پروفیسر سید سراج الدین

 

میرا کالم مجتبیٰ حسین
انجمن ترقی اُردو ہند کے ہفتہ وار رسالہ ’’ہماری زبان‘‘ میں ایک مستقل کالم ’’ایک دیا اور بجھا‘‘ کے عنوان سے شائع ہوتا ہے جس میں ایک ہفتہ کے دوران میں اس دنیا سے رحلت کرجانے والے اردو ادیبوں ، شاعروں وغیرہ کے کوائف شائع ہوتے ہیں۔ سات آٹھ برس پہلے کی بات ہے ۔ ہم انجمن کے جنرل سکریٹری ڈاکٹر خلیق انجم کے کمرے میں بیٹھے ہوئے تھے کہ ایک سادہ لوح ملاقاتی نے خلیق انجم سے شکایت کی ۔ ’’حضور! ہماری زبان کے بعض کالم پابندی سے شائع نہیں ہوتے۔ یہی دیکھئے کہ پچھلے دو شماروں سے ’ایک دیا اور بجھا‘ کا کالم شائع نہیں ہو رہا ہے ۔ یہ غلط بات ہے ‘‘۔ خلیق انجم نے ہماری طرف معنی خیز نظروں سے دیکھتے ہوئے مسکراکر جواب دیا۔ ’’جناب ! اگر اردو کے کسی ادیب یا شاعر کا اس ہفتہ انتقال ہی نہ ہو تو بھلا یہ کالم کیسے شائع ہوسکتا ہے‘‘۔ خلیق انجم کا جواب نہایت معقول تھا۔ اب یہ تو نہیں ہوسکتا تھا کہ محض اس کالم کی پابندی سے اشاعت کی خاطر کسی اردو ادیب کو زبردستی ہلاک کردیا جائے ۔ یوں بھی ان دنوں اردو ادیبوں اور شاعروں کی شرح اموات میں اضافہ ہوا تو یہ کالم نہ صرف پابندی سے شائع ہونے لگا بلکہ ’’ایک دیا اور بجھا‘‘ کے عنوان کے تحت بیک وقت تین چار مرحومین کے کوائف شائع ہونے لگے ۔ ایک دن ہم نے خلیق انجم سے شکایت کی ۔ ’’حضور مانا کہ آپ کا کالم ’’ایک دیا اور بجھا‘‘ اللہ کے فضل سے بڑی پابندی کے ساتھ شائع ہورہا ہے لیکن مشکل یہ ہے کہ آپ اعلان تو ایک دیے کے بجھنے کا کرتے ہیں لیکن غور سے دیکھا جائے تو آپ اس ایک دیے والے عنوان کی آڑ میں بسا اوقات چار پانچ دیوں کو ایک ساتھ بجھادیتے ہیں ۔ بھلے ہی اس میں زبان کی کوئی غلطی نہ ہوتی ہولیکن حساب کی غلطی اور وہ بھی فاش غلطی ہوجاتی ہے ۔ لہذا آپ مرنے والوں کی تعداد کے حساب سے عنوان میں حسب ضرورت تبدیلی کرلیا کریں جیسے ’’چار دیے اور بجھے‘‘۔ ’’تین دیے اور بجھے‘‘ وغیرہ ۔ یادش بخیر پطرس بخاری جب آل انڈیا ریڈیو کے ڈائرکٹر جنرل تھے تو ریڈیو پر ایک قوال غالب کی غزل کا مشہور مصرعہ ’’قیدِ حیات و بندِ غم اصل میں دونوں ایک ہیں‘‘ کو اپنے انداز اور اپنے حساب سے اس طرح گا رہا تھا ’’قید وحیات و بند و غم اصل میں دونوں ایک ہیں‘‘۔ بطرس بخاری نے غزل سنی تو ریڈیو اسٹیشن کے ڈیوٹی آفیسر کو فون کر کے کہا ’’اس قوال سے کہو کہ وہ مصرعہ کو اس طرح گائے قید و حیات و بند و غم اصل میں چاروں ایک ہیں۔ اگر وہ قیدِحیات و بندِ غم گاتا تو ’دونوں‘ کا استعمال صحیح تھا

لیکن اب جس طرح وہ مصرعہ گارہا ہے اس میں ’چاروں‘ کا استعمال نہایت ضروری ہے ، کم از کم ریڈیو سے حساب کی کوئی غلطی نہیں ہونی چاہئے‘‘۔

پطرس بخاری کی یہ بات ہمیں برسبیل تذکرہ یاد آگئی ورنہ آج ہم اصل میں اپنے ایک اور کرم فرما کا تعزیتی کالم لکھنے کا تہیہ کئے بیٹھے ہیں۔ اگرچہ ابھی پچھلے ہفتہ ہم نے صدق دل سے دعا کی تھی کہ اس دنیا سے ہمارے بزرگوں کے اُٹھ جانے کا سلسلہ عارضی طور پرہی سہی رُک جائے ۔ ہمیں اپنے گناہوں اور خطاؤں کا بخوبی اندازہ ہے اور یہ احساس بھی ہے کہ ہماری دعائیں یوں آسانی سے قبول نہیں ہوتیں مگر کیا کریں بے بس اور لاچار انسان دعا کرنے کے سوائے اور کر بھی کیا کرسکتا ہے۔ بہرحال ہماری دعاء کا انجام یہ ہوا کہ عین 15 جولائی کو جو اتفاق سے ہمارا جنم دن بھی ہے ، ہمارے ایک اور دیرینہ کرم فرما پروفیسر سید سراج الدین اس دنیا سے رخصت ہوگئے ۔ ہمیں اب ٹھیک سے یاد نہیں کہ پروفیسر سراج الدین کوہم نے پہلے پہل کہاں دیکھا تھا ۔ قیاس اغلب ہے کہ ہم نے انہیں 1952 ء یا 1953 ء میں گلبرگہ انٹرمیڈیٹ کالج میں دیکھا تھا جہاں وہ مختصر عرصہ کیلئے انگریزی پڑھانے کیلئے آئے تھے لیکن ان سے کبھی انگریزی نہیںپڑھی ، نہ گلبرگہ انٹرمیڈیٹ کالج میں اور نہ ہی عثمانیہ یونیورسٹی میں۔ کلاسوں کا تعین کرنے والوں نے اس ہوشیاری سے نظام الاوقات کو مرتب کیا تھا کہ ہم جیسے نااہل اور نکمّے طالب علم کو پروفیسر سراج الدین کے شاگردوں کے دائرے میں نہ آنے دیا بلکہ ہمیں انگریزی کے ایک اور استاد محسن صاحب کے حوالے کردیا ۔ محسن صاحب وضعدار اور رکھ رکھاؤ والے آدمی تھے ۔ ان کے ایک پاؤں میں ہلکا سا لنگ تھا۔ لہذا خود تو قدرے لنگڑا کر چلتے تھے لیکن ان کی انگریزی خوب چلتی تھی ۔ اتنی تیز چلتی تھی کہ ایک مرحلہ کے بعد ہم جیسے غبی طالب علم لڑ کھڑا جاتے تھے ۔ یوں بھی ہم اس زمانہ کے حساب سے اردو میڈیم کے نرے طالب علم تھے اور ہماری خواہش ہوتی تھی کہ اے کاش محسن صاحب ہمیں اردو میڈیم سے ہی انگریزی پڑھائیں۔ اگرچہ بعد میں ہم نے حسب توفیق انگریزی میں اپنی استعداد ضرور بڑھاتی لیکن آج بھی کہیں کہیں ہماری انگریزی میں جو لنگ اور عذر لنگ دونوں نظر آجاتے ہیں تو اس کا ایک سبب یہ بھی ہے کہ طالب علمی کے زمانہ میں ہم اپنے انگریزی کے استاد کی تیز رفتار انگریزی کا ساتھ نہ دے سکے تھے ۔ اس وقت ہمیں اس زمانہ کے گلبرگہ کالج کے اور بھی کئی نوجوان شفیق اساتذہ کی یاد آرہی ہے ۔ جعفر نظام تھے (جو بعد میں وائس چانسلر بنے) سماجیات کے استاد شیام لال تھے ( جو بعض طلبہ کو چوری چھپے کمیونزم کا درس دیا کرتے تھے) ۔ ہمیںاس وقت خاص طور پر جناب عبدالمنان کی یاد آرہی ہے جو تھے تو فارسی کے استاد لیکن اردو پڑھانے پر مامور تھے ۔ نوجوان تھے لیکن ان کی سنجیدگی اور بردباری کے آگے بزرگ بھی شرما جاتے تھے ۔ بڑے نفیس ، شائستہ ، کم گو ، کم آمیز اور سلیقہ مند انسان تھے ۔ اردو ادب اور خاص طور پر کلاسیکی ادب پر ان کی گہری نظر تھی ۔ ہم نے اردو کا ایسا پڑھا لکھا استاد پھر کہیں نہیں دیکھا ۔ ایک بار انہوں نے کلاس روم میں اچانک اقبال کا مصرعہ پڑھا ’’اپنی دنیا آپ پیدا کر اگر زندوں میں ہے ‘‘۔ پھر طلبہ کوہدایت دی کہ وہ فی الفور اس مصرعہ اور موضوع پر اپنے خیالات کا اظہار کریں۔ کلاس ختم ہوئی تو انہوں نے سارے طلبہ کی تحریریں حاصل کرلیں۔ دو دن بعد کلاس روم میں آئے تو باآواز بلند ہمارا نام لے کر پکارا ۔ ہم گھبراکر کھڑے ہوگئے تو بولے ۔ ’’آپ پختہ کار ادیب معلوم ہوتے ہیں۔ آپ کب سے اس طرح کے انشایئے لکھ رہے ہیں‘‘۔ ہم نے کہا ’’حضور! خاکسار کی یہ پہلی تحریر ہے ‘‘۔ ہنس کر فرمایا ۔ ’’اگر آپ نے اسے فی البدیہہ کلاس روم میں بیٹھ کر نہ لکھا ہوتا تو مجھے یہ گمان ہوتا کہ شاید یہ کوئی مطبوعہ تحریر ہے ۔ بہرحال میں آپ کو مبارکباد دیتا ہوں‘‘۔ منان صاحب کی شائستگی کا یہ عالم ہوتا تھا کہ کسی مخاطب سے بات کرتے تواس کی آنکھوں میں اپنی آنکھیں ڈالنے کی ہمت نہیں کرپاتے تھے بلکہ اپنی نظریں نیچی رکھتے تھے ۔ ان کی اس عادت کا نتیجہ یہ نکلا کہ جتنی دیر وہ ہماری تعریف کرتے رہے، ہم شرم کے مارے پسینے میں شرابور ہوتے رہے اور انہوں نے ہماری اس حالت کو دیکھا ہی نہیں۔ ہر دوسرے تیسرے دن وہ ہمارے لئے کوئی نہ کوئی کتاب لے کر آتے تھے ۔ اردو کا بہترین ادب ان ہی کی رہنمائی میں پڑھا ۔ زندگی بھر وہ شہرت اور نام و نمود سے بے نیاز رہے ۔ افسوس کہ عمر نے وفا نہ کی اور وہ ابھی برسر خدمت ہی تھے کہ دنیا سے چل بسے ۔ خدا انہیں کروٹ کروٹ جنت نصیب کرے۔

ہم گلبرگہ سے حیدرآباد آئے تو اس وقت تک پروفیسر سراج الدین بھی عثمانیہ یونیورسٹی کے آرٹس کالج میں آچکے تھے ۔ یہاں کا ماحول ہی مختلف تھا اور بات ہی جداگانہ تھی ۔ اساتذہ کی اکثریت نوجوانوں پر مشتمل تھی اور ان میں سے بیشتر یوروپ سے اعلیٰ تعلیم حاصل کر کے نئے نئے واپس آئے تھے ۔ ان میں سے بعض کا تو رنگ روغن بھی اچھی طرح اُترا نہیں تھا ۔ طالب علموں اور ان کے اساتذہ کے درمیان عمروں کا فرق زیادہ نہ ہو تو ان کے بیچ عموماً رقابت کے جذبات خود بخود پیدا ہوجاتے ہیں ۔ پروفیسر علی محمد خسرو، پروفیسر سراج الدین اوراسی نوع کے وجیہہ و شکیل اساتذہ ان دنوں ہمیں ایک آنکھ نہ بھاتے تھے ۔ جیسا کہ ہم نے پہلے کہا ہے۔ ہم نے پروفیسر سراج الدین سے کبھی انگریزی نہیں پڑھی البتہ یہ ایک حقیقت ہے کہ آرٹس کالج کی راہداریوں میں جب جب اُن پرنظر پڑتی تھی تو انگریزی کی نہیں بلکہ انگریز کی یاد آجاتی تھی ۔ انگریز پانچ چھ سال پہلے ہی ہندوستان کو چھوڑ کر گیا تھا ۔ چال ڈھال ، وضع قطع ، عادات و اطوار ، رہن سہن اور پوشاک کے اعتبار سے سراج الدین بالکل انگریز لگتے تھے (سوائے رنگ کے) ۔ یوں لگتا تھا جیسے انگریز عجلت میں جاتے جاتے انہیں غلطی سے یہاں چھوڑ گیا ہے۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ ہم نے سراج الدین کو کبھی شیروانی میں نہیں دیکھا (شاید شادی کے وقت انہوں نے شیروانی ضرور پہنی ہو لیکن ہم اس وقت اس تقریب میں مدعو نہیں تھے ) لیکن یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ ایسی گھنی اور بھرپور انگریزیت کے باوجود ہم نے کبھی سماجی محفلوں میں انہیں انگریزی بولتے ہوئے نہیں سنا ۔ اردو میں بات کرتے تھے تو انگریزی کے استاد ہونے کے باوجود اردو میں انگریزی جملوں یا الفاظ کی ملاوٹ نہیں کرتے تھے ۔ (اگر کسی نے ان کی انگریزی آمیز اردو یا اردو آمیز انگریزی سنی ہو تو ہمیں بتادے ) وہ انگریزی زبان کے ذریعہ کسی دوسری زبان کی آبرو ریزی کے مرتکب ہونے کے قائل نہ تھے ۔ یوں ہم نے ان سے نہ تو کبھی انگریزی پڑھی اور نہ ہی انگریزی سنی ۔ البتہ ان سے سینکڑوں فارسی اشعار سُنے جو انہیں زبانی یاد تھے ۔ سونے پر سہاگہ یہ کہ ان اشعار کو وہ اہل فارس کے خالص بلند بانگ لب و لہجہ میں سناتے تھے ۔ یوں لگتا تھا جیسے ابھی ابھی نیشا پور ، شیراز یا اصفہان سے آئے ہوں۔ آپ حیرت کریں گے کہ ان کے انتقال کے بعد اخباری اطلاعات سے ہی ہمیں پتہ چلا کہ وہ 82 برس کے تھے ورنہ ان کی سرگرمیوں سے ہمیشہ یہ مغالطہ ہوتا تھا کہ وہ ابھی ساٹھ برس کے بھی نہیں ہوئے ۔ ابھی ایک سال پہلے ہم نے انہیں نظام کلب کے سامنے ایک بس ا سٹاپ پر دوڑ کر بس میں سوار ہوتے دیکھا تھا۔

وہ بے حد چاق و چوبند ، پھرتیلے اور مستعد انسان تھے ۔ ہماری دور اندیشی کی داو دیجئے کہ نصف صدی سے بھی بہت پہلے انہیں آرٹس کالج کی راہداریوں میں محو خرام دیکھ کر کہا تھا کہ یہ حضرت تو اپنی چال ڈھال اور وضع قطع سے بالکل دیو آنند لگتے ہیں۔ اس وقت تو کسی نے ہماری بات پر دھیان نہیں دیا تھا لیکن جوں جوں وقت گزرتا گیا دیو آنند سے ان کی مشابہت عیاں ہوتی چلی گئی ۔ یہاں تک کہ آخری زمانہ میں ان کے بعض مخصوص احباب خفیہ طور پر انہیں ’’اردو ادب کا دیوآنند‘‘ ہی کہنے لگے تھے ۔ ابھی 2 جولائی کی بات ہے ، ادارہ ادبیات اردو میں شہرؔیار کی سترویں سالگرہ کی تقریب منائی جارہی تھی جس کی صدارت پروفیسر سراج الدین کو کرنی تھی (یہی ان کی زندگی کی آخری محفل تھی ) علی ظہیر نے صدارت کیلئے ان کا نام پکارا تو وہ اچھل کر ڈائس پر چلے گئے ۔ بعد میں مغنی تبسم کا نام پکارا گیا تو انہیں ڈائس پر چڑھنے میں دشواری پیش آئی ۔ لہذا انہیں سہارا دے کر ڈائس پر چڑھایا گیا ۔ بعد میں ہمیں بلایا گیا تو ہمارے ساتھ بھی یہی صورتحال پیش آئی اور ہمیں بھی سہارا دیا گیا ۔ انہوں نے آہستہ سے کہا ’’میاں ! تم دونوں عمر میں مجھ سے چھوٹے ہو پھر بھی ڈائس پر چڑھنے میں تمہیں دشواری پیش آتی ہے‘‘۔ ہم نے کہا ۔ ’’سراج بھائی! اگر ہمیں بھی تقریب کی صدارت کرنے کیلئے بلایا جاتا تو آپ دیکھتے کہ ہم کس طرح اچھل کر ڈائس پرآتے ہیں‘‘۔ اس کے جواب میں آداب محفل کا لحاظ کرتے ہوئے وہ اپنے قہقہے کو اندر ہی اندر پی گئے ۔ اسّی کی دہائی کے بعد ہم سراج بھائی سے قریب ہوتے چلے گئے ۔ جب بھی حیدرآباد آتے تو ان سے ضرور ملتے تھے ۔ ان کی گہری علمیت ، بات کرنے کی شائستگی اور ان کے باوقار رکھ رکھاؤ نے ہمیں ان کا گرویدہ بنادیا ۔ ماہر اقبالیات کی حیثیت سے پورے برصغیر میں ان کی حیثیت مسلمہ تھی ۔ اقبالیات پر ان کی کئی فکر انگیز تحریریں پڑھیں اور بصیرت افروز تقریریں سنیں۔ وہ حیدرآبادی روایات اور اقدار کے سچے علمبردار تھے ۔ ان کے جانے سے حیدرآباد اپنے ایک بہترین نمائندے سے اور ہم اپنے ایک سچے مشفق اور مہربان سے محروم ہوگئے ۔ وہ ہمیں بے حد عزیز رکھتے تھے جس کا اظہار وہ نہ صرف ہماری موجودگی میں بلکہ ہمارے غیاب میں بھی کرتے تھے ۔ مغنی تبسم ، بی نرسنگ راؤ ، عبدالقدوس مرحوم ، عزیز آرٹسٹ ، قدیر زماں ، علی ظہیر اور پروفیسر آئزک سکیویرا کی معیت میں ان کے ساتھ گزارے ہوئے لمحے ہمارے لئے سمندر کے بیچ روشن جزیروں کی حیثیت رکھتے ہیں ۔ ان کی محبت کی گرمی اور باتوں کی نرمی ہمیشہ یاد آتی رہے گی۔
(23 جولائی 2006 ء)