پروفیسر نثار احمد فاروقی

پریم کا درس ایک صوفی دے سکتا ہے ، ایک بھکت دے سکتاہے اور دلوں کو ملانے کا کام ایک خانقاہ ہی کرسکتی ہے۔
تصوف روحانی تجربہ کا نام ہے ۔ یہ تجربہ ہر مذہب میں ہوتا ہے ۔ اصطلاحیں بدل جاتی ہیں لیکن صوفیا کی عوام دوستی اور خدمت خلق نے تصوف کو صرف ایک انفرادی روحانی تجربہ نہیں رہنے دیا ، محبت اور رواداری کی ایک تحریک بنادیا۔ یہی سبب ہے کہ آج صوفیوں کے مزارات، خانقاہیں اور درگاہیں ہر گوشہ میں موجود ہیں اور لوگ عقیدت کے پھول چڑھاتے ہیں ۔ حضرت خواجہ معین الدینؒ اجمیری غریب نواز چشتی سلسلہ کے پہلے بزرگ ہیں جنھوں نے اجمیر میں پڑاؤ ڈالا ۔ آپ کی وہاں آمد کے بارے میں افسانوی رنگ کی بہت سی باتیں مشہور کردی گئی ہیں مگر حقیقت یہ ہے کہ ایک بے سروسامان درویش کا کسی اجنبی شہر میں آکر بس جانا خود یہ ظاہر کرتا ہے کہ درویش کا مسلک محبت ، بھائی چارہ اور خدمت خلق تھا اور اس شہر کا بادشاہ اور باشندے بھی مذہبی رواداری کا نمونہ تھے ۔
دہلی سلطنت بڑے رعب و دبدبے کے ساتھ قائم ہوئی تھی ۔ سلطان شمس الدین التمش شہنشاہ کے لباس میں ایک درویش تھا اور حضرت خواجہ قطب الدین بختیار کاکیؒ کا مرید بھی تھا ۔ خواجہ صاحب کی خانقاہ میں مال و متاع کچھ نہ تھا ۔ آنے والوں کی تواضع کبھی صرف ایک گلاس پانی سے کی جاتی تھی ، مگر عوام میں ان کی مقبولیت کایہ عالم تھا کہ جب خواجہ اجمیری اپنے خلیفہ حضرت قطب صاحب کو ساتھ لے کر دہلی سے اجمیر جانے لگے تو سارا شہر دہاڑیں مارکر رورہا تھا ۔ جہاں ان بزرگوں کے قدم پڑتے تھے ، اس جگہ کی مٹی لوگ تبرک سمجھ کر اٹھالیتے تھے ۔ شہنشاہ التمش بھی اس ہجوم میں شامل تھا ، خلق خدا کی یہ بے قراری دیکھ کر حضرت خواجہ اجمیریؒ نے خواجہ قطب صاحب سے فرمایا کہ تم دہلی ہی میں رہو ، اس شہر کو تمہارے حوالے کرتا ہوں۔

خواجہ قطب صاحبؒ کے جانشین اور خلیفہ حضرت بابا فریدالدین مسعود گنج شکرؒ ہوئے ۔ انھوں نے کچھ وقت دہلی اور ہانسی میں گذارا ۔ آخر پنجاب کے ایک چھوٹے سے قصبہ اجودھن کو اپنی خانقاہ کے لئے پسند فرمایا ۔ یہ اب پاکستان کے ضلع ساہی وال میں ہے اور پاک پٹن کہلاتا ہے۔ یہاں مختصر سی آبادی تھی مسلمان تو گنے چنے ہی ہوں گے ۔ اکثریت غیرمسلموں کی تھی ۔ زیادہ تر کھیت میں مزدوری کرنے والے ، کپڑا بننے والے ، تیلی ، مٹھائی بنانے والے ، ایسے ہی پیشہ ور لوگ تھے۔ اجودھن دریائے ستلج کے کنارے بسا ہوا تھا ۔ یہاں سے دریائی مسافروں کے قافلے بھی گذرتے تھے ۔ ستلج کا پاٹ برسات میں کئی میل چوڑا ہوجاتا تھا ۔ اس لئے برسات آنے سے پہلے ہی لوگ اپنی کشتیاں اور بیڑے تیار کر رکھتے تھے ۔ برسات میں گیلی لکڑی سے بیڑے بنانا بھی دشوار ہوتا تھا ۔ یہ ایک ایسا عمل اور ایسی ضرورت تھی کہ اس علاقہ کا معمولی سا آدمی بلکہ بچہ بھی اس حقیقت سے واقف تھا ۔ اس پس منظر میں حضرت بابا صاحبؒ کا یہ شبد پڑھئے جو گورو گرنتھ صاحب میں موجود ہے ۔

بیڑا بندھ نا ساکیو بندھن کی بیلا
پھر سروور جب اوچھلے تب ترن دو بیلا
فرماتے ہیں کہ جو بیڑے باندھنے کا موسم تھا اس وقت تم نے باندھے نہیں ، جب دریا بھرجائیگا اور پانی اُچھلنے لگے گا تو تیرنا سخت دشوار ہوگا۔ اس میں یہ تعلیم ہے کہ آخرت کو ایک دریا سے تشبیہ دی گئی ہے ۔ زندگی میں جو مہلت ملی ہے اُس میں کچھ عمل کرلو تو دریائے آخرت سے پار ہوجاؤ گے ورنہ سوائے ندامت کے کچھ ہاتھ نہ آئے گا ۔
حضرت بابا صاحب کی خانقاہ میں آدھی رات تک بھیڑ لگتی رہتی تھی اور یہ آنے والے زیادہ تر غیرمسلم ہی ہوتے تھے ۔ آپ اُن سے اُن کی زبان ہی میں گفتگو فرماتے تھے ۔ چنانچہ پنجابی زبان کی شاعری کا سب سے پرانا نمونہ بابا صاحب کا کلام ہے جو سکھوں کی مقدس کتاب گرنتھ صاحب میں بھی شامل ہے ۔ بابا صاحب ان بے پڑھے لکھے محنت کش لوگوں کو ذکر اور جاپ کی تعلیم بھی ان کی زبان ہی میں دیتے تھے ۔ اُن سے منسوب یہ ذکر قدیم کتابوں میں ملتا ہے ۔
الیہ دل توں اوہ دل توں
اتھے توں اوتھے توں
توں ہی توں
یعنی اے اﷲ اس عالم کا مالک بھی تو ہے ، اس عالم ( آخرت ) کا والی بھی تو ہے ۔ یہاں بھی تو ہے، وہاں بھی تو ہے بس تو ہی تو ہے ۔
غور کیجئے کہ اس ذکر میں کتنی کیفیت اور کسی جاذبیت ہے ۔ کتنا ہی معمولی ، بے پڑھا اور اجڈ انسان ہو اس سے لطف اندوز ہوسکتا ہے ۔
ان حضرات نے مقامی زبانوں کی اہمیت کو خوب سمجھ لیا تھا ۔ صوفیا کا کلام ہندوی ، گوجری ، بنگالی ، سندھی ، پنجابی ، کشمیری زبانوں میں بکھرا پڑا ہے ۔ یہ شاعری محض تفریح طبع کے لئے نہ تھی ، بلکہ عوام کی رہنمائی اور ارشاد و ہدایت کے لئے تھی ۔

ان بزرگوں کی خانقاہ میں جوگی بھی آیا کرتے تھے ۔ وہ ان سے تصوف کی معلومات حاصل کرتے تھے اوریہ بزرگ جوگیوں سے یوگا کے اصول پوچھتے تھے۔ حضرت بابا فرید گنج شکر کی خانقاہ میں ایک بار کسی جوگی سے ملاقات ہوئی تو حضرت خواجہ نظام الدین اولیاء نے اس سے دریافت کیا کہ تمہارے مسلک میں بنیادی بات کونسی ہے ؟ جوگی نے کہا کہ انسان کے جسم میں ایک عالم علوی ( بالائی حصہ ہے ) دوسرا عالم سفلی (نچلا حصہ ) ہے ۔ ہم یہ کہتے ہیں کہ اوپر کے حصہ میں یعنی دل و دماغ میں صفائی ، اخلاص ، محبت اور سچائی اور نچلے حصے میں پاکیزگی اور پرہیزگاری رہے ۔ حضرت نظام الدین اولیاءؒ نے فرمایا کہ مجھے اس جوگی کی یہ باتیں بہت پسند آئیں۔
حضرت خواجہ بندہ نواز گیسودرازؒ کی خانقاہ میں بھی جوگیوں کا آنا جانا رہتا تھا اور آپ کے ملفوظات سے یہ اندازہ ہوتا ہے کہ آپ سنسکرت زبان سے بھی واقف تھے اور اس زبان کی بعض کتابوں کا مطالعہ کیا تھا ۔ ملفوظات میں یہ واقعہ بھی لکھا ہے کہ کسی نے آپ کے سامنے دوسرے شخص سے ’’تو‘‘ کہہ کر بات کی ۔ آپ نے اسے ٹوکا اور فرمایا کہ یہ بات کرنے کا کیا طریقہ ہے ۔ اس شخص نے کہا کہ یہ ہندو ہے تو آپ کا چہرہ غصہ سے لال ہوگیااور اس شخص کو ڈانٹتے ہوئے کہا کہ انسان بھی تو ہے ۔ غور کیجئے کہ جو حضرات یہ گوارہ نہ کرسکتے ہوں کہ کسی غیرمسلم سے تُو کہہ کر بات کی جائے تو وہ غیرمسلموں کی دل آزاری کیسے برداشت کرسکتے تھے ۔

حضرت خواجہ نظام الدین اولیاءؒ کہیں سے تشریف لارہے تھے ۔ دیکھا کہ جمنا ندی کے قریب ایک عورت کنوئیں سے پانی بھر رہی ہے۔ آپ نے اس سے پوچھا کہ جب ندی سامنے ہے تو کنوئیں سے پانی کیوں بھر رہی ہو۔ اس عورت نے جواب دیا کہ میرا گھر والا غریب آدمی ہے گھر کا خرچ مشکل سے پورا ہوتا ہے ۔ ندی کا پانی ہاضم ہے ، بھوک زیادہ لگتی ہے اس لئے ہم کنوئیں کا پانی پیا کرتے ہیں۔ یہ جواب سن کر حضرت نظام الدین بے چین ہوگئے ۔ آنکھوں میں آنسو لئے ہوئے اپنی خانقاہ میں آئے اور اپنے خادم اقبال سے فرمایا ۔ گاؤں میں جاکر اس عورت کا گھر تلاش کرو اور اس سے پوچھو کہ ماہانہ خرچ میں کتنا گھانا رہتا ہے اتنا روپیہ ہر مہینہ اسے خانقاہ سے بھجوایا کرو اور اس سے کہو کہ آئندہ جمنا ندی کا پانی پیا کرے ۔ خانقاہیں آج کل ختم ہوچکی ہیں اس لئے یہ بتانا بھی مشکل ہے کہ وہ کیسی تھیں اور وہاں کانظام کیا تھا ۔
خانقاہ ایک عبادت خانہ بھی تھی جہاں رہنے والے اپنے رب کی عبادت کرتے تھے ، اوراد و وظائف پڑھتے تھے۔ مراقبہ کرتے تھے ، ریاضت کرتے تھے ۔ روزے رکھتے تھے ۔ چلے کھینچتے تھے۔ خانقاہ ایک مسافر خانہ بھی تھی جہاں باہر سے آنے والے قیام کرتے تھے ۔ انھیں کھانا کپڑا بھی ملتا تھا ، بستر بھی ، دوسری ضرورتیں بھی ۔ خانقاہ ایک مدرسہ بھی تھا جہاں کتابوں کا درس ہوتا تھا ۔ اصولی دین کی تعلیم دی جاتی تھی ۔ خانقاہ ایک تربیت گاہ تھی جس میں رہنے والوں کو اچھے اخلاق اور آداب سکھائے جاتے تھے ۔ ان کے ایک ایک عمل پر نظر رہتی تھی اور ان کی اصلاح کی جاتی تھی ۔ خانقاہ ایک روحانی شفاخانہ بھی تھا جہاں بیماروں کو دوا اور دُعا دونوں ملتی تھیں، کسی کو تعویذ دیا جاتا تھا ، کسی کو عمل یا وظیفہ بتایا جاتا تھا ۔ کسی کیلئے باطنی توجہ کی جاتی تھی۔ خانقاہ ایک ایسی جگہ بھی تھی جہاں سماج کے ہر طبقے کے لوگ آکر ملتے تھے ، ایک دوسرے کا دکھ درد بانٹتے تھے ۔ محبت ، بھائی چارہ ، رواداری اور دردمندی کا سبق سیکھتے تھے ۔ آپس میں شیر و شکر ہوکر رہتے تھے اور ایک دوسرے کے مسائل سے واقفیت حاصل کرتے تھے ۔ خانقاہ ایک لنگرخانہ بھی تھا ، جہاں فقراء ، مساکین اور مسافروں کو ہر وقت کھانا ملتا تھا ۔ بعض خانقاہوں میں تو دن رات لنگر جاری رہتا تھا ۔ ایسے ادارے کی افادیت اوراچھائی سے کون انکار کرسکتا ہے جس میں بہ یک وقت اتنی خوبیاں موجود ہوں۔

آج ہمارے ملک کاسماجی ڈھانچہ بدل رہا ہے ۔ ان تبدیلیوں سے کچھ تناؤ اور کشمکش بھی پیدا ہورہی ہے ۔ ایسے حالات میں سب سے اہم رول خانقاہیں ہی ادا کرسکتی ہیں۔ ہمارے دیس کو نفرت کی نہیں پریم کی ضرورت ہے ۔ پریم کا درس ایک صوفی دے سکتا ہے ، ایک بھگت دے سکتا ہے اور دلوں کو ملانے کا کام ایک خانقاہ ہی کرسکتی ہے ۔ کسی فارسی والے نے کہا تھا ؎
دل شکستہ دراں کوچہ می کنند درست
چناں کہ خودنشناسی کہ ازکجابشکست
یعنی اس کوچے میں ٹوٹے ہوئے دل جوڑے جاتے ہیں اور ایسے جوڑے جاتے ہیں کہ تم خود بھی نہیں پہچان سکتے کہ یہ کہاں سے ٹوٹا تھا۔
(مرسلہ : سید نصیرالدین احمد )