پروفیسر تقی علی مرزا مرحوم

تقی عسکری ولا
پروفیسر تقی علی مرزا کا سانحہ ارتحال یقیناً ارباب علم و دانش کے لئے قوت برداشت کو سلب کرنے والا ایک جانکاہ سانحہ ہے ۔ ان کی نصف صدی تک ماہر تعلیم کی حیثیت سے خدمات عالیہ ناقابل فراموش اور لائق صد تحسین و آفرین ہیں ۔ وہ اقلیم تعلیم میں متحاج تعارف نہیں ہیں ۔ تاہم ان سے میرا قوی رشتہ ہے جس رشتے کے آگے خون کے رشتے بھی پھیکے پڑجاتے ہیں ۔ تاہم مجھے اپنی علمی بے بضاعتی کا احساس ہے ۔ پروفیسر تقی علی مرزا پر خامہ فرسائی کے لئے کوئی زرنگار قلمکار درکار ہے ۔ میں اپنے بچپن کے دوست اور مرحوم کے بھانجے محترم علی اکبر احسن کے اصرار پر اپنے تاثرات قلمبند کررہا ہوں  ۔
زندگی کے نہاں خانوں میں اتر کر دیکھئے تو اس کے پیچ و خم میں بھول بھلیاں ایک ہی انسان کو صدیوں کا فرزند بنا کر اپنے جلو میں ساری حشر سامانیوں کے ساتھ تاریخ کہیں روشن اور کہیں نیم روشن جھلملاتی دکھائی دیتی ہے اور بس ذات کی تنہائی میں اس کو مونس و غم خوار بن کر بہلاتی ہے ۔ یہ سفر نقل مکانی ہے جس کو زمین اپنی بساط طے کرلیتی ہے اور آن واحد میں جست لگا کر مکاں سے لامکاں کی حد امکان تک پہنچادیتی ہے ۔ پروفیسر تقی علی مرزا بھی اب ہمارے درمیان نہیں رہے لیکن ان کی یادیں ہمارے لئے ایک گراں بہا سرمایہ ہیں ۔ باحیات انسان کے لئے کسی کا بے مکانی ہونا یا داغ مفارقت دے جانا کوئی نیا رنج و غم نہیں ہے بلکہ یہ تو میراث آدمیت ہے جنت مکانی کے لئے زمین سے بے مکانی کی طرف سفر ہر انسان کا مقدر ہوتا ہے ۔ اس کے باوجود پروفیسر تقی علی مرزا جیسے خاموش طبع اور خلوص و محبت کے پیکر اور ہردل عزیز شخصیت کی رحلت سے ہر علم دوست کو جس سے کوئی رشتہ نہیں ہے ان کے گذر جانے پر اظہار تاسف کرتے ہوئے ایک درد کا رشتہ قائم ہوگیا ہے ۔ وہ حیدرآبادی تہذیب و تمدن کے علمبردار تھے ۔ ان کی انگریزی علمی و ادبی خدمات کے ہگوشے سے پذیرائی  ہوئی ۔ وہ کئی اعتبار سے لائق احترام ، علم دوست ، ادب شناس ، نکتہ سنج ، نکتہ رس اور نکتہ زریں تھے جو علوم جدیدہ پر گہری نظر رکھتے تھے ۔ انھوں نے برصغیر کے علاوہ یوروپی ممالک کا دورہ کیا تھا ۔ پروفیسر تقی علی مرزا ہر دلعزیز اور پہلودار ہمہ گیر شخصیت کے مالک تھے ۔ ان کا حلقہ ارادت کافی وسیع تھا جس میں شہر کی کئی ممتاز و معزز شخصیتیں شامل تھیں ۔
پروفیسر تقی علی مرزا کے اجمالی کوائف یہ ہیں کہ مرحوم نے 2 دسمبر 1928 کو حضرت مرزا جنگ بہادر مہتمم آبکاری کے گھر پہلا تارِ نفس کھینچا۔ وہ حیدرآباد فرخندہ بنیاد کے نجیب الطرفین خانوادہ سے تعلق رکھتے تھے ۔ آپ کے پدر بزرگوار حضرت مزرا جنگ بہادر اکثرو بیشتر اضلاع میں خدمات انجام دے رہے تھے اس لئے تقی علی مرزا کی کفالت ان کے بابا کے تفویض کی گئی تھی جو محکمہ پولیس میں ایک اعلی عہدہ پر فائز تھے ۔ پروفیسر تقی علی مرزا نے ابتداً نامپلی اسکول میں تعلیم حاصل کی اور صرف 14 برس کے سن میں اعلی نشانات حاصل کرتے ہوئے میٹرک کامیاب کیا اور اس نمایاں کامیابی پر انھیں ’’گوکھلے ایوارڈ‘‘ سے نوازا گیا تھا ۔ اس دور میں گوکھلے ایوارڈ ایک باوقار ایوارڈ تسلیم کیا جاتا تھا ۔ اس کے بعد انھوں نے صرف 21 سال کی عمر میں عثمانیہ یونیورسٹی سے ایم اے میں کامیابی حاصل کی ۔ پروفیسر تقی علی مرزا کا ورنگل میں پہلا تقرر عمل میں آیا ۔ 1954 میں وہ آرٹس کالج سے وابستہ ہوگئے ۔ اور پھر دو ، تین برس نظام کالج میں بھی خدمات انجام دینے کے بعد واپس آرٹس کالج آگئے اور مسلسل 18 برس تک یہیں پر برسرخدمت رہے اور 1988 میں وہ وظیفہ حسن خدمت پر سبکدوش ہوگئے ۔
پروفیسر تقی علی مرزا نے بنیادی طور پر اپنے منصب کے اعتبار سے گذشتہ نصف صدی کے دوران اپنے درس و تدریس کے جوہر سے متعدد طلبہ و طالبات کو زیور علم سے آراستہ کیا ۔ ایک پروفیسر کی حیثیت سے تقی علی مرزا کے بے پناہ یادگار خدمات ہیں ۔ انھوں نے دو نسلوں کو بحر علم سے بہرہ ور کیا ۔ ان کے متعدد نامور شاگرد دنیا بھر میں آج بھی کلیدی خدمات سر انجام دے رہے ہیں جن میں کرکٹر جئے سمہا خاص طور پر قابل ذکر ہیں ۔ پروفیسر تقی علی مرزا کے لکچرس انتہائی پرکشش ہوتے تھے اور ان کے شاگرد کبھی ان کی کلاس میں غیر حاضر نہیں ہوتے تھے خاص بات یہ ہے کہ شاید پروفیسر تقی علی مرزا وہ واحد پروفیسر تھے جو کبھی اپنی کلاس میں حاضری نہیں لیتے تھے ۔ اس کے باوجود ان کی کلاس میں تمام طلبا حاضر رہتے تھے ۔ انھیں عثمانیہ یونیورسٹی سے کافی حد تک انسیت تھی ۔ پروفیسر تقی علی مرزا میں ایک مکمل معلم کی تمام تر صلاحیتیں موجود تھیں ۔ پروفیسر علی احمد خسرو نے جو اس وقت علی گڑھ یونیورسٹی کے وائس چانسلر تھے ، پروفیسر تقی علی مرزا کو علی گڑھ میں خدمات انجام دینے کی پیشکش کی لیکن انھوں نے عثمانیہ یونیورسٹی کو ترک کرنے سے احتراز کیا اور صرف عثمانیہ یونیورسٹی سے ہی منسلک رہے ۔
پروفیسر تقی علی مرزا انگریزی اور اردو کے بہترین مترجم تھے اس سلسلہ میں انھوں نے شہر کے کئی اداروں کے کام آسان کررکھے تھے ۔ وہ نام و نمود سے گریز کرتے تھے اور خاموش خدمات انجام دیتے رہے ۔ ادارہ ’سیاست‘ کے زیر اہتمام منعقد ہونے والے اردو زبان دانی امتحانات میں بھی پروفیسر تقی علی مرزا کی خدمات ناقابل فراموش ہیں ۔ پروفیسر تقی علی مرزا UPSC  امتحان میں انگریزی کے بھی ممتحن رہے ہیں اور وہ اس امتحان کے لئے انگریزی کا پرچہ وضع کرتے تھے ۔ بہرنوع
تیری نوازشوں کو بھلایا نہ جائے گا
ماضی کا نقش دل سے مٹایا نہ جائے گا
پروفیسر تقی علی مرزا جو پابند صوم صلوۃ ،عزادار حسین اور جام ولائے اہلبیت سے سرشار تھے ۔ 25 نومبر 2015 کو راہی جنت ہوگئے ۔ یہاں یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ پروفیسر تقی علی مرزا خطیب عالم ڈاکٹر شولت علی مرزا کے عم محترم تھے ۔