خواجہ رحیم الدین،نیویارک
بیٹی قدرت کا حسین تحفہ ہے۔ بیٹی ماں کی آنکھوں کا تارا ہوتی ہے۔ ہونہار بیٹی چھوٹے چھوٹے ہاتھوں سے ماں باپ کی قدمت کرتی ہے۔ پیاری بیٹی کو دیکھ دیکھ کر ماں جیتی ہے۔ بیٹی کا رشتہ بہت نازک اور محبت بھرا ہے۔ ماں باپ بیمار ہوجاتے ہیں تب بیٹی ہی گھر میں تیمارداری کرتی ہے۔ بیٹی ہی ہوتی ہے جو رات کو ماں کی ٹانگیں اور سردباتی ہے۔ ہونہار بیٹی کو ہر حال میں اپنا دامن بچاکر رکھنا ضروری ہوتا ہے۔ ماں اور بیٹی کی محبت نہ رہتی تو دونوں کبھی کے مرگئے ہوتے۔ ماں باپ اور خود کی ذرا سی غفلت بیٹی کے لیے اندھیرا لادیتی ہے۔ بلاشبہ شہوت ایک فطری جذبہ ہے آج یہی جذبہ شیطان کا سب سے بڑا ہتھیار ہے۔ آج کل کم عمر بچیوں کے بارے میں سنتے اور پڑھتے ہیں تو رونگھٹے کھڑے ہوجاتے ہیں جہاں تک ہوسکے پیاری بیٹی کو ماں اپنے ساتھ ہی سلالیں اور قدم قدم پر خاص خیال رکھیں یہ کام ماں اور باپ دونوں کا ہے۔ آج کل تقریباً ہر شخص آنکھوں کے زنا میں مبتلا ہے لیکن یہ پاک پیاری بیٹی دنیا کے لیے ایک نمونا ہے اور نمونہ بن کر رہتی ہے۔ ماں بیٹی کو نازوں سے پالتی ہے، بیٹی ہر صاحب اولاد کی عزت ہے کہتے ہیں جس نے محبت سے ماں باپ کو دیکھا حج جیسا ثواب ملے گا۔ بیٹی کے لفظ میں جتنی مٹھاس ہے کسی دوسرے لفظ میں نہیں ہے۔ کچھ مغربی خاندانوں میں کہیں ماں اور کہیں باپ کی شفقت سے محروم ہیں۔ یہاں ایک واقع بیان ہے ایک ٹیچر اپنی کلاس کے بچیوں سے کہتی ہے جو جنت کی مٹی لائے گی میں اس کو انعام دوں گی دوسرے دن کلاس کی تمام لڑکیاں خاموش بیٹھے رہے ایک لڑکی اٹھ کر ادب سے کہنے لگی میں جنت کی مٹی لائی ہوں یہ ہے میر ماں کے تلے کی مٹی، ٹیچر اس لڑکی کو گلے لگالی اور دونوں کے آنکھ نم ہوگئے۔ اللہ اکبر بیٹی کہتی ہے اگر میری ماں زندہ رہتی تو میں دن رات ان کے پہلو میں سوئی رہتی۔ میری ماں کا آغوش آج بھی یاد آتا ہے، ہر بیٹی کو اپنی ماں کو دیکھ کر خوشی ملتی ہے۔ یہ بات طے ہے کہ ہر ماں کو اپنی اولاد کو دیکھ کر ایسی خوشی ملتی ہے جس کے بارے میں کہا گیا ہے کہ یہ ایک ہلکی سی جھلک ہے اس خوشی کی جو جنت کی جھلک کو دیکھ کر ایک انسان کو حاصل ہوتی ہے۔ یہ پیاری نیک بیٹی کہتی ہے دنیا کی ہر عالیشان چیز مل جائے پر میں عالیشان نعمت کو ٹھکراکر ماں کی مقدس آغوش میں پناہ لینا پسند کروں گی۔ یہ ہے بیٹی کی شان۔ بیٹی کا دل نہ توڑو وہ اپنے آنسو پی کر بھی ماں کے قدموں میں رہنا چاہتی ہے۔ بیٹی ہمیشہ اپنی پریشانیاں ماں کے سامنے بیان کرتی ہے اور اس کی خواہش کو صحیح انداز میں سمجھ کر پر کریں اپنے آپ کو الگ نہ سمجھیں۔ اکثر لوگ انا اور ’’میں میں‘‘ میں بیٹیوں سے دوری کرلینا چاہتے ہیں جو بہت بڑا گنا ہے۔ آج کل کے معاشرے میں سب سے مشکل مرحلہ شادی کا ہے۔ کسی کی بیٹی کے خلاف سنے اور کہنے سے پہلے اپنے آپ کو سنبھال لیں۔ کسی کا گھر اجاڑنے کا کام نہ کریں یہ گناہ کبیرا ہے ایسے افراد کی بخشش ممکن نہیں چاہے وہ دن اور رات عبادت کرلے۔ جب بیٹی کسی تکلیف میں ہوتی ہے تو سب سے پہلے جس رشتہ کو یاد کرتی ہے وہ خدا کے بعد ماں کے رشتہ کو بیٹیوں کو مفلسی کے ڈر سے نہ مارو کیوں کہ ہم سب کا رازق وہ رب ہے۔ جب بیٹی کو تکلیف پہنچتی ہے انسان تو کیا پتھر بھی خون کے ا ٓنسو روئے۔ ایک بار حضرتہ عائشہ صدیقہؓ کے پاس ایک عورت دو بیٹیوں کو لے کر آئی آپ نے تین کھجور دیئے بیٹیاں اپنا اپنا کھانے کے بعد ماں کا کھجور مانگے ماں اس کھجور کے دو ٹکڑے کردیئے اور دونوں کو دیئے۔ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں وہ ماں جنت کی حقدار ہوگی۔ اللہ اکبر ۔ بیٹیوں کو وراثت میں حصہ دار بنانا چاہیے۔
اللہ نے بیٹیوں کو یہ حق دیا ہے کہ اگر اس کو ’’وہ‘‘ پسند نہ ہو تو رد کرسکتی ہے۔ بیٹی کی سیرت کو دیکھنا چاہیے۔ گوری رنگت اتراتی ضرور ہے، کہا جاتا ہے سانولی رنگگت میں کشش زیادہ ہوتی ہے بنستا گوری رنگ سے۔ لیکن گوری رنگت ہی چاہیے آج۔کہتے ہیں جس نے چار بہنوں یا دو بہنوں کی کفالت کی ذمہ داری سنبھالی اس کی اچھی تربیت دی اچھا سلوک کیا اور نکاح بھی کردیا وہ جنت کا حق دار کہلائے گا۔ ہماری بیٹیوں کے لیے خوشی اور راحت کے راستے تلاش کریں تو ہماری بیٹیاں خوش اور مسرور زندگی گزاریں گے۔
اکبر الہ آبادی کہتے ہیں
سدھاریں شیخ کعبہ کو ہم انگلستان دیکھیں گے
وہ دیکھیں گھر خدا کا ہم خدا کی شان دیکھیں گے
اکبر الہ آبادی اور کہتے ہیں۔ نہ کتابوں سے نہ کالج کے ہے در سے پیدا ۔ دین ہوتا ہے بزرگوں کی نظر سے پیدا۔ تو بیٹیوں کو چاہئے کہ ماں باپ کی بتائی ہوئی حق کی راہ پر چلیں بس بزرگوں کی ایک نظر بیٹیوں کے لیے کافی ہے۔ بزرگ بھی اپنے آپ کو نمونہ بن کر پیش ہوجائیں۔
ہم سرسدید صاحب کے کہنے کو جان لیں اور اپنے اولاد کو بتلادیں وہ کہتے تھے ہندوستان ایک دلہن ہے اور ہندو، مسلمان ان کی دو آنکھیں ہیں اس طرح ہر لڑکی تعلیم سے آراستہ ہو۔ بیٹی کو ماں کی دعائیں چاہیے۔ قدرت نے یہ رشتہ ایسا بنایا ہے کہ کبھی دوری نہیں ہوسکی۔ ماں باپ کی رضامندی کو بیٹی اپنا فرض سمجھتی ہے۔ اسی طرح ماں باپ کا فرض ہوتا ہے کہ وقت کو غنیمت جان کر وقت پر پیاری بیٹی کا نکاح کردیں ورنہ وہ سلگتے آگ کو اپنے سینے میں چھپائے زندگی یوں ہی گزاردے گی۔ شادی کے بعد بھی ماں باپ بیٹیوں سے چھٹکارہ پا نہیں سکتے۔ میں نے ایک پرانے گھر کا پرانا قصہ یوں سنا کہ گھر میں پانچ جوان بیٹیاں اپنے بھائیوں اور ماں باپ کے ساتھ رہتی ہیں والد محترم صاحب صبح اٹھتے اور پھر آرام کرلیتے ماں اور بھائیوں کا بھی یہی حال تھا اگر کہدے بھائی صاحب بیٹیوں کے بارے میں حرکت کیجیے وہ کہتے میرے بچے ہیں آپ لوگ دخل دینے کی زحمت نہ کریں۔ آج اس گھر کی بیٹیاں چالیس سے آگے نکل جارہے ہیں۔ اللہ اس گھر کی حفاظت فرمائے بیٹی ہی خدمت کرتے کرتے گھل کر آدھی ہوجاتی ہے۔ کسی کے دل میں یہ آرزو نہیں ہوتی کہ وہ شادی کرکے کامیاب زندگی گزارے آرام وہ راحت ملے ایک پاکیزہ زندگی کے لیے نکاح ضروری ہے۔
ماں باپ عمر کے لحاظ سے زرد پتہ ہے جانے کب ٹوٹ کر گر جائے گا ٹہنی سے۔ بیٹی کو اگر سسرال صحیح نہ ملے تو اس کی زندگی آنسو پینے میں بیت جائے گی اور وہ خون کے آنسو روتی رہے گی۔ آج چند گھروں میں امیر ہو یا غریب دونوں گھروں میں بیٹیاں جلتی ہوئی آگ کو سینے میں دبائے خاموش بیٹھی ہوئی ہیں۔ بیٹی کے لیے ہم دعا کریں اللہ سے ڈریں آنسو سے تکیہ نم کرلیں اور دعا کرتے رہیں۔ انشاء اللہ دعا دوا بن جائے گی۔اللہ ہر ماں باپ کو بیٹیوں کی طرف سے خوشیاں نصیب ہو۔ آمین