شفیع اقبال
پروفیسر سلیمان اطہر جاوید نے نثر نگاری کی تمام اصناف میں اپنے قلم کے جوہر دکھائے ہیں ۔ تنقید و تبصرہ ، خاکہ نگاری ، مضمون نگاری ، ادبی و شعری محفلوں کی روداد اور آنکھوں دیکھا حال لکھنا ان کے معمولات ہیں ۔ اور ان تحریروں میں ماہرانہ دسترس رکھتے ہیں ، جس کی علم و ادب کی دنیا میں خاطر خواہ پذیرائی بھی ہوتی ہے ۔ عام طور پر یہ تصور کیا جاتا ہے کہ بہترین نثر نگار بہترین شاعر نہیں ہوسکتا ۔ ایسی مثال شاذ و نادر ہی دیکھنے کو ملتی ہے ، اور ایسی شاذو نادر مثالوں میں ایک مثال پروفیسر سلیمان اطہر جاوید کی ہے جو بہترین نثار ہونے کے ساتھ ساتھ نمائندہ شاعر بھی ہیں ۔ ان کا ایک مجموعہ کلام ’’آنگن آنگن، دکھ کے پیڑ‘‘ 1996 میں شائع ہوچکا ہے ۔
اردو اور فلمی دنیا کے نامور شاعر اخترالایمان نے پروفیسر سلیمان اطہر جاوید کی شاعری پر اظہار خیال کرتے ہوئے لکھا ہے ’’جب شاعر اپنے گردو پیش سے بیزاری کا اظہار کرتا ہے یا اپنی بے اطمینانی ظاہر کرتا ہے ، اس کے یہ معنی نہیں ہوتے کہ اس کے اندر جرأت ، حوصلہ اور ولولہ کی کمی ہے ، یا وہ پسپائیت کا شکار ہوگیا ہے ۔معنی یہ ہیں کہ صورتحال کچھ ایسی ہے کہ اجتماعی اور انفرادی کوئی بھی کاوش اور کوشش بروئے کار آتی نظر نہیں آتی ۔ اس کے ثبوت میں نظموں کے عنوانات پر اکتفا کروں گا مثلاً ’’خون کا شہر ، دوسرے جنم کا انتظار ، پتھروں کا دیش ، بن باس اور درد شب گرداں‘‘ ان نظموں کو پڑھنے سے یہ ضرور احساس ہوتا ہے کہ اپنے اظہار کے لئے انہوں نے نعرہ بازی کا راستہ اختیار نہیں کیا پھر بھی گرد و پیش پر ایک تنقید ضرور ہے‘‘ ۔
اختر الایمان نے پروفیسر صاحب کی نظموں کے بنیادی رجحان کی نشاندہی کی ہے جو حقیقت پر مبنی ہے ۔ کوئی بھی نثر نگار چاہے وہ مضمون نگار ہو کہ افسانہ نگار ، ڈرامہ نویس ہو کہ خاکہ نگار ، نقاد ہو کہ مبصر وہ اپنی معرکتہ آلارا تخلیقات و تحریر کے ذریعہ سماجی ، سیاسی اخلاقی و معاشرتی اور تہذیبی اقدار کی کامیاب عکاسی کرتا ہے یا پھر ان کے ناسور پر نشتر زنی تو کرتا ہے لیکن اپنی روح اور دل پر لگے زخموں کی نمائش نہیں کرسکتا ۔ خود اپنی شخصیت ، جذبات ، احساسات و کیفیات داخلی کوکھل کر قاری کے سامنے پیش نہیں کرسکتا اگرچیکہ نثر کا کینوس بہت وسیع ہے ۔
شاعری ہی ایک ایسی صنف سخن ہے جس میں شاعر غزل کے دو مصرعوں یا نظم کے ایک بندھ میں اپنے دلی جذبات و احساسات کو نمایاں کرسکتا ہے ۔ مطلب یہ کہ شاعری کے ذریعہ اندر کا انسان اپنی تمام تر حقیقتوں کے ساتھ باہر آجاتا ہے تب اس کی شناخت واضح ہوجاتی ہے ۔
پروفیسر سلیمان اطہر جاوید کے مجموعہ کلام ’’آنگن آنگن، دکھ کے پیڑ‘‘ نے پروفیسر صاحب کی حیات کے حقیقی پہلوؤں کو سمجھنے میں بہت آسانی پیدا کردی ہے ۔ ان کے مجموعہ کلام کا عنوان ہی یاسیت اور محرومی کا مظہر ہے ۔ روایتی اور کلاسیکی شاعر اور حسن و عشق کے مضامین سے گریزکے ساتھ ساتھ ان کے تمام تر کلام میں سماج و معاشرے اور اپنے گرد و پیش سے بیزاری کا اظہار اور ناآسودگی ، یاسیت و محرومی کے عناصر شامل ہیں جو ان کے اندر ٹوٹے ہوئے انسان کی بکھری ہوئی کرچیوں کو سمیٹتے ہوئے عوامل کی غمازی کرتے ہیں ۔ یہ ان کی شاعری کا اہم وصف ہے ، اور اسی وصف کی بناء پر پروفیسر سلیمان اطہر جاوید کی حقیقی شخصیت اور ذات کی شناخت کی جاسکتی ہے جو ان کی نثری تحریروں سے واضح نہیں ہوتی ۔ ان کی نثر سے ان کی خارجی کیفیات کا اظہار ہوتا ہے لیکن ان کی داخلی کیفیات کا پس منظر پردہ ہی رہتا ہے ۔
یہ بھی کہا جاسکتا ہے کہ ان کی شخصیت دو حصوں میں بٹی ہوئی ہے ایک بحیثیت ادیب و نقاد جس سے ان کی علمی و ادبی صلاحیت اور بلند قامت علمی شخصیت واضح ہوتی ہے ، دوسرے شاعر ، جن کی شاعری میں ایک ٹوٹا ہوا انسان یاسیت کا پیکر اور محرومی کا شکار نظر آتا ہے ۔ ناآسودگی ، داخلی کرب ، ناامیدی و محرومی کے شدید احساس کااظہار ہوتا ہے ۔ پروفیسر صاحب کی حیات کے حقیقی پہلوؤں کا جائزہ لینا یا ان کی ذات کے تہہ در تہہ رموز کا انکشاف ان کی شاعری کے حوالے سے ہی کیا جاسکتا ہے ۔ پروفیسر سلیمان اطہر جاوید کی شاعری کے اس تجزیہ کے پس منظر میں کچھ منتخبہ اشعار پیش ہیں ۔
میرا خیال ، نظر میری ، میری دنیا
میں منزلوں کا گریزہ ہوں ، میرا رستہ کیا
میں اک چراغ ہوں بجھتا سا آخر شب
جو پوچھے تو میرا جلنا ، میرا بجھنا کیا
تھا تو قطرہ ہی پہ لگتا تھا سمندر آنسو
اب وہ قطرہ ، وہ سمندر بھی نہیں پاس اپنے
سرچھپائے تو کہاں گھر بھی نہیں پاس اپنے
کوئی سایہ ، کوئی چھپر بھی نہیں پاس اپنے
جو زخم زخم تھی وہ میری ذات تھی یارو
جو بھرسکا نہ کبھی میرا گھاؤ ایسا تھا
زمیں تا عرش تھی یخ بستگی پہ کیا کہئے
مرا وجود کہ جلتا الاؤ ایسا تھا
ساتھ اس کا روز و شب یوں تو رہا برسمہا برس
پھر بھی لگتا ہے کہ وہ آیا ملا رخصت ہوا
دھوپ میں زید و بکر جلتے رہے اکثر یہاں
چاندنی تھی صاحبو جس میں ہمارا تن جلا
جہاں تیرگی عالم ہمارا
اجالے روشنی کے باب اس کے
کچھ پتہ اُن کو چلے ہم پہ گزرتی کیا ہے
اپنے اک آدھ سہی ، غم کا خلاصہ لکھیں
دل سے مجبور ہیں جاویدؔ مگر حیف کہاں
کیا یہ ممکن ہے کبھی آپ کو اپنا لکھیں
ہمارے دل سے بھی اٹھنے لگا دھواں یارو
جلا کبھی یوں کسی کا مکاں ہے سچ بولو
نہ نغمگی نہ تراوٹ نہ روشنی نہ وفا
وہ شہرآرزو میرا کہاں ہے سچ بولو
ہر قدم پر درد و غم ، ظلم و ستم ، رنج و الم
ہر قدم پر پھر بھی ہم کو زندگی اچھی لگی
تھی زخم زحم مری جان ، لہو لہو لمحے
سنان عشق سے دل پر خراش ایسی تھی
نہ جانے کتنی ہی سمتوں بکھر بکھر گئی
مری حیات کہ تمثال تاش ایسی تھی
کسے پتہ کہ کہاں ہے وہ ، اس پہ کیا گزری
گئے دنوں ہمیں فکر معاش ایسی تھی
تری خوشی تھی اسی میں تو اور کیا کرتا
مجھے عزیز کہ رنج و ملال ایسا تھا
جب یہ دیکھا اس کی وقعت ہی نہیں
ہم نے صاحب بیچ ڈالی شخصیت
تف ہے اس عہد رواں پر دوستو
بن گئی ہے ایک گالی شخصیت
کبھی جو ٹوٹ بھی جائیں تو کوئی غم نہ کرے
ہمارا حال ہے مٹی کے برتنوں کی طرح
ان اشعار سے پروفیسر سلیمان اطہر جاوید کے شعری محاکات ، اسلوب اور رنگ و آہنگ کا بہ آسانی اندازہ لگایا جاسکتا ہے ۔ ڈاکٹر زور ، عبدالقادر سروری اور والدہ محترمہ پر لکھی ہوئی تاثراتی نظمیں بھی ان کے شاعرانہ مزاج کی غماز ہیں ۔