملک کی واحد مسلم اکثریتی ریاست میں ہندو چیف منسٹر کا نعرہ دیا جارہا ہے۔ فرقہ وارانہ ذہنیت کے عروج اور اس کی شدت کا یہ عالم ہے کہ ملک میں ایک بھی مسلم چیف منسٹر فرقہ پرست طاقتوں کو برداشت نہیں۔ نریندر مودی وزارت میں ایک مسلم وزیر کو شامل کیا گیا لیکن وہ خود کو پارسی طبقہ کی وزیر کی حیثیت سے متعارف کرانے میں فخر محسوس کرتی ہیں۔ ان کے نزدیک صرف پارسی طبقہ ہی اقلیت میں شمار ہوتا ہے، مسلمان نہیں۔ عام انتخابات میں بی جے پی کو جموں و کشمیر کی 6 لوک سبھا نشستوں میں 3 پر کامیابی حاصل ہوئی۔ وادی کشمیر میں اسمبلی کی 40 نشستیں ہیں جبکہ جموں میں 37 اور لداخ میں 4 نشستیں ہیں۔ بی جے پی، جموں و لداخ میں زائد نشستوں کے حصول اور ضرورت پڑنے پر کسی کشمیری پارٹی کی تائید سے حکومت سازی کا منصوبہ رکھتی ہے۔ آبادی کے اعتبار سے دیکھیں کہ جملہ 87 اسمبلی حلقوں میں 64 نشستوں پر مسلم رائے دہندے اثر انداز ہوسکتے ہیں جبکہ 21 پر ہندو اور دو حلقوں پر بودھ طبقہ اثر رکھتا ہے۔ اس کے باوجود ہندو چیف منسٹر کا نعرہ مذہب کی بنیاد پر ووٹ تقسیم کرنے کی کوشش نہیں تو کیا ہے۔ جس وقت ملک میں فرقہ پرست طاقتیں کمزور تھی، راجستھان ، آسام اور مہاراشٹرا میں مسلم چیف منسٹر رہ چکے ہیں جبکہ یہ مسلم اکثریتی ریاستیں نہیں ہیں۔ کشمیر جو ملک کی واحد مسلم اکثریتی ریاست ہے، وہاں ہندو چیف منسٹر کا خواب دیکھنے سے قبل نریندر مودی کو حال ہی میں کامیابی حاصل کرنے والی ریاست ہریانہ میں کم از کم مسلم چیف منسٹر کو فائز کرنا چاہئے تھا۔ ملک کے وزارت عظمیٰ پر آج تک کسی مسلمان کو فائز نہیں کیا گیا۔ چیف منسٹر، وزراء اور دیگر اہم عہدوں پر چن چن کر آر ایس ایس پرچارکوں کا انتخاب کیا جارہا ہے۔ نریندر مودی جموں و کشمیر کی انتخابی مہم میں سرحد پر پاکستانی فائرنگ ، تحریک طالبان کی دھمکی اور واگھا سرحد پر بم دھماکہ کو اہم موزوں بنائیں گے۔ جموں کے مقابلے وادی میں رائے دہی کا فیصد کافی کم رہتا ہے اور سیلاب کے سبب یہ فیصد اور بھی گھٹ جانے کا اندیشہ ہے، ایسے میں کشمیری جماعتوں کے درمیان ووٹ کی تقسیم اور رائے دہی کے کم فیصد کا فائدہ ا ٹھانے میں بی جے پی کوئی کسر باقی نہیں رکھے گی۔
ایسے وقت جبکہ طالبانی تنظیموں کی دھمکیوں سے سرحد پر افواج کو چوکس کردیا گیا اور ملک میں داخلی سلامتی اور عوام کے جان و مال کے تحفظ کی ذمہ داری وزارت داخلہ پر بڑھ چکی ہے لیکن وزیر داخلہ راج ناتھ سنگھ اسرائیل کے دورہ پر ہیں۔ داخلی سلامتی کو لیکر عوام میں اندیشے ہیں اور جن کا کام داخلی سلامتی کا تحفظ ہے، وہ ملک میں نہیں۔ ہنگامی حالات میں تو کسی بھی بیرونی دورے کو مناسب قرار نہیں دیا جاسکتا جبکہ اسرائیل کے دورہ کا اور بھی جواز نہیں۔ جس وقت سابق صدر اسرائیل شمعون پیریز نئی دہلی میں نریندر مودی سے ملاقات کر رہے تھے، اسی وقت تل ابیب میں راج ناتھ سنگھ کی وزیراعظم اسرائیل بنجامن نتن یاہو سے بات چیت جاری تھی۔ اسرائیل سے بڑھتی قربتوں کا یہ عالم ہے کہ شمعون پیریز پر مودی وارے نیارے ہورہے تھے تو اسرائیل میں راج ناتھ سنگھ کا سرخ قالین استقبال کیا گیا۔ جون 2000 ء کے بعد اسرائیل کا دورہ کرنے والے راج ناتھ سنگھ پہلے وزیر داخلہ ہیں۔ 2000 ء میں ایل کے اڈوانی نے وزیر داخلہ کی حیثیت سے اسرائیل کا دورہ کیا تھا۔ یوں تو پی وی نرسمہا راؤ کے دور میں اسرائیل سے سفارتی تعلقات کا احیاء عمل میں آیا اور ہندوستان میں سفارتخانے کے قیام کی اجازت دی گئی لیکن بی جے پی دور میں تعلقات کو نہ صرف استحکام بلکہ ذہنی ہم آہنگی کے سبب نئی جہت ملی ہے۔
اقوام متحدہ کے اجلاس میں شرکت کے موقع پر نریندر مودی نے اسرائیلی ہم منصب بنجامن نتن یاہو سے ملاقات کی تھی، اس وقت نتن یاہو نے کہا تھا کہ دونوں ممالک میں باہمی تعاون کی آخری حد آسمان ہوگی۔ اسرائیل کے مشیر قومی سلامتی نے بھی حال ہی میں دہلی کا دورہ کیا اور راج ناتھ سنگھ سے ملاقات کی تھی۔ نریندر مودی نے وزارت عظمیٰ پر فائز ہوتے ہی دفاعی شعبہ میں اسرائیل کو اپنا حلیف بنایا۔ اس پس منظر میں راج ناتھ سنگھ دورہ اسرائیل کافی اہمیت کا حامل ہے۔ راج ناتھ سنگھ نے ایسے وقت اسرائیل کا دورہ کیا جب قبلہ اول مسجد اقصیٰ کے بارے میں صیہونی طاقتوں کی نیت ٹھیک نہیں ہے۔ مسجد اقصیٰ پر بار بار حملے ہورہے ہیں۔ راج ناتھ اور بی جے پی کو دیگر مذاہب کی عبادت گاہیں منہدم کرنے کا خاصہ تجربہ ہے۔ مبصرین کا خیال ہے کہ راج ناتھ سنگھ اپنے تجربات کے تبادلے کے لئے اسرائیل پہنچے ہیں۔ اسرائیل نے 50 دن تک غزہ پر حملے کرتے ہوئے واحد قوت مزاحمت حماس کو نشانہ بنایا لیکن ساری دنیا اور بطور خاص عالم اسلام تماشائی بنا رہا ۔ مسلم ممالک آپسی انتشار کے سبب اپنی اپنی بقاء اور اقتدار بچانے کی فکر میں ہیں۔ اسرائیل سے تعلقات کے ساتھ ہی ہندوستان نے لاء اینڈ آرڈر کی صورتحال سے نمٹنے اسرائیل کے ٹیکنکس کو پہلے ہی اختیار کرلیا ہے۔ تفتیش کا موجودہ طریقہ کار اور ہجوم سے نمٹنے کیلئے اسرائیلی حکمت عملی پر ہی عمل آوری کی جارہی ہے۔ بے گناہوں کو شبہ کی بنیاد پر گرفتار کرنا اور ان پر مقدمے چلانا فلسطینیوں کے خلاف اسرائیل کی پالیسی کو ہندوستان نے بھی اپنالیا ہے۔ اس دورہ میں اب مزید ہندوستان کیا سیکھنا چاہتا ہے یا پھر وہ اسرائیل کو اپنے تجربات سے روشناس کرتے ہوئے فلسطینی جیالوں کے خلاف کارروائی میں رہنمائی کرے گا؟ غزہ پر اسرائیلی حملے کے وقت ہندوستان نے متوازن پالیسی کا ڈھونگ رچایا تھا۔ اس اعتبار سے ہندوستان کو ابھی بھی متوازن پالیسی پر عمل کرنا چاہئے تھا۔ راج ناتھ سنگھ صرف اسرائیل کے بجائے اگر فلسطین کا بھی دورہ کرتے تو یقینی طور پر ہندوستان غیر جانبدار نظر آتا لیکن نریندر مودی حکومت کو فلسطینی عوام سے صرف زبانی ہمدردی ہے۔ راج ناتھ سنگھ کو چاہئے تھا کہ وہ نتن یاہو کے علاوہ محمود عباس سے بھی ملاقات کرتے اور غزہ کے متاثرہ علاقوںکا دورہ کرتے۔ مبصرین کے مطابق ہندوستان اسرائیل کے صیہونی عزائم کا حصہ بننے جارہا ہے جوکہ آر ایس ایس کے نظریات سے میل کھاتا ہے۔ والی آسی نے کیا خوب کہا ہے ؎
چراغ دیکھ کر میرے مچل رہی ہے ہوا
کئی دنوں سے یہاں تیز چل رہی ہے ہوا