پٹرول اور روپیہ مودی حکومت کو لے ڈوبے گا

محمد ریاض احمد

’’ پٹرول و ڈیزل کی قیمتوں میں اضافہ سے کانگریس کی زیر قیادت یو پی اے حکومت کی ناکامی کا اظہار ہوتا ہے اس اضافہ سے گجراتیوں پر بوجھ بڑھے گا ‘‘۔ یہ الفاظ نریندر مودی نے اس وقت کہے تھے جب مرکز میں ڈاکٹر منموہن سنگھ کی زیر قیادت یو پی اے حکومت تھی اور ریاست گجرات میں حکومت کی باگ ڈور مودی کے ہاتھوں میں تھی۔ انہوں نے اُس وقت کے وزیر اعظم ڈاکٹر منموہن سنگھ پر یہ کہتے ہوئے بھی طنز کیا تھا کہ ’’ سردارہے اثر دار نہیں ‘‘ مودی کی طرح بی جے پی قائدین نے بھی یہ کہتے ہوئے پٹرول کی قیمتوں میں اضافہ پر برہمی ظاہر کی تھی کہ پٹرول ؍ ڈیزل کی قیمتوں میں اضافہ اور ڈالر کے مقابلہ روپئے کی قدر میں کمی کا رجحان یو پی اے حکومت کی غلط پالیسیوں کا نتیجہ ہے۔ اب سوال پیدا ہورہا ہے کہ اگر مودی حکومت میں پٹرول کی قیمتیں بڑھتی ہیں، روپیہ کی قدر گھٹتی ہے تو کیا وہ اُس کی ناکام پالیسیوں کو ظاہر نہیں کرتی۔ کیا اس بے تحاشہ اضافہ کیلئے مودی حکومت کی غلط پالیسیاں ذمہ دار نہیں ہیں ؟ آج ہندوستان میں پٹرول کی قیمت 89 روپئے فی لیٹر اور ڈیزل کی قیمت تقریباً 78 روپئے فی لیٹر ہوگئی ہے۔ اس بات کا پورا پورا امکان ہے کہ آنے والے دنوں میں پٹرول فی لیٹر 100 روپئے اور ڈیزل 90 تا 95 روپئے فی لیٹر فروخت کیا جائے گا اور اس مہنگائی بلکہ بدترین مہنگائی کا کریڈٹ ہمارے وزیر اعظم مودی جی اور ان کی ٹیم کو جائے گا ۔ اگر گزشتہ چار ساڑھے چار برسوں کے ہندوستان پر ایک طائرانہ نظر ڈالی جائے تو بخوبی اندازہ ہوگا کہ ہمارے وطن عزیز میں فرقہ پرست درندوں، انگریزوں کی دلالی ومخبری کرنے والوں کی نسل نے صرف اور صرف لوگوں کو مذہب کے نام پر تقسیم کرنے کی کوشش کی ہے۔ جانوروں کے تحفظ کے بہانے بے بس و بے قصور انسانوں کا خون بہایا ہے۔
ملک کی ترقی، خوشحالی ، معاشی نمو، صحت عامہ، تعلیم جیسے اہم اُمور پر کوئی توجہ نہیں دی گئی ہے۔ ہمارے وطن عزیز میں آج بھی 15تا49 سال عمر کی 51 فیصد خواتین ایسی ہیں جو خون کی شدید کمی کا شکار ہیں خون کی کمی کا شکار حاملہ کے پیٹ میں پل رہے بچے پیدا ہوتے ہی فوت ہوجاتے ہیں۔ ملک کے کئی گاؤں اور دیہات ایسے ہیں جہاں اس ترقی یافتہ دور میں بھی اسکولس و کالجس نہیں ہیں۔ طلباء و طالبات کو حصول علم کیلئے کئی کلو میٹر فاصلے پر واقع اسکولس اور کالجس جانا پڑتا ہے۔ متعدد علاقوں میں عوام کو طبی سہولتیں فراہم نہیں ہیں۔ حد تو یہ ہے کہ ہنگامی حالات میں بیماروں اورزخمیوں کو اسپتال منتقلی کیلئے ایمبولنس دستیاب نہیں۔ یہاں تک کہ غربت کا حال یہ ہے کہ کسی غریب شوہر کو اپنی بیوی، مفلس و لاچار باپ کو اپنی بیٹی یا بیٹے کی نعشیں اپنے کندھوں پر اٹھائے پیدل جانا پڑتا ہے۔ ان سنگین حالات میں بہتری لانے کی بجائے مودی جی کی حکومت نے گجرات میں ملک کے پہلے وزیر داخلہ سردار پٹیل کا بلند قامت مجسمہ تیار اور نصب کروایا ہے۔ 182 میٹر (595.14 فٹ ) بلند اس مجسمہ کی وزیر اعظم مودی 31 اکٹوبر کو رونمائی انجام دینے والے ہیں۔آپ کو یہ جان کر حیرت ہوگی کہ اس مجسمہ کی تعمیر پر29.9 ارب روپئے ( 430 ملین امریکی ڈالرس ) کے مصارف آئے ہیں۔ اس طرح مہاراشٹرا میں 300 کروڑ روپئے سے زائد سے شیواجی کا مجسمہ منظر عام پر لایا جارہا ہے۔ اگر ان دونوں مجسموں کی تنصیب پر آنے والی مجموعی لاگت 900 ملین ڈالرس تعلیم اور صحت کے شعبہ میں خرچ کی جاتی تو ہزاروں میں اسکولس اور اسپتالوں کی تعمیر عمل میں لائی جاسکتی تھی۔بہر حال ہم بات کررہے تھے پٹرول اور ڈیزل کی قیمتوں میں مسلسل اضافہ کی، آپ کو بتادیں کہ پچھلے دیڑھ ماہ سے ایندھن کی قیمتوں میں مسلسل اضافہ کیا جارہا ہے۔

حال ہی میں کانگریس کی زیر قیادت 21سے زائد اپوزیشن جماعتوں نے ایندھن کی قیمتوں میں اضافہ کے خلاف بھارت بند مناتے ہوئے حکومت کو یہ احساس دلانے کی کوشش کی ہے کہ پٹرول، ڈیزل کی قیمتوں میں اضافہ سے مکیش امبانی، انیل امبانی، گوتم اڈانی، امیت شاہ یا ان کے فرزند جے شاہ پر کوئی اثر نہیں پڑے گا بلکہ عام ہندوستانی متاثر ہوں گے کیونکہ ایندھن کی قیمتوں میں اضافہ سے اشیائے ضروریہ کی قیمتیں بھی آسمان کو چھونے لگتی ہیں۔ ان اپوزیشن جماعتوں نے بھارت بند کے ذریعہ مودی جی اور ان کی ٹیم کو یہ بھی یاد دلایا ہے کہ آج عوام مہنگائی کے باعث خون کے آنسو رو رہے ہیں کل یعنی عام انتخابات میں یہ بڑھتی قیمتیں مودی اور بی جے پی قائدین کو رونے پر مجبور کردیں گی۔ اپوزیشن کے بھارت بند نے مودی حکومت کو یہ بھی احساس دلادیا ہے کہ زیادہ عرصہ تک عوام کا مذہبی استحصال نہیں کیا جاسکتا بلکہ عوام روٹی، کپڑا اور مکان مانگتے ہیں۔ دلفریب اور کھوکھلے نعروں بلکہ جملہ بازی کے ذریعہ وقتی فائدہ تو حاصل کیا جاسکتا ہے لیکن عوام کے دل نہیں جیتے جاسکتے۔ عوام کو حیرت اس بات پر ہے کہ مودی اور ان کی حکومت عوام کے مصائب میں مسلسل اضافہ کرتے ہوئے کس قدر سکون سے اپنے خفیہ ایجنڈہ پر عمل پیرا ہے۔ مودی حکومت نے پٹرول اور ڈیزل کی قیمتوں کے معاملہ میں عوام پر یہ ظلم کیا کہ آئیل کمپنیوں کو روز کی بنیاد پر قیمتوں کے تعین کا اختیار دے دیا جو ہر روز ایندھن کی قیمت میں اضافہ کرتی جارہی ہیں۔ اگر دیکھا جائے تو ڈیزل اور پٹرول کی قیمتوں میں نصف سے زیادہ کمی کی گنجائش پائی جاتی ہے لیکن مودی حکومت نے ایسا لگ رہا ہے کہ عوام کو کسی قسم کی راحت فراہم نہ کرنے کی قسم کھارکھی ہے۔ اُسے شائد اندازہ ہوگیا کہ اس ملک میں عوام کا مذہبی استحصال بآسانی کیا جاسکتا ہے اور مذہب کے نام پر انگریزوں کی طرح ہندوستانیوں میں پھوٹ ڈالکر اقتدار حاصل کیا جاسکتا ہے۔ یعنی ہندوستانیوں کو بے وقوف بنانا کوئی بڑی بات یا مشکل کام نہیں ہے۔ آپ کو جان کر حیرت ہوگی کہ پٹرول اور ڈیزل کی قیمتوں میں اضافہ کی سب سے اہم وجہ سنٹرل اکسائیز ٹیکس ( یہ ٹیکس مرکزی حکومت عائد اور حاصل کرتی ہے) اور ویاٹ ( اضافی قدر ٹیکس‘ یہ ٹیکس ریاستی حکومتیں عائد کرتی ہیں) ہیں۔ اگر اکسائیز ڈیوٹی اور ریاستوں کی جانب سے پٹرول و ڈیزل پر ویاٹ (اضافی قدر ٹیکس ختم کرتے ہوئے اسے جی ایس ٹی کے دائرہ کار میں لایا جاتا ہے تو پٹرول تقریباً 44 روپئے فی لیٹر اور ڈیزل 41 روپئے فی لیٹر فروخت کیا جاسکتا ہے لیکن مرکزی حکومت سنٹرل اکسائیز ڈیوٹی اور ریاستیں ویاٹ ہٹانے سے انکار کر رہی ہے۔ ممبئی میں پٹرول پر سب سے زیادہ ویاٹ 39.12 فیصد وصول کیا جاتا ہے جبکہ ڈیزل پر ویاٹ کے معاملہ میں تلنگانہ آگے ہے۔ تلنگانہ میں ڈیزل پر 26 فیصد ویاٹ عائد کیا گیا ہے ۔ دہلی میں پٹرول پر 27 فیصد اور ڈیزل پر 17.2 فیصد ویاٹ عائد کیا گیا ہے۔ جہاں تک مرکز کی سنٹرل اکسائیز ڈیوٹی کا سوال ہے ، اس نے پٹرول پر 19.48 روپئے اور ڈیزل پر فی لیٹر 15.33 روپئے اکسائیز ڈیوٹی عائد کر رکھی ہے۔ وہ اکسائیز ڈیوٹی برخواست کرنے سے گریز کر رہا ہے۔ ایسے میں اپوزیشن کیلئے مودی حکومت کو گھیرنے کا اچھا موقع ہے۔ عالمی سطح پر خام تیل کی قیمت 78 ڈالر فی بیارل ہونے کے باوجود مودی حکومت عوام کو کسی بھی قسم کی راحت فراہم کرنے کیلئے تیار نہیں ہے۔ حالانکہ مودی کے اقتدار پر آنے کے بعد سے عالمی سطح پر کروڈ آئیل کی قیمت 144 سے 78 ڈالر فی بیارل ہوگئی اور ایک ایسا بھی مرحلہ آیا تھا جب تیل کی قیمتیں گھٹ کر 29 ڈالر فی بیارل ہوگئی تھی ، اس کے باوجود مودی نے پٹرول اور ڈیزل کی قیمتوں میں کمی نہیں کی ۔ اس نے چار ساڑھے چار سال کے دوران 11لاکھ کروڑ روپئے کا فائدہ حاصل کیا۔ 2014 ء تا 2017 مودی حکومت نے پٹرول اور ڈیزل پر 12 مرتبہ ایکسائیز ڈیوٹی پر اضافہ کیا ۔ پٹرولیم پلاننگ اینڈ انالائسیس سیل (پی پی اے سی) کے ڈاٹا کا جائزہ لینے پر پتہ چلتا ہے کہ پٹرول پر اکسائیز ڈیوٹی 54 فیصد تک بڑھ گئی ہے۔ جنوبی ایشیاء میں ہندوستان وہ واحد ملک ہے جہاں پٹرول و ڈیزل کی ریٹیل قیمتیں سب سے زیادہ ہے۔ دوسری طرف ڈالر کے مقابلہ ہندوستانی روپئے کی قدر میں بھی مسلسل گراوٹ آ رہی ہے ، اس کا بھی بوجھ شائد مودی حکومت ہمیشہ کی طرح عوام پر ڈال دے۔ بہرحال آنے والے دنوں میں مہنگائی خاص طور پر اشیائے ضروریہ کی قیمتیں آسمان کو چھو سکتی ہے۔
mriyaz2002@yahoo.com