چانسلر وائس چانسلر کا تنازعہ۔مرکزی وزیر برائے فروغ انسانی وسائل خاموش تماشائی کیوں؟۔

مولانا آزاد یونیورسٹی حیدرآباد میں جاری تنازع سے محبان اُردو اورطلباء حیران وپریشان‘ چانسلر فیروز بخت نے کہاکہ مرکزی وزیر برائے فروغ انسانی وسائل پرکا ش جاوڈیکر مسئلہ کو حل کرسکتے ہیں‘ وائس چانسلر اسلم پرویز نے کہاکہ دستور کی خلاف ورزی ناقابل قبول

نئی دہلی۔مولانا آزاد نیشنل یونیورسٹی حیدرآباد کے چانسلر او ر وائس چانسلر کے تنازعہ سے محبان اُرو اور وہاں کے طلباء حیران وپریشان ہیں۔چانسلر فیروز بخت اور وائس چانسلر محمد اسلم پرویز کے درمیان اختیارات کو لیکر جو ٹکراؤ پیدا ہوا ہے اس کا حل مرکزی وزیر برائے فروغ انسانی وسائل حکومت ہند کے پاس ہے تاہم وہ خامو ش تماشائی بنے ہوئے ہیں جس سے عالمی معیار کے اس ادارے کی بدنامی ہورہی ہے۔

مسٹر پرویز کا الزام ہے کہ فیروز بخت انتظامی امور میں غیر ضروری طور پر مداخلت کررہے ہیں جبکہ مسٹر بخت کا کہنا ہے کہ چانسلر کا تقرر محض ڈگریاں تقسیم کرنے کے لیے نہیں بلکہ یونیورسٹی کو بہتر بنانے کے لئے وہ مشورے بھی دے سکتے ہیں او راگر کچھ غلط ہورہا ہے تو اس کی نشاندہی بھی کرسکتا ہے۔

حیرانی کی بات یہ ہے ک گذشتہہ کئی مہینے سے یہ معاملہ چل رہا ہے لیکن اب تک وزرات فروغ انسانی وسائل کی جانب سے اس کا حل تلاش نہیں کیاگیا جبکہ وزیر برائے فروغ انسانی وسائل پرکاش جاوڈیکر چاہیں تو مسئلہ پل بھر میں حل کرسکتے ہیں ۔

اس سلسلے میں انقلاب بیوور نے چانسلر اور وائس چانسلر سے فو ن پر گفتگو کی ۔ وی سی اسلم پرویز نے کہاکہ فیروز بخت نے چانسلر بننے کے بعد وہ کام شروع کردیے جو ان کے اختیارات میں نہیں تھے۔ انہو ں نے کہاکہ فیروز بخت نے تبادلہ کی سفارش کی‘ ایک قرری کے لئے سفارش کی‘ غیر اردو داں طلبا کے داخلے کی بات ادارے میں شروع کردی‘ خو د انگریزی‘ اُردو صحافت کی کلاس لینے کو کہا جبکہ یہ چانسلر کا کام نہیں ہے۔

انہو ں نے کہاکہ چانسلر کو یونیورسٹی بار بار دہلی سے مدعو نہیں کرسکتی کیونکہ اس کے لئے فنڈ نہیں ہے۔ چانسلر کو صرف بورڈ کی میٹنگ میںیاپھر یوم تاسیس کے موقع پر ہی مدعو کیاجاسکتا چنانچہ جب اس پر ہم نے پابندی لگائی اور منع کردیا تو فیروز بخت ناراض ہوگئے اور مجھ پر بے بنیاد الزام عائد کرنے لگے۔

انہو ں نے کہاکہ اعلی تعلیم سکریٹری نے یونیورسٹی ایکٹ کے تحت اختیارات کی وضاحت کردی ہے اور یہ بھی کہہ دیا ہے کہ جو بدعنوانی کے الزامات عا ئد کئے گئے ہیں ان کی ضرورت پڑنے پر جانچ کرائی جائے گی۔ چنانچہ اب معاملہ صاف ہے ۔چانسلر فیروز بخت سے بات کی تو انھوں نے کہاکہ میں بھی جانتاہوں کہ یونیورسٹی ایکٹ کیا ہے؟۔

انہوں نے کہاکہ ہاں ہم نے ایک تبادلہ کے لئے کہاتھا لیکن یہ کوئی بری بات نہیں ہے ۔ کیونکہ سماجی کارکن کی حیثیت سے اس قسم کے پہلے بھی کام کرتارہاہوں۔جس کے لئے کہاتھا وہ انتہائی ضرورت مند بچہ تھا۔ انہو ں نے کہاکہ تقرری کی بات بے بنیاد ہے کسی کی درخواست پیش کرنے کا مطالب یہ نہیں ہے کہ میں نے اس کی تقرری کردی ‘ یہ فیصلہ انتظامیہ کا ہے۔

انہو ں نے کہاکہ تیسری بات یہ ہے کہ جب سے میں چانسلر بنایاگیا ہوں صرف دومرتبہ یونیورسٹی گیاہوں۔ انہو ں نے کہاکہ میں تو مولانا آزاد یونیورسٹی کے معیار کو بڑھانے کے لئے میں اپنے خدمات دینا چاہتاہوں میری ایک کلاس سے طلبا ء کافی خوش تھے اس لیے میں دو مہینے ایک بار آنے کی درخواست کی تھی۔

انہو ں نے کہاکہ بار بار حیدرآباد آنے کا شوق نہیں ہے مجھے‘ میں حیدرآباد بہت مرتبہ جاچکاہوں۔انہوں نے کہاکہ میں وائس چانسلر کو پروگریسیو سینٹر فار اسٹیڈیز قالم کرنے کا مشورہ دیاتھا اور یہ میرا دستوری حق ہے کہ میںیونیورسٹی کی بہتری کے لئے مشورے دوں‘ اس عمل کرنا یا نہ کرنا انتظامیہ کاکام ہے۔ مسٹر بخت نے کہاکہ میں چاہتاہوں کہ وزیر موصوف دونوں کو آمنے سامنے بیٹھاکر بات کریں تو مسئلہ کو حل کردیں اور اگر ایسا نہیں ہوا تو میں پھر عدالت کا دروازہ کھٹ کھٹاؤ ں گا۔