محمد ریاض احمد
ہندوستان کی تاریخی جامع مسجد دہلی کے پیش امام سید احمد بخاری نے جو خود کے نام کے آگے شاہی امام ضرور لگاتے ہیں ہمارے وزیر اعظم نریندر مودی کو پشیمان کردیا ہے حالانکہ انہیں ایسا نہیں کرنا چاہئے تھا۔ شاہی امام سید احمد بخاری اپنے فرزند شعبان بخاری کو اپنا جانشین اور جامع مسجد دہلی کا نائب شاہی امام بنانے جارہے ہیں۔ انہوں نے 22 نومبر کو منعقد ہونے والی تقریب جانشینی میں دنیا کے علماء، سیاسی قائدین کو مدعو کیا ہے جن میں پاکستانی وزیر اعظم میاں محمد نواز شریف بھی شامل ہیں۔ مدعوئین میں صدر کانگریس سونیا گاندھی، نائب صدر کانگریس راہول گاندھی، مرکزی وزیر داخلہ راجناتھ سنگھ، مرکزی وزیر صحت ہرش وردھن، بی جے پی کے رکن راجیہ سبھاوجئے گوئل، شاہنواز حسین کے علاوہ سری لنکا تیونس اور مصر کے سربراہان مملکتوں کے ساتھ ساتھ ملک و بیرون ملک کے 1000 سے زائد مذہبی قائدین شامل ہیں۔ حیرت اور دلچسپی کی بات یہ ہے کہ سید احمد بخاری نے ہند اور بیرون ہند کی بے شمار شخصیتوں کو مدعو کیا ہے۔ پاکستانی وزیر اعظم نواز شریف کو دعوت دی ہے لیکن اپنے ملک ہندوستان کے وزیر اعظم نریندر مودی کو نظرانداز کردیا۔ اس سلسلہ میں سید احمد بخاری کا موقف ہیکہ نریندر مودی مسلمانوں کو اور مسلمان انہیں (مودی کو) پسند نہیں کرتے۔
گجرات میں مسلمانوں کے قتل عام کے لئے ملک کے مسلمانوں نے مودی کو معاف نہیں کیا ہے۔ ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ ان کے فرزند کی رسم جانشینی ان کا اپنا شخصی معاملہ اور شخصی تقریب ہے۔ اس تقریب میں کسی کو مدعو کیا جانا چاہئے اور کسی کو نہیں یہ ان کا اپنا اختیار ہے، لیکن حقیقت میں دیکھا جائے تو ایسا لگتا ہے کہ اپنے بیٹے کی جانشینی کو سید احمد بخاری نے جان بوجھ کر ایک تنازعہ میں تبدیل کردیا ہے جس کے باعث وہ نہ صرف ہندوستانی اور پاکستانی میڈیا میں موضوع بحث بنے ہوئے ہیں بلکہ عالمی میڈیا میں بھی اس بارے میں بہت کچھ لکھا جارہا ہے۔ جہاں تک نریندر مودی اور گجرات فسادات میں ان کے رول ان کی حکومت کے کردار اور ان کے اس وقت کے کابینی رفقاء کی کارستانیوں و حرکتوں کا سوال ہے اس بارے میں ساری دنیا اچھی طرح جانتی ہے خود آر ایس ایس اور اس کی ذیلی تنظیموں کو اچھی طرح اندازہ ہے کہ گجرات میں سال 2002ء کے دوران پیش آئے فسادات میں کس کا کیا رول رہا؟ کس نے ہندو اشرار کو مسلمانوں کے قتل عام ان کے املاک کی تباہی، مسلم خواتین و لڑکیوں کی عصمت ریزی کے لئے اکسایا؟
کس نے پولیس کو فسادیوں کے خلاف نرم رویہ احتیار کرنے کی ہدایت دی؟ کس نے کانگریس کے سابق رکن پارلیمنٹ احسان جعفری اور گلبرگ سوسائٹی میں مقیم مسلمانوں کو زندہ جلانے سے اشرار کو روکنے کی کوشش نہیں کی؟ اور کس نے ہندوستان کی تاریخ کے ان بدترین فسادات کے ذریعہ ملک کے دامن پر سیاہ داغ لگاتے ہوئے اپنے سیاسی مفادات کی تکمیل کی؟ جہاں تک نریندر مودی کا سوال ہے وہ صرف ہندوؤں کے وزیر اعظم نہیں بلکہ سارے ملک کے وزیر اعظم ہیں۔ اگر وہ خود کو صرف ہندوؤں کا وزیر اعظم سمجھتے ہیں تو یہ ان کی غلطی ہے جو ملک کے لئے کسی بھی صورت میں مفید نہیں ہوسکتی۔ اس لئے کہ غلطی یا غلطیاں ہمیشہ نقصان کا باعث ہی بنتی ہیں۔ اگر شاہی امام سید احمد بخاری نریندر مودی کو ہندوستان کا بدترین وزیر اعظم تصور کرتے ہیں، صدر کانگریس نے مودی کو موت کا سوداگر کا جو لقب دیا ہے یا پھر کانگریسی قائدین انسانی حقوق کے جہدکاروں اور مسلمانوں نے مودی کو ہندوستانی ہٹلر کا جو نام دیا ہے اس سے وہ پورا پورا اتفاق کرتے ہیں اور نریندر مودی ان کی نظر میں مسلمانوں کے کٹر دشمن، فرقہ پرستی کا زہر گھولنے ، ملک میں فرقہ پرستی کو فروغ دینے جیسی ذلیل و شرمناک حرکتوں کے مرتکب اور اپنی مسلم دشمن پالیسیوں کے ذریعہ جنت نشان ہندوستان کو فرقہ پرستی کے دلدل میں ڈھکیلنے والے بھی ہوں تب بھی شاہی امام کو چاہئے تھا کہ وہ اپنے بیٹے کی تقریب جانشینی میں مودی کو ضرور مدعو کرتے کیونکہ انہوں نے مودی کو مدعو نہ کرتے ہوئے جہاں ہمارے وزیراعظم کو ذلیل کیا ہے
وہیں ہم ہندوستانیوں کے جذبات کو بھی ٹھیس پہنچائی ہے۔ شاہی امام سید احمد بخاری کے اس اقدام سے ساری دنیا میں مودی اور ان کی حکومت کی شبیہہ مزید بگڑ گئی ہے کیونکہ ہندوستان دشمن میڈیا میاں محمد نواز شریف کو دعوت اور مودی سے عداوت کے پہلو کو اجاگر کرنے میں کوئی کسر باقی نہیں رکھے گا۔ ویسے بھی وزیر اعظم نریندر مودی کا عالمی سطح پر امیج کچھ اچھا نہیں ہے حالانکہ انہوں نے امریکہ اور دیگر ممالک کے دورہ میں خود کو بہتر انداز میں پیش کرنے کی کوشش کی۔ ان کوششوں میں انہیں کچھ کامیابی بھی ملی تاہم گجرات میں مسلمانوں کے قتل عام کا بھوت شاید آخری وقت تک بھی ان کا تعاقب کرتا رہے۔ مودی کی ان تمام خامیوں کے باوجود ہندوستان کا مسلمان یہی کہتا ہے کہ پڑوسی ملک کے وزیر اعظم کو مدعو کرنا اور اپنے ہی ملک کے وزیر اعظم کو نظرانداز کرنا کوئی اچھی بات نہیں۔ سید احمد بخاری کے اس اقدام سے برادران وطن کو اچھا پیام نہیں گیا اور ملک دشمن میڈیا کو جو ہمارے وطن عزیز جنت نشان میں فرقہ پرستی کا زہر گھولنے اور ماحول کو پراگندہ کرنے کے لئے موقع کی تلاش میں رہتا ہے۔ فرقہ وارانہ ماحول کو مکدر کرنے کا ایک نیا موضوع ہاتھ آگیا ہے۔ اس معاملہ میں ہندوستانی مسلمانوں نے بہت اچھا موقف اختیار کیا ہے۔ خود شاہی امام سید احمد بخاری پر ان کے بھائی یحییٰ بخاری نے شدید تنقید کی۔ یحییٰ کا کہنا ہے کہ ہندوستانی مسلمانوں کی جانب سے بری طرح نظرانداز کئے جانے کے بعد احمد بخاری میڈیا میں خبروں کے ذریعہ دوبارہ چھائے رہنا چاہتے ہیں۔
اسی وجہ سے انہوں نے وزیر اعظم نریندر مودی کو مدعو نہیں کیا۔ یحییٰ بخاری کے خیال میں احمد بخاری ہندوستانی مسلمانوں کے مسیحا بننے کی کوشش کررہے ہیں، لیکن انہیں یہ جان لینا چاہئے کہ وہ مسلمانوں کو بے وقوف نہیں بناسکتے جس کا ثبوت یہ ہے کہ عام انتخابات میں انہوں نے کانگریس کی تائید کی تھی، لیکن مسلمانوں نے کانگریس کی تائید سے متعلق ان کی اپیل کو نظرانداز کردیا۔ یحییٰ بخاری نے اپنے بھائی پر شدید تنقید کرتے ہوئے یہ بھی کہا کہ اگر وہ پاکستانی وزیر اعظم کو بہت پسند اور ہندوستانی وزیر اعظم کو سخت ناپسند کرتے ہیں تو انہیں پاکستان میں اپنے بیٹے کی تقریب جانشینی کا انعقاد عمل میں لانا چاہئے۔ دوسری جانب کل ہند مسلم پرسنل لا بورڈ کے رکن اور دہلی اقلیتی کمیشن کے سابق صدر نشین کمال فاروقی کا کہنا ہے کہ مودی کو تقریب جانشینی میں مدعو نہ کرنے احمد بخاری کا فیصلہ ٹھیک نہیں ہے۔ ان کے شخصی خیال میں یہ فیصلہ ناپسندیدہ نوعیت کا ہے۔ اپنی تقریب میں کسے مدعو کیا جائے اور کسے دعوت نہ دی جائے اگرچہ یہ احمد بخاری کا اختیار تمیزی ہے، لیکن یہ سب کچھ مسلمانوں کے نام پر کیا جارہا ہے۔ انہیں یہ جان لینا چاہئے کہ جب وہ دیگر سیاسی قائدین بالخصوص پاکستانی وزیر اعظم میاں محمد نواز شریف کو مدعو کررہے ہیں ایسے میں انہیں اپنے وزیر اعظم کو بھی مدعو کرنا چاہئے تھا یا پھر میاں نواز شریف کو ہی مدعو نہ کرتے تو بہتر ہوتا۔ احمد بخاری کے اس دعویٰ کو کہ دستار بندی ان کی اپنی شخصی تقریب ہے۔ بکواس قرار دیتے ہوئے کمال فاروقی نے پرزور انداز میں کہا کہ جن افراد کو مدعو کیا گیا ہے ان میں زیادہ تر سیاسی لوگ ہیں اور یہ محفل سیاسی وغیر اسلامی ہے کیونکہ دین اسلام میں مسجد کی امامت نسل در نسل منتقل نہیں ہوتی۔ کمال فاروقی نے یہ کہتے ہوئے کہ احمد بخاری مسلمانوں کے نمائندہ نہیں ہے یہ بھی کہا کہ دہلی جامع مسجد کے امام کو مسلمانوں کی جانب سے کچھ کہنے کا حق بھی حاصل نہیں۔ ایسے میں ان کا یہ کہنا کہ مودی کو انہوں نے اس لئے مدعو نہیں کیا کیونکہ مسلمان مودی سے ناخوش ہیں قابل اعتراض ہے۔ کمال فاروقی کے مطابق ایل او سی پر پہلے ہی سے کشیدگی کا ماحول پایا جاتا ہے ایسے میں کم از کم نواز شریف کو مدعو نہیں کیا جانا چاہئے تھا۔ حقوق نسواں کی ادیبہ شیبا اسلم فہمی نے تو ’’شاہی امام‘‘ کے لقب یا خطاب پر ہی اعتراض کردیا۔ ان کا کہنا تھا کہ ہندوستان میں شہنشاہیت نہیں بلکہ جمہوریت ہے ایسے میں کوئی شخص خود کو کیسے شاہی امام اور امام السلطان کہہ سکتا ہے۔ ہندوستان میں مغل بادشاہوں کی تعمیر کردہ ہزاروں مساجد ہیں جامع مسجد آگرہ بھی ان مساجد میں سے ایک ہے اور آگرہ تو مغلوں کا دارالحکومت رہا پھر کیوں صرف دہلی کی جامع مسجد کے امام خود کو شاہی امام کہتے ہیں؟ جامع مسجد یا مسجد جان جہانما کی تاریخ 17 ویں صدی سے تعلق رکھتی ہے۔ اس عالیشان مسجد کو دارالحکومت شاہجہاں آباد کے لئے مغل شہنشاہ شاہ جہاں نے تعمیر کرایا تھا۔
اُس موقع پر انہوں نے بخارا کے ممتاز عالم دین حضرت عبدالغفور شاہ کو مدعو کرتے ہوئے اس مسجد میں امامت کی ذمہ داری تفویض کی اور انہیں شاہی امام یا امام السلطان کا خطاب عطا کیا۔ اس طرح تب سے اب تک اس مسجد کی امامت نسل درنسل اس خاندان میں چلی آرہی ہے۔ دہلی کے ایک ماہر تعلیم اور نسٹر فاردی ڈیولپنگ سوسائٹیز کے اسسٹنٹ پروفیسر بلال احمد کا کہنا ہے کہ جامع مسجد کے انتظامات اور امور کی دیکھ بھال کرنے والے دہلی وقف بورڈ نے احمد بخاری کے والد کو جائز شاہی امام ماننے سے انکار کردیا تھا۔ وقف بورڈ نے احمد بخاری کے والد اور اس وقت کے امام مسجد کو شاہی امام نہیں بلکہ صرف امام مسجد قرار دینے پر مجبور کردیا تھا۔ بتایا جاتا ہے کہ 1975ء سے دہلی اور ہندوستانی سیاست میں عبداللہ بخاری اور ان کے فرزند کی اہمیت بڑھ گئی ۔ اس وقت عبداللہ بخاری کو وقف بورڈ کے صدنشین اور مرکزی وزیر شاہنواز حسین کو تھپڑ رسید کرنے کے الزام میں MISA کے تحت گرفتار کیا گیا تھا، لیکن احمد بخاری کی قیادت میں ان کے حامیوں نے یہ افواہ پھیلا دی کہ عبداللہ بخاری کو پولیس نے قتل کردیا ہے جس کے ساتھ ہی پولیس اور مسلمانوں میں جھڑپیں ہوئیں جن میں 7 لوگ مارے گئے تھے۔ اس واقعہ نے عبداللہ بخاری کو ہندوستان میں راتوں رات مسلمانوں کا قومی قائد بنا دیا۔ اس طرح کس کی تائید کی جائے اور کس کی مخالفت اس بارے میں جامع مسجد دہلی سے فتوے جاری کئے جانے لگے۔ اکثر اسکالرس کا کہنا ہے کہ سید احمد بخاری ایک عالم سے کہیں زیادہ شاطر سیاستداں ہے۔ انہوں نے ایک طرح سے جامع مسجد کو شخصی ملکیت میں تبدیل کرلیا ہے۔ دوسری طرف انڈین مسلم فورم فار مسلم انڈسٹریز علی گڑھ نے پارلیمنٹ میں قانون سازی کے دریعہ اس غیر قانونی امامت کے سلسلہ کو ختم کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔ اس فورم کے سکریٹری جاسم احمد کے خیال میں مودی کو مدعو نہ کرتے ہوئے احمد بخاری نے ہندوستانی مسلمانوں کی تضحیک کی ہے۔ حیرت کی بات یہ ہے کہ احمد بخاری نے اپنے بڑے فرزند کو جانشین مقرر نہیں کیا۔ بہرحال اب دیکھنا یہ ہے کہ وزیر اعظم نریندر مودی اور ان کے حامی اپنی تضحیک کا بدلہ سید احمد بخاری سے کس طرح لیتے ہیں۔ اس معاملہ میں یحیی بخاری اہم رول ادا کرسکتے ہیں۔
mriyaz2002@yahoo.com