پٹرولیم اشیاء کا بحران

ایم جی ارون
مرکزی حکومت مشکل میں پھنسی معلوم ہوتی ہے۔ کیا وہ عوامی برہمی کو ماند کرنے کیلئے فیول کی قیمت میں قابل لحاظ کٹوتیاں کرنے کی متحمل ہوسکتی ہے؟ کیا وہ متحمل ہوسکتی ہے کہ خاصی آمدنی سے محروم ہوجائے اور انتخابات سے قبل کی مدت میں اپنے سوشل سیکٹر کے پروگراموں کو جوکھم پر ڈال دے؟ کیا اس کے پاس کوئی متبادل راستے ہیں؟ قارئین کرام! آئیے ان سوالات کا جواب تلاش کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔
ماضی قریب کی بات ہے کہ مرکزی وزیر برائے تیل اور گیس دھرمیندر پردھان کے چہرے پر فکرمندی کے آثار نمایاں نظر آئے جب انھوں نے وزارت کے عہدیداروں اور ہندوستان کی عوامی شعبہ کی تیل کمپنیوں کی اعلیٰ قیادت کے ساتھ نئی دہلی میں ایمرجنسی میٹنگ طلب کی تھی۔ پٹرولیم اشیاء کی قیمتوں کے تعلق سے عوامی برہمی بڑھ رہی ہے، جو اگرچہ فی الحال ملک کے بعض گوشوں اور سوشل میڈیا پر ہی نمایاں دکھائی دے رہی ہے، اور اپوزیشن کی طرف سے شدید تنقیدیں ہورہی ہیں کہ حکومت فیول کی قیمتوں پر قابو پانے سے قاصر ہے جو گزشتہ چند ہفتوں بلکہ مہینوں میں تاریخی بلندیوں تک پہنچ چکی ہیں اور پوری زندگی مہنگی ہوجانے کے خدشات بڑھ چکے ہیں۔ یہ بلاشبہ نریندر مودی حکومت کیلئے حکمرانی کی میعاد کے اپنے آخری سال میں کافی الجھن کا معاملہ بن چکا ہے۔ لیکن ہنگامی اجلاس جو نصف شب کے آگے تک چلا، کوئی حل نہیں پیش کرپایا۔
پٹرول اور ڈیزل کی قیمتیں 3 جون کو ممبئی میں فی لیٹر ترتیب وار 86 روپئے اور 74 روپئے درج ہوئیں، اور دہلی میں 78 روپئے اور 73.58 روپئے؛ جبکہ مئی 2016ء میں یہی قیمتیں ممبئی میں 66.12 روپئے اور 56.81 روپئے اور دہلی میں 63 روپئے اور 51.67 روپئے تھیں۔ ایمرجنسی میٹنگ میں یوں تو مختلف امکانات پر غوروخوض کیا گیا جیسا کہ فیول پر اکسائز شرحوں میں کٹوتی کرنا، ریاستوں کو ٹیکسوں میں کمی کرنے کی ترغیب دینا، تیل کمپنیوں کو کہنا کہ قیمتوں میں اضافے کے بوجھ کا کچھ حصہ برداشت کریں، اور حتیٰ کہ قیمتوں کے تعین کی متغیر پالیسی پر گہرائی سے نظرثانی کرنا جسے خود پردھان نے جون 2017ء میں متعارف کرایا جس کے تحت ایندھن کی قیمتیں روزانہ کی اساس پر عالمی منڈی میں قیمت کی تبدیلیوں کے ساتھ مطابقت میں طے کی جاتی ہیں … یہ سب کچھ ہوا مگر کوئی فیصلہ نہیں کیا گیا۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ وزیر موصوف کو بہت کم اختیارات حاصل ہیں کہ وہ اس مرحلے پر ان کا استعمال کرسکیں جبکہ حکومت کو نازک مالی صورتحال سے نمٹنا ہے جس میں آئندہ جنرل الیکشن سے قبل اپنے متعدد سوشل پروگراموں کیلئے فنڈز کی فراہمی کو یقینی بنانا ہے۔ لیکن ساتھ ہی وہ متحمل بھی نہیں ہوسکتی کہ ایندھن کی قیمتوں کو یونہی شمال کی سمت میں اپنا سفر جاری رکھنے دیا جائے اور عوام کو ایسا دکھائی دے کہ وہ اس تعلق سے کچھ نہیں کررہی ہے۔
ملک کے سب سے بڑے سرکاری ملکیتی انڈین آئیل کارپوریشن (آئی او سی) نے 30 مئی کو 1 پیسہ کی حقیر کٹوتی کی، جس پر مرکز کو شدید ترین تنقیدوں کو نشانہ بننا پڑا۔ صدر کانگریس راہول گاندھی نے ٹویٹ کیا، ’’ڈیئر پی ایم، آپ نے پٹرول اور ڈیزل کی قیمت میں آج 1 پیسہ کی کٹوتی کردی۔ ایک پیسہ !؟ اگر یہ آپ کا عملاً مذاق کا انداز ہے تو یہ بہت بچکانہ اور کافی گھٹیاپن ہے‘‘۔ جہاں حکومت نے فوری وضاحت کردی کہ 1 پیسہ کی کٹوتی تکنیکی خامی کا شاخسانہ ہوا، وہیں فیول کی قیمتوں میں حالیہ دنوں میں صرف برائے نام کمی آئی ہے، بعض اوقات ایک دن میں 9 پیسے ، اور دیگر موقعوں پر 7 پیسے تک معمولی قدر کی کٹوتی ہوئی ہے۔ صارفین کی برہمی اس لئے ہے کہ ایندھن کی قیمتیں بدستور اونچی ہیں حالانکہ خام تیل کی قیمتوں میں عالمی سطح پر نرمی آئی ہے۔ سپٹمبر 2014ء اور جنوری 2016ء کے درمیان خام تیل کی قیمتیں 66 ڈالر گھٹ کر $30 ہوئیں لیکن ہندوستان میں پٹرول کی قیمتیں صرف 10 روپئے کم کی گئیں۔ پھر وہ دوبارہ بڑھنا شروع ہوگئیں اور ریکارڈ اونچائیوں کو چھورہی ہیں۔ دلچسپ بات ہے کہ وسط مئی میں کرناٹک اسمبلی انتخابات سے قبل کی مدت میں 19 دنوں تک فیول کی قیمتیں غیرمتبدلہ رکھی گئیں، لیکن اس کے فوری بعد بڑھنا شروع ہوگئیں۔ تاہم، حکومت تردید کرتی ہے کہ وہ رائے دہندوں کی خوشامد کیلئے فیول کی قیمتوں کے تعین میں مداخلت کررہی ہے۔ دریں اثناء آئی او سی نے کہا کہ وہ پٹرول اور ڈیزل کی چلر قیمت فروخت طے کرنے میں آزادی سے کام کرتا ہے جبکہ یہ سلسلہ پٹرول اور ڈیزل کی قیمتوں کے معاملے میں ترتیب وار جون 2010ء اور اکٹوبر 2014ء میں شروع ہوا جب اسے سرکاری کنٹرول سے آزاد کردیا گیا۔

ایندھن کی اونچی قیمتوں کا ٹرانسپورٹیشن کی لاگتوں پر بھی بہت زیادہ منفی اثر پڑتا ہے۔ ریسرچ فرم ڈون اینڈ براڈسٹریٹ کے مطابق ہندوستان میں ایندھن کی اب تک کی اونچی قیمتوں کا دیگر شعبوں پر بھی اثر پڑنے کا اندیشہ ہے اور اس کی وجہ سے افراط زر کی شرح بدستور اونچی رہے گی، چاہے رواں سال مانسون اطمینان بخش کیوں نہ رہے۔ یہ تخمینہ ہے کہ مختلف اشیاء اور خدمات کی اوسط قیمتوں پر مبنی کنزیومر پرائس انفلیشن 4.6-4.7 کی اونچی رینج میں رہنے کا اندیشہ ہے حالانکہ ریزرو بینک آف انڈیا (آر بی آئی) شرح افراط زر کو 4 فیصد سے کمتر رکھنے کی کوششوں میں مصروف ہے۔ روپیہ کا حال بھی بُرا ہے جیسا کہ رواں سال ایشیا میں بدترین مظاہرہ کرنے والی کرنسی ہندوستانی روپیہ ہے جو ڈالر کے مقابل زائد از 5 فیصد گرگیا ہے، جس کے نتیجے میں حکومت اور آر بی آئی کی پریشانیاں بڑھتی جارہی ہیں۔
تیل کی قیمتیں آخر کس طرح اتنی اونچی سطح تک بڑھ گئیں اور حکومت کی منصوبہ بندی چوپٹ کردی ہے؟ ہندوستان جیسے فیول کے استعمال کے عادی ملک کیلئے (یہ تیل کی کھپت میں صرف امریکہ اور چین سے پیچھے ہے) جہاں دیسی پیداوارِ تیل 2016-17ء میں محض 36 ملین میٹرک ٹن رہی جبکہ ضرورت 195mt تھی، درآمدات ہی واحد راستہ ہے۔ انڈیا کو اپنے تیل کا 63 فیصد حصہ مغربی ایشیا سے حاصل ہوتا ہے، جس میں عراق نے گزشتہ سال ڈسمبر میں ہندوستان کے سب سے بڑے آئیل سپلائر کی حیثیت سے سعودی عرب کو پیچھے چھوڑ دیا ہے۔ ایران، ونیزویلا اور نائجیریا دیگر بڑے سپلائرز ہیں۔ توانائی سے متعلق حکومتی تجزیاتی ادارہ پٹرولیم پلاننگ اینڈ انالیسیس سل (PPAC) کے مطابق 2017-18ء میں ہندوستان نے 220mt خام تیل مالیتی 6.53 لاکھ کروڑ روپئے درآمد کیا۔ انڈیا کی مجموعی درآمدات 2017-18ء میں 27 لاکھ کروڑ روپئے کی رہیں۔ چنانچہ خام تیل کی اس قدر اونچی درآمدات ملک کو ارضی سیاسی جوکھموں کے معاملے میں کمزور بنادیتی ہیں۔ اگرچہ تیل کی قیمتیں گزشتہ سال سے بڑھ رہی تھیں لیکن تازہ اچھال کے ساتھ ماہ مئی میں $80 فی بیارل کی قیمت امریکی صدر ڈونالڈ ٹرمپ کی اُسی ماہ کے اوائل ایران نیوکلیر معاملت سے دستبرداری کی وجہ سے ہوئی۔

پٹرولیم اشیاء کی قیمتوں کے تعین کے سسٹم کا جائزہ لیتے ہیں: سرکاری زیرانتظام تیل کمپنیاں ایندھن اور دیگر پٹرولیم اشیاء کی درآمد گلوبل سپلائرز سے بولیوں کی طلبی کے ذریعے کرتی ہیں۔ اس کے بعد خام تیل کی پروسیسنگ ہندوستان میں پھیلی 23 آئیل ریفائنریز میں کی جاتی ہیں، جن میں سے 18 سرکاری ملکیتی ہیں (جن کا تعلق آئی او سی، بھارت پٹرولیم کارپوریشن اور ہندوستان پٹرولیم کارپوریشن سے ہے)، تین ریلائنس انڈسٹریز اینڈ ایسار آئیل کی پرائیویٹ ریفائنریز اور دو آئیل فرمس اور اوورسیز کمپنیوں کے درمیان جوائنٹ ونچرز ہیں۔ یہ سب مل کر سالانہ 234mt خام تیل ریفائن کرنے کی گنجائش رکھتے ہیں۔ بعدازاں ریفائنڈ فیول کو کمپنی ڈیلرز میں تقسیم کیا جاتا ہے اور زائد از 56,000 ریٹیل آؤٹ لٹس کے ذریعے فروخت کیا جاتا ہے۔ یہیں اس مرحلے پر فیول کی قیمتوں کے تعین سے گزرنا پڑتا ہے۔ مثال کے طور پر 3 جون کو دہلی میں فی لیٹر پٹرول کی قیمت کے مختلف اجزاء پر نظر ڈالتے ہیں: تیل کمپنیوں نے فیول کو پروسیسنگ کے بعد ڈیلروں کو 38.39 روپئے فی لیٹر فروخت کیا۔ پھر مرکز نے 19.48 روپئے کی اکسائز ڈیوٹی جوڑ دی، اس کے بعد 3.63 روپئے کا ڈیلر کمیشن ہوتا ہے۔ ریاست (دہلی) نے 16.61 روپئے کا ویاٹ جوڑ دیا (جس میں ڈیلر کمیشن پر ویاٹ بھی شامل ہے)، اس طرح قطعی چلر قیمت 78.11 فی لیٹر ہوگئی۔ مختصر یہ کہ مختلف سنٹرل اور اسٹیٹ گورنمنٹ ٹیکسیس پٹرول کی قیمت کے تقریباً 50 فیصد ہوتے ہیں۔ ڈیزل کے معاملے میں ڈیلرز سے ریفائنریز صرف 41.08 روپئے فی لیٹر وصول کرتے ہیں، لیکن 15.33 روپئے کی اکسائز ڈیوٹی اور 10.17 روپئے کا ویاٹ فی لیٹر جوڑا جاتا ہے، اور پھر 2.53 روپئے کے ڈیلر کمیشن کے ساتھ فی لیٹر ڈیزل کی قطعی لاگت 69.11 روپئے ہوجاتی ہے۔
مختلف رپورٹس کے مطابق مرکزی حکومت نے گزشتہ ساڑھے تین سال میں پٹرولیم اشیاء پر تقریباً 10 لاکھ کروڑ روپئے کمائے، جبکہ ریاستوں نے 6.6 لاکھ کروڑ روپئے بنائے۔ حکومت کا کہنا ہے کہ اس رقم سے اسے سماجی بہبود کے مختلف پروگراموں پر عائد ہونے والے اخراجات کی پابجائی میں مدد ملتی ہے۔ لیکن ماہرین کہتے ہیں کہ جب قیمتیں بڑھنے لگیں تو اکسائز ڈیوٹی میں کٹوتیوں کی گنجائش ہوتی ہے تاکہ کم از کم صارفین کیلئے جھٹکہ کی شدت کو کم کیا جاسکے۔ مرکز نے واقعتا اپنی میعاد کے زیادہ تر حصہ میں ایندھن کی نرم قیمتوں کے فوائد حاصل کئے ہیں۔ مئی 2014ء میں جب نریندر مودی کو وزیراعظم کا حلف دلایا گیا، خام تیل کی قیمتیں $100 فی بیارل کے نشانہ کے آس پاس تھا۔ تب فی لیٹر پٹرول کی لاگت دہلی میں 71 روپئے اور ممبئی میں 80 روپئے تھی۔ خوش قسمتی سے سپٹمبر 2014ء سے بین الاقوامی منڈی میں خام تیل کی قیمتوں میں تیزی سے گراوٹ آنے لگی، جیسا کہ یہ قیمت $79 فی بیارل سے گھٹ کر 14 جنوری 2016ء کو $30 فی بیارل سے کمتر ہوگئی۔ یہ 12 سال میں پہلی مرتبہ ہوا کہ خام تیل کی قیمتوں میں اس قدر گراوٹ درج کی گئی۔

اس میں کوئی شائبہ نہیں کہ تیل کی قیمتوں کو قابو میں رکھنا نہ صرف عوامی برہمی کو دور کرنے کیلئے ضروری ہے بلکہ یہ کام کرنا حکومت اور معیشت کی صحت کیلئے بھی بہت اہمیت رکھتا ہے۔ چنانچہ اس ضمن میں ایک طریقہ یہ ہے کہ ایندھن کو بھی گڈز اینڈ سرویسیس ٹیکس (GST) کے تحت لایا جائے۔ جی ایس ٹی میں سب سے بڑا زمرہ 28 فیصد ہے ، لیکن پھر بھی ایندھن پر عائد ہونے والے ٹیکسیس موجودہ شرحوں کے مقابل کافی کمتر ہوجائیں گے۔ دیگر راستہ حکومت کا او این جی سی (تیل پیدا کرنے والی ہندوستان کی دیسی کمپنی) سے یہ کہنا کہ خام تیل ریفائنرز کو کمتر قیمتوں پر بیچے، اور اس کے عوض کمپنی سے کمتر فوائد وصول کرنا۔ تیسرا ممکنہ اقدام یہ ہوسکتا ہے کہ خام تیل کو اوپیک (تیل برآمد کرنے والے ملکوں کی تنظیم) ممالک سے ڈسکاؤنٹ پر حاصل کیا جائے، بجائے اس کے کہ ’ایشین پریمیم‘ پر خریدا جائے جو موجودہ طور پر ہندوستان کرتا ہے۔ اس کیلئے ان ملکوں کے ساتھ پوری شدت کے ساتھ مذاکرات کی ضرورت ہوگی۔ حکومت کو اکسائز ڈیوٹیز گھٹانے میں پس و پیش ہے کیونکہ اسے اپنے سماجی اسکیمات پر اثر پڑنے کا اندیشہ ہے، اس لئے دیگر راستہ یہی ہے کہ ریاستوں پر ویاٹ (اضافی قدر ٹیکس) میں کٹوتی کرنے کیلئے دباؤ ڈالا جائے۔ غیربی جے پی حکمرانی والی ریاست کیرالا نے حال میں اپنے پاس ویاٹ کو 1 روپیہ گھٹادیا، اور سالانہ 500 کروڑ روپئے کی آمدنی سے محرومی اختیار کی۔ تاہم، دیگر ریاستوں کو اسی طرح کے اقدام میں بہت پس و پیش ہے۔ چنانچہ مرکزی حکومت تیل کی قیمتوں کے معاملے میں مخمصہ میں پھنسی ہے۔ وہ نہ تو اپنی آمدنی سے محروم ہوسکتی ہے اور نا ہی بڑھتی مہنگائی پر چشم پوشی سے کام لے سکتی ہے!