پچیس سال بعد ایس پی اور بی ایس پی کے درمیان اتحاد ‘ بی جے پی کھیل بگاڑسکتا ہے۔

لکھنو۔پچیس سال قبل بی جے پی کی ایودھیا تحریک کو سبوتاج کرنے کے لئے ملائم سنگھ یادو اور کانشی رام نے ہاتھ ملایاتھا‘ اب ایس پی بانی کے بیٹے اکھیلیش یادو اور دلت کی پہچان مایاوتی نے 2014اور 2017کے انتخابات میں اپوزیشن کو حاشیہ پر لانے والے مودتوا کے خلاف اتحاد قائم کیا ہے۔

حساب کتاب کوادھاکرسکتا ہے ‘ ٹی او ائی کے ڈاٹا سے برآمد نتائج سے ظاہر ہے کہ سال2014کے لوک سبھا الیکشن میں ووٹنگ کا طریقہ کار ایسا ہی رہتاتو ایس پی بی ایس پی کا اتحاد بی جے پی کے حساب کتاب کوادھاکرسکتا ہے ۔

تاہم کانگریس کو بھی اس اتحاد میں شامل کیاجاتاتو مذکورہ پچیس سالہ ایس پی بی ایس پی اتحاد کو 80لوک سبھا سیٹوں پر اثر انداز ہونے کا موقع مل جاتا ۔

سال2014میں بی جے پی نے 80میں سے 71سیٹوں پر جیت حاصل کی تھی‘ اپنا دل کو دو‘ ایس پی کو پانچ اور کانگریس نے دوپر جیت حاصل کی تھی جبکہ بی ایس پی اپنا کھاتا کھولنے سے بھی قاصر رہی ۔

اتنا ہی نہیں بی جے پی اور اپنا دل کا 2014میں ووٹ شیئر43.63فیصد رہا جو ایس پی بی ایس پی کے ووٹ شیئر42.12فیصد سے کافی زیادہ تھا‘ باریکی کے ساتھ لئے گئے جائزہ میں اس بات کا انکشاف ہوتا ہے کہ ایس پی اور بی ایس پی کو ملے ووٹوں میں 41حلقہ جات میں انہیں بی جے پی سبقت حاصل ہے۔اگر امکانی طور پر اتحاد میں شامل ہونے کی توقع والی آر ایل ڈی کو بھی شامل کرلیاجائے تو ‘ یہ تعداد 42سیٹوں تک پہنچ سکتی ہے۔

سیاسی جانکاری کہتے ہیں انتخابی نتائج حساب کتاب کی بنیاد پر اندازہ نہیں کئے جاسکتے ۔ بڑے پیمانے پر نتائج کاانحصار ان مسائل پر ہوتا ہے جس کے لئے لوگ ووٹ دیتے ہیں۔سال2014میں کانگریس کی زیرقیادت یوپی اے حکومت کے خلاف بڑی پیمانے پر مخالف عوام لہر تھی اور لوگ چاہتے تھے کہ ایک پارٹی کے تحت مستحکم حکومت بنے۔

سال2019کا اہم موضوع مودی کا مظاہرہ ہوگا۔کامیاب اتحاد کا انحصار ان پارٹیوں پر ہوتا ہے جو اپنی ووٹ بینک کو ساتھی پارٹی کے امیدوار کے لئے منتقل کرے۔سیاسی مبصردیپک کبیر نے کہاکہ’’ ایس پی کے ساتھ مسلم او ریادو ووٹروں کی بڑی تعداد ہے‘ وہیں بی ایس پی کی بنیاد دلت ہیں۔

لہذا مسلمانوں کے لئے اتحاد پہلی ترجیح ہوگا ‘ کئی یادو ایس پی کے وفادار ہیں مگر وہ بی ایس پی کو پسند نہیں کرتے او روہ بی جے پی کے حق میں ووٹ کریں گے‘‘۔

تاہم بعض جانکاری 1993کے اسمبلی الیکشن کا حوالہ دیے رہے ہیں جس میں ایس پی اور بی ایس پی نے متحدہ طور پرالیکشن لڑا اور ایک دوسرے کو اپناووٹ بینک منتقل کرنے میں کامیاب رہے ۔

اس وقت ریاست ایس پی ‘ بی ایس پی اتحا اور بی جے پی نے مساوی سیٹوں پر جیت حاصل کی۔ بی جے پی نے177سیٹوں پر جیت حاصل کی اور ایس پی ‘ بی ایس پی نے 176سیٹوں پر جیت حاصل کی تھی۔

تاہم ٹھیک اسی طرح کا اتحاد بی ایس پی کانگریس اور ایس پی کانگریس کا 1996اور2017میں اثر اندازہونے میں ناکام رہا۔ یہی ایک وجہہ ہے کہ مذکورہ دو علاقائی جماعتیں ملک کی قدیم سیاسی پارٹی سے ہاتھ ملانے سے کترا رہے ہیں۔