ڈاکٹر سید بشیراحمد
بزرگانِ دین میں حضرت غوثی شاہؔ صاحب کو نمایاں مقام حاصل ہے ۔ وہ یکم جولائی 1893 ء کو شہر حیدرآباد کے محلہ بیگم بازار میں پیدا ہوئے۔ ان کو عربی ، فارسی اور اردو میں مہارت حاصل تھی۔ مولانا حمید اللہ و مولانا انعام اللہ جیسے جید علماء سے ان کو کسب فیض حاصل تھا۔ وہ صاحبِ طرز ادیب ، شاعر اور خطیب تھے ۔ ابنِ عربی اور مثنوی رومیؒ کی شرح پر عالمانہ عبور تھا ۔ مثنوی پڑھنے کا انداز والہانہ ، دل آویز اور وجد آفرین ہوتا تھا ۔ شاعری کا ذوق بچپن سے رہا ۔ عہدِ جوانی میں داغ دہلوی مرحوم کی ادبی محفلوں میں شرکت کرتے تھے ۔ ان کا شعری مجموعہ ’’طیباتِ غوثی‘‘ 1938 ء میں زیورِ طباعت سے آراستہ ہوا ۔ ان کے شعری مجموعہ کی بالترتیب 1951 ء ، 1954 ء ، 1959 ء ، 1979 ء 1984 ء ، 1996 ء اور 2002 ء میں اشاعت عمل میں آئی ۔ وقفہ وقفہ سے ان کے شعری مجموعی کی اشاعت سے مقبولیت کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے ۔ انہوں نے حمد ، نعت ، غزل، سلام اور منقبت جیسی اصناف شعری پر طبع آزمائی کی ہے ۔ حضرت کا 6 جون 1954 ء کو وصال ہوا ان کی تدفین مسجد کریم اللہ شاہ واقع بیگم بازار میں عمل آئی ۔
ہندوستان کے ہفتہ وار صدقِ جدید لکھنو نے حضرت کے مجموعہ کلام پر اپنی رائے کا یوں اظہار کیا ہے ’’یہ ایک صاحبِ علم صوفی کے کلام کا مجموعہ ہے جس کا بیشتر حصہ نعتیہ ہے اور غزلیں بھی توحید و معرفت کے رنگ میں ڈوبی ہوئی ہیں، وجد کے عالم میں کلام کا حدود کے اندر رہنا ذرا مشکل ہی ہوتا ہے۔ افسوس کہ بعض مشاہیر و اکابر بد احتیاطی کی بدترین مثال قائم کرگئے لیکن حضرت غوثی شاہ صاحب کا قلم حدودِ شریعت کے اندر ہی رہا ہے‘‘۔ حضرت نے حضرتِ حق اور مخلوق کے اعتبار اور ان کی وضاحت کرتے ہوئے فرمایا ہے ؎
تو خود کو دیکھ بھی آخر تو ہے کون کس کا ہے
خودی کیا چیز ہے کس کی ہے خود کیا ہے خدا کیا ہے
اگر خدا کو تو سمجھے گا تو پائے گا خدا کو بھی
خدا ہے آئینہ تیرا تو آئینہ خدا کا ہے
نہیں ہوکر بھی غوثی ان کی نظروں کا تماشا ہوں
نظر بندی ہے کیسی اور یہ کیسا تماشا ہے
حضرت نے آہستہ آہستہ کی ردیف میں بھی دلکش انداز میں غزل لکھی ہے ۔ شانِ تغزل ملاحظہ فرمائیے ؎
اُٹھے گی اُٹھتے اُٹھتے وہ نقاب آہستہ آہستہ
نکل آئیں گے بے پردہ جناب آہستہ آہستہ
غضب ہو ، قہر ہو ، آفت ہو ، دشتِ کربلا ہوجائے
جو مقتل میں وہ آئے بے نقاب آہستہ آہستہ
لپٹ جاؤں، چمٹ جاؤںگا ، قدموں سے تیرے قاتل
نکل جائے گی بے تابی میں تاب آہستہ آہستہ
لگی ہے آگ دونوں میں دُھویں اُٹھتے ہیں اب غوثیؔ
جگر دل دو کے دو ہوں گے کباب آہستہ آہستہ
رسالت مآبؐ کی شانِ اقدس میں وہ عقیدت کے پھول نچھاور کرتے ہوئے کہتے ہیں ؎
محمدؐ کی ثنا خوانی میں یہ ساری خدائی ہے
خدا رکھے خدائی فی الحقیقت مصطفائی ہے
حیدر کرار حضرت علیؓ کی شانِ اقدس میں اپنی عقیدت کا انہوں نے یوں اظہار کیا ہے ؎
مری کیوں مشکلیں ہر طرح کی آسان نہ ہوں غوثیؔ
لیا کرتا ہوں نام حیدر کرارؓ پہلے سے
شہید کربلا حضرت امام عالی مقام حضرت حسین کی شانِ اقدس میں اپنی عقیدت کا یوں اظہار کیا ہے ؎
یا الٰہی یہ دعا تجھ سے ہے روزِ محشر
لب پہ ہو نامِ نبیؐ ہاتھ میں دامانِ حُسین
حضرت غوثی شاہ کے کلام میں سلاست اور روانی اہم عناصر ہیں ۔ انہوں نے خوبصورت تشبیہات اور تلمیحات سے اپنے کلام کو زینت بخشی ہے ۔ وہ کہتے ہیں کہ حب نبیؐ میں ان کی اشک فشانی سے اُنکا اعمال نامہ دھلنے کا موجب ہوا ۔ اس طرح ان کے اشکوں نے پانی کا کام کیا ؎
نبیؐ کے حُب میں رونے سے عمل نامہ دُھلے غوثیؔ
بحمداللہ کیا اشکوں نے میرے کام پانی کا
حضرت غوثی شاہؔ کہتے ہیں کہ اگر روزِ محشر حضورؐ نامدار اُن سے پوچھیں کہ انہوں نے اُنکا ہمسر دیکھا ہے تو سب سے پہلے غوثی شاہ کہیں گے کہ حضور کا ہمسر حضورؐ ہی کو دیکھا ؎
اگر قیامت میں وہ پوچھیں کہ میرا ہمسر کس نے دیکھا
تو سب سے پہلے یہ بول اُٹھونگا تمہیں کو دیکھا تمہیں کو دیکھا
حضرت غوثی شاہ نے معرفت کے رموز کو ا پنے کلام میں آشکار کیا ہے ۔ ہر شئے میں وہ اپنے یار کا جلوہ دیکھتے ہیں اور کہتے ہیں ظاہر وہی ہے ، باطن وہی ہے ، اول وہی ہے اور آخر وہی ؎
وہی ساقی اور میکش وہی ساغر اور مینا
وہی میکدہ، صراحی، وہی جام اور صبو ہے
جسے دیکھنا ہو اُس کو ، کہو مجھ کو دیکھے غوثیؔ
کہ میں اُس کے ہوبہو ہوں وہ میرا ہوبہو ہے
خودی میں کوئی خود سے چھپ گیا ہے
خودی نکلے تو پھر کیا ہے خدا ہے
کسی کا پتہ دریافت کرنا ہو تو اُسی سے ربط پیدا کیا جاتا ہے جو واقف کار ہو ۔ چنانچہ کسی نئے شہر میں ہم چلے جائیں اور کسی مقام کا پتہ دریافت کریں تو واقف کار نہ صرف مکان اور مکین کی تفصیلات سے ہم کو واقف کروادے گا بلکہ خود ساتھ لے جاکر نشاندہی کرنے پر بھی وہ قادر رہے گا۔ چنانچہ حضرت غوثی شاہؔ کہتے ہیں ؎
ملا دے گا وہ پھر تم کو بھی دم میں
ملو تم اُس سے جو اُس سے ملا ہے
حضرت علی کی خدمتِ اقدس میں عقیدت کے پھول نچاور کرتے ہیں اور کہتے ہیں ولایت کے حصول کا وسیلہ حضرت علی ہیں ؎
ولی آج بنتا ہے ان کی نظر سے
وہ نورِ محمدؐ کا جلوہ علیؓ ہیں
راہِ عشق میں سخت آزمائشوں اور مصیبتوں سے گزرنا پڑتا ہے۔ جس کے مرتبے جتنے بلند ہوتے ہیں اُس کیلئے آزمائشیں بھی اتنی ہوتی کٹھن ہیں۔ حضرت ایوبؓ ، حضرت ابراہیمؓ ، حضرت اسمعیلؓ اور حضرت عیسیؓ کو کئی کٹھن آزمائشوں سے گزرنا پڑا۔ تاریخ کے صفحات اُس کا ثبوت پیش کرتے ہیں ۔ لیکن حضرت حسینؓ کی قربانیاں اور اُن کا پائے استقلال تاریخ کا عظیم واقعہ ہے ۔ بیشتر قلم کاروں نے اس سانحہ کے تعلق سے اپنے احساسات کو صفحہ قرطاس پر پیش کیا ہے ۔ حضرت غوثی شاہ نے صنفِ رباعی میں بھی طبع آزمائی کی ہے اور محولہ بالا مضمون کو یوں باندھا ہے ؎
جب پردۂ غیب سے ندا یہ پہنچی
سرباز ہے میدانِ رضا کا کوئی
یوں بڑھ کے کہا شاہِ شہیداں نے وہی
اس کام کو حاضر ہے حسینؓ ابنِ علیؓ
ایک روایت ہے کہ ایک بزرگ منبر پر بیٹھ کر وعظ فرما رہے تھے ۔ خلافِ عادت وہ تین بار دورانِ وعظ ایستادہ ہوئے ۔ لوگوں نے حضرت سے دریافت کیا کہ خلافِ معمول وہ دوران وعظ کیوں ایستادہ ہوئے تھے تو انہوں نے جواب دیا کہ اُن کے پیر کے گھر کی گلی کے قریب رہنے والے ایک کتے کا ہم رنگ کتا گزر رہا تھا اُسکے احترام میں وہ کھڑے ہوگئے ۔ افسوس صد افسوس کہ حضور نامدارؐ کے ہم شبیہ حضرت علی اکبر فرزندِ حضرت حسینؓ کو اشقیاء نے میدانِ کار زار میں دیکھا تو ان کے ہاتھ کچھ وقت کیلئے رُک ضرور گئے لیکن بالآخر انہوں نے حضرت علی اکبر کو شہید کر ڈالا۔
بھاگے سارے اشقیاء یہ کہہ کے اب آئے نبیؐ
اک نہ ٹھہرا ہم شبیہہ مصطفیٰ کے سامنے
حضرت غوثی شاہؔ نے نہایت ہی دلکش اور حسین پیرایہ میں حضرت حسینؓ کی تسلیم و رضا اور میدان کارزار میں جانے کا نقشہ کھینچا ہے ؎
ساتھ ہے تسلیم کی دلہن ، جلوسِ صبر و شکر
دیکھنا جاتا ہے کیا دولہا خدا کے سامنے
راہِ عشق میں تڑپنا عاشق کا مقدر ہوتا ہے ۔ عشق کی راہ میں مقتل ہی منزل ہوتی ہے اور مزے کی بات یہ ہوتی ہے کہ مقتول قاتل سے ناراض نہیں بلکہ دعاگو ہوتاہے ۔ جناب اسمعیل ذبیح صاحب حضرت غوثی شاہؒ کے بعد کے شاعر ہیں۔ وہ کہتے ہیں ؎
عشق کی راہ میں مقتل ہی تو منزل ہے ذبیحؔ
ہم تو قاتل کیلئے دل سے دعا کرتے ہیں
حضرت غوثی شاہؔ کہتے ہیں ؎
قتل کرتے کرتے مجھ کو ، ہاتھ سے رکھ دی چھری
ہائے کیا بے درد ظالم نیمِ بسمل کر چلا
انگلیوں سے لوگ بتلانے لگے
اب مرا گھر گھر فسانہ ہوگیا
حضرت کاملؔ نظر کے ملنے اور نظر کے ملتے ہی قلب کی کیفیت کے بدل جانے کے تعلق سے کہتے ہیں ؎
ہماری دنیا بدل کے رکھ دی نظر کا ملنا ہوا بہانہ
اُدھر نگاہیں ملیں کسی سے ادھر یہ دل ہوگیا نشانہ
اسی مضمون کو حضرت غوثی شاہؔ نے یوں باندھا ہے ؎
آنکھ لڑنے کا بہانہ ہوگیا
لے کے دل کوئی روانہ ہوگیا
حضرت غوثی شاہؔ کہتے ہیں کہ ان کی کوئی آرزو اور نہ کوئی مدعا ہے سوائے یار کے ۔ تسلیم و رضا کی شاید یہ آخری منزل کہلائی جاسکتی ہے ؎
جُز دلربا کے کوئی تمنا نہ ہو مجھے
یا رب کوئی مراد نہ ہو مدعا نہ ہو
حضرت رابعہ بصری ایک بار جلال کی کیفیت میں ایک برتن میں آگ اورایک میں پانی لئے ہوئے تھیں۔ لوگوں نے ماجرا پوچھا انہوں نے جواب دیا کہ لوگ جنت کے حصول کیلئے نیک اعمال کرتے ہیں اور دوزخ کے خوف سے گناہ کے ارتکاب سے ڈرتے ہیں۔ ان لوگوں کو خدا وند کریم کی رضا کا احساس نہیں ہے ۔ اس لئے وہ چاہتی ہیں کہ جنت کو آگ لگادیں اور دوزخ کو پانی سے بجھادیں۔ حضرت رابعہ کا مقصد یہ تھا کہ آدمی پیکر تسلیم و ر ضا بنے ۔ جنت کی خواہش یا دوزخ کے خوف سے زیادہ یار کے منشاء کی اہمیت کو پیش نظر رکھنا چاہئے ۔ اسی مضمون کو حضرت نے اپنے شعر میں یوں باندھا ہے ؎
کرم سمجھوں گا دوزخ یا کہ جنت جو ملے غوثی
جو کچھ تجویز کی میرے لئے اس نے سمجھ کر کی
حضرت درد کی لذت سے واقف ہیں وہ کہتے ہیں کہ انہیں جاہ وحشم یا اور کوئی دنیاوی دولت کی آرزو نہیں۔ سوائے دل کی تڑپ اور جگر کے درد کے ؎
آزارِ جان کو دل کو تڑپ دے ، جگر کو درد
مولا نہ جاہ دے ، نہ حشم دے نہ مال دے
حضرت غوثی شاہؔ ، امامِ عالی مقام کی شہادت پر کہتے ہیں ؎
جو ہوتے غوثی ہم اس وقت شہہ پر جان دیتے
ہم اپنے جب کے نہ ہونے کا داغ کھاتے ہیں
انہوں نے اپنے کلام میں دو لفظی اور سہ لفظی عربی تراکیب کو بھی خوبصورتی کے ساتھ استعمال کیا ہے ۔ ذیل میں درج شعر ملاحظہ ہو ؎
ہمیں ساجد ، ہمیں مسجود ، ہم مشہود ہم شاہد
ہماری ہی ضمیریں ہیں ھُو ، انت انا کیا ہے