پناہ گزینوں کا بحران

دو قدم تم بھی بڑھو اور دو قدم ہم بھی بڑھیں
خود بخود جو فاصلہ ہے درمیاں مٹ جائے گا
پناہ گزینوں کا بحران
پناہ گزینوں کا بحران اس وقت دنیا بھر میں اہم ترین مسئلہ بنا ہوا ہے ۔ خاص طور پر شام میں جاری خانہ جنگی نے اس بحران کوا ور بھی سنگین کردیا ہے اور جو شامی باشندے پناہ حاصل کرنے کی غرض سے نقل مقام کر رہے ہیں وہ جن مسائل سے دو چار ہو رہے ہیں ان پر ساری دنیا کو توجہ دینے کی ضرورت ہے ۔ دو دن قبل ایک کمسن شامی لڑکا یونان کے ساحل تک پہونچنے کی کوشش میں سمندر میں غرقاب ہوگیا ۔ اس کی نعش تیرتی ہوئی ترکی کے ساحل تک پہونچ گئی تھی ۔ اس نعش کی تصویر نے ساری دنیا میں ہلچل مچادی ہے اور ساری دنیا میں اب یہ کہا جا رہا ہے کہ پناہ گزینوں کے مسئلہ پر عالمی برادری کو توجہ دینے کی ضرورت ہے ۔ شام کی خانہ جنگی سے متاثرہ افراد جو غیر انسانی حالات کا شکار ہیں اس نے ساری دنیا میں انسانیت کی دہائی دینے والوں کی قلعی کھول کر رکھ دی ہے ۔ زبانی دعووں اور جمع خرچ سے آگے بڑھ کر جب عملی اقدامات کرنے کی ضرورت درپیش آتی ہے تو ساری دنیا اپنی اپنی ذمہ داریوں سے منہ موڑنے میں شہرت حاصل کرتی جا رہی ہے ۔ ہر ملک اس معاملہ میں دوسرے ملک پر ذمہ داری عائد کرکے خود بری الذمہ ہونا چاہتا ہے ۔ جنگ زدہ علاقوں کے جو پناہ گزین یوروپ اور دوسرے ممالک کو روانہ ہو رہے ہیں ان میں چند ایک ہی ایسے خوش قسمت ہونگے جو اپنا سفر کامیاب کرکے منزل مقصود تک پہونچ جاتے ہیں ۔ یہ الگ بات ہے کہ وہاں انہیں اور بھی نت نئے مسائل کا سامنا رہتا ہے ۔ تاہم ان پناہ گزینوں کا سفر موت کے سفر سے کم نہیں رہ گیا ہے ۔ یہاں انہیں سمندر وں کا سینہ چیر کر اپنا سفر جاری رکھنا پڑتا ہے اور ترکی کے وزیر اعظم رجب طیب ارغان کے الفاظ میں یوروپی ممالک نے بحیرہ رو م کو پناہ گزینوں کا قبرستان بنادیا ہے ۔ وہ ان پناہ گزینوںکو سفر مکمل کرکے یوروپی ممالک میں داخلہ کا موقع دینا نہیں چاہتے ۔ ساتھ ہی علاقہ کے کچھ با اثر عرب ممالک کا رویہ بھی اسی طرح کا ہے ۔ وہ اس بحران پر خاموش تماشائی بنے بیٹھے ہیں جیسے اس بحران سے انہیں کوئی سروکار ہی نہیں ہے ۔ یہ درست ہے کہ کچھ پڑوسی ممالک نے شامی پناہ گزینوں کو اپنے ہاں پناہ دی ہے اور یہ تعداد بھی کچھ کم نہیںہے لیکن علقاہ کے دوسرے اور با اثر ممالک اس معاملہ سے بالکل لا تعلق بنے ہوئے ہیں۔ حالانکہ یہ حقیقت ہے کہ یہ ممالک اس معاملہ میں بہت کچھ کرنے کی استطاعت رکھتے ہیں۔
یہ بحران اس لئے بھی اور بھی سنگین ہوگیا ہے کیونکہ کچھ ممالک شام میں بشار الاسد کے اقتدار کو تسلیم نہیں کرتے ۔ حکمرانوں کا اختلاف اور ان کی باہمی عداوت اپنی جگہ لیکن شام کے عوام کو اس کی سزا مل رہی ہے اور پڑوسی حکمران اس پر خاموش تماشائی بنے ہوئے ہیں یہ رویہ کسی بھی حال میں درست اور مناسب نہیں کہا جاسکتا ۔ سب سے زیادہ افسوس اس بات کا ہے کہ تین سالہ شامی لڑکے کی نعش پر یوروپ میں ہلچل پیدا ہوگئی اور کچھ ممالک کے حکمرانوں نے اس مسئلہ پر فوری توجہ دینے اور اس کا کوئی نہ کوئی حل دریافت کرنے کی ضرورت پر زور دیا ہے لیکن عرب حکمرانوں کی اکثریت اس مسئلہ پر لب کشائی سے گریزاں ہے ۔اٹلی ‘ ہنگری اور دوسرے ممالک کے حکمرانوں نے اس کیلئے ایک دوسرے کو بھی ذمہ دار قرار دینے میں کوئی عار محسوس نہیں کیا ۔ ایسا لگتا ہے کہ شامی لڑکے کی نعش نے ان حکمرانوں کے دلوں کو بھی جھنجھوڑ کر رکھ دیا ہے اور وہ بھی اس تعلق سے اپنے دلوں میں بے چینی محسوس کر رہے ہیں۔ اطالوی وزیر اعظم نے تو یہاں تک کہا کہ اس تصویر سے دنیا کے ہر باپ کی آنکھوں سے آنسو رواں ہوگئے ہیں لیکن ان پناہ گزینوں کے آس پاس رہنے والے حکمرانوں کے دل کیوں نہیں پسیجتے یہ بات کسی کی سمجھ میں نہیں آسکتی ۔ اقوام متحدہ ہو کہ امریکہ ہو یا پھر علاقہ کے عرب ممالک ہو یا دوسرے یوروپی ممالک ہوں سبھی کو اس مسئلہ پر برابر کی ذمہ داری قبول کرنے کی ضرورت ہے ۔ کسی بھی ملک کو شام کے حکمرانوں سے اختلاف ہوسکتا ہے ۔ اس کی پالیسیوں سے اختلاف ہوسکتا ہے لیکن اس اختلاف کی سزا شام کے عوام اور خاص طور پر کمسن بچوں کو نہیں ملنی چاہئے ۔
پناہ گزینوں کے سفر میں انہیں ہونے والی مشکلات پر مباحث ہو نی شروع ہوگئی ہیں۔ کوئی یہ کہہ رہا ہے کہ ان کشتیوں میں لائیف جیکٹس نہیں ہوتیں ‘ کوئی کہہ رہا ہے کہ ان کی سفر غیر قانونی ہوتا ہے اور کوئی سفر کے انتظامات کرنے والوں کے تعلق سے سوال کر رہا ہے لیکن اس مسئلہ کی بنیاد اور اس کی جڑوں تک پہونچنے کی کوئی کوشش نہیں ہو رہی ہے اور یہ کہا جائے تو بیجا نہ ہوگا کہ ایسا عمدا ہو رہا ہے ۔ ہر کوئی اپنی ذمہ داری سے بچنے کی فکر میں دوسروں کو مورد الزام ٹہرانے میں مصروف ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ یہ مسئلہ جو انتہائی حساس نوعیت کا ہے حل ہونے کی بجائے مزید سنگین ہوتا جا رہا ہے ۔ علاقہ کے حکمران ہوں یا یوروپی ممالک کی حکومتیں ہوں یا اقوام متحدہ ہو سبھی کو بے حسی کا دورانیہ ختم کرنے کی ضرورت ہے ۔ یہ ایک انتہائی سنگین انسانی مسئلہ ہے اور اس کو جتنی جلدی اور جتنی سرعت کے ساتھ حل کیا جائے اتنا ہی انسانیت کیلئے بہتر ہوگا ۔ اس کی ذمہ داری ہر گوشے پر عائد ہوتی ہے ۔