چراغ بانٹتا پھرتا ہے چھین کر آنکھیں

کل جماعتی وفد کا آج سے مشن کشمیر
کجریوال کے خلاف بی جے پی کو ملا نیا ہتھیار

رشیدالدین
کسی بھی تنازعہ کی یکسوئی کا دارومدار فریقین کی سنجیدگی پر منحصر ہے۔ اگر سنجیدگی کے ساتھ مسئلہ کا حل تلاش کرنے کا عزم ہو تو پھر مذاکرات کامیاب ہوسکتے ہیں۔ کشمیر کی صورتحال میں سدھار کیلئے مرکز نے کل جماعتی وفد روانہ کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ قارئین جس وقت یہ تحریر پڑھ رہے ہوں گے ، کل جماعتی وفد کشمیر پہنچ چکا ہوگا۔ دیر آید درست آید کے مصداق  مرکز نے تاخیر سے سہی لیکن کشمیری عوام کے احوال اور مسائل کو جاننے کی پہل کی ہے۔ امید کی جاسکتی ہے کہ کل جماعتی وفد وادی کے عوام کے زخموں پر مرہم رکھتے ہوئے تقریباً دو ماہ کی محروسی سے نجات دلائے گا۔ 8 ستمبر کو وادی میں مسلسل کرفیو کے دو ماہ مکمل ہوجائیں گے۔ اس قدر طویل عرصہ میں وادی میں حکومت کا کوئی وجود نظر نہیں آرہا ہے ۔ ہندوستان ہی نہیں بلکہ دنیا بھر کیلئے یہ طویل کرفیو کسی ریکارڈ سے کم نہیں۔ مرکز اور ریاستی حکومت جب طاقت کے ذریعہ صورتحال پر قابو پانے میں ناکام ہوگئی تو دنیا بھر میں بدنامی کے خوف سے کل جماعتی وفد کی روانگی کا فیصلہ کیا گیا۔ وفد کی روانگی محض برائے نام اور ضابطہ کی تکمیل کے طور پرنہ ہو بلکہ ٹھوس تجاویز اور بحالی اعتماد اقدامات پر مشتمل ایکشن پلان کشمیری عوام کے روبرو پیش کیا جائے۔ ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ وزیراعظم نریندر مودی وفد کی قیادت کرتے تاکہ کشمیری عوام سے اپنی محبت کا اظہار کرنے میں انہیں مدد ملتی جس کا دعویٰ انہوں نے من کی بات پروگرام میں کیا تھا۔سابق میں ڈاکٹر منموہن سنگھ وزیراعظم کی حیثیت سے سرینگر میں راؤنڈ ٹیبل کانفرنس منعقد کرچکے ہیں۔ راج ناتھ سنگھ کی قیادت میں کل جماعتی وفد کے دورہ سے فوری اور مثبت نتائج کی امید اس لئے بھی نہیں کی جاسکتی کہ انہیں وزیراعظم کی طرح بروقت فیصلہ کا اختیار نہیں ہے ۔ ایسی صورت میں کہیں یہ دورہ محض ’’نشستن گفتن‘‘ ہوکر نہ رہ جائے۔ راج ناتھ سنگھ دو مرتبہ کشمیر کا دورہ کرچکے ہیں اور ان کا مشن وادی میں صورتحال کو بہتر بنانے اور عوام کا اعتماد جیتنے میں ناکام رہا۔ اب حکومت سے زیادہ دیگر جماعتوں سے تعلق رکھنے والے قائدین پر بھاری ذمہ داری عائد ہوتی ہے۔ کھلے دل سے اور شرائط کے بغیر وادی کا دورہ نتیجہ خیز ثابت ہوسکتا ہے ۔ وفد کی روانگی سے قبل ہی حکومت کا اعلان آگیا کہ راج ناتھ سنگھ علحدگی پسند حریت قائدین سے ملاقات نہیں کریں گے جبکہ وفد کے ارکان کو ملاقات کی آزادی رہے گی۔ یہ حکومت کی سطح پر تحفظ ذہنی نہیں تو اور کیا ہے ؟ وادی کی صورتحال بہتر بنانا مقصود ہو تو ملاقات سے انکار اور ترجیحات و شرائط کیوں ؟ اس سے حکومت کی سنجیدگی پر سوال اٹھ سکتے ہیں۔ آپ ہر ہندوستانی شہری کے وزیر داخلہ ہیں، پھر اپنے شہریوں سے ملاقات سے انکار کیوں ؟ کشیدہ حالات میں آپ نے دشمن ملک جاکر سارک وزرائے داخلہ کے اجلاس میں شرکت کی لیکن اپنے ہی شہریوں سے بات چیت کیلئے آپ تیار نہیں ہیں۔

جب ملاقات ہی نہ ہو تو پھر ان کے مسائل کو کس طرح سمجھ پائیں گے ؟ راج ناتھ سنگھ شائد بھول رہے ہیں کہ وزیراعظم نریندر مودی نے ناگا باغیوں سے ملاقات کی تھی اور ان سے امن معاہدہ کیا تھا ۔ جب ناگا باغیوں سے مودی ملاقات کرسکتے ہیں تو پھر حریت قائدین سے ملنے میں راج ناتھ سنگھ کو کیا عذر مانع ہیں۔ ہوسکتا ہے کہ وہ سنگھ پریوار کی ناراضگی مول لینا نہیں چاہتے۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ جب تنازعہ کے اہم فریق سے مذاکرات نہ ہوں تو پھر مسئلہ کا حل کس طرح برآمد ہوگا۔ وزیراعظم نے کشمیریت ، انسانیت اور جمہوریت کا نعرہ لگایا تھا لیکن حریت قائدین سے ملاقات سے انکار کشمیریت کے جذبہ کی توہین نہیں تو اور کیا ہے ؟ کہا یہ جارہا ہے کہ دستور ہند کے دائرہ میں مذاکرات کے حامیوں سے راج ناتھ سنگھ ملاقات کریں گے ۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ ان کی نظر میں وادی کے عوام ہندوستانی نہیں ہیں۔ اگر ایسا ذہن نہ ہوتا تو وہ حریت قائدین سے ملاقات کو اپنے پروگرام میں شامل رکھتے ۔ دراصل راج ناتھ سنگھ ہو یا بی جے پی حکومت کے کوئی اور وزیر انہیں لفظ مسلم پر اعتراض ہے۔ کشمیر ملک کی واحد مسلم اکثریتی ریاست ہے اور صورتحال میں بہتری کیلئے مسلم قائدین سے مذاکرات کے سوا کوئی چارہ نہیں لیکن یہ بات سنگھ پریوار اور بی جے پی کو ہضم نہیں ہو پارہی ہے۔ جب تک مسلم نفرت کے جذبہ کا خاتمہ نہیں ہوگا اس وقت تک مسئلہ کشمیر کا حل تلاش کرنا آسان نہیں۔ تحفظ ذہنی کے بغیر کھلے دل اور انسانیت کے جذبہ کے ساتھ مذاکرات کئے جائیں تو یقینی طور پر صورتحال تبدیل ہوگی۔ سارک کانفرنس میں لنچ کیلئے خصوصی طور پر مدعو نہ کرنے سے ناراض ہوکر راج ناتھ سنگھ اسلام آباد سے بھوکے لوٹ آئے تھے لیکن یہاں اپنے ہی عوام کے درمیان تحفظ ذہنی ٹھیک نہیں۔ پاکستانی مقبوضہ کشمیر کی بازیابی کا عزم رکھنے والے راج ناتھ سنگھ اگر چاہیں تو حریت قائدین سے مذاکرات کے ذریعہ کشمیر کے دونوں حصوں پر مشتمل وفاق کی تشکیل اور اسے زائد اختیارات کے فارمولہ پر کام کرسکتے ہیں۔ اس طرح ملک کی سرحدیں بھی محفوظ ہوجائیں گی تو دوسری طرف 1948 ء سے پاکستان کا زیر قبضہ کشمیر بھی واپس مل جائے گا۔ آزادی کے 70 سال میں مسلم اکثریتی ریاست پر اقتدار کا موقع بی جے پی ہرگز گنوانا نہیں چاہتی لیکن یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ وادی میں بی جے پی کو عوامی مقبولیت کے لئے صدیاں لگ جائیں گی ۔ مقامی کشمیریت کی نمائندہ جماعتیں آج بھی مکمل طور پر عوامی تائید کا دعویٰ نہیں کرسکتیں۔ بقول غلام نبی آزاد پی ڈی پی بی جے پی اتحاد دراصل ریشم میں ٹاٹ کا پیوند ہے جو ہمیشہ ایک عیب ہی کہلائے گا۔

گزشتہ تجربات اور مسئلہ کشمیر کی یکسوئی میں متواتر حکومتوں کی بدلتی پالیسیوں کے پس منظر میں سیاسی مبصرین کو کل جماعتی وفد سے کوئی خاص امید نہیں ہے۔ سابق میں بھی کئی وفود اور کمیٹیوں نے حکومت کو تجاویز پیش کی تھیں جنہیں برفدان کی نذر کردیا گیا ۔ 2010 ء میں مرکز کے کل جماعتی وفد نے جو سفارشات پیش کی تھیں، ان پر عمل آوری کی جاتی تو شائد آج یہ صورتحال نہ ہوتی۔ اگر حکومت سنجیدہ نہ ہو تو یہ وفد اور اس کی رپورٹ بھی کشمیر کے بارے میں سابق میں پیش کردہ رپورٹس میں محض ایک اضافہ ہوگا۔ وزیراعظم نے کشمیر کیلئے 80,000 کروڑ کا جو پیکیج اعلان کیا تھا، اس کی پیشرفت کا بھی حساب پیش کرنا ہوگا۔ کل جماعتی وفد کے دورہ سے قبل چیف منسٹر محبوبہ مفتی کے بدلتے تیور نے بھی کشمیریت کے جذبہ کو ٹھیس پہنچائی ہے۔ مفتی محمد سعید اور محبوبہ مفتی کی حریت قائدین سے ہمدردی کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں۔ 2010 ء میں کشمیر میں ہوئی ہلاکتوں پر ان کا موقف دنیا کے سامنے ہے۔ برہان وانی کے انکاونٹر پر محبوبہ مفتی نے سوال کھڑے کئے تھے ، بعد میں انہوں نے مرکز کے موقف سے خود کو وابستہ کرلیا۔

سیکوریٹی فورسس کو حاصل زائد اختیارات میں کمی پی ڈی پی کا اہم ایجنڈہ رہا ہے لیکن آج محبوبہ مفتی مرکزی حکومت کی زبان میں بات کر رہی ہیں۔ آخر کیا بات ہوگئی کہ محبوبہ مفتی کشمیر مسئلہ پر نریندرمودی کے سانچے میں ڈھل چکی ہیں۔ مبصرین کے مطابق اقتدار سے محرومی کے خوف نے انہیں مرکز کے ساتھ چلنے پر مجبور کردیا ہے ۔ مفتی محمد سعید کے انتقال کے بعد پارٹی کمزور ہونے لگی ہے۔ عوامی تائید میں کمی کے علاوہ پارٹی پر محبوبہ کی گرفت مضبوط نہیں۔ اگر ایسے میں مرکز سے ٹکراؤ کا رویہ اختیار کیا جائے تو دوبارہ الیکشن کی صورت میں پی ڈی پی کی اقتدار میں واپسی کا کوئی امکان نہیں ہے۔ لہذا مودی کے پڑھائے ہوئے سبق کو دہرانا محبوبہ مفتی کی مجبوری ہے ۔ دہلی کے صفدر جنگ ہاسپٹل میں زیر علاج ایک کشمیری طالبہ کی عیادت کے لئے محبوبہ مفتی پہنچیں تو انہیں لڑکی کے ایک سوال نے جھنجھوڑ کر رکھ دیا۔ جس وقت محبوبہ مفتی نے شفقت سے سر پر ہاتھ پھیرا تو معصوم لڑکی نے سوال کیا کہ میری بینائی کب بحال ہوگی؟ یہ ایسا سوال تھا کہ جس کا جواب محبوبہ مفتی تو کیا وزیراعظم کے پاس بھی نہیں ہے۔ کشمیر میں پیلیٹ گنس کے استعمال کو روکنے میں ناکام چیف منسٹر کے پاس سوائے خاموشی کے کوئی جواب نہیں تھا ۔ مسئلہ کشمیر پر حکومت ، بی جے پی اور قومی میڈیا کے دہرے معیارات اس وقت عیاں ہوگئے جب کشمیر میں انکاؤنٹر میں ہلاک برہان وانی کے والد مظفر وانی نے بنگلور میں ہندو مذہبی رہنما سری سری روی شنکر سے ملاقات کی۔ آرٹ آف لیونگ کے نام سے دنیا بھر میں پروگرام کرنے والے روی شنکر سے مظفر وانی کی ملاقات پر حکومت ، سنگھ پریوار اور میڈیا میں سناٹا طاری ہے جبکہ حکومت نے برہانی وانی کو دہشت گرد قرار دیا اور مظفر وانی نے اپنے بیٹے کے مشن کو مکمل کرنے کا اعلان کیا تھا ۔ اس طرح کے شخص سے روی شنکر نے کیونکر ملاقات کی؟ اگر یہی مظفر وان کسی مسلم رہنما جیسے مولانا رابع ندوی ، شاہی امام احمد بخاری یا کسی مسلم سیاسی قائد سے ملاقات کرتے تو میڈیا آسمان سر پر اٹھالیتا۔ اتنا ہی نہیں ملاقات کرنے والوں پر ملک دشمنی کا لیبل لگاکر مقدمات درج کئے جاتے لیکن روی شنکر سے دہشت گرد کے والد کی ملاقات پر میڈیا خاموش ہے۔ حکومت بھی اس مسئلہ پر مجرمانہ انداز میں پردہ ڈالنے کی کوشش کر رہی ہے۔ دوسری طرف دہلی میں اروند کجریوال اور ان کی پارٹی کو گھیرنے کیلئے بی جے پی کے ہاتھ ایک ہتھیار لگ چکا ہے۔ کجریوال حکومت کے ایک وزیر کے ایک متنازعہ ویڈیو نے ایک طرف اروند کجریوال کی مشکلات میں اضافہ کردیا ہے تو دوسری طرف عام آدمی پارٹی کی پنجاب اور گجرات میں پیشرفت کی راہ میں رکاوٹ پیدا کردی ہے۔ کجریوال حکومت کے وزیر کو برطرف کردیا گیا لیکن اپوزیشن جماعتوں کے نشانہ پر اروند کجریوال ہیں۔ خاص طور پر بی جے پی اس موقع کو غنیمت جان کر اپنے ہمنوا قومی میڈیا کا بھرپور استعمال کرتے ہوئے عام آدمی پارٹی اور اروند کجریوال  پر حملے کر رہی ہے۔ شرمناک بات تو یہ ہے کہ قومی میڈیا نے بی جے پی کی محبت میں اخلاقی اصولوں کو فراموش کردیا اور متنازعہ ویڈیو کے حصوں کو ٹیلی ویژن چیانل پر پیش کیا گیا۔ حالانکہ نیوز چیانلس کو عام طور پر ہر گھر میں سارے خاندان کے افراد مل کر دیکھتے ہیں ۔ایسا محسوس ہوتا ہے کہ بی جے پی جو گجرات اور پنجاب میں عام آدمی پارٹی کی پیشرفت سے خوفزدہ ہے ، اس نے بعض چیانلس کو مخالف کجریوال پبلسٹی کا کنٹراکٹ دے دیا ہے۔ ویڈیو بھلے ہی وزیر کی حیثیت سے نہ ہو لیکن چونکہ غلطی بہرحال غلطی ہے۔ لہذا قانون کے مطابق کارروائی کی جانی چاہئے۔ تاہم اس کیلئے اروند کجریوال کو راست طور پر ذمہ دار قرار دینا کہاں کا انصاف ہے۔ مرکزی حکومت اور محبوبہ مفتی کیلئے کسی شاعر نے کیا خوب کہا ہے   ؎
شمار اس کی سخاوت کا کیا کریں جو شخص
چراغ بانٹتا پھرتا ہے چھین کر آنکھیں