رشیدالدین
7 مہاراشٹرا اور ہریانہ چناؤ…مودی مہم سے بی جے پی کا پلڑا بھاری
7 سرحد پر سکون بحال …ہندوستان کا تحمل کا مظاہرہ
مہاراشٹرا اور ہریانہ کے اسمبلی انتخابات میں کیا نریندر مودی کا جادو چلے گا ؟ جیسے جیسے دونوں ریاستوں میں رائے دہی کی تاریخ قریب آرہی ہے، سیاسی اور صحافتی حلقوں میں اس سوال پر مباحث کا آغاز ہوچکا ہے۔ توقع کے مطابق اس سوال پر متضاد خیالات سامنے آئے ہیں لیکن حالیہ ضمنی انتخابات کے تلخ تجربہ کے بعد نریندر مودی نے جس انداز سے خود کو انتخابی مہم میں جھونک دیا ہے، یقیناً دونوں ریاستوں کا انتخابی منظر تبدیل ہوگیا۔ اگر یوں کہا جائے تو غلط نہ ہوگا کہ ضمنی چناؤ کے کمزور مظاہرہ کے بعد اپوزیشن کے حملوں میں اضافہ اور پارٹی کیڈر کے پست حوصلوں کو دیکھتے ہوئے نریندر مودی نے خود کو داؤ پر لگادیا ہے۔ انتخابی مہم کے آغاز کے وقت مودی امریکہ کے دورے پر تھے اور اپوزیشن کا پلڑا بھاری دکھائی دے رہا تھا لیکن امریکہ سے واپسی کے ساتھ ہی مودی نے مہاراشٹرا اور ہریانہ پر توجہ مرکوز کردی اور وہ دوبارہ لوک سبھا چناؤ کے رنگ میں دکھائی دینے لگے ہیں۔
چار ماہ کی حکمرانی میں بی جے پی نے تین مراحل میں ضمنی چناؤ کا سامنا کیا اور تینوں میں اسے ہزیمت اٹھانی پڑی ۔ ظاہر ہے کہ نریندر مودی کو اپنی ساکھ بچانے کیلئے میدان میں اترنا ہی تھا، مودی نے مہاراشٹرا اور ہریانہ کے اسمبلی چناؤ کو اپنی مقبولیت اور حکومت کی کارکردگی پر ریفرنڈم کے طور پر قبول کیا ہے۔ مودی کے میدان میں اترنے کے بعد دونوں ریاستوں میں بی جے پی نہ صرف مقابلہ میں واپس ہوئی ہے بلکہ حریفوں پر برتری حاصل کرچکی ہے۔ مودی دراصل دونوں ریاستوں میں لوک سبھا انتخابات کی کامیابی کو دہرانا چاہتے ہیں۔ مہاراشٹرا کی 48 لوک سبھا نشستوں میں بی جے پی نے 23 پر کامیابی حاصل کی جبکہ شیوسینا کو 18 نشستیں حاصل ہوئی تھیں۔ لوک سبھا چناؤ میں بی جے پی۔شیوسینا اتحاد نے مقابلہ کیا تھا۔ 2009 ء میں شیوسینا کو 11 اور بی جے پی کو 9 نشستیں حاصل ہوئی تھیں۔ 2014 ء میں نریندر مودی کی لہر نے مہاراشٹرا میں شیوسینا کو بھی پیچھے کردیا ۔ کانگریس جسے 2009 ء میں 17 نشستیں حاصل ہوئی تھیں، 2014 ء میں اس کی تعداد گھٹ کر صرف 2 ہوگئی جبکہ این سی پی 8 سے اتر کر 4 پر پہنچ گئی ۔
بی جے پی اور شیوسینا کو اپنی اپنی طاقت کا زعم ہوگیا جس کے نتیجہ میں 25 برس طویل رفاقت اب رقابت میں تبدیل ہوگئی۔ کل کے حلیف آج حریف بن گئے۔ دوسری طرف کمزور مظاہرہ کیلئے ایک دوسرے کو ذمہ دار قرار دیتے ہوئے کانگریس اور این سی پی نے 15 سالہ دوستی کو خیرباد کہہ دیا۔ اب مہاراشٹرا میں کھلا اور کانٹے کا مقابلہ ہے۔ بی جے پی کو یقین ہے کہ نریندر مودی کی ڈائیلاگ ڈیلیوری اسے تنہا اقتدار تک پہنچا دے گی۔ مودی کے جلسوں میں عوام کی بھیڑ نے بی جے پی کیڈر میں نئی روح پھونک دی ہے جو مہاراشٹرا میں کسی بھی عوامی مقبول چہرے کی کمی کا شدت سے احساس کر رہے تھے ۔ 2014 ء لوک سبھا چناؤ میں ہریانہ پر بھی بی جے پی نے اپنا پرچم لہرایا۔ ریاست کی 10 کی منجملہ 7 نشستوں پر اسے کامیابی ملی جبکہ 2009 ء میں بی جے پی کو ایک بھی نشست حاصل نہیں ہوئی تھی۔
اس طرح کانگریس 2009 ء کی تعداد 9 سے گھٹ کر ایک تک محدود ہوگئی ۔ اوم پرکاش چوٹالہ کی انڈین لوک دل کو دو نشستیں حاصل ہوئیں۔ دونوں ریاستوں میں مودی لہر کی امید میں بی جے پی نے اپنی حلیف جماعتوں سے اتحاد ختم کردیا ۔ اگر دونوں ریاستوں میں بی جے پی کامیاب ہوتی ہے تو یہ صرف اور صرف مودی کی کامیابی ہوگی۔ یوں تو نتائج کے بارے میں قیاس آرائی جلد بازی ہوگی لیکن یہ بات طئے ہے کہ مودی کے مہم میں شامل ہونے کے بعد صورتحال کافی بدل چکی ہے۔ مبصرین کا خیال ہے کہ اگر بی جے پی اپنے طور پر تشکیل حکومت کے موقف میں نہ ہو تو وہ واحد بڑی جماعت بن کر ابھرے گی اور شیوسینا کو اس کی تائید کرنی پڑے گی۔ مرکز میں تو ’’اب کی بار۔ مودی سرکار‘‘ اور ’’اچھے دن‘‘ جیسے نعروں نے بی جے پی کی مدد کی تھی۔ کیا ان کا اثر اور مودی کا جادو دونوں ریاستوں کے رائے دہندوں کو متاثر کر پائے گا؟ نریندر مودی انتخابی مہم میں ایک چالاک اور منجھے ہوئے سیاستداں کی طرح تنازعات سے اٹھ کر اپنی مکالمہ بازی کے ذریعہ عوام تک پہنچنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ مراٹھا ابھیمان اور شیواجی کی وراثت کا دعویٰ کرنے والوں کا مقابلہ بی جے پی کیلئے آسان نہیں ، لہذا مودی ایک طرف بال ٹھاکرے کا بھی احترام کر رہے ہیں تو دوسری طرف پنڈت جواہر لال نہرو اور اندرا گاندھی کے تذکرہ کے ذریعہ شیوسینا اور کانگریس کو لاجواب کر رہے ہیں۔ مودی کی حکمت عملی کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ وہ عوام کے ذہن کے مطابق مسائل اٹھا رہے ہیں ۔ وہ بسا اوقات بی جے پی اور سنگھ پریوار کی پالیسیوں سے اوپر اٹھ کر عوام کو یہ تاثر دینے کی کوشش کر رہے ہیں کہ ترقی ان کا ایجنڈہ ہے۔ مہاراشٹرا جیسی حساس ریاست میں جس کے شہر ناگپور میں آر ایس ایس کا ہیڈکوارٹر ہے اس کے باوجود مودی نے ہندو توا ایجنڈہ اور متنازعہ مسائل کو نہیں چھیڑا۔ آخر کار شیوسینا کو یہ سوال پوچھنے پر مجبور ہونا پڑا کہ کیا بی جے پی ہندوتوا کے ایجنڈہ سے انحراف کرچکی ہے؟
مرکز میں این ڈی اے حکومت کی چار ماہ کی حکمرانی نے یہ ثابت کردیا کہ نریندر مودی بہتر اڈمنسٹریٹر سے زیادہ بہتر اسٹار کمپینر کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ وہ حکومت کے کام کاج سے زیادہ انتخابی مہم اچھی طرح چلا سکتے ہیں۔ الفاظ کے جادو گر مودی بی جے پی کے لئے کامیاب وزیراعظم تو نہیں بلکہ کامیاب انتخابی مہم مینجر بن سکتے ہیں۔ وعدے کرنے اور دن میں عوام کو اچھے دنوں کے سپنے دکھانے کے فن میں ان کا کوئی ثانی نہیں۔ سپنوں کے سوداگر کے بھیس میں عام انتخابات میں جس طرح مودی نے خواب بیچے تھے اور عوام کو نئی صبح امید کی توقعات سے وابستہ کیا تھا، کچھ وہی رول وہ مہاراشٹرا اور ہریانہ میں ادا کر رہے ہیں۔ طوفانی انداز کی انتخابی مہم میں مودی پھر ایک بار رائے دہندوں کو ترقی ، خوشحالی اور تبدیلی کے سبز باغ دکھا رہے ہیں۔ حالانکہ چار ماہ کی حکومت میں عوام کی مشکلات میں کوئی کمی اور چہروں پر مسائل کے سبب فکرمندی اور پریشانی کی جگہ خوشحالی اور بحالی نہیں آسکی۔ یہ حقیقت ہے کہ مودی نے ضمنی چناؤ کے انتخابی مہم سے خود کو دور رکھا تھا لیکن مہاراشٹرا اور ہریانہ میں ان کا حقیقی امتحان ہے۔ یہ دونوں غیر بی جے پی برسر اقتدار ریاستیں ہیں۔ ہریانہ میں کانگریس اور مہاراشٹرا میں کانگریس این سی پی مخلوط حکومت ہے ۔ اس اعتبار سے کانگریس اور این سی پی کا وقار بھی داؤ پر ہے۔ انتخابی مہم کے عروج کے ساتھ ہی سرحد پر کشیدگی اور تناؤ کی صورتحال عروج پر پہنچ گئی ۔ حالیہ عرصہ میں پاکستان کی جانب سے جنگ بندی کی خلاف ورزیوں میں اضافہ ہوگیا اور شہری علاقوں کو نشانہ بنایا گیا۔ 9 دن کی فائرنگ اور گولہ باری کے بعد اب سرحد پر سکون ہوچکا ہے ۔ دونوں جانب سے فائرنگ کا سلسلہ تھم گیا جس سے دونوں ممالک کے عوام نے راحت کی سانس لی ہے۔ 8 ہلاکتوں اور 13 سیکوریٹی جوانوں سمیت 90 افراد کے زخـمی ہونے کے بعد ہندوستان نے جو حکمت عملی اختیار کی اس کا پاکستان پر اثر ہوا۔ ایک طرف ہندوستانی فوج نے پاکستانی کارروائیوں کا منہ توڑ جواب دیا تو دوسری طرف مرکز نے وزیر دفاع ارون جیٹلی کے ذریعہ پاکستان کو دھمکی دی جس سے وہ راہ راست پر آچکا ہے۔
امن کے بیانات کی بولی سے زیادہ فوجی جوانوں کی گولی نے کام کیا۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ سرحد پر مستقل امن کی کوشش کی جائے جو دونوں ممالک کے مفاد میں ہے۔ سرحد پر کشیدگی اور فائرنگ کے تبادلے پر جنگ کے اندیشے ظاہر کئے جارہے تھے لیکن ہندوستان نے آزمائش کی اس گھڑی میں تحمل اور بردباری کا مظاہرہ کیا۔ اقوام متحدہ میں نواز شریف کی جانب سے مسئلہ کشمیر پر اشتعال انگیزی کو بھی نریندر مودی نے صبر و سکون کے ساتھ نمٹا تھا۔ اپوزیشن کی مسلسل تنقیدوں کے باوجود وزیراعظم کا یہ کہنا کہ ’’سب کچھ ٹھیک ہوجائے گا‘‘۔ ہندوستان کی وسیع القلبی اور پڑوسیوں سے بہتر تعلقات کی روایات کی ترجمانی کرتا ہے۔ مودی نے اس کو انتخابی اور سیاسی موضوع بنانے کی مخالفت کی تاکہ سرحد پر بہادر نوجوانوں کے حوصلے پست نہ ہوں۔ ایسا نہیں ہے کہ ہندوستان فوجی طاقت سے جواب دینے کی صلاحیت نہیں رکھتا۔ تاہم وہ پرامن مذاکرات سے تنازعات کی یکسوئی کا خواہاں ہے۔ پاکستان سے تعلقات اور خاص طور پر سرحد کی صورتحال پر سنگھ پریوار اور بی جے پی کا موقف مختلف ہے لیکن وزیراعظم نے باشعور انداز اور سمجھداری کے ساتھ مسئلہ کو نمٹنے کی کوشش کی۔ ہندوستان کا یہ ایقان ہے کہ دوست تبدیل ہوسکتے ہیں لیکن سرحد اور پڑوسی بدلے نہیں جاسکتے۔ ہندوستان کی موثر حکمت عملی کے بعد نہ صرف سرحد پر فائرنگ تھم گئی بلکہ وزیراعظم پاکستان نواز شریف نے پرامن مذاکرات کی بات کہی ہے۔ کیا ہی بہتر ہوتا ہے کہ دونوں ممالک خارجہ سکریٹریز سطح کی بات چیت کا عمل جاری رکھتے اور سرحد پر کشیدگی کی نوبت نہ آتی۔ مہاراشٹرا اور ہریانہ کی انتخابی صورتحال پر منور رانا کا یہ شعر صادق آتا ہے ؎
پھل کس کے مقدر میں لکھا ہے نہیں معلوم
ویسے تو گلہری بھی دعا مانگ رہی ہے