پیسہ بچانے کیلئے اکثر فاقہ کشی بھی کرناپڑتا تھا :۔ پاکستان کی کار میکانک لڑکی 

اسلام آباد : پاکستان کے ایک قد امت پسند شہر ملتان میں ایک کار ڈیلر شپ پر خراب کاروں کی مرمت کرنے والی خاتون ہر دیکھنے والوں کی توجہ کا مرکز بنتی جارہی ہے کیونکہ اس پاکستان جیسے ملک میں اس طرح کی بات واقعی حیران کن ہے ۔ اس ۲۴؍ سالہ خاتون کا نام عظمیٰ نواز ہے ۔ عظمی کہتی ہیں کہ جب مجھے لوگ گاڑیوں کومرمت کرتے ہوئے دیکھتے ہیں تو لوگ حیرانیت میں ڈوب جاتے ہیں او رمجھے عزت و احترام سے نواز تے ہیں ۔ملتان شہر کے قریب ایک قصبہ دنیا پور کی عظمیٰ نواز کو ایک کار میکانک بننے کیلئے بڑے مشکل اور صبر آزما دور سے گذرنا پڑا ۔ عظمی بتاتی ہیں کہ یہ ان کا شوق بھی ہے او رذرائع آمدنی ۔

انہوں نے میکانکل انجینئرنگ میں ڈگری حاصل کی او رایک ورکشاپ میں ملازمت شروع کی ۔ انہوں نے کہا کہ میرا خاندان نہایت غریبی میں گذرا ہے ۔میکانکل کی تعلیم حاصل کرنا ان کے لئے واقعی چیلنج تھا ۔ لیکن آج میں جب ورکشاپ میں کام کرتی ہوں تو میرے اہل خانہ کو حیرانی اور خوشی ہوتی ہے ۔ عظمیٰ اپنی زندگی کے بارے میں بتاتی ہیں کہ وہ پنجاب کے ایک چھوٹے او رپسماندہ قصبہ دنیا پور میں پیدا ہوئیں او ریہیں پلی بڑھی ۔انہوں نے اپنی ڈگری مکمل کرنے کیلئے زیادہ تر حکومت کی جانب سے اسکالر شپس سے فائدہ اٹھایا ۔ انہوں نے کہا کہ انہیں پیسہ بچانے کیلئے اکثر فاقہ کشی بھی کرناپڑتا تھا ۔ انہوں نے بتایا کہ ایک ایسے معاشرہ میں جہاں مرد کو برتری حاصل ہے ۔جہاں خواتین اپنے حقوق کیلئے طویل عرصہ سے جد وجہد کرتی ہیں ۔

او رخاص طور پر دیہی علاقوں میں جہاں لڑکیو ں کی جلد شادی کرنے کی حوصلہ افزائی کی جاتی ہے اور انہیں کہا جاتا ہے کہ وہ اپنی زندگی اپنے گھر کی خدمت کیلئے وقف کردیں ، ایسے ماحول میں ایک لڑکی میکانیکل انجینئرنگ کی ڈگری حاصل کر کے میکانک بننا ایک دیگر لوگوں کے لئے ایک اعلی مثال ہے ۔ انہوں نے کہا کہ ڈگری حاصل کرنے کے بعد انہوں نے ملتان ٹویاٹا کار کمپنی میں ملازمت اختیار کرلی ۔ انہوں نے مزید کہا کہ وہ اپنے کام سے مطمئن ہیں ۔ انہوں نے کہا کہ وہ کاروں کے ٹائر تبدیل کرنے سے لے کر انجن کا معائنہ کرنے اور انجن کی خرابی کو نشاندہی او راسے درست کرنے تک کے تمام کام وہ خود کرتی ہیں او رہر قسم کے اورزار و آلات استعمال کری ہیں ۔

عظمی کے ساتھ ورکشاپ میں کام کرنے والے دیگر عملہ عظمی کے کام سے بہت متاثر ہیں ۔ ان کے ایک ساتھ عطاء اللہ کہتے ہیں کہ ہم انہیں جو بھی کام دیتے ہیں وہ ایک مرد میکانک کی طرح بڑی محنت اور جانفشانی سے کرتی ہیں ۔عظمی کے والدنواز کہتے ہیں کہ ہمارے معاشرہ میں لڑکیوں کو ورکشاپس میں کام نہیں کروایا جاتا ہے ۔ لیکن یہ عظمی کی خواہش تھی ۔