پپوسے پاپا بن چکے راہول کا اب مودی سے راست مقابلہ

اشوک مہتا
نریندرمودی کے  ناقابل تسخیر سمجھے جانے والے قلعہ کی پہلی اینٹ سب سے پہلے راجیہ سبھا کے انتخاب کے وقت احمد پٹیل نے گرائی تھی، وہاں سے جو بی جے پی کی شکست یا اگر یوں کہا جائے تو کچھ غلط نہیں ہوگا کہ مقبولیت میں گراوٹ کا جو سلسلہ شروع  ہوا تھا وہ گجرات سے ہوتا ہوا کرناٹک اور پھر وہاں سے مدھیہ پردیش، چھتیس گڑھ اور راجستھان پہنچا ہے، امید ہے کہ اس کی آخری منزل پارلیمانی انتخاب ہوںگی۔ حالیہ انتخابی نتائج کی سب سے بڑی خوبی اور خاصیت یہ ہے کہ ان ریاستوں میں کانگریس کو کامیابی ملی ہے جہاں مسلم ووٹروں کا کوئی اہم کردار نہیں تھا۔ یعنی بی جے پی کی جارحانہ ہندوتوا سیاست کو ملک کے ہندوؤں نے ہی مسترد کر دیا ہے۔ خاص کر چھتیس گڑھ میں جہاں مسلم آبادی بمشکل دو یا تین فیصدی ہوگی وہاں بی جے پی کو سب سے شرمناک شکست ہوئی ہے، جس کی کسی کو بھی توقع نہیں تھی۔ جس دن نتائج کا اعلان ہوا وہ راہول گاندھی کی کانگریس صدارت سنبھالنے کی پہلی سالگرہ تھی، یقینی طور سے انھیں اس موقع پر اس سے بہتر تحفہ اور کچھ نہیں ہو سکتا۔ کئی بار کہا جا چکا ہے کہ جن نا مساعد حالات میں راہول گاندھی نے کانگریس کی صدارت سنبھالی ہے اتنے خراب حالات میں کانگریس کے کسی صدر نے نہ آزادی سے پہلے اور نہ آزادی کے بعد یہ ذمہ داری سنبھالی تھی 2014 کی شکست فاش کے بعد پارٹی کے دوبارہ کھڑے ہو سکنے کے امکانات پر تمام سیاسی مبصرین سوال اٹھا رہے تھے۔ سابق کانگریس صدرسونیا گاندھی کی گرتی صحت بھی تشویش کا سبب بنی ہوئی تھی ۔ نریندر مودی ان کی حکومت ان کی پارٹی میڈیا اور سنگھ پریوارکی پروپیگنڈہ مشینری پوری طاقت سے ہندوستان کو ’کانگریس مکت‘ بنانے کی مہم میں لگی تھی۔ راہول گاندھی کی کردار کشی کے تمام حربے استعمال کئے جا رہے تھے انھیں غیر پختہ نا سمجھ غیر سنجیدہ ثابت کرنے پر پوری طاقت صرف کی جا رہی تھی، یہ بات عام طور سے کہی جا رہی تھی کہ راہول گاندھی کی کردار کشی پر سنگھ پریوار نے قریب پانچ سوکروڑ روپیہ خرچ کیا ہے۔ ریاستی اسمبلی انتخابات میں کانگریس کی پے در پے شکست سے کانگریس بے حال تھی ۔ نریندر مودی کی مقبولیت کا سورج عروج پر تھا ۔ نوٹ بندی اور جی ایس ٹی جیسے احمقانہ فیصلوں کے باوجود انھیں چہارسوکامیابیاں مل رہی تھیں، اتنے نامساعد حالت کے باوجود راہول گاندھی کے پائے استقامت میں لغزش تک نہیں آئی اور وہ اپنے مشن میں لگے رہے، آج انھیں پپو کہنے والے انھیں پاپا کہنے لگے ہیں۔گجرات اسمبلی انتخابات میں راہول گاندھی کی قیادت میںکانگریس نے پہلی مرتبہ بی جے پی سے سخت پنجہ آزمائی کی اور تقریباً جیتتے جیتتے ہاری، کرناٹک میں بھی کانگریس نے بی جے پی کو کڑی ٹکر دی اور جب مطلوبہ نتیجہ نہیں ملا تو بڑی پارٹی ہونے کے باوجود دوسری سیکولر پارٹی کی حکومت بنواکر پورے ملک کو یہ پیغام دے دیا کہ اس کا اصل نشانہ صرف اور صرف بی جے پی ہی ہے۔ راہول گاندھی کے اس فیصلہ کو پورے ملک میں زبردست پزیرائی حاصل ہوئی اور ان کی قائدانہ صلاحیت اور مقصد کے تئیں سنجیدگی کو سب نے سراہا۔ اس کے باوجود بھی ان تین ریاستوں کے انتخابات راہول گاندھی کی قیادت کے سخت امتحان تھے اگر ان میں ناکامی ہوتی تو کانگریس اور راہول گاندھی دونوں کے وجود پر سوالیہ نشان لگ جاتے لیکن مدھیہ پردیش میں جیوترادتیہ سندھیا راجستھان میں سچن پائلٹ اور چھتیس گڑھ میں بھوپیش بگھیل نے زمینی سطح پر جو محنت کی اور انتخابی مہم میں راہول گاندھی نے جو قائدانہ صلاحیت دکھائی اس کا نتیجہ سب کے سامنے ہے۔کانگریس کے اس کامیاب مارچ کو روکنے کے لئے مایاوتی کی بی ایس پی ہی نہیں اکھلیش یادو کی سماج وادی پارٹی نے بھی کافی کوشش کی، لیکن وہ اپنے مقصد میں کامیاب نہیں ہو سکے کیونکہ تینوں ریاستوں کے ووٹر ان کا کھیل سمجھ چکے تھے، ان دونوں کا مقصد تینوں ریاستوں میںکانگریس کو کمزور کر کے اترپردیش کی سیاست سے بے دخل کرنا تھا لیکن بازی پلٹ گئی اب اتر پردیش میں کانگریس اپنے مضبوط موقف سے ان پارٹیوں سے سودے بازی کر سکتی ہے۔اس کامیابی نے راہول گاندھی کو نریندر مودی سے سیدھی ٹکر لینے والے کمانڈر کے طور پر کھڑا کر دیا ہے اور سنگھ پریوار کے اس پروپیگندہ کی ہوا نکل گئی کہ مودی کے مقابلہ پرکوئی نہیں ہے، اب ممکنہ حلیفوں کے درمیان بھی ان کی مقبولیت بڑھے گی اور ہر ریاست میں کانگریس مستحکم موقف سے حلیفوں سے نشتوں پر سمجھوتے کی بات چیت کر سکے گی۔ ویسے سیاسی مبصرین سینئر صحافیوں اور سماج کے ایک بڑے طبقہ کا خیال ہے کہ اتر پردیش میں کانگریس اکیلے دم پر بیس تا بائیس سیٹیں حاصل کرسکتی ہے کیونکہ اب کارکنوں کے حوصلہ بلند ہیں اور وہ ناممکن کو ممکن کر دکھا سکتے ہیں۔ اترپردیش ریاستی کانگریس کمیٹی کے دفتر پر سینئر اور نوجوان کارکنوں نے گفتگو کے دوران کہا کہ سمجھوتہ کرنے سے کارکنوں کے حوصلہ پست ہوں گے کیونکہ اب تک سمجھوتوں کی وجہ سے ہی پارٹی کو اتر پردیش میں اتنے برے دن دیکھنے پڑے ہیں۔