پیرس میں عالمی ماحولیاتی کانفرنس کا آغاز

پیرس۔ 30 نومبر (سیاست ڈاٹ کام) ماحولیاتی تبدیلیوں سے نمٹنے کے لیے ایک نئی عالمی حکمتِ عملی پر اتفاقِ رائے کے لیے عالمی کانفرنس پیر سے فرانس کے دارالحکومت پیرس میں شروع ہوگئی ہے۔ اقوام متحدہ کی جانب سے منعقد کی جانے والی اس کانفرنس کو COP21 کا نام دیا گیا ہے اور اس میں 195 ممالک کے مذاکرات کار کاربن کے اخراج کو کم کرنے کے لیے کسی متفقہ معاہدے پر پہنچنے کی کوشش کریں گے۔ 11 دسمبر تک جاری رہنے والی کانفرنس میں تقریباً 40 ہزار افراد شرکت کریں گے جبکہ پیر کو 147 ممالک کے سربراہان اور سیاسی رہنما اس کانفرنس سے خطاب کر رہے ہیں۔ امید ظاہر کی جا رہی ہے اس اجلاس کے دوران کسی معاہدے پر پہنچا جا سکے گا تاہم غریب اور پسماندہ ممالک نے اس خدشے کا اظہار کیا ہے کہ ماحولیاتی تبدیلی پر جلد از جلد نئے معاہدے کے معاملے میں انھیں نظر انداز کیا جا رہا ہے۔ پیرس میں جاریہ ماہ دہشت گردی کی کارروائیوں کے بعد اس عالمی کانفرنس کے موقع پر سکیورٹی ہائی الرٹ ہے اور پولیس نے اس مقام کی جانب جانے والی تمام سڑکیں عام آمدورفت کے لیے بند کر دی ہیں جہاں یہ اجلاس منعقد ہو رہا ہے۔ کانفرنس کی صدارت کرنے والے فرانسیسی وزیرِ خارجہ لورین فیبیوس نے اتوار کو ایک پریس کانفرنس میں کہا کہ ’یہ اجلاس وہ موڑ ہے جس کی دنیا کو ضرورت ہے۔‘ اس اجلاس کے دوران فرانس اور ہندوستان ایک عالمی اتحاد کی تشکیل کا اعلان بھی کرنے والے جو استوائی خطوں کے 100 ممالک کو شمسی توانائی سے بجلی کی فراہمی کے منصوبوں کے لیے پلیٹ فارم فراہم کرے گا۔ اس کے علاوہ دوبارہ قابلِ استعمال توانائی کے منصوبوں کے لیے مالی مدد کے اعلانات بھی متوقع ہیں۔ اس اجلاس کے دوران زیادہ تک گفتگو کا محور عالمی درجہ حرارت میں اضافے کو دو سینٹی گریڈ تک محدود کرنا ہوگا۔ دنیا کے 180 ممالک نے ماحولیاتی تبدیلیوں پر جو اپنے قومی منصوبے پیش کیے ہیں ان کے مطابق یہ اضافہ تقریباً تین سنٹی گریڈ تک ہو سکتا ہے۔ تاہم دنیا کے 48 کم ترقی یافتہ ممالک کے گروپ ایل ڈی سی کے ارکان اس اجلاس کے دوران کہیں گے کہ ڈیڑھ سنٹی گریڈ سے زیادہ اضافہ تباہ کن ثابت ہو سکتا ہے۔ کانفرنس میں افریقی ملک انگولا کی نمائندگی کرنے والے گزا مارٹنز نے کہا ہے کہ ’ اگر بات چیت کا مقصد دو سنٹی گریڈ ہی رہا تو کم ترقی یافتہ ممالک کی اقتصادی ترقی، علاقائی غذائی تحفظ، ایکو سسٹم حتیٰ کہ ان کی آبادی کی بقا اور ان کی زندگی کو خطرہ لاحق ہو جائے گا۔‘ ان کا کہنا تھا کہ ’ہم اپنے اس مطالبہ کو دہرا رہے ہیں کہ ایک ایسے پرعزم اور لازم العمل معاہدہ کی ضرورت ہے جس میں ہم میں سے سب سے کمزور ممالک کو پیچھے نہ چھوڑ دیا جائے۔‘ امید کی جا رہی ہے کہ جاریہ ہفتے کے اختتام تک کانفرنس کے مندوبین معاہدے کا مسودہ تیار کر لیں گے جس پر پھر دنیا بھر کے وزرائے ماحولیات غور کریں گے۔