پیڑوں کو بچانے کے لئے دہلی جیسا اتحاد سارے ملک میں ناگزیر۔پہاڑوں سے شہروں تک پھیلا چپکو پیغام

نئی دہلی۔پچھلے دنوں درالحکومت دہلی میں لوگوں نے چپکو تحریک کے طرز پر ایک عوامی تحریک شروع کرتے ہوئے ہزاروں درختوں کو کٹنے سے بچالیاہے۔

جنوبی دہلی میں ڈیولپمنٹ منصوبے کے تحت وہاں کے پیڑ کاٹنے کا فیصلہ لیاگیاتھا‘ مگر بڑح پیمانے پر مخالفت کے پیش نظر دہلی حکومت کو اپنا فیصلہ واپس لیناپڑا

۔اس طرح دہلی کے لوگوں نے سارے ملک کو یہ پیغام دیا ہے کہ اگر وہ متحد ہوجائیں تو فضاء ماحول کاتحفظ کیاجاسکتا ہے۔دہلی کے لوگوں کی تحریک نے چپکو تحریک کی یاد تازہ کردی ہے۔

تقریبا تیس چالیس سال قبل ٹہری گڈوال ضلع کے جنگل ( خاص کر ہول گھاٹی علاقے میں) میں یہ اندولن پیش آیاتھا۔ وہاں پر مشہور جہدکار سندر لال بھوگانہ‘ ویملا بھوگانہ کے بشمول دیگر جہدکاروں نے اس تحریک کو کامیاب بنانے کے لئے کڑی محنت کی تھی۔

ادونی کے جنگل میں پولیس کے پہنچنے پر بھی خواتین نے پیڑوں سے چپکے رہنے جاری رکھا۔ایک طرف بڑی کنٹراکٹر کے ساتھ پولیس فورس تھی تودوسری طرف ایسی عورتیں جو گاؤں سے باہر بہت ہی کم نکلی تھیں۔

لیکن ان خواتین کی جدوجہد ہی کامیاب ہوئی ‘ اور ہراج ہوئے جنگل اور دیگر پڑوسی جنگل کو کاٹنے کاکام روکنا پڑا۔چپکو تحریک کو لے کر دیہی لوگوں کو یقین اور مضبوط کے ساتھ تحریک چلانا ہوگا۔

حالانکہ یہ بھی حقیقت ہے کہ اپنے وقت کی حکومتوں نے تحریک اور اس کے مطالبات کو لے کر کافی سنجیدگی دیکھائی ہے۔ اس وقت محکمہ جنگلات کے کئے افسران چپکو تحریک پر تنقید کرتے تھے اور اس کا مذاق بھی آڑا تے تھے جبکہ کئی مقامی لیڈران گتہ داروں سے ملے ہوئے تھے ۔

لیکن مفاد سے اوپر اٹھ کر حکومت نے پیڑوں کوکاٹنے کا کام روکنے کا فیصلہ لیا۔ مرکز میں شریمتی اندرا گاندھی اور ریاست میں ہیما وتی نندن بہوگانہ اس تحریک میں کافی اہمیت کے حامل تھے۔

اس وقت اتراکھنڈ اترپردیش کاایک حصہ تھا۔ سرکاری سطح پر مطالبات کوقبول کئے جانے پر چپکو تحریک کا پیغام دو ر دور تک پھیلنے لگا۔ ہول گھاٹی میں چپکو اندولن کے دوسرے مرحلے کے متعلق بہت ہی کم لوگوں کومعلوم ہے۔

یہ کچھ سالوں بعد کی بات ہے ٹہری بند میں برقی کو دور دور تک پہنچانے کے لئے پاؤر لائن بچھانے کی بات تھی۔ اس وقت ہزار وں پیڑ کاٹنے کا حکم آگیا‘ جس میں پہلے مرحلے کی تحریک میں بچائے گئے بے شمار درخت بھی شامل تھے۔

چپکو تحریک کے کارکنوں کو انتظامیہ نے اس مرتبہ بہت صاف کہہ دیا کہ اب تو پیڑ ہر حالت میں کاٹے جائیں گے۔

مگر کارکنوں نے کہاکہ وہ آخر زمینی حالت کو سمجھیں۔ وہ آنکھیں بند کرکے پیڑ کاٹنے کا فیصلہ نہ کریں۔ عہدیدارو ں کو بلانے سے پہلے کارکنو ں نے بہت محنت کی ۔

انہو ں نے عہدیداروں کوزمینی حالت سے اس طرح واقف کروایاگیا ہے کہ کافی تعداد میں پیڑ بچالئے گئے۔ اس وقت وہا ں پر ایسے کارکن تھے جن کی آمدنی ناکافی تھے اس کے باوجود وہ جنگل و ہ دور دور کے گاؤں میں گھوم کر اندولن کی تیاری کرتے تھے۔

وہاں پر دن رات محنت کرتے تھے۔ گاؤ ں گاؤ ں جنگل جنگل گھوم پر اہم جانکاری اکٹھاکرتے ۔

جب بھی سرکاری او رعہدیداروں سے ان کی بات چیت ہوتی تب وہ اہم شواہد ان کے سامنے رکھتے تھے۔

یہی وجہہ تھی کہ جوعہدیدار چپکو اندولن کا مذاق آڑاتے تھے وہی کچھ وقت بعد ان کا احترام کرنے لگے تھے۔ جب سندرلال بہوگانہ او ران کے ساتھیوں نے چپکو پیغام کو پورے ہمالیہ میں پھیلنے کے لئے کشمیر ‘ کوہیما یاتراکی شروعات کی تو اسوقت مختلف حکومتوں سے انہیں اعزاز وتعاون ملا تھا۔

اس کے بعد تو چپکو تحریک جنوبی ہندوستان کے کرناٹک میں بھی پہنچ گئی اور وہاں اپیکو نام سے پھیل کر نے شمار پیڑ بچائے۔ آج ہمالیہ میں ہزاروں درخت بے رحمی کیساتھ کاٹے جارہے ہیں۔

گاندھیائی لیڈر سریش بھائی اور رادھا بھٹ کی قیادت میں تحقیقاتی ٹیم نے رپورٹ تیار کی ہے کہ ان میں سے بڑی تعداد میں پڑوں کوبچایاجاسکتا ہے‘ مگر حکومت ان کی باتوں پر توجہہ نہیں دے رہی ہے۔

گنگااور اس کے طرف کی ندیوں سے جڑے گاؤں اورعلاقوں میں بھی بڑی تعدادمیں درخت کاٹے جارہے ہیں جس کی وجہہ سے ان علاقوں میں قحط اور سیلاب جیسے صورتحال پیدا ہوتی جارہی ہے۔ جنگلات کاتحفظ ہر وقت اہمیت کاحامل تھا مگر گلوبال ورامنگ کے اس دور میں یہ او ربھی اہم ہوگیا ہے۔

کسی بھی درخت کوکاٹنے کی ضرورت پڑی تو اس سے پہلے کئی بار سونچناہوگا۔