پھر وہی دل آزاری وہی نفرت کی باتیں

غضنفر علی خان
ان دنوں ملک میں تقریباً ہر سطح پر ’’ہندوستان میں عدم رواداری‘‘ بحث کا موضوع بنی ہوئی ہے ۔عدم رواداری پہلے نہیں تھی اگر تھی بھی تو اس میں اتنی شدت نہیں تھی ۔ کوئی نہیں کہہ سکتا کہ یہ کیفیت ملک میں ازل سے تھی لیکن گزشتہ چند ماہ سے ہندوستان کی مذہبی اقلیتیں مسلسل نفرت کا شکار بنائی جارہی ہیں اور اس کی ہم خیال پارٹیاں ایسے بیانات اپنے لیڈروں کی زبان و قلم سے دے رہی ہیں ۔ تازہ ترین نفرت انگیز بیان آسام کے گورنر مسٹر آچاریہ نے دیا جس میں انہوں نے کہا ہے کہ ہندوستان ہندوؤں کی سرزمین ہے اور جو مسلمان سمجھتے ہیں کہ ان کے ساتھ مذہبی بنیاد پر ایذا رسانی کی جارہی ہے ، وہ پاکستان یا بنگلہ دیش چلے جا ئیں۔ ایسی بات پہلے کسی کو کہنے کی جراء ت نہیں تھی، آج ہر کس  و ناکس میں اتنی جراء ت پیدا ہوگئی ہے کہ وہ کسی نہ کسی بہانے مسلمانوں کو اپنا وطن عزیز چھوڑنے کا مشورہ دے رہے ہیں۔ ساکشی مہاراج ، آدتیہ ، سادھوی اور کئی لوگ مسلمانوں کو بے مانگے مشورے دے رہے ہیں۔ مسلمان ہندوستان میں اپنی پسند سے ہیں جنہیں وطن چھوڑ کر جانا تھا وہ 1947 ء میں تقسیم ہند کے بعد پا کستان چلے گئے اور وہ مسلمان ہندوستان میں رہ گئے جنہیں اپنے وطن سے محبت تھی ۔ تقسیم ایک سانحہ تھا جو ہوچکا ہے ۔ اب کسی کو حق نہیں کہ وہ مسلم فرقہ کو وطن چھوڑنے کا مشورہ دے۔ گورنر آسام نے نہ صرف یہ مشورہ دیا بلکہ یہ بھی کہا کہ ’’ہندوستان ہندوؤں کا دیش ہے‘‘ ،

ان کا یہ بیان عدم رواداری اور عدم تحمل پسندی کا جیتا جاگتا ثبوت ہے ۔ مسلمان ان کے مشورے کو حقارت سے ٹھکرا رہے ہیں کیونکہ انہیں اس بات کا اندازہ ہے کہ ملک کسی ایک فرقہ یا عقیدہ کو تسلیم کرنے والوں کا نہیں ہے ۔ صرف آبادی کی کثرت کی بنیاد پر ملک کسی ایک فرقہ کا وطن نہیں کہلا سکتا۔ ایسی باتیں کرنے والوں کو یہ بات کہنے کا حوصلہ کیوں مل رہا ہے کیونکہ ان میں جراء ت پیدا ہوگئی ہے کہ وہ خلاف حقیقت بات کہیں ، بی جے پی اور اس کی ہم خیال جماعتیں مسلسل نفرت پھیلانے اور دل آزاری پر مبنی بیانات دیئے جارہے ہیں ، اس کی واحد وجہ یہ ہے کہ ان کی زبانوں کو لگام دینے والا کوئی نہیں ہے۔ مودی حکومت خود بھی درپردہ مسلم دل آزاری کر رہی ہے۔ کوئی نہیں کہہ سکتا کہ بے اعتمادی کی بچھائی ہوئی اس بارود پر کب اور کہاں مسلسل نفرت کی کوئی چنگاری گرے اور ملک کی صدیوں قدیم رواداری کا مجسمہ پاش پاش ہوجائے ۔ اتنے واقعات کے باوجود بی جے پی حکومت ، وزیراعظم اور سینئر لیڈروں کا یہ کہنا کہ ’’ہندوستان میں عدم رواداری کا رجحان فروغ نہیں پارہا ہے ۔ اتنا ہی غلط ہے جتنا یہ کہتا ہے کہ ’’ملک میں کبھی رواداری نہیں تھی۔ دونوں باتیں یکسر غلط ہیں لیکن وہ لوگ جو یہ کہہ رہے ہیں کہ عدم تحمل پسندی ملک میں نہیں ہے اور نہ اس کو فروغ مل رہا ہے ۔ دراصل اپنی بھیانک غلطی کوچھپانے کی ناکام کوشش کر رہے ہیں۔ یہ تنازعہ چل ہی رہا تھا کہ فلمی دنیا کے سوپر ا سٹار عامر خان نے یہ کہہ کر ایسے متنازعہ ہندوتوا کے حامی لیڈروں کو ایک اور موقع دیدیا ‘‘۔ عدم تحمل پسندی کی وجہ سے ان کی اہلیہ اتنی دل برداشتہ ہوگئی ہیں کہ وہ اب ہندوستان چھوڑکر کسی اور ملک میں رہائش اختیار کرنے کو ترجیح دیتی ہیں، حالانکہ عامر خان کی اہلیہ ایک ہندو خاتون ہیں۔ خود فلمی اداکار نے یہ نہیں کہا کہ وہ بھی ترک وطن کرنا چاہتے ہیں، ان کی  اہلیہ کا اپنا خیال تھا جس کا اظہار انہوں نے کیا لیکن ان کے اس بیان پر ایک ہنگامہ کھڑا ہوگیا ۔ ان ہی کے ہم پیشہ لوگوں نے بھی ان پر تنقیدیں شروع کردیں۔ کسی نے ان کی وطن دوستی پر سوال کیا اور کسی نے انہیں وطن دشمن قرار دیا جبکہ حقیقت یہ ہے کہ وہ عدم رواداری سے بیزار ہوکر اپنی اہلیہ کی طرف سے اظہار خیال کر رہے تھے ،

یہ شور و غوغا اس لئے اٹھا کہ عامر خان مسلمان ہے جبکہ خود ہندوستانی مسلمان انہیں اپنا نمائندہ نہیں سمجھتے ہیں۔ عامر خان کے بارے میں کسی نے نہیں سوچا کہ وہ مسلم فرقہ کی طرف سے کوئی بات نہ تو کر رہے ہیں اور نہ کوئی بات کرنے کا انہیں حق ہے ۔ اب اس سے زیادہ اور کیا عدم تحمل پسندی ہوسکتی ہے ۔ آسام کے گورنر اچاریہ کا یہ کہنا کہ جو مسلمان خود کو مطمئن نہیں سمجھتے یا محفوظ نہیں سمجھتے ان کو بنگلہ دیش یا پاکستان چلے جانا چاہئے۔ آسام کے چیف منسٹر گگوئی نے گورنر کو ان کے متنازعہ بیان پر برطرف کرنے کا مطالبہ کیا ہے ۔ ایسا ہوگا نہیں کیونکہ بی جے پی ایسے ہردل آزاد بیان کی خاموشی سے تائید کرتی ہے یا پھر خاموش رہ کر ایسے عناصر کی ہمت افزائی کرتی ہے ۔ عدم تحمل پسندی آزاد ہندوستان کی ساری تاریخ میں اور ملک کی طویل تاریخ میں کبھی نہیں دیکھی گئی ۔ رانی کرناونی مغل بادشاہ کو راکھی  باندھی تھی اور مغل حکمراں نے وعدہ کیا تھا کہ وہ کبھی کرنا ونی کی حکومت کے خلاف کوئی جنگی کارروائی نہیں کریں گے ۔ مغل حکمراں اکبر اعظم کے وزیر مال ٹو ڈرمل ہوا کرتے تھے ۔ شاہجہاں کے دربار میں کئی اہم عہدوں پر ہندو فائز تھے۔ ایسے ان گنت واقعات اور حقائق ہے کہ مذہبی رواداری ہندوستان کے رگ و ریشے میں بسی ہوئی ہے۔

اب کسی اچاریہ یا ہندوتوا کے حامی کسی لیڈر کے کہنے سے ہندوستانی مزاج کی یہ خوبی ختم نہیں ہوسکتی لیکن یقیناً وقفہ وقفہ سے دل آزاری اور منافرت جو بیج ہندوتوا کے حامی بو رہے ہیں اور جس طرح سے مودی حکومت اس نفرت کی فصل کی آبیاری کر رہے ہیں وہ کسی دن لہلاتی کھیتی میں بدل سکتی ہے ۔ یہ بات قابل غور ہے کہ کسی بھی سماج میں انتہا پسند گروپس کی اگر ابتداء ہی میں سرکوبی نہیں کی گئی تو وہ اپنی طاقت کے بل بوتے پر پروان چڑھنے لگتے ہیں ۔ افغانستان میں طالبان و القاعدہ یا دوسرے ممالک میں بوکو حرم ، عراق میں داعش ، انتہا پسندی کے عروج کی اعلیٰ مثالیں ہیں۔ خود ہمارے ملک میں نکسلائٹس کی تحریک گزشتہ تقریباً نصف صدی سے پروان چڑھتی رہی اور آج ملک کی یکجہتی کے سب سے بڑا خطرہ بن گئی ہے ۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ اس تحر یک کے نقصاندہ ہونے کے اسباب پر پوری دیانت داری سے کبھی  غور نہیں کیا گیا ۔ آج ہندوتوا کے پرزور حامی ملک کو ہندو دیش بنانے کے در پہ ہیں اور ان کی سرکوبی سے حکومت گریز کر رہی ہے تو آئندہ یہ عناصر اتنے طاقتور ہوجائیں گے کہ ان پر قابو پانا مشکل ہوجائے گا ۔ وقت کبھی رکتا نہیں بروقت اور برمحل کارروائی سے منہ توڑنا کسی فعال حکومت کا شیوا نہیں۔ بدبختی کی بات یہ ہے کہ موجودہ حکومت اور اس کے اہم کل پرزے خود اس عدم تحمل پسندی کی فضاء کو بڑھاوا دے رہے ہیں ۔ اگر آج ان کو صحیح مقام نہ بتایا گیا تو کل وہ حکومت کی اس دانستہ غفلت سے بھرپور فائدہ اٹھانے کیلئے خدانخواستہ کمر کس لیں گے ۔ ابھی عدم تحمل پسندی تحریک نہیں بن سکی کیونکہ جو سیکولر عناصر جو آج حکومت میں شامل تھیں ہیں ، وہ اس کی مدافعت کر رہے ہیں جس کی تازہ اور حوصلہ افزاء مثال بہار اسمبلی کے انتخابی نتائج سے ملتی ہے جہاں ہندوتوا کی نمائندہ طاقتوں کو شرمناک  شکست ہوئی ۔ ابھی ملک میں سیکولر طاقتیں ختم نہیں ہوئی ہیں۔ البتہ موجودہ حالات میں یہ کہا جاسکتا ہے کہ وہ کمزور ہوگئی ہیں اور ان میں اپنی پسپائی کا احساس کسی نہ کسی حد تک پیدا ہوگیا ہے ۔ اس  پسپائی کے احساس کو defeatist tendency کو بہار کے انتخابی نتائج نے بڑی حد تک کم کردیا ہے ۔ ان طاقتوںکو مزید متحد ہونے پڑے گا۔ اپنی صفوں میں اتحاد پیدا کرنا پڑے گا۔ فرقہ پرست طاقتیں اپنی زور آزمائی کرچکیں ، اب سیکولر طاقتوں کو پھر ایک بار طاقت آزمائی کرنی ہے ۔ ملک اس وقت دوراہے پر کھڑا ہے ۔ یہ فیصلہ ہونے کو ہے کہ ہم روادار رہیں گے یا تنگ نظر رہیں گے ۔ اس کشمکش میں مبتلا ہندوستان پر ہر کسی کی نظریں لگی ہوئی ہیں۔ ساری دنیا کہہ رہی ہے کہ ہندوستان سے رواداری ختم ہورہی ہے ۔ صرف حکمراں طبقہ کا دعویٰ ہے کہ عدم تحمل پسندی کا ہندوستان میں کوئی وجود نہیں ہے ۔ مسلم فنکاروں کو محض اس لئے ’’سانپ‘‘ کہا جارہا ہے کہ وہ برائے نام ہی سہی مسلمان ہے ۔ شیوسینا کے ایک لیڈر نے باضابطہ نام لیکر کہا ہے کہ مسلم اداکار سانپ کے مانند ہیں۔ وزیراعظم مودی نے گجرات فسادات کے بعد مسلمانوں کو کتا کہا تھا۔ جس ملک میں مسلمانوں نے ناقابل قیاس خدمات انجام دیں جن مسلمانوں نے ملک کی تہذیب ، ثقافت اور تمدن کو سنوارا انہیں سانپ  یا کتا کہنا اگر عدم رواداری نہیں تو اور کیا چیز عدم رواداری کا نام پاسکتی ہے ۔ ماضی میں رواداری کو ہندوستان کا ہر شہری اپنی وطنیت کا معیار سمجھتا تھا ۔ اس کو ایک عقیدہ کی طرح عزیز رکھتا تھا۔ اس کا تحفظ کیا کرتا تھا لیکن آج تحمل پسندی کے فقدان کی وجہ سے ملک میں یہی مسلمان نفرت کا نشانہ بنایا جارہا ہے ۔ اس کے باوجود مودی حکومت یہ بالکل بے بنیاد دعویٰ کر رہی ہے کہ ملک میں عدم تحمل پسندی ، عدم رواداری کا کوئی وجود نہیں ہے۔