چراغوں کو اچھالا جارہا ہے

 

معاشی امور کی آڑ میں ہندو راشٹر ایجنڈہ
تاج محل سے نفرت …کتنی نشانیاں مٹاؤگے

رشیدالدین
نوٹ بندی، جی ایس ٹی اور جی ڈی پی جیسے امور میں قوم کو الجھاکر نریندر مودی حکومت ہندو راشٹر کے راستہ پر جس تیزی سے گامزن ہوئے، اس کا اندازہ نہیں کیا جاسکتا۔ دیگر مذاہب اور طبقات کی طرح مسلمان بھی معاشی صورتحال کے کھیل میں الجھ کر رہ گئے ہیں لیکن گزشتہ تین برسوں میں ناگپور کے ریموٹ سے چلنے والی حکومت نے طرح طرح سے تہذیب ، ثقافت اور زبان کو نقصان پہنچانے کی کوشش کی تاکہ مسلمانوں کی شناخت متاثر ہو۔ کبھی لو جہاد تو کبھی گاؤ رکھشک اور کبھی حب الوطنی کے عنوان سے نشانہ بنایا گیا۔ سرِ عام بے قصور اور نہتے مسلمانوں کو ہجوم کے ہاتھوں ہلاک کیا گیا۔ عدم رواداری کی ایسی بدترین مثالیں شائد ملک کی تاریخ میں کبھی دیکھی گئی ہوں۔ ان سرگرمیوں کا مقصد مسلمانوں کے حوصلے پست کرنا اور مزاحمت کے جذبہ کو خوف و دہشت کے ذریعہ کمزور کرنا ہے۔ مسلمانوں میں یہ احساس پیدا کرنے کی کوشش کی جارہی ہے کہ وہ دوسرے درجہ کے شہری اور اکثریت کے رحم و کرم پر ہیں۔ اسی احساس کو پیدا کرنے کا نام ہندو راشٹر ہے۔ ملک میں سیکولر طاقتوں کا کمزور ہونا بھی ہندوتوا عناصر کیلئے کسی نعمت سے کم نہیں رہا ، لہذا تین برسوں میں خفیہ ایجنڈہ پر منظم انداز میں عمل آوری کی گئی ہے۔ وزیراعظم نریندر مودی جو خود کو پردھان سیوک کہلانا پسند کرتے ہیں، وہ اچھے دن اور سب کا ساتھ سب کا وکاس جیسے نعرے لگاتے رہے اور دنیا ان نعروں پر بھروسہ کرتی رہی لیکن زمینی حقیقت کچھ اور ہی تھی۔ دنیا میں مسلمانوں کی سب سے بڑی آبادی انڈونیشیا میں ہے ، اس کے بعد ہندوستان میں سب سے زیادہ مسلمان ہیں۔ اگر مسلمانوں میں یہ احساس اجاگر ہوجائے تو ہر شعبہ میں ان کی شراکت اور حصہ داری بن سکتی ہے لیکن ایک سازش کے تحت اس احساس کو بھلادیا گیا جس کے نتیجہ میں مسلمانوں کے لئے مواقع محدود ہوچکے ہیں۔ ایسا نہیں ہے کہ مسلمان حکومت اور ارباب اقتدار سے کسی رحم و کرم کی بھیک مانگ رہے ہیں بلکہ وہ اپنا جائز حق چاہتے ہیں۔ ملک کی جدوجہد آزادی سے لیکر ترقی تک مسلمانوں نے خونِ جگر سے اس چمن کی آبیاری کی لیکن آج ان سے کہا جارہا ہے کہ ’’یہ چمن ہے ہمارا تمہارا نہیں‘‘ ہر شعبہ میں مسلمانوں کو محروم کرنا ہندوتوا طاقتوں کا بنیادی ایجنڈہ ہے ۔

اسی ملک میں بادشاہت کرنے والے زوال سلطنت کے بعد بادشاہ گر کے موقف میں رہے لیکن آج وہ اعزاز بھی چھیننے کی کوشش ہے تاکہ سیاسی میدان میں بھی شناخت باقی نہ رہے۔ ڈر و خوف کا یہ عالم ہے کہ مظالم کے خلاف آواز اٹھانا توکجا شریعت میں مداخلت پر بھی مسلمان خاموش ہیں۔ ہر طرف بے حسی چھائی ہوئی ہے ۔ شاہ بانو کیس کے فیصلہ پر حکومت کو شریعت کے حق میں قانون سازی پر مجبور کرنے والی قوم اور اس کی قیادت آج طلاق ثلاثہ پر شریعت میں مداخلت کا تماشہ دیکھ رہی ہے ۔ جان سے پیاری شریعت کے نعرے حلق سے نیچے نہیں اترسکے۔ شریعت کے معاملہ میں یہ بے حسی ہو تو پھر یکساں سیول کوڈ کے نفاذ کو کس طرح روک پائیں گے ۔ تین برسوں میں مسلمانوں کی طاقت حمیت اسلامی اور اتحاد کا بھرم ٹوٹ گیا۔ یہی وجہ ہے کہ صدر جمہوریہ ، نائب صدر ، چیف جسٹس ، گورنر اور چیف منسٹر جیسے دستوری عہدوں کے علاوہ پالیسی ساز اداروں میں نمائندگی باقی نہیں رہی۔ سارے ملک میں ایک مسلم خاتون گورنر ہے جن کا اسلام اور شریعت سے کوئی تعلق نہیں، انہوں نے وزیر اقلیتی امور کی حیثیت سے بیان دیا تھا کہ حقیقی اقلیت مسلمان نہیں بلکہ پارسی طبقہ ہے۔ وہ یکساں سیول کوڈ کی حامی بتائی جاتی ہے ۔ ملک میں واحد مسلم چیف منسٹر بھی ایک خاتون ہے جو جموں و کشمیر میں بی جے پی کے رحم و کرم پر ہے۔ ملک میں واحد مسلم ڈپٹی چیف منسٹر تلنگانہ میں ہیں۔ دستوری عہدوں ، عدلیہ اور پالیسی ساز اداروں سے مسلمانوں کا صفایا کردیا گیا۔ مسلمانوں کی علحدہ شناخت کو ختم کرنے انہیں ہندو ثابت کیا جانے لگا۔ مسلمانوں کے خلاف دل و دماغ میں نفرت اور زہر کی یہ بدترین مثالیں ہیں۔ مسلمانوں کی حالت برما کے مسلمانوں جیسی کرنا چاہتے ہیں۔ اگرچہ برما کی طرح ان پر حملے نہیں کئے گئے لیکن ذہنی طور پر غلام بنانے کی تیاری ہے۔ مسلم قیادت چاہے وہ مذہبی ہو کہ سیاسی حکومت کے خلاف بظاہر اظہار خیال تو کرتے ہیں لیکن ملت کے وسیع تر مفاد سے زیادہ انہیں شخصی مفادات عزیز ہیں۔ حکومت سے در پردہ معاملہ داری اور مسلمانوں کو ان کے حق سے محروم رکھنا قیادتوں کے شیوہ بن چکا ہے ۔ پارلیمنٹ اور اسمبلیوں میں مسلم نمائندگی دن بدن گھٹتی جارہی ہے ، اس کیلئے غیروں سے زیادہ ہمارے اپنے ذمہ دار ہیں۔ مسلم سیاسی اور مذہبی قیادتوں کے لئے یہ محاسبہ کا وقت ہے ۔ اگر آج ذمہ داری کو محسوس نہیں کیا گیا تو پھر سوائے پچھتاوے کے کچھ نہیں ملے گا۔ ملک کے اعلیٰ دستوری عہدوں پر ایک سے زائد مرتبہ مسلمانوں نے اپنی صلاحیتوںکا لوہا منوایا ۔ کیرالا ، آسام ، راجستھان ، بہار اور مہاراشٹرا میں مسلمان چیف منسٹر رہے لیکن آج مسابقت کے میدان میں بچھڑ چکے ہیں۔ علیگڑھ مسلم یونیورسٹی کا اسلامی کردار ختم کردیا گیا اور مسلمان اس مصیبت پر خاموش رہے۔ بابری مسجد دن دھاڑے شہید کردی گئی اور اب شریعت کو نشانہ بنایا جارہا ہے ۔ تین طلاق پر سپریم کورٹ کا فیصلہ شریعت میں مداخلت کا آغاز ہے۔ اتنا سب کچھ ہونے کے باوجود ہر مکتب فکر ہر محاذ پر خاموشی ہے اور دین کو پیچھے چھوڑ کر دنیا کے پیچھے دوڑ لگائی جارہی ہے۔ ہر مسئلہ پر چند دن احساس اور پھر سناٹا مسلمانوں کی روایت بن چکی ہے۔ اسلام کو صرف ظاہری عبادتوں کے مذہب میں تبدیل کردیا گیا اور اب تو عبادتیں بھی مخالفین کو کھٹک رہی ہے۔ معیشت کو بچانے سے زیادہ ایمان کو بچانا ضروری ہے۔

ہندو راشٹر کے اہم کرداروں میں مودی اور امیت شاہ کے بعد سنگھ پریوار نے یوگی ادتیہ ناتھ کو قومی سطح پر ابھارنے کا منصوبہ بنایا ہے ۔ مودی اور امیت شاہ کے مقابل یوگی نیو انٹری کی طرح عوام کو جلد متاثر کرسکتے ہیں۔ اسی منصوبہ کے تحت یوگی کو کیرالا میں بائیں بازو کی مخالفت میں روانہ کیا گیا۔ سنگھ پریوار کے کارکنوں کی ہلاکتوں کے خلاف آر ایس ایس سربراہ موہن بھاگوت نے کیرالا میں مخالف لیفٹ مورچہ بنایا تھا۔ بی جے پی کے صدر امیت شاہ بھی کیرالا میں کچھ زیادہ ہی سرگرم ہیں۔ گزشتہ دنوں یوگی ادتیہ ناتھ نے جن سرکھشا ابھیان کی قیادت کی۔ جس کی اپنی ریاست میں عوام محفوظ نہیں ، وہ دوسری ریاستوں پر تنقید کرنے چل پڑے ہیں۔ یوگی راج میں اقلیتوں کا جو حال ہی ہے، وہ کسی سے مخفی نہیں۔ یو پی میں جن سرکھشا ابھیان کی قیادت کون کرے گا؟ یوگی نے اترپردیش کو چند ماہ کے اندر زعفرانی رنگ میں کچھ اس طرح رنگ دیا ہے کہ سیکولر طاقتوں کو سنبھلنے میں وقت لگ جائے گا۔ دراصل یوگی نے زعفرانی چشمہ پہن لیا ہے اور وہ ہر چیز کو زعفرانی دیکھنا چاہتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ انہوں نے مسلمانوں کی نشانیوں کو مٹانے کا بیڑہ اٹھایا ہے۔ دنیا کا ساتواں عجوبہ تاج محل ان دنوں یوگی کی آنکھوں میں کھٹک رہا ہے ۔ جس عجوبہ کو دیکھنے کیلئے دنیا ہندوستان آتی ہے ، وہ عجوبہ یوگی کو ہندوستانی تہذیب کا حصہ دکھائی نہیں دیتا۔ کیا یوگی یہ بتانے کی زحمت کریں گے کہ تاج محل کس تہذیب کا حصہ ہے؟ ویسے بھی ہندوستان میں عالمی سیاحوں کو راغب کرنے میں مسلمانوں کی نشانیوں کا اہم رول ہے۔ مسلمانوں نے ملک کے چپہ چپہ پر اپنی عظمت کے نشان چھوڑے ہیں ۔ یوگی کے نزدیک دراصل ہندوستانی تہذیب کا مطلب ہندو تہذیب ہے۔ آج بھی تاج محل سے بیرونی زر مبادلہ دیگر یادگاروں کے مقابلہ زیادہ حاصل ہوتا ہے اور اترپردیش حکومت کے خزانہ میں اس کا اہم حصہ ہے۔ یوگی حکومت نے حال ہی میں اترپردیش کے سیاحتی مقامات کی گائیڈ جاری کی جس میں تاج محل کو شامل نہیں کیا گیا۔ اترپردیش میں صرف ہندو تہذیب کی نشانیوں کو سیاحتی مقامات کی حیثیت سے پیش کیا گیا ہے ۔ حیرت ہے کہ اس فہرست میں ایودھیا بھی شامل ہے ۔ یہ فہرست دراصل یوگی کی ذہنیت کی عکاس ہے۔ اترپردیش کے نقشہ سے اگر تاج محل کو علحدہ کردیا گیا تو سوائے آلودگی کا شکار گنگا اور چند گھاٹوں کے سواء کچھ نہیں رہے گا۔ یوگی نے لکھنو کے نواب آصف الدولہ کی یادگار کو بھی اس فہرست سے نکال دیا جبکہ گورکھپور میں جس مٹھ کے وہ سربراہ ہیں، اس کے لئے زمین نواب آصف الدولہ نے دی تھی۔ یوگی کی یہ سوچ دراصل سماج میں دراڑ پیدا کرنے کی ایک کوشش ہے جسے ہرگز قبول نہیں کیا جاسکتا۔ مسلم دشمنی کا یہی رجحان برقرار رہا تو عجب نہیں ، آنے والے دنوں میں لال قلعہ بھی تاریخی مقامات کی فہرست سے نکال دیا جائے گا اور بی جے پی حکومت لال قلعہ سے پرچم کشائی ترک کردے گی۔ مودی ہوں یا یوگی انہیں جان لینا چاہئے کہ آج بھی ملک کی عظمت اور وقار کی علامت ترنگا مسلمانوں کی یادگار پر لہرایا جاتا ہے ۔ اگر یوں کہا جائے تو غلط نہ ہوگا کہ مسلمانوں نے ترنگا کی عظمت کو بلند کرنے کی ذمہ داری لی ہے ۔ دہلی میں کوئی اور مقام ایسا نہیں جو پرچم کشائی کے قابل ہو۔ ملک میں مسلمانوں کی کن کن نشانیوں کو مٹایا جائے گا۔ تاریخ سے مسلم مجاہدین آزادی کے کارناموں کو حذف کرنے کا سلسلہ شروع ہوچکا ہے اور سنگھ پریوار کے مورخین ہندوستان کی نئی تاریخ لکھ رہے ہیں۔ ان دنوں بی جے پی حکومت کے خلاف بعض آوازیں اٹھ رہی ہیں، جنہیں مخالف بی جے پی عناصر سر آنکھوں پر بٹھا رہے ہیں۔ دراصل یہ مایوس عناصر ہے، ان میں سے بعض مخالف مسلم رجحان کیلئے شہرت رکھتے ہیں۔ سیکولر طاقتوں کو ان عناصر پر انحصار کئے بغیر اپنی طاقت کے ذریعہ مقابلہ کرنا چاہئے۔ ملک کے حالات پر ڈاکٹر راحت اندوری کا یہ شعر صادق آتا ہے ؎
چراغوں کو اچھالا جارہا ہے
ہوا پر رعب ڈالا جارہا ہے