حلیم بابر
زمانہ ان احباب کو فراموش نہیں کرسکتا جنھوں نے ملت کیلئے کارہائے نمایاں انجام دئے ہوں ، بالخصوص دور حاضر میں اردو جو بے بسی و بے حسی کے دلدل میں پھنسی ہوئی ہے اس کواس مصیبت سے نکالنے پروفیسر ایس اے شکور کا نام آتا ہے ، جنھوں نے بحیثیت ڈائرکٹر سکریٹری اردو اکیڈیمی چند برسوں میں اپنی دانشمندانہ حکمت عملی سے محبان اردو کے دلوں کو جیت لیا ہے ۔ موصوف کا وطن تعلقہ جگتیال ضلع کریم نگر ہے ۔ یہاں کی سرزمین علم و ادب سے لبریز ہے ۔ یہاں کے بیشتر احباب نے دنیائے علم و ادب میں اپنا ایک نمایاں مقام بنایا ۔ بڑے بڑے عہدوں پر فائز رہے ۔ سیاسی سرگرمیوں میں بھی یہ تعلقہ اپنی مثال آپ ہے ۔ پروفیسر شکور چونکہ زمانہ طالب علمی سے ہی ذہین واقع ہوئے ہیں جس کی وجہ وہ اسکول کی انجمن سے وابستہ ہوتے ہوئے صلاحیتوں کے زینے طے کئے ۔ انہوںنے کریم نگر کے کالج سے 1983 میں ڈگری حاصل کی ۔ موصوف کو ہمیشہ اردو زبان و ادب کی بقا وفروغ کی فکر رہتی تھی جو کہ سچ محب اردو ہونے کا ثبوت ہے ۔ پروفیسر اشرف رفیع کی زیر نگرانی انھوں نے ایم فل بعنوان ’’چشتی کی ادبی خدمات‘‘ کی تکمیل کی اور بی ایچ ڈی کیلئے بعنوان ’’ترقی پسند تحریک حیدرآباد میں‘‘ پر اپنا مقالہ لکھا اور امتیازی کامیابی حاصل کی اور اس طرح ڈاکٹر کی حیثیت سے تسلیم کئے گئے ۔ 2013 میں اسوسی ایٹ پروفیسر کے عہدہ پر تقرر ہوا ۔ انھوں نے عثمانیہ یونیورسٹی میں طلباء پر خصوصی دلچسپی دے کر دنیائے ادب میں ایک مقام بنایا ۔ 2011 میں پروفیسر کے عہدہ سے نوازا گیا اور اپنی تدریسی خدمات سے مقبول ہوئے ۔ 1993 میں موصوف کو سعودی حکومت نے مدعو کیا اس طرح انہوں نے حج و عمرہ کی سعادت حاصل کی ۔ موصوف نے ’’چشتی شخص اور شعور‘‘ پر ایک جامع کتاب بھی لکھی جس کو ایک دستاویزی حیثیت حاصل ہوئی ۔ وہ ادارہ ادبیات اردو میں بحیثیت سکریٹری کارگذار رہے اور اپنی صلاحیتوں سے اردو کی بقا و فروغ کے سلسلہ میں خصوصی دلچسپی لیتے رہے ۔ موصوف کی اعلی صلاحیتوں کے پیش نظر حکومت نے جذبہ اعتراف خدمات کے تحت انھیں اسپیشل آفیسر حج کمیٹی نامزد کیا اور اس کے علاوہ محکمہ اقلیتی بہبود سے بھی وابستہ رہ کر اسکیمات کی عمل آوری کو موثر بنائے رکھا ۔ حج کمیٹی کے بیشتر مسائل پر خصوصی دلچسپی لیتے ہوئے حل کیا ۔ حکومت کی نظر میں وہ ایک دلنواز محب اردو اور ایک باوقار و فعال آفیسر ہونے کی وجہ سے موصوف کو ایک اور بڑا عہدہ ڈائرکٹر اردو اکیڈیمی سے نوازا گیا ۔ موصوف نے اردو اکیڈیمی کو محبت سے پالا پوسا اور اس کے ساتھ صحیح انصاف کرتے ہوئے مقبولیت کے زینے طے کروائے ۔ بڑی لگن ، جستجو ، فراست وحکمت عملی سے کام لیتے ہوئے یکے بعد دیگرے تمام اسکیمات کی تکمیل کی جو سارے محبان اردو ، شعراء و ادباء پر روشن ہے۔ اکیڈیمی کی کئی اسکیمات تعطل و بدنظمی کا شکار تھیں انھیں فعال و کامیاب بنایا اور اس طرح مختصر سی مدت میں محبان اردو کے دلوں پر قبضہ کرلیا ۔ موصوف کے اکیڈیمی کے اس دور کو سنہرا دور کہا جاسکتا ہے ۔ حکومت کو موصوف کی خدمات پر اعتماد حاصل ہے ۔ورنہ دور حاضر میں ایک عہدہ دار کو کئی دیگر عہدوں سے نوازنا اور قدر شناسی کرنا بڑی مشکل بات ہے مگر پروفیسر ایس اے شکور قابل مبارکباد ہیں کہ انھیں ہر قدم پر کامیابی و کامرانی ملی ۔ موصوف ہر کسی سے سادگی و انکساری سے ملتے ہیں جو ان کی ایک اعلی ظرفی کا ثبوت ہے ۔ ورنہ یہ چلن تو عام ہے کہ کسی بڑے عہدہ پر فائز ہونے اور شہرت ملنے پر تکبر غالب آجاتا ہے ، مگر پروفیسر ایس اے شکور ان سب بُری صفات سے دور ہیں ۔ آپ موصوف کی خصوصی دلچسپی کی بنا پر اکیڈیمی کو زیادہ فنڈس الاٹ کئے گئے ۔ بہرحال دعا ہے کہ اس دلنواز محب اردو و باوقار فعال آفیسر کو نگاہ بد سے بچائے اور وہ اپنے بلند عزائم سے اردو کی عظمت و مقبولیت کے درجہ بلند کرتے رہیں اور اردو اپنے چاہنے والوں پر ناز کرتی رہے ۔ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ پروفیسر ایس اے شکور ڈائرکٹر اردو اکیڈیمی کی زبان پر درج ذیل شعر گنگناتے ہوئے محبان اردو سے یہ اپیل کررہا کہ
طوفان میں ہے کشتی اردو کی سب مل کے نکالیں آؤ اسے
اس وقت کوئی بھی سازش ہو اے دوست یہ تیرا کام نہیں