پھل ہے صبر کا مٹھا صبر پر رہو قائم

پھر ایک بار … مودی سرکار
مسائل نظر انداز … دیش بھکتی پر سواری
اپوزیشن منتشر گھر … جگن کی خواہش 10 سال بعد پوری

رشیدالدین

آزادی کے بعد عوام نے اب تک 16 مرتبہ لوک سبھا کی تشکیل کیلئے ووٹ دیا لیکن 17 ویں لوک سبھا کیلئے عوامی فیصلہ منفرد اور چونکا دینے والا ثابت ہوا ہے ۔ سیاسی میدان کے ماہرین بھی رائے دہی کے رجحان کا اندازہ کرنے میں ناکام ثابت ہوئے۔ رائے دہی کے 7 مرحلوں کی تکمیل کے بعد میڈیا کے اگزٹ پول میں بی جے پی کو دوبارہ اقتدار کی پیش قیاسی کی گئی تھی ، ساتھ میں اپوزیشن کے موقف میں بہتری کی بات کہی گئی لیکن جب نتائج سامنے آئے تو وہ نہ صرف عوام ، اپوزیشن بلکہ خود بی جے پی کی توقع سے کہیں زیادہ تھے۔ پہلی میعاد میں وعدوں کی تکمیل میں ناکامی اور دیگر مسائل کے باوجود بی جے پی کا مظاہرہ 2014 ء سے بہتر رہا اور کانگر یس عددی طاقت کے اعتبار سے پھر ایک بار مسلمہ اپوزیشن کے موقف سے محروم دکھائی دے رہی ہے۔ کیا عوام نے پھر ایک مرتبہ واحد پارٹی کے اقتدار کی روایت کا احیاء کیا ہے ؟ کیا عوام مودی حکومت کو وعدوں کی تکمیل کیلئے مزید پانچ سال کی مہلت دینا چاہتے ہیں؟ مودی ۔ امیت شاہ جوڑی نے ایسا کیا چمتکار کردیا کہ عوام بی جے پی کی تائید پر مجبور ہوگئے ۔ یہ ایسے سوالات تھے جو سیاسی حلقوں میں موضوع بحث رہے۔ دراصل یہ اپنی نوعیت کا منفرد الیکشن ثابت ہوا جس میں ذات پات ، مذہب ، فرقہ کا کوئی اثر نہیں دیکھا گیا۔ اپوزیشن کی جانب سے شدت سے اٹھائے گئے مسائل بھی انتخابی موضوع نہیں بن سکے ۔ اگر یوں کہا جائے تو غلط نہ ہوگا کہ انتخابات میں جس نے جتنی اچھی بولی کا استعمال کیا ، عوام اس سے متاثر ہوگئے اور بھروسہ کرلیا ۔ وزیراعظم نریندر مودی تو جملہ بازی اور بولیوں کے ماہر ہیں۔ ساتھ میں امیت شاہ کی حکمت عملی نے اپوزیشن کو سنبھلنے کا موقع نہیں دیا۔ تبدیل شدہ حالات میں نتائج بھی تبدیل شدہ رہے ۔ ایسا نہیں تھا کہ اپوزیشن نے ناکامیوں پر حکومت کو گھیرنے کی کوشش نہیں کی۔ رافیل جنگی طیاروں کی معاملت، بینکوں کو لوٹ کر فرار ہونے والے صنعت کاروں پر حکومت کی مہربانی ، نوٹ بندی ، جی ایس ٹی ، کالے دھن کی واپسی ، ہر شخص کے اکاونٹ میں 15 لاکھ اور دو کروڑ نوجوانوں کو روزگار کی فرا ہمی جیسے موضوعات شدت سے اٹھائے گئے لیکن رائے دہندوں نے کوئی خاص توجہ نہیں دی۔ راہول گاندھی نے اقل ترین آمدنی ضمانت اسکیم کا اعلان کیا جس کے تحت سالانہ 72,000 روپئے کی امداد کا منصوبہ تھا ۔ یہ اسکیم دراصل بنیادی سطح تک نہیں پہنچ پائی ۔

بی جے پی کی واپسی اور شاندار کامیابی میں پہلی مرتبہ ووٹ دینے والے رائے دہندوں یعنی نئی نسل اور خواتین کا نمایاں رول رہا ۔ رائے دہی پر نوجوان نسل اور خواتین کا غلبہ دیکھا گیا۔ نئی نسل کو مسائل سے کوئی مطلب نہیں بلکہ ظاہری چمک دمک اور نعرہ بازی کا بآ سانی شکار ہوجاتے ہیں۔ اسی طرح خواتین کو بیٹی بچاؤ بیٹی پڑھاؤ ، ہر گھر میں بیت الخلاء کی تعمیر، ہاؤزنگ اسکیم ، مفت گیس سلینڈر جیسے اسکیمات نے متاثر کیا اور مودی ۔ امیت شاہ جوڑی نے اس صورتحال کا بھرپور فائدہ اٹھایا۔ کانگریس پارٹی فرسٹ ٹائم ووٹرس کو راغب کرنے میں ناکام رہی۔ اس طرح جملہ بازی اور بعض اسکیمات نے بی جے پی کو فائدہ پہنچایا۔ نریندر مودی نے 68 سال کی عمر میں راہول گاندھی سے کہیں زیادہ روڈ شو اور انتخابی ریالیاں کیں۔ مودی پروجیکشن میں میڈیا کا اہم رول رہا ۔ میڈیا دن رات مودی کا بھجن گان کرتا رہا۔ میڈیا کے گودی میڈیا ہونے کا اس سے بڑا ثبوت کیا ہوسکتا ہے کہ انتخابی مہم کے دوران مودی کو تقریباً 850 گھنٹے دکھایا گیا جبکہ راہول گاندھی کا کوریج 400 گھنٹوں سے بھی کم رہا ۔ کچھ یہی حال قومی اخبارات کا بھی تھا، جن کے صفحہ اول پر مودی اور امیت شاہ چھائے رہے ۔ بی جے پی نے انتخابی مہم کے دوران حسب ضرورت فرقہ وارانہ ایجنڈہ کو ہوا دینے کی کوشش کی ۔ بھوپال میں سادھوی پرگیہ سنگھ ٹھاکر کو پارٹی امیدوار بناکر فرقہ وارانہ کارڈ کھیلا گیا۔ بی جے پی کو سب سے زیادہ فائدہ دیش بھکتی کے ایجنڈہ سے ہوا ہے ۔ پلوامہ دہشت گرد حملہ کے بعد ملک میں برہمی کی لہر تھی جس کا فائدہ اٹھاکر پاکستان میں سرجیکل اسٹرائیک کے تحت فضائی حملہ کیا گیا ، اس کارروائی کے نتائج کے قطع نظر حملہ کا سارا کریڈٹ نریندر مودی کے سر گیا ۔ میڈیا ، سوشیل میڈیا اور دیگر ذرائع ابلاغ کے ذریعہ مودی کی شبیہہ ملک کے محافظ کی حیثیت سے عوام کے درمیان پیش کی گئی۔ یہ تاثر دیا گیا کہ گزشتہ 70 برسوں میں واحد وزیراعظم ہیں جنہوں نے دشمن کے علاقہ میں گھس کر کارروائی کی ہے۔ مسعود اظہر کو عالمی دہشت گرد قرار دینے میں کامیابی کو مودی نے ووٹ میں تبدیل کردیا۔ دوسری طرف پاکستان سے مودی کی انتخابی مہم عمران خاں نے چلائی اور کشمیر مسئلہ کے حل کیلئے مودی کے دوبارہ اقتدار کی تائید کی۔ عوام کیلئے ملک کی سلامتی سے بڑ ھ کر کوئی اور مسئلہ نہیں ہوسکتا اور انتخابات سے عین قبل یہ کارروائیاں بی جے پی کے حق میں گئیں۔ یہی وجہ ہے کہ ذات پات اور مذہب سے زیادہ قوم پرستی نے کام کیا۔ اگر انتخابات ذات پات کی بنیاد پر ہوتے تو اترپردیش میں ایس پی۔بی ایس پی اتحاد کو سبقت حاصل ہوتی۔ اگر مذہب کی بنیاد پر رائے دہی ہوتی تو امیٹھی کے مسلم علاقوں میں سمرتی ایرانی کو ووٹ نہ ملتے۔ ملک کی تاریخ کا اسے منفرد الیکشن کہا جارہا ہے جس میں رائے دہی کا رجحان بھی مختلف تھا ۔ دوسری مرتبہ اقتدار میں واپسی کے بعد مودی ۔ امیت شاہ جوڑی ناقابل تسخیر بن چکی ہے۔

انتخابات سے قبل اپوزیشن نے مخالف بی جے پی محاذ تیار کرنے کی کوشش کی ۔ 22 جماعتیں بظاہر ایک پلیٹ فارم پر نظر آئیں لیکن کئی ریاستوں میں ان پارٹیوں نے ایک دوسرے کے خلاف مقابلہ کیا ۔ اپوزیشن جماعتوں کا بظاہر دکھائی دینے والا اتحاد حقیقت میں ایک منتشر گھر کے سوا کچھ نہیں تھا۔ آندھراپردیش میں اپنا اقتدار بچانے میں ناکام چندرا بابو نائیڈو مختلف ریاستوں میں گھوم کر اپوزیشن کو متحد کرنے کی کوشش کر رہے تھے جبکہ خود ان کی ریاست میں زمین کھسک چکی تھی۔ اپوزیشن نے نتائج سے قبل ہی وزیراعظم کے عہدہ پر بیان بازی شروع کردی۔ مایاوتی نے کھل کر وزیراعظم کے عہدہ کیلئے اپنی خواہش ظاہر کردی۔ بعض دیگر جماعتوں نے ممتا بنرجی کا نام پیش کیا ۔ کانگریس کے قائدین راہول گاندھی کے نام کو لیکر بضد تھے۔ انتخابی مہم کے دوران اس طرح کی رسہ کشی نے عوام کو اپوزیشن سے مایوس کردیا اور یہ رویہ رائے دہندوں کو بی جے پی کی طرف موڑنے کا سبب بنا۔ وزیراعظم اپنی دوبارہ کامیابی کے بارے میں اس قدر مطمئن تھے کہ انتخابات سے قبل اپنے آخری ’’من کی بات ‘‘ پروگرام میں انہوں نے کہا کہ وہ مئی کے آخری اتوار کو دوبارہ اس پروگرام میں آئیں گے۔ مودی اور امیت شاہ نے منتشر اپوزیشن کا بھرپور فائدہ اٹھایا اور ملک کی سلامتی کے مسئلہ پر اپوزیشن کے شبہات کی اس قدر منفی تشہیر کی کہ عوام یہ سوچنے پر مجبور ہوگئے کہ اپوزیشن کو ملک کی سرحدوں کی حفاظت سے کوئی دلچسپی نہیں ہے۔ 17 ریاستوں میں بی جے پی کو 50 فیصد سے زائد ووٹ حاصل ہوئے۔ یو پی اور بہار میں اپوزیشن اتحاد کے باوجود بی جے پی کو سبقت حاصل رہی۔ مدھیہ پردیش ، راجستھان ، چھتیس گڑھ جہاں چند ماہ قبل کانگریس برسر اقتدار آئی تھی، وہاں لوک سبھا میں بی جے پی کو اکثریت نشستوں پر کامیابی ملی۔ تلنگانہ ، اڈیشہ اور مغربی بنگال میں پارٹی نے متاثر کن مظاہرہ کیا۔ بی جے پی کی کامیابی کی اہم وجہ تنظیم کی مضبوطی ہے۔ بنیادی سطح تک آر ایس ایس کی موجو دگی اور اس کی تائید نے بی جے پی کو فائدہ پہنچایا۔ کانگریس 130 سالہ تاریخ رکھنے کا دعویٰ کرتی ہے لیکن اس کے قائدین اور کارکن ابھی 10 سالہ اقتدار کے نشہ سے ابھر نہیں پائے ۔ انتخابی جیت کے فوری بعد مودی نے اپنے نام کے آگے لکھا لفظ ’’چوکیدار‘‘ ہٹادیا ۔ انتخابی مہم کے دوران لفظ چوکیدار کا اس قدر زیادہ استعمال کیا گیا کہ عوام مودی کو حقیقی معنوں میں خدمت گزار تصور کرنے لگے لیکن شاندار کامیابی ملتے ہی مودی خود کو چوکیدار کہنے کیلئے تیار نہیں ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ مودی کو یہ کامیابی غرور اور تکبر کی طرف لے جارہی ہے اور لفظ چوکیدار انہیں ایک گالی دکھائی دے رہا ہے۔

دیکھنا یہ ہے کہ وہ چوکیدار کی جگہ کس لفظ کا انتخاب کریں گے ۔ سارے ملک کو چوکیدار بناکر اصلی چوکیدار نے اپنا عہدہ تبدیل کرلیا۔ اگر نام کے آگے چوکیدار برقرار ہوتا تو اس میں اعتراض کیا تھا ۔ ہوسکتا ہے کہ آئندہ انتخابات سے قبل دوبارہ کسی نئے عہدہ کی تلاش کی جائے گی ۔ واضح اکثریت کے حصول کے بعد بی جے پی کے لئے چیلنجس میں اضافہ ہوچکا ہے ۔ کئی متنازعہ اور حساس مسائل اس کا تعاقب کر رہے ہیں ، جن کے بارے میں ہندوؤں سے وعدہ کیا گیا تھا۔ مسلم پرسنل لا میں تبدیلی کا آغاز طلاق ثلاثہ بل کے ذریعہ ہوچکا ہے ۔ بل کو راجیہ سبھا میں منظوری باقی ہے اور سنگھ پریوار قانون سازی کی مانگ کر رہا ہے ۔ یکساں سیول کوڈ کے نفاذ کے علاوہ رام مندر کی تعمیر کیلئے بھی قانون سازی کی تجویز ہے۔ بی جے پی نے کشمیر کی خصوصی مراعات ختم کرنے کا اعلان کیا ہے۔ یہ تمام ایسے مسائل ہیں کہ اگر بی جے پی انہیں چھیڑنے کی کوشش کرے گی تو ملک میں عدم استحکام کا ماحول پیدا ہوگا۔ دوسری طرف آندھراپردیش میں وائی ایس جگن موہن ریڈی کی چیف منسٹر کے عہدہ کی خواہش آخرکار 10 سال بعد مکمل ہوتی دیکھائی دے رہی ہے ۔ 2009 ء میں جگن نے اپنے والد کی موت کے بعد چیف منسٹر کے عہدہ کی خواہش کی تھی۔ 10 سالہ طویل جدوجہد اور وائی ایس آر کے نقش قدم پر چلتے ہوئے عوامی رابطہ کے لئے طویل پد یاترا نے جگن کو چیف منسٹر کی کرسی تک پہنچا دیا۔ انتخابی نتائج پر منظر بھوپالی نے کچھ اس طرح تبصرہ کیا ہے ؎
پھل ہے صبر کا مٹھا صبر پر رہو قائم
صبر کرنے والوں نے موت کو ہرایا ہے