پریوار کی کھلی منافقت امبیڈکر سے محبت … دستور کی مخالفت

پرافل بدوائی
جب بات خالص منافقت اور دہرے معیاروں کی آتی ہے تو اس میدان میں سنگھ پریوار کو شکست دینا ناممکن ہے ۔ اس نے پرزور انداز میں ڈاکٹر بھیم راؤ جی امبیڈکر کی ورثہ پر اپنا حق جتایا ہے ۔ وہ دستور ہند کے مصنفین میں کلیدی مقام رکھتے ہیں ۔ وہ ایک دلت تھے ۔ ان کی 124 ویں یوں پیدائش پر سنگھ پریوار اور قیادت نے انھیں خراج عقیدت پیش کیا ۔ اس کی تحریک پریوار کو بہار میں مقرر آئندہ انتخابات سے ملی جہاں ایک دلت (سابق عبوری دور کے چیف منسٹر جتن رام مانجھی) نتیش کمار اور لالو پرساد کے خلاف بی جے پی کے امکانی حلیف کے طور پر ابھرے تھے ۔ راشٹریہ سوئم سیوک سنگھ نے ڈاکٹر امبیڈکر کو اپنی مثالی شخصیتوں میں سے ایک ظاہر کرنے کی کوشش کی ۔ اس نے نہ صرف کانگریس کے ساتھ ان کے اختلافات کو اچھالا بلکہ انھیں آر ایس ایس کے بانی کے بی ہیڈ گیوار کی صف میں کھڑا کردیا ۔ ہیڈ گیوار علی الاعلان برہمنوں کی اونچی ذات پر یقین رکھتے تھے۔ وہ مساوات کے اصول کے کٹر مخالف تھے جبکہ امبیڈکر مساوات کے علمبردار تھے اور زندگی بھر اس کے لئے جد وجہد کرتے رہے ۔ آر ایس ایس نے اپنی نوعیت سے وابستگی برقرار رکھتے ہوئے اس معاملہ کو ایک فرقہ پرست موڑ دیتے ہوئے سوال کیا کہ ہندوستان کا اعلی ترین سیول اعزاز بھارت رتن مدر ٹریسا کو یہ اعزاز عطا کرنے کے 10 سال بعد کیوں دیا گیا ؟ یہ سوال آر ایس ایس کے جنرل سکریٹری سنجے جوشی نے کیا ۔ اس طرح انھوں نے آر ایس ایس کے سرسنچالک موہن بھاگوت کے کام کو مزید آگے بڑھایا جنھوں نے اپنے رجحان کے مطابق الزام عائد کیا تھا کہ مدر ٹریسا نے اپنی فلاحی سرگرمیوں کو تبدیلی مذہب کی آڑ کے طور پر استعمال کیا تھا۔
مدر ٹریسا کو 1979 میں نوبل انعام دئے جانے کے بعد حکومت ہند کے سامنے انھیں بھارت رتن کااعزاز عطا کرنے کے سوا کوئی اور چارہ ہی نہیں تھا ۔ جہاں تک امبیڈکر کو اعزاز عطا کرنے کا سوال ہے دائیں بازؤ کے ہندوؤں نے (جن کی نمائندگی پریوار کرتا ہے) اس کی سخت مخالفت کی اور مراٹھا لابی نے (جو اس وقت کانگریس میں تھی لیکن بی جے پی ۔ شیوسینا اسے ریاستی حکومت کی ملازمتوں میں 16 فیصد تحفظات فراہم کرکے اپنی تائید کے لئے آمادہ کرنا چاہتی ہیں) مراٹھواڑہ یونیورسٹی کو ڈاکٹر امبیڈکر سے موسوم کرنے میں تاخیر پر برہم تھی ۔ ایسا 1994 میں کیا گیا ۔
حیران کن بات یہ ہے کہ بی جے پی نے اپنی حقیقی مثالی شخصیت کو بھارت رتن کا اعزاز حاصل ہونے پر اتنا برہمی کا اظہار نہیں کیا ۔ سردار ولبھ بھائی پٹیل کو بھارت رتن کا اعزاز امبیڈکر کے بعد ہی دیا گیا۔ حقیقت یہ ہے کہ یہ ایوارڈ اب تک 45 افراد کو دیا جاچکا ہے ۔ اگر اسے فوائد یا تائید حاصل کرنے کے تنگ نظر مقاصد کے لئے استعمال کیا جائے تو اس کا وقار برقرار نہیں رہے گا ۔ اس کے حاصل کرنے والوں کی فہرست غلطیوں سے بھرپور ہے ۔
خاص بات یہ ہے کہ پریوار کا نظریہ اور سیاست اس نظریہ اور سیاست کے بالکل متضاد تھی اور ہے جس کے علمبردار ڈاکٹر امبیڈکر تھے ۔ انھیں ہندوتوا سے نفرت تھی ۔ کیونکہ اس نے قومیت کی تعریف مذہب اور عقیدے کی بنیاد پر متعین کرکے اسے بہت محدود بنادیا تھا ۔ ڈاکٹر امبیڈکر کا نظریہ اس کے برعکس وسیع ،توسیع پذیر نظریہ تھا جس کی بنیاد نسلی اور مذہبی شناختوں سے ماورا شہریت اور مساوی حقوق کی بنیاد پر تھی ۔ انھوں نے بار ہا کہا تھا کہ ’’ہندوراج‘‘ ’’اس ملک کے لئے ایک عظیم ترین آفت ہوگی‘‘ ۔ امبیڈکر تحریری طور پر منظورہ اور درحقیقت زیر عمل ہندوازم کو برہمنوں کی ذات پات کی تفریق کا جزولاینفک سمجھتے تھے ۔ یہ گاندھی کے چوکھٹے میں اصلاحات کرنے کے قابل نہیں سمجھتے تھے جو دلتوں کی سرپرستی کرنا بلکہ مذہبی اعتبار سے دلتوں کو ہریجن (دیوتا کے بچے) سمجھتا تھا ۔ یہ کوئی اتفاق نہیں ہے کہ امبیڈکر نے منوسمرتی کو نذر آتش کیا تھا ۔ انھوں نے یہ اعلان کرنے کے بعد کہ ’’میں پیدائشی ہندو ہوں کیونکہ یہ میری مرضی سے نہیں ہوا ۔ لیکن میں ہندو کی حیثیت سے نہیں مروں گا کیونکہ مجھے اسکا اختیار ہے‘‘ بدھ مت اختیار کرلیا ۔
اس سے زیادہ اہم بات یہ ہے کہ امبیڈکر دلتوں کی علحدہ رائے دہی کے خواہاں تھے لیکن گاندھی جی کے مرن برت نے انھیں اس مطالبہ سے دستبرداری پر مجبو رکردیا اور پونا معاہدہ 1932 ء طے پایا ۔ علحدہ رائے دہی کا مطالبہ پریوار کے دل میں کانٹے کی طرح کھٹکتا ہے لیکن وہ منافقت کے ذریعہ ’’ہندو اتحاد‘‘ کی علمبردار ہے اور اسے ’’ہندوستانی قومیت کی ریڑھ کی ہڈی‘‘ قرار دیتی ہے ۔ اس طرح ہندوستان کی تکثیریت اور تنوع کی مخالفت کرتی ہے ۔ بی جے پی اور اسکی ہمنوا ہندو برتری کی علمبردار تنظیمیں سیکولرازم (یا بنیادی طور پر مذہب کی سیاست اور عوامی زندگی سے علحدگی) کی مخالف ہیں جو امبیڈکر کے دستور کی بنیاد ہے ۔ یہ سیکولرازم کو ایک باطل نظریہ قرار دیتی ہیں ۔ چنانچہ پریوار ’’نقلی سیکولرازم‘‘ کے نعرہ سے گمراہ کررہا ہے ۔ سیکولرازم کو مسترد کرنے اور جارحانہ اکثریت کا مظاہرہ اب نت نئے روپ میں ظاہر ہورہا ہے جیسے نرگاؤ ، بوڑھی بھینسوں اور گایوں کے دبیحہ پر امتناع اور ان کی فروخت یا استعمال کو لائق تعزیر جرم قرار دینا (مہاراشٹر) عیسائی گرجا گھروں پر حملے (دہلی ، مغربی بنگال ، ہریانہ اور اب اترپردیش میں) مسلمانوں کا دھمکیوں اور تشدد کے ذریعہ ’’ہندو علاقوں سے اخراج‘‘ (جیسا کہ وی ایچ پی کے پروین توگاڑیہ نے گجرات کے شہر بھاؤنگر میں کیا) ۔ نفرت انگیز تقریریں اب ’’نیا معمول‘‘ بنتی جارہی ہیں ۔ مسلمانوں کے بارے میں رکن پارلیمنٹ ساکشی مہاراج کے ’’چار بیویوں سے 40 بچے پیدا کرنے‘‘ کے مسلم دشمن بیانات اور اس کے بعد صاف بچ نکلنا بہت بری بات ہے ۔ اس سے بھی بدتر بات سنجے راوت کا جو شیو سینا کے ترجمان ’’سامنا‘‘ کے ایڈیٹر ہیں ، مطالبہ ہے کہ مسلمانوں کو حق رائے دہی سے محروم کردیا جائے کیونکہ انھیں بطور ’’ووٹ بینک‘‘ استعمال کیا جارہا ہے ۔ یہ فوجداری قانون کے نفرت انگیز تقریر کی دفعہ کی خلاف ورزی ہے بلکہ یہ دستور کی اس ضمانت کی بھی خلاف ورزی ہے جو ہر ایک ہی رائے دہی کو اس کا بنیادی حق قرار دیتا ہے ۔ سنجے راوت بحیثیت رکن پارلیمنٹ اسی دستور کی بنیادی کا حلف اٹھاچکے ہیں ۔ وہ راجیہ سبھا میں شیوسینا کے رکن ہیں اور دستور کا دفاع کرنے کے پابند ہیں ۔ ان کے لئے اس طرح کے خطرناک اور اشتعال انگیز بیانات دینا مناسب نہیں ہے ۔ راجیہ سبھا کے صدر نشین کو ان کی سرزنش کرنی چاہئے اور ان سے معذرت خواہی طلب کرنی چاہئے ۔ قاصر رہنے پر انھیں سزا دینی چاہئے ۔
ہندوستان اہم عہدیداروں کی فرقہ پرست کارروائیوں کی آماجگاہ بن گیا ہے ۔ 1986 کے ضمنی انتخابات میں مذہب کے نام پر شیوسینا کے امیدوار کے حق میں ووٹ طلب کرنے والے بال ٹھاکرے کو خاطی قرار دینے میں الیکشن کمیشن کو 13 سال لگ گئے ۔ آخرکار ، انھیں قانون عوامی نمائندگی کے تحت ، انھیں انتخابی مقابلوں میں حصہ لینے اور حق رائے دہی سے چھ سال کے لئے محروم کردیا گیا ۔ گذشتہ لوک سبھا انتخابات میں نریندر مودی نے بار بار اپنی انتخابی تقریروں میں فیض آباد میں گذشتہ مئی میں لارڈ رام کا واسطہ دیا ۔ بی جے پی کے مجوزہ رام مندر کا ایک نمونہ تیار کیا گیا اور اسے اس شہ نشین کا پس منظر بنایاگیا جہاں سے مودی نے جلسہ سے خطاب کیا ۔ سابق چیف الیکشن کمشنر ایس وائی قریشی جیسی شخصیت نے الیکشن کمیشن کی خاموشی پر اعتراض کیا ۔ اور سوال کیا کہ جلسہ کے مہتمم کے خلاف کارروائی کا آغاز کیوں نہ کیا جائے؟ منطقی اعتبار سے الیکشن کمیشن کو مودی کے خلاف بھی کارروائی کرنی چاہئے تھی ۔ لیکن کوئی کارروائی نہیں کی گئی ۔ کوئی حیرت نہیں کہ استثنی کا کلچر فرقہ پرست سیاستدانوں ، پولیس اور یہاں تک کہ عدلیہ کے چند گوشوں میں بھی اپنا غلبہ رکھتا ہے ۔ کون جانے کہ وہ بھی بدترین اقلیت دشمن مظالم کے بعد بھی بے داغ بری ہوجائیں ۔ یہی پیغام ہے ہاشم پورہ مقدمہ کا فیصلہ دیتا ہے جس کا فیصلہ گذشتہ ہفتہ ہی سنایا گیا ۔ یہ مئی 1987 میں یوپی کے شہر میرٹھ کے قریب صوبائی مسلح کانسٹبلری (پی اے سی)کے ارکان عملہ کے ہاتھوں 42 افراد کے ہولناک قتل عام کا مقدمہ تھا ۔ پی اے سی کے تمام ارکان عملہ بری کردئے گئے ۔ ایک سابق سینئر پولیس عہدیدار دبھوتی نارائن رائے نے تحریر کیا ہے کہ ابتداء ہی سے ان کے حق میں تحقیقات میں ہیرپھیر کیا گیا ۔ مملکت نے فرد جرم داخل کرنے نو سال لگادئے ۔ 23 ناقابل ضمانت وارنٹ جاری کرنے کے باوجود ملزمین کو کبھی گرفتار نہیں کیا گیا ۔ اس کی کلیدی وجہ رسالہ آؤٹ لک (6اپریل) کی تحقیقات کے بموجب یہ تھی کہ یہ قتل عام ایک فوجی افسر کی انتقامی کارروائی تھی جس کا بھائی ،ایک آر ایس ایس رکن ،فرقہ وارانہ جھڑپ میں ہلاک ہوا تھا ۔ فوج کے یونٹ نے نوجوان مسلمانوں کو ان کے گھروں سے گھسیٹ کر باہر نکالا اور انھیں پی اے سی کے حوالہ کردیا اور انھیں ذبح کردینے پر اکسایا ۔ مقدمہ کی رپورٹ کو مرکزی اور ریاستی حکومتوں نے برف دان کے حوالہ کردیا جبکہ دوران مقدمہ بعض ملزمین کو ترقی بھی دی گئی ۔
ہاشم پورہ قتل عام کے ایک دن بعد پی اے سی ایک ہجوم کے ساتھ مل کر پڑوسی علاقہ ملیانہ میں 72 مسلمانوں کو ہلاک کرنے میں شامل ہوگئی تاکہ اس فرقہ کو مزید سزا دی جائے ۔ ایک اور تحقیقات کا ڈھونگ رچایا گیا ۔ مقدمہ اب بھی ابتدائی مرحلہ سے آگے نہ بڑھ سکا ۔ حالانکہ 800 تواریخ مقرر کی جاچکی ہیں ۔ 28 سال میں استغاثہ کے 35 گواہوں میں سے صرف تین پر جرح کی گئی ہے ۔ آخری سماعت تقریباً دو سال قبل منعقد کی گئی تھی ۔ ہاشم پورہ مقدمہ کے فیصلہ کے بعد ملیانہ کے مہلوکین کے ارکان خاندان کی امیدیں بھی ٹوٹ چکی ہیں ۔
انصاف رسانی کے نظام کو یہ زبردست ناکامی نے دوسرے وردی پوش ارکان عملہ کے حوصلے بھی بڑھادئے ہیں کہ وہ شہریوں پر بے رحمی سے مظالم کریں ۔ 2000 ء کو کشمیر میں پتھری بل کے واقعہ کو ہی لیجئے ۔ جہاں فوج نے پانچ بے قصور شہریوں کی اجن پر چٹی سنگھ پورہ کے 36 سکھوں کے قتل عام کا الزام عائد کرکے ہلاک کردیا ۔ ایک فوجی عدالت تفتیش نے خاطیوں کو بری کردیا ۔ عوام برہم ہوگئے لیکن مملکت کی طرف سے کوئی معذرت خواہی نہیں ہوئی ۔
تازہ ترین واقعہ تلنگانہ میں نلگنڈہ کہے قریب پیش آیا جس میں پانچ مسلم زیر دریافت قیدیوں کو ان کی عدالت کو منتقلی کے دوران قتل کردیا گیا ۔ یہ واقعہ بھی اسی زمرہ کے تحت آتا ہے ۔ یہ بھی مساوی طور پر ہولناک ہے ۔ لیکن ایک قبائلی دشمن بلکہ سخت مسلم دشمن زاویہ سے آندھرا پردیش کے سیشاچلم جنگلات میں 20 افراد کے قتل عام کا واقعہ بھی ہے جن پر صندل کے درختوں کو کاٹنے کا جھوٹا الزام عائد کیا گیا ہے ۔ مملکت ایسے تمام خاطیوں کی پشت پناہی کرتی ہے ، انھیں اس وقت تک انصاف کے کٹہرے میں کھڑا نہیں کیاجائے گا جب تک کہ پرجوش شہری ، شہری معاشرہ کی تنظیمیں ، اور سیاسی پارٹیاں مداخلت نہ کریں اور ایسا کرنے کا مطالبہ نہ کریں ۔
ایسے مظالم اور انصاف رسانی میں ناکامیوں سے سب سے عظیم اور طویل مدتی فائدے حاصل کرنی والی دائیں بازو کی انتہا پسند طاقتیں ہیں جو مظالم اور تشدد میں یقین رکھتی ہیں ۔ خود ساختہ ’’چھترپتی‘‘ بال ٹھاکرے ممکن ہے کہ کئی غیر مہاراشٹرینس کو ممبئی سے خارج نہ کرسکے ہوں ، یا مہاراشٹر میں شیوسینا اپنے بل بوتے پر برسراقتدار نہ ہو لیکن وہ بائیں بازو اور ٹریڈ یونینس کو ناقابل تلافی نقصان پہنچا چکے ہیں ۔ دہشت کا ماحول پیدا کرچکے ہیں ، اور پورا سیاسی راستہ دائیں بازؤ کے حق میں کرچکے ہیں ۔ اسی طرح مکن ہے کہ سنجے راوت مسلمانوں کو حق رائے دہی سے محروم نہ کرسکیں لیکن وہ پہلے ہی انتہا پسند دائیں بازؤ کو راستہ دکھاچکے ہیں جو بی جے پی اور دستور دشمن طاقتوں کے حق میں ہے صرف اس خطرے کے احساس اور اس پر وادیلا سے کچھ نہیں ہوگا ، سیکولر جمہوریت اور انسانی سماج سے وابستہ تمام افراد کو اس کے خلاف سرگرم جد و جہد کرنی چاہئے ۔