پیسہ سے کیا کیا تم یہاں خریدوگے؟

سیول سرویسز میں مسلمانوں کی زیادہ سے زیادہ ضرورت اب سے پہلے کبھی نہ تھی

عرفان جابری
کوئی شک نہیں کہ ہم اسباب اور وسائل کی دنیا میں رہتے ہیں، اور ہم سب کے خالق نے ہمارے ساتھ چند حاجتیں ، ضرورتیں نیز مجبوریاں پیدائش سے ہی جوڑ دی ہیں۔ ہر انسان چاہے وہ اِس دنیا کو اُخروی فلاح کے لئے آزمائش کا مقام سمجھے، یا اسی دنیا کو ہمیشگی والی کامیابی باور کرلے، یہ سرگرمی تو مشترک ہے کہ وہ اپنی زندگی کو اچھی، بہتر، کامیاب بنانے کے لئے آخری سانس تک ممکنہ جتن کرتے رہتا؍ رہتی ہے۔فطری طور پر ہونا بھی یہی چاہئے، کیونکہ زندگی کے کسی بھی مرحلہ پر خود پر جمود طاری کرلیتے ہوئے بہتری کی سعی سے رُک جانا انسان کی فطرت میں ہی نہیں۔ قارئین کرام! میں یہ دعویٰ نہیں کررہا ہوں کہ دنیا میں آپ کو فطرت کے خلاف عمل کرنے والے نہیں ملیں گے۔ ضرور مل جائیں گے کسی غلط عمل کو ’’فطرت‘‘ کا درجہ دیتے ہوئے مسلمہ حیثیت سے یقینا کوئی بھی قبول نہیں کرے گا۔
اس پس منظر کے ساتھ ہم فی زمانہ اور بھارت میں مسلمانوں کے حالات کا جائزہ لیتے ہیں۔ جس طرح کوئی بھی انڈین کو مرد ہو کہ صنف ِ نازک ، اپنی زندگی کو بہتر سے بہتر بنانے کے لئے تگ و دَو میں مصروف دیکھتے ہیں، جو ابتدائی تعلیم و تربیت سے لے کر پیشہ ورانہ نیز عملی زندگی کا مرحلہ شروع ہونے تک کافی اہمیت رکھتی ہے، اُسی طرح آج کل مسلمانوں میں بھی جولانی دکھائی دے رہی ہے، جو بلاشبہ بڑی خوشی کی بات ہے۔ یعنی ہندوستانی شہریت کے حامل مسلمانوں کو شمار کریں تو آج اُن کے پاس بھی دیگر ابنائے وطن کی طرح تعلیم کے کسی بھی شعبے میں قابل افراد موجود ہیں، دیگر ہندوستانیوں کی طرح مال و دولت کے حامل مسلمانوں کی بھی معقول تعداد مل جائے گی۔

مگر افسوس کے ساتھ یہ کہنا پڑتا ہے کہ ہندوستان کے اُمور میں مسلمانوں کا رول مسلسل گھٹتا جارہا ہے، تقسیم ہند کے باوجود دنیا کی دوسری بڑی مسلم آبادی والے ملک میں اس طبقہ کی کوئی وقعت نہیں رہ گئی ہے۔سیاسی گلیاریوں کا جائزہ لیں، یا سرکاری نوکریوں پر نظر ڈالیں، ملک میں شمال سے جنوب اور مشرق سے مغرب تک صرف قابل مسلمانوں کے بل بوتے پر کوئی میگا بزنس یا تجارتی ادارہ یا کمپنی، فیکٹری وغیرہ بہت ہی کم ملیں گے، جس کے برخلاف دیگر ہندوستانی برادریوں کا زندگی کے لگ بھگ تمام شعبوں میں خاصا دخل ہے بلکہ اجارہ داری کہی جاسکتی ہے۔ بہ الفاظ دیگر یہ کہا جاسکتا ہے کہ جستجو، محنت، مشقت، تدبیر وغیرہ سبھی لوگ کرتے ہیں لیکن آزادیٔ ہند کے تقریباً 70 برسوں میں ملک کی تمام برادریوں کا سماجی، معاشرتی، سیاسی اور سرکاری موقف کے مقابل مسلم برادری کا درجہ یکسر مختلف اور کمزور ہوچلا ہے۔ اس کی کیا وجوہات ہوسکتی ہیں؟
جدوجہد آزادی میں مسلم طبقہ کسی بھی ہم وطن برادری سے پیچھے نہیں رہا۔ یہ اور بات ہے کہ ملک میں جو تاریخ پڑھائی جاتی ہے اس میں مسلمانوں کے رول کو محض مولانا ابوالکلام آزاد تک محدود کردیا گیا۔ اور پھر آزادی ہند کے ساتھ ہی متواتر حکومتوں نے مسلم برادری کے تئیں جو پالیسی اختیار کی، اس کے نتیجے میں مسلمانوں کو اپنے ہی ملک میں اجنبیت کا احساس ہونے لگا ہے۔ سکہ ہو یا معاملہ ، اگر ایک ہی رُخ دیکھ کر مطمئن ہوجائیں تو بڑا دھوکہ ہوگا یا معاملہ فہمی میں کامیابی نہیں ملے گی۔ سکہ کی حد تک تو ایک تازہ مثال بھی پیش کی جاسکتی ہے کہ ’نوٹ بندی‘ کے بعد جاری کی جانے والی 500 کی نئی کرنسی نوٹوں میں صرف ایک جانب چھپائی والی نوٹ ’اے ٹی ایم‘ سے برآمد ہوئی ہے۔ متعلقہ شہری تو فضول میں پریشان کردیا گیا۔ جہاں تک مسلم برادری کی بحیثیت مجموعی زبوں حالی کا معاملہ ہے، میرے خیال میں صرف سرکاروں کی بے اعتنائی کا رونا رونے سے حالات میں سدھار تو کبھی نہیں آئے گا۔ جیسا کہ خود خالق نے فرمایا ہے ، ’’بیشک اللہ کسی قوم کی حالت نہیں بدلے گا جب تک کہ وہ خود نہیں بدلتی۔‘‘ (قرآن۔ سورہ الرعد آیت 11)
میں سمجھتا ہوں ، سب سے پہلے مسلم برادری کو ذہن نشین کرلینا چاہئے کہ یہ ملک ہمارا بھی اُتنا ہی ہے جتنا دیگر برادریوں کے لئے ہے۔ ایک مدت تک حکومتوں کی بے پروائی نے مسلمانوں کو ملک سے متنفر کردیا اور وہ اپنا مستقبل دیارِ غیر میں ڈھونڈنے پر مجبور ہوگئے۔ 1977-78ء کی جنتا پارٹی حکمرانی کے دور میں وزیر خارجہ کی حیثیت سے اٹل بہاری واجپائی نے مسلمانوں کو خلیجی خطے میں روزگار کی راہیں دکھائیں۔ گزرتے برسوں کے ساتھ یہ ثابت ہوگیا کہ وہ مسلمانوں کے لئے حکومت ہند کی طرف سے کوئی عبوری انتظام نہیں ہوا، بلکہ وہ تو بھارت میں تمام سرکاری شعبوں سے مسلم تناسب کو بتدریج گھٹانے کی حکمت عملی ثابت ہوئی اور آج کے اعداد و شمار دیکھیں تو پتہ چلے گا کہ ملک میں کسی کسی جگہ تو نوکریوں میں مسلمانوں کا تناسب 2 فیصد تک گھٹ چکا ہے۔ خلیجی ممالک اور پھر دیگر ممالک میں روزگار نے بھلے ہی مسلمانوں کی مالی حالت میں سدھار لایا ، لیکن وہ اپنے وطن کے لئے اجنبی بن گئے۔ طرفہ تماشہ تو یہ کہ مسلمانوں کو وطن میں مستحقہ مقام سے محروم کردینے کے باوجود حکومتیں ان شہریوں سے حاصل ہونے والے زرمبادلہ سے خوب استفادہ کرتی رہی ہیں۔ یعنی ہم جہاں کی مستحقہ سہولتوں سے محروم کئے گئے، وہیں اپنے مال و دولت کو خرج کرنے پر مجبور ہیں۔
اس طرح ترک وطن کی بہتات کے لئے brain drain کی اصطلاح استعمال کی جاتی ہے۔ یعنی 40 سال سے جاری ترک وطن کے رجحان نے ہندوستانی مسلمانوں میں ہنرمند لوگوں کی قلت پیدا کردی ہے۔ سادہ الفاظ میں بیان کرنا چاہوں تو ملک میں ایک طرف گنے چنے مسلم افراد اپنی سرویس انجام دینے کے بعد سبکدوش ہورہے ہیں، تو دوسری طرف وہی مسلمانوں کی اچھی ذہنی صلاحیت والی جوان اولاد اپنا مستقبل صرف اور صرف بیرون ملک ڈھونڈنے میں سرگرم ہے۔ حتیٰ کہ گرائجویشن، پوسٹ گرائجویشن سے فارغ ہونے والے مسلم نوجوانوں کی خاصی تعداد ہندوستان میں عبوری طور پر سہی ملازمت یا بزنس کرنے کو عار سمجھتے ہیں۔ اور کسی بیرون ملک کے لئے پیپرز داخل کرکے انتظار کرتے رہنے کو ترجیح دیتے ہیں۔
اصل میں موجودہ ہندوستانی مسلمانوں کے حالات کے لئے صرف نوجوان نہیں بلکہ اُن کے والدین اور سرپرست بھی ذمہ دار ہیں۔ سب سے پہلے ملک میں برسرکار والدین کی ذہنیت بگڑی، انھوں نے محض ذاتی فائدہ کو دیکھا اور اپنی اولاد کو تربیت دی کہ ہماری سبکدوشی کے بعد ملک میں کوئی مواقع نہیں، لہٰذا تم بیرون ملک قدم جمانے کو ترجیح دو۔ اس کا نتیجہ یہ برآمد ہوا کہ ملک میں برسرکار مسلمانوں کے مقابل بلاشبہ وہ مال و دولت میں کچھ آگے ہوگئے۔ لیکن ایسا پیسہ کس کام کا، جو تم کو ملک میں مساوی درجہ کا شہری نہ بناسکے۔ ایک پرانے فلمی نغمہ یاد آرہا ہے :

پیسہ سے کیا کیا تم یہاں خریدوگے؟
دل خریدوگے یا کہ جاں خریدوگے؟
میری زندگی کا ایک واقعہ بھی بتاتا چلوں کہ جب 1988ء میں ابھی میری بارہویں جماعت کی تکمیل نہیں ہوئی تھی، چند ماہ میں نے ڈی آر ڈی ایل حیدرآباد میں ’کیژول ٹائپسٹ‘ کی حیثیت سے کام کیا تھا۔ ایک روز کام کی تھکن اتنی ہوئی کہ میں آفس سیکشن میں ایک بڑے رتبہ والے آفیسر کی آمد پر دھیان نہیں دے پایا۔ سیکشن میں سب ملازمین کھڑے ہوئے۔ آفیسر نے مجھے بدستور نشست پر بیٹھا دیکھ کر میرے بارے میں دریافت کیا۔ اور شاید مجھے ’کیژول‘ ہونے کی بناء صرف دفتری آداب کی بابت کچھ کہنے پر اکتفا کیا گیا۔ گھر میں، دفتر میں، بزنس میں ، سماج میںچھوٹے اور بڑے کا حد و ادب کرنا تو مسلمانوں کی بنیادی تعلیم کا حصہ ہے۔ اس لئے کچھ خاص شکایت نہیں کہ ایک بارتبہ شخص کی آمد پر مجھے کیوں توجہ دلائی گئی۔ لیکن اس واقعہ نے میرے ذہن کو جھنجھوڑ ڈالا اور یہ سمجھایا کہ زندگی میں رُتبہ، سماج میں درجہ کا حصول اور اگر اپنی اہمیت منوانا ہو تو اعلیٰ تعلیم کا اس میں ممکنہ طور پر بڑا رول ہوتا ہے۔ مجھے نیا حوصلہ ملا کہ بارہویں جماعت کی جلد تکمیل کے بعد آگے کی تعلیم ضرور حاصل کرنی ہوگی۔ اُن ہی دنوں میں نے انڈین سیول سرویس (IAS) بننے کی بھی ابتدائی سعی کی، حالانکہ وسائل اور سہولتوں کے معاملے میں میرا موقف بدحال تھا۔ صرف اسی کا لازمی نتیجہ تو نہیں کہوں گا مگر میں یو پی ایس سی مین کے لئے کوالیفائی نہیں ہوا۔ تب سے تین دہے گزر چکے ہیں۔ آج کے دَور میں صرف گرائجویشن یا پوسٹ گرائجویشن کی تکمیل کرلینے سے آپ کو سماج میں رُتبہ کی ضمانت نہیں مل جاتی اور آپ اپنی برادری کی مدد کرنے کے موقف میں نہیں ہوتے۔ انڈین سیول سرویسز کا شعبہ ایسا ہے جہاں میں سمجھتا ہوں ، پہلے سے کہیں زیادہ مسلمانوں کی ضرورت ہے تاکہ وہ اپنی برادری کی کماحقہ نمائندگی کرسکیں۔ یوں تو تمام سیاسی فیصلے جو اقتدار کے ایوانوں میں ہوتے ہیں، سارے شہریوں پر لاگو ہوتے ہیں۔ چنانچہ وہاں مسلم برادری کی سنجیدگی سے مناسب نمائندگی ناگزیر ہے۔ تاہم، سیاسی شعبہ دیگر برادریوں کے سیاستدانوں کی بھی بدعنوانیوں کی وجہ سے اس قدر آلودہ ہوچکا ہے کہ تعلیم یافتہ مسلم نوجوانوں کو سیاسی شعبے کی طرف ترغیب دینایا اُن کیلئے خود سے حوصلہ پانا ابھی دور اَست والا معاملہ ہے۔
مجھے محسوس ہوتا ہے کہ ماشاء اللہ! آج شاید ہی کوئی گھرانہ ایسا ہو ، جہاں کوئی گرائجویٹ نوجوان نہ ہو، جہاں کے بعض ارکان خاندان بیرون ملک مقیم نہ ہوں۔ یعنی وسائل کی کمی نہیں ہے، اب ضرورت والدین کو اور نوجوانوں کو یہ یاد دلانے کی ہے کہ انڈیا اُتنا ہی اُن کا وطن ہے جتنا غیرمسلموں کا ہے۔ اس ملک پر مسلم برادری کا بھی اُتنا ہی حق ہے جتنا دیگر ہندوستانی برادریوںکا۔
آئی اے ایس، آئی پی ایس، آئی ایف ایس، آئی آر ایس وغیرہ بننے کے تعلق سے مسلم نوجوانوں اور والدین کو سنجیدگی سے غوروفکر اور مثبت عمل کرنے کی اشد ضرورت آن پڑی ہے۔ سارے ملک میں کشمیری مسلمانوں سے زیادہ کوئی مسلم گوشہ مرکزی حکومت سے متنفر نہیں؛ مدرسہ یا مسجد سے ملحقہ کسی بھی ادارہ کو آج کل حکومتیں مشکوک نظروں سے دیکھتی ہیں۔ اس کے باوجود ہمیں آج یہی دو گوشوں سے بہت ہی حوصلہ بخش تبدیلی دیکھنے میں آئی ہے جسے بہت بڑی تبدیلی کی ابتداء سمجھتے ہوئے ہمیں آگے بڑھنے کی ضرورت ہے۔ گزشتہ سال کشمیری مسلم نوجوان اطہر عامر نے سیول سرویسز میں ملک بھر میں ٹاپ رینک (مردوں میں) حاصل کرنے کا کارہائے نمایاں انجام دیا۔ اور اُدھر چینائی کی مکہ مسجد سے متصل سیول سرویس کوچنگ کے ادارہ سے کامیاب تربیت پانے والا ایک مسلم نوجوان سیول سرویسز میں شامل ہورہا ہے۔
میرے خیال میں سیول سرویسز کا شعبہ ایسا ہے جس کے لئے انفرادی کوششوں سے کام بننے والا نہیں۔ میرا مطلب ہے، سب سے پہلے گھرانہ کو طے کرنا ہوگا کہ وہ اپنے بچوں میں سے کس کو ملک کے سب سے اعلیٰ سرکاری خدمت گزاروں میں ضرور شامل کرنا چاہیں گے۔ پھر اسکول والوں کو گہری نظر سے دیکھنا ہوگا کہ کون کون اسٹوڈنٹس میں وہ قابلیت ہے جو انھیں سیول سرویسز میں کامیاب کرا سکے۔ تعلیمی بنیاد اچھی ہوجائے تو کسی بھی فیکلٹی یا گروپ سے گرائجویشن تک کا سفر کچھ مشکل نہیں ہوتا۔
بعدازاں اہم مرحلہ آتا ہے جو سیول سرویس کوچنگ سے متعلق ہے۔ اس ضمن میں وہ تمام سماجی، فلاحی اداروں کو طبی مفاد میں سے غور کرنا چاہئے کہ آیا انھیں اپنی سرگرمیوں کو وسعت دیتے ہوئے اس اہم ملی کام کا بھی احاطہ کرنا چاہئے؟ ٹاملناڈو کا دارالحکومت شہر چینائی ملک کے ایسے تمام شہروں کے لئے مثال ہونا چاہئے جہاں قابل لحاظ مسلم آبادی رہتی ہے۔ الحمد للہ! حیدرآباد میں سیول سرویس کوچنگ کے لئے ادارے کام کررہے ہیں۔ دہلی میں بھی ایسے ادارے قائم ہیں۔ کرناٹک، مہاراشٹرا، اترپردیش، بہار، مغربی بنگال، مدھیہ پردیش، گجرات وغیرہ میں بھی ایسے کارگر اداروں کا فروغ ناگزیر ہے جہاں سے سیول سرویس کے لئے مسلم نوجوان منتخب ہوسکیں۔
irfanjabri.siasatdaily@yahoo.com