پہلے یہ طئے کرو کہ وفادار کون ہے

رشیدالدین

ہندوستان کے ہر شہری کو کیا نریندر مودی سے حب الوطنی کا سرٹیفکٹ لینا پڑے گا؟ ملک کے وزیر دفاع اور دہلی میں چیف منسٹر کی حیثیت سے دستور اور آئین سے وفاداری کا حلف لینے والوں کو بھی کیا مودی کے سرٹیفکٹ کی ضرورت پڑے گی؟ وزیر دفاع اے کے انٹونی اور عام آدمی پارٹی سربراہ اروند کجریوال کو ملک دشمن اور پاکستانی ایجنٹ قرار دینے والے نریندر مودی کے حامیوں نے بہار کے گیا میں پولیس پر حملہ کرتے ہوئے شائد اپنی ’’حب الوطنی‘‘ کا ثبوت دیا ہے۔ عوام کے جان و مال کے تحفظ پر مامور پولیس پر چپل اور پتھراؤ کیا ملک سے محبت ہے؟ پولیس کے اہلکار ماؤسٹوں کے زیر اثر اس علاقہ میں حب الوطنی کے واحد دعویدار کو تحفظ فراہم کر رہے تھے کیونکہ ملک بھر میں مرد آہن کہلانے والے نریندر مودی کی آمد سے قبل ماؤسٹوں نے اپنے وجود کا احساس دلانے دو دھماکے کئے جس سے بی جے پی قیادت خوف زدہ تھی۔ کیا بی جے پی اور سنگھ پریوار کا یہی کلچر ہے جو ڈسپلن کے بڑے دعویدار ہیں۔ سستی سیاسی شہرت کے حصول کی کوشش نہیں تو اور کیا ہے کہ اچانک ہجوم بے قابو ہوگیا۔ بہار جو نتیش کمار کا گڑھ ہے، وہاں اپنی شہرت ثابت کرنے کی اس ڈرامہ بازی میں آخر پولیس کو نشانہ کیوں بنایا گیا؟ حکومت بھلے نتیش کمار کی ہو لیکن پولیس تو ہندوستان کی تھی، پھر کس طرح اس کی توہین کی جاسکتی ہے؟

سیکوریٹی فورسس کے ساتھ بدسلوکی اور حملہ کیلئے نریندر مودی کو معذرت کرنی چاہئے جو حب الوطنی کے سرٹفیکٹس تقسیم کرنے نکلے ہیں۔ اگر بی جے پی کارکنوں کی جگہ مسلمان اس طرح کی حرکت کرتے تو ان پر ملک سے غداری اور پاکستانی ایجنٹ کا الزام عائد کردیا جاتا۔ کشمیر میں یہی کچھ تو ہورہا ہے عوام انصاف کے حصول کیلئے سڑکوں پر آئیں تو انہیں ملک دشمن کے طور پر دیکھا جاتا ہے۔ مسلمان اپنے جائز مطالبات کیلئے احتجاج کریں تو ملک دشمن اور بی جے پی کارکن پولیس پر حملہ کر کے بھی وطن پرست اور حب الوطن شمار کئے جاتے ہیں۔ اگر یہی نظریہ اور پالیسی برقرار رہی تو مودی وزیراعظم کے خواب کی تکمیل کی صورت میں کوئی عجب نہیں کہ مسلمانوں اور

سیاسی حریفوں کیلئے حب الوطنی کے سرٹیفکٹ کو لازمی کردیں۔ مودی کی ریالیوں میں عوام کی تعداد کے بارے میں بی جے پی بھلے ہی لاکھ دعوے کرے لیکن لالو پرساد یادو نے صحیح کہا کہ عوام مودی کو سننے نہیں بلکہ یہ دیکھنے کیلئے آرہے ہیں کہ گجرات کے ہزاروں بے گناہوں کے قتل کا ذمہ دار کیسا ہے؟ بی جے پی کے وزارت عظمیٰ کے امیدوار جو اب تک ترقی کے نام پر ووٹ مانگ رہے تھے، جموں پہنچتے ہی وہ اپنی اصلیت کو چھپا نہیں سکے۔ انہوں نے وہاں مخالف پاکستان ذہنیت کو اجاگر کیا۔ مودی نے وزیر دفاع اے کے انٹونی اور عام آدمی پارٹی قائد اروند کجریوال کو پاکستانی قرار دیدیا۔ کیا وزارت عظمیٰ کے دعویدار شخص کو زیب دیتا ہے کہ وہ اس طرح گھٹیا اور سطحی انداز میں الزامات عائد کریں۔ جیسے جیسے انتخابات کی تاریخ قریب آرہی ہے ، نریندر مودی کو محسوس ہونے لگا ہے کہ ترقی کے دعوؤں اور گجرات ماڈل پر عوام بھروسہ کرنے والے نہیں، لہذا انہوں نے اپنی فرقہ وارانہ ذہنیت کی ترجمانی شروع کردی ہے۔ اے کے انٹونی اور کجریوال پر اس طرح کا الزام عائد کرنا از خود ملک سے دشمنی ہے کیونکہ اس سے عوام اور سرحد کی حفاظت کرنے والی مسلح افواج کے حوصلے پست ہوں گے۔ مودی خود پہلے یہ طئے کرلیں کہ وہ کیا ہیں؟

وہ ملک کو جوڑنے کے بجائے توڑنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ سرحد پر ہندوستانی سپاہیوں کے سر قلم کئے جانے کے واقعہ پر وزیر دفاع کی حیثیت سے انٹونی نے کہا تھا کہ حملہ آور پاکستانی فوجی لباس میں تھے۔ ظاہر ہے کہ ملٹری انٹلیجنس کی اطلاعات کی بنیاد پر ہی انٹونی نے یہ بیان دیا ہوگا۔ بی جے پی کے وزارت عظمی کے امیدوار کے انتخاب پر عوام ہنسیں یا روئیں کیونکہ جو شخص ملک کی تاریخ جغرافیہ ، سرحدوں اور قومی قائدین سے واقف نہیں ، وہ وزیر دفاع کو دوسرے ملک کا ایجنٹ قرار دے رہا ہے۔ اروند کجریوال پر پاکستانی ایجنٹ کا یہ الزام صرف اسی لئے کہ عام آدمی قائد پرشانت بھوشن نے کشمیر میں فوج کو زائد اختیارات اور اس کی موجودگی کے مسئلہ پر ریفرنڈم کی تائید کی تھی۔ ہندوستان جمہوری ملک ہے اور دستور نے اظہار خیال کی مکمل آزادی دی ہے۔ پرشانت بھوشن نے اپنی رائے کا اظہار کیا ، اس میں ملک دشمنی والی کیا بات تھی؟ یوں تو جمہوریہ میں عوام کی رائے مقدم ہوتی ہے تاہم یہ الگ بات ہے کہ حکمرانوں اور سیاسی پارٹیوں کے نزدیک عوامی رائے اور ان کے جذبات کی کوئی قدر نہیں۔ کیا یہ حقیقت نہیں کہ کشمیری عوام فوج کی موجودگی سے ناخوش ہیں۔

انٹونی اور کجریوال کو پاکستان کا ایجنٹ قرار دینے والے نریندر مودی شائد اس حقیقت سے واقف نہیں کہ این ڈی اے دور حکومت اور اٹل بہاری وجپائی کی وزارت عظمیٰ کے دوران ہی پاکستان کی جتنی خوشامد کی گئی ، شاید کسی اور حکومت نے کی ہو۔ نریندر مودی واقف بھی کیسے ہوں گے کیونکہ ان کا سیاسی قد آج کی طرح نہیں تھا۔ وہ گجرات تک محدود اور وہاں نفرت کی کھیتی اگا رہے تھے۔ جس کا ایجنڈہ نفرت پھیلانا اور جس کی حکومت کی بنیاد معصوم اور بے گناہ عوام کی نعشوں پر رکھی جائے تو وہ کس طرح قومی سطح پر سوچ سکتا ہے۔ پاکستان کے خلاف نفرت کی سیاست کے ذریعہ جارحانہ فرقہ پرستی کو ہوا دینے والے نریندر مودی کو این ڈی اے دور حکومت کے بارے میں معلومات حاصل کرنی چاہئیں ۔ اٹل بہاری واجپائی نے نہ صرف پاکستان کی طرف دوستی کا ہاتھ بڑھایا بلکہ بس کے ذریعہ لاہور پہنچے۔ انہوں نے اسلام آباد کی سارک چوٹی کانفرنس میں بھی شرکت کی۔ این ڈی اے حکومت نے ہی جنرل پرویز مشرف کی ہندوستان میں میزبانی کی تھی۔

دونوں ملکوں کے درمیان بس سرویس کا آغاز واجپائی کی وزارت عظمی میں ہوا۔ کیا مودی اس بات سے انکار کرسکتے ہیں کہ ہندوستانی طیارے کو طالبان اغواء کنندگان سے رہا کرانے کیلئے این ڈی اے حکومت نے ہی مسعود اظہر کو جیل سے رہا کرتے ہوئے طالبان کے حوالے کردیا ۔ ہندوستان کے دشمن کو جیل سے رہا کرنے اور طالبان کے حوالے کرنے والی بی جے پی حکومت کو کیا کہا جائے؟ نریندر مودی کیا واجپائی اور ان کی حکومت میں شامل وزراء کو پاکستانی ایجنٹ قرار دیں گے ؟ کارگل کے شہیدوں کے تابوتوں کی خریداری میں کمیشن کس نے حاصل کیا تھا؟ یہ اسکام بھی این ڈی اے کے دور حکومت میں ہی منظر عام پر آیا۔

پھر بھی نریندر مودی کی نظر میں بی جے پی قائدین حب الوطن اور مخالفین ملک دشمن ہیں۔ این ڈی اے دور حکومت کے بعد ایل کے اڈوانی اور جسونت سنگھ نے تو وہ کام کیا جو ہندوستان کے مسلم قائدین نے بھی نہیں کیا تھا۔ پاکستان کے بانی محمد علی جناح کو سیکولر اور قائد اعظم کس نے کہا ۔ اس کے برخلاف مولانا ابو الکلام آزاد نے اپنی آخری سانس تک بھی تقسیم ہند کی تائید نہیں کی جبکہ جواہرلعل نہرو اور سردار پٹیل نے پاکستان کو تسلیم کرلیا۔ مسلمانوں کی حب الوطنی کا اس بڑھ کر ثبوت اور کیا ہوسکتا ہے کہ کانگریس پارٹی کے صدر اور ملک کے پہلے وزیرتعلیم مولانا ابو الکلام آزاد نے قیام پاکستان کی تائید نہیں کی۔ مودی کی جانب سے اے کے 47 کا حوالہ ایک خاص ذہنیت کی عکاسی کرتا ہے۔ مودی کا مقصد مسلم نفسیات پر حملہ اور سیکولر کردار کے حامل افراد کے وقارکو مجروح کرنا ہے۔ جس دن کجریوال نے وارناسی سے مقابلہ کا اعلان کیا ، مودی سمیت ساری بی جے پی نے ان کے خلاف محاذ کھول دیا ہے۔ مودی کے حملوں اور الزامات کے پس پردہ ان کا خوف صاف طور پر جھلک رہا ہے۔ اروند کجریوال وزارت عظمی کے راستہ میں اہم رکاوٹ اور خطرہ دکھائی دینے لگے ہیں۔ جس وقت انہوں نے دہلی میں 15 برس تک چیف منسٹر کے عہدہ پر فائز شیلا ڈکشٹ سے مقابلہ کیا تو سیاسی مبصرین اور پارٹیاں مذا ق اڑا رہی تھیں لیکن کجریوال نے شیلا ڈکشٹ جیسی مضبوط قائد کو شکست دی۔ کوئی عجب نہیں کہ وہ وارناسی میں نریندر مودی کو ہراکر نئی تاریخ رقم کریں ۔ بدلتے عوامی رجحان اور خاص طور پر نوجوان رائے دہندوں میں تبدیلی کی سوچ کے سبب یہ ناممکن نہیں۔ اب نام نہاد سیکولر جماعتوں کا امتحان ہے کہ وہ اپنے اپنے امیدوار میدان میں اتار کر سیکولر ووٹس کی تقسیم کرتے ہیں یا پھر اروند کجریوال کی تائید کریں گے۔ مسئلہ یہاں کسی جماعت یا شخصیت کا نہیں بلکہ سیکولرازم اور فرقہ پرستی میں ٹکراؤ کا ہے۔ اروند کجریوال سیکولرازم کی علامت کے طورپر میدان میں ہیں اور مودی کو ان سے بہتر کوئی اور چیلنج نہیں کرسکتا۔ دیگر جماعتوں کا اپنے امیدوار میدان میں اتارنا سیکولر ووٹوں کی تقسیم کا سبب بنے گا۔ مایاوتی نے اپنا امیدوار کھڑا نہ کرتے ہوئے اچھی شروعات کی ہے۔ دیگر جماعتوں کو ان کی تقلید کرنی چاہئے ۔ اس طرح حقیقی عام آدمی اور میڈیا اور سنگھ پریوار کی جانب سے ابھارے جارہے وزارت عظمیٰ کے امیدوار کی مقبولیت کا پول عوام کے سامنے کھل جائے گا۔ گجرات کے چار روزہ دورہ اور مودی کے قلعہ میں پہنچ کر چیلنج کرنے کے بعد اروند کجریوال وارناسی پہنچ گئے جو کہ جرات مندانہ فیصلہ ہے۔ بی جے پی کارکنوں کی جانب سے سیاہ جھنڈیوں کا مظاہرہ جمہوریت نہیں بلکہ فاشزم کی علامت ہے۔ ہونا تو یہ چاہئے کہ نریندر مودی اس طرح کی الزام تراشی کے بجائے مقابلہ کا چیلنج قبول کریں۔ مودی اور سنگھ پریوار کو اس غلط فہمی سے ابھرنا ہوگا کہ ہندوستانی قوم مخالف پاکستان بیانات کا شکار ہوجائے گی۔ ہندوستانی قوم میں پاکستان کے نام سے کوئی نفرت نہیں ہے۔ اب وہ زمانہ نہیں رہا جب پاکستان کو گالی دیکر ووٹ حاصل کئے جاتے تھے۔ پاکستان سے ڈراکر اب نفرت کا ماحول پیدا کرتے ہوئے بی جے پی ووٹ حاصل نہیں کر پائے گی۔ جس وقت سرحدوں پر زبردست کشیدگی تھی اس کے باوجود دونوں ممالک کے عوامی روابط متاثر نہیں ہوئے۔ ہندوستان کو اصل خطرہ پاکستان سے نہیں بلکہ مودی اور سنگھ پریوار سے ہے۔ بیرونی دشمن کا مقابلہ تو آسانی سے کیا جاسکتا ہے لیکن اندرونی دشمن سے نمٹنا مشکل ہے۔ سنگھ پریوار ملک کے سیکولرازم ، سوشلزم اور مذہبی رواداری کے روایتی تانے بانے بکھیرنے کی کوشش کر رہا ہے۔ کیا یہ حب الوطنی ہے؟ نریندر مودی کے حال پر ماجدؔ دیوبندی نے کیا خوب کہا ہے ؎
پہلے یہ طئے کرو کہ وفادار کون ہے
پھر وقت خود بتائے گا غدار کون ہے